(آخری قسط)
باضمیر امریکی صحافیوں کا خاتمہ
اگرچہ کئی امریکی صحافیوں اور لکھاریوں نے اس بات پر ماتم کیا ہے کہ ہیلن کی رخصتی کے بعد اب وائٹ ہائوس میں کون حق و سچ کی جستجو میں رہے گا؟ کون اپنے سوالوں سے امریکی حکومت کی منافقت نمایاں کرے گا؟ اب تو وائٹ ہائوس میں ایسے صحافی رہ گئے جنہیں حکومت کی ہاں میں ہاں ملانے کے سوا کوئی کام نہیں۔
امریکی معاشرے کا اصل مکروہ چہرہ:
ہیلن کے خلاف تیز و تند طوفان سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ امریکی معاشرے میں صبر و برداشت سے دوسرے کی بات سننے کا دور گزر چکا۔ گویا ہیلن کی شکل میں یہودی ذرائع ابلاغ نے امریکیوں کو ایک بار پھر سبق دے ڈالا کہ جو اسرائیل یا یہودیوں کی مخالفت کرے گا، وہ اسی طرح خوار ہوگا۔ امریکا میں یہود کی طاقت دیکھیے کہ ایک معمولی ربی نے ایک عظیم امریکی صحافی کو بدنام کرڈالا اور چند امریکیوں کے سوا کسی میں ہمت نہ ہوئی کہ ہیلن کا دفاع کرتا۔
بہرحال ہیلن نے اپنا کیریئر قربان کرکے امریکا میں یہودیوں کو یہ ضرور بتادیا کہ وہ بدستور فلسطینیوں پر ظلم و ستم کرتے رہے تو وہ دن قریب ہے جب (عیسائی) امریکی ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے۔ اب وہ طویل عرصے تک امریکیوں اور یورپیوں کو بے وقوف نہیں بناسکتے۔ ڈاکٹر مہاتیر نے ہیلن کے واقعے کے متعلق درست کہا ’’ہم لڑائی تو ہار گئے لیکن اصولوں کی جنگ میں آخر جیت ہماری ہی ہوگی۔ پھر اس لڑائی میں انہوں (اسرائیلی و امریکی حکومتوں) نے اپنے حقیقی رنگ بھی دکھادیے۔‘‘
ہیلن کی خدمات اور اس کا اعتراف:
واضح رہے کہ ہیلن تھامس صحافی ہونے کے علاوہ ادیبہ بھی ہے۔ وہ 6 کتب تحریر کرچکی ہے۔ 1976ء میں ورلڈ المانک نے اسے دنیا کی پچیس بااثر خواتین میں شمار کیا تھا۔ 1989ء میں وائٹ ہائوس کوریس پونڈینٹ ایسوسی ایشن نے اس کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ایک اعزاز ’’ہیلن تھامس لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ‘‘ کا اجرا کیا۔ 2000ء میں ہیلن کی مادرِ علمی ’وائن اسٹیٹ یونیورسٹی‘ نے بھی اس کے اعزاز میں ایک ایوارڈ جاری کیا۔ ’’دی ہیلن تھامس اسپرٹ آف ڈائی ورسٹی ایوارڈ‘‘ نامی یہ اعزاز اپنے شعبے میں نمایاں خدمات انجام دینے والے صحافیوں کو دیا جاتا ہے۔ مزید برآں ہیلن مختلف تعلیمی اداروں سے تیس سے زیادہ اعزازی ڈگریاں بھی حاصل کرچکی ہے۔
ایک بہادر خاتون صحافی:
1955ء کے بعد ہیلن وفاقی محکموں مثلاً محکمہ تعلیم، صحت، ایف بی آئی وغیرہ کے متعلق رپورٹنگ کرنے لگی۔ اُس زمانے میں امریکی صحافت میں خواتین خال خال ہی تھیں۔ درحقیقت یہ سمجھا جاتا تھا کہ وہ اس پیشے کے لیے موزوں ہی نہیں، لیکن 1959ء میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے سب پر ہیلن کی بہادری کی دھاک بٹھادی۔ ہوا یہ کہ سوویت رہنما نکیتا خروشیف امریکا کے دورے پر آئے۔ انہیں نیشنل پریس کلب میں بھی تقریر کرنا تھی جہاں خواتین صحافیوں کا داخلہ ممنوع تھا۔ لیکن تقریر سے قبل ہیلن چند ساتھی صحافیوںکے ساتھ زبردستی کلب میں گھس گئی اور آخر تک وہاں رہی۔ اس کے بعد ہیلن نے وومنز نیشنل پریس کلب کی بنیاد رکھی اور نئی تنظیم کی پہلی صدر منتخب ہوئی۔
نومبر 1960ء سے ہیلن جان ایف کینیڈی کی انتخابی مہم میں ان کے ساتھ ساتھ رہی، اور صدارتی امیدوار کی منفرد خبریں جاری کیں۔ جنوری 1961ء میں یو پی آئی نے ہیلن کو وائٹ ہائوس میں اپنا نمائندہ مقرر کردیا۔ اسی حیثیت سے وہ ایک افسانوی شخصیت کی شکل اختیار کرگئی۔ اس کی خصوصیت تھی کہ وہ ہر صدارتی پریس کانفرنس کے اختتام پر ’’شکریہ جناب صدر‘‘ ضرور کہتی تھی۔
چین کے تاریخی دورے پر صدر نکسن کی ہم رکاب:
1972ء میں ہیلن واحد خاتون صحافی تھی جو صدر نکسن کے ساتھ چین کے تاریخی دورے پر گئی۔ اس نے بحیثیت صحافی دنیا کے کئی ممالک کا دورہ کیا۔ 1975ء میں اسے یو پی آئی خبررساں ایجنسی نے وائٹ ہائوس میں اپنا بیورو چیف بنادیا۔ اس حیثیت سے ہیلن پھر ہفتہ وار کالم ’وائٹ ہائوس کے پچھواڑے‘ لکھنے لگی۔ اس کالم میں صدارتی انتظامیہ کی خوبیوں و خامیوں اور کارگزاری کا تذکرہ ہوتا تھا۔ اُس وقت ہیلن واحد صحافی بن چکی تھی جس کی وائٹ ہائوس بریفنگ کمرے میں اپنی کرسی تھی، بقیہ کرسیاں پہلے آیئے، پہلے پایئے کی بنیاد پر صحافیوں کو ملتی تھیں۔
2000ء میں یونائیٹڈ پریس انٹرنیشنل کو نیوز والڈ کمیونی کیشنز نامی کمپنی نے خرید لیا، جس کا مالک یونی فیکشن چرچ کا رہنما، پادری سن میونگ مون تھا۔ ہیلن چونکہ پادری سن سے نظریاتی اختلاف رکھتی تھی لہٰذا اس نے 17مئی 2000ء کو استعفیٰ دے دیا۔ وہ 57سال تک یو پی آئی سے منسلک رہی جو ایک ریکارڈ ہے۔
امریکی صہیونیوں کی انتقامی کارروائیاں:
٭ ہیلن تھامس کی خبر رساں ایجنسی نائن اسپیکرز انکارپوریٹڈ نے فوری طور پر اس کو اپنی نمائندگی سے محروم کردیا۔
٭ کریگ کرافورڈ نے، جس نے اس کے ساتھ مل کر ایک کتاب تصنیف کی تھی، یہ اعلان کردیا کہ میں آئندہ ہیلن کے ساتھ کتابوں کی تصنیف کے منصوبے پر مزید کام نہیں کروں گا۔
٭ وہائٹ ہائوس کی اخباری نمائندوں کی تنظیم نے جس کی وہ پہلی خاتون صدر رہ چکی تھی، اسے تنقید کا نشانہ بنایا۔
٭ میری لینڈ میں ایک ہائی اسکول کی تقریب میں ہیلن کو بطور مہمان خصوصی شرکت کرنی تھی، اسکول کے پرنسپل نے ہیلن کو آنے سے منع کردیا۔
٭ وہائٹ ہائوس کے ترجمان رابرٹ گبس نے ہیلن کے جملوں کو موجبِ آزار اور قابلِ مذمت قرار دیا۔
٭ ڈیٹرائٹ (Detroit) کی وین اسٹیٹ یونیورسٹی نے جو گزشتہ دس سال سے زیادہ عرصے سے ہیلن تھامس اسپرٹ میڈیا ایوارڈ دے رہی تھی، اس کے تبصرے کو یہود مخالف قرار دیتے ہوئے اس ایوارڈ کا اجرا بند کردیا۔
٭ اینٹی ڈی فیمیشن لیگ (Anti-Defamation League) نے صحافتی اسکولوں اور اداروں سے وہ اعزازات اور ایوارڈ واپس لینے کو کہا جو وہ ہیلن تھامس کو دے چکے تھے۔
ہیلن تھامس کے اعزازات اور ایوارڈ
٭ ہیلن تھامس کو تیس سے زیادہ اعزازی ڈگریاں دی گئیں۔
٭ عالمی World Almanacs نے اس کو امریکا کی 25 مؤثر ترین خواتین میں سے ایک قرار دیا۔
٭ 1986ء میں یونیورسٹی آف کنساس نے ہیلن کو صحافتی امتیاز کے ولیم ایلن وہائٹ فائونڈیشن ایوارڈ سے نوازا۔
٭ 1991ء میں فریڈم فورم نے ہیلن تھامس کو ابلاغ میں امتیازی برتری کے النیوہارتھ (Alneuharth) ایوارڈ سے نوازا۔
٭ 1998ء میں وہائٹ ہائوس کے نامہ نگاروں کی تنظیم نے ہیلن تھامس کے نام پر لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ شروع کیا۔
٭ 2000ء میں اس کی مادرِ علمی وین اسٹیٹ یونیورسٹی نے صحافیوں کے لیے ہیلن تھامس کے نام پر ایوارڈ کا اجراء کیا۔
٭ 2007ء میں قومی تحقیقی مرکز برائے خواتین و خاندان (National Research Centre for Women and Families) نے تھامس کو فور مدر ایوارڈ (Foremother Award) سے نوازا۔
٭ اکتوبر 2010ء میں امریکی اسلامی تعلقات کی کونسل (CAIR) نے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ دیا۔
٭ اپریل 2012ء میں فلسطین کی تنظیم آزادی کے جنرل مشن برائے امریکا نے ایک ایوارڈ سے نوازا۔ فلسطین کی تنظیم آزادی کی انتظامی کمیٹی کے رکن منّان اشروی نے تھامس کو صحافتی شعبے میں طویل خدمات اور خصوصاً ہر فورم پر فلسطین کے مؤقف کا دفاع کرنے کے اعتراف میں یہ ایوارڈ دیا۔
ہیلن تھامس کی تصنیفات
تھامس ایک عالمی شہرت یافتہ اور مستند صحافی ہونے کے علاوہ کئی کتابوں کی مصنفہ بھی ہیں۔
٭ ڈیٹ لائن: وہائٹ ہائوس (میک ملن 1975ء)
٭ وہائٹ ہائوس کی اگلی صف (Front Row at the White House) میری زندگی اور زمانہ (2000ء)
٭ حسین یادوں کا شکریہ (Thanks For the Memories) 2003ء
٭ جمہوریت کے رکھوالے (Watchdog of Democracy) 2003ء
٭ وہائٹ ہائوس میں عظیم تبدیلی (The Great White House Breakout) شریک مصنف اور تزئین کار چپ بوک (پنگوئین گروپ 2008ء)
٭ جناب صدر سنیے (Listen Up Mr. President) شریک مصنف کریگ کرافورڈ 2009ء
ہیلن کی نجی زندگی:
ہیلن خود کو ایک روشن خیال شخصیت قرار دیتی ہیں۔ اپنے بالغ شب و روز کا بیشتر وقت انہوں نے اپنی پیشہ ورانہ صحافتی خدمات کے لیے وقف کیا۔ 51 سال کی عمر میں انہوں نے اپنے ایک صحافی ساتھی ڈونگلس کورنل (Donglas Cornell) سے شادی کرلی جو ایسوسی ایٹڈ پریس کے وہائٹ ہائوس کے نامہ نگار کی حیثیت سے سبکدوش ہونے والے تھے۔ لیکن چار سال بعد وہ الزائمر جیسی مہلک بیماری میں مبتلا ہوگئے۔ ہیلن تھامس نے جی جان سے ان کی خدمت کی۔ 1982ء میں ان کا انتقال ہوگیا۔
رحلت:
20ء جولائی 2013ء کو یہ عظیم خاتون صحافی تقریباً93 سال کی عمر میں واشنگٹن ڈی سی میں اپنے گھر میں انتقال کرگئی۔ اُس وقت اس کی ترانوے ویں سالگرہ میں صرف دو ہفتے باقی تھے۔ اس کو آرتھوڈکس چرچ کی روایتی آخری رسومات کی ادائیگی کے بعد ڈیٹرائٹ میں سپردِ خاک کردیا گیا۔