سود

غنیمت:
وہ اموال منقولہ جن پر رقبۂ جنگ میں اسلامی فوج اپنے اسلحہ کی طاقت سے قابض ہوا‘ اموالِ غنیمت ہیں‘ ان کا 1/5 حصہ (یعنی خمسہ) حکومت کا ہے اور 4/5 ان لوگو کا حق ہے جنہوںنے ان کو لوٹا ہو۔ امام ابو یوسف رحمتہ اللہ کتاب الخراج میں غنیمت کی تعریف اس طرح کرتے ہیں ’’خمس ان اموال میں ہے جو مسلمانوں کو اہل شرک کے لشکروں سے ہاتھ لگیں اور جو سازوسامان اور جانوروں کی قسم سے ہوں۔ (یعنی اموال منقولہ)
اس سے ظاہر ہوا کہ غنیمت کا اطلاق صرف ان اموال منقولہ پر ہوتا ہے جو جنگی کارروائی کے دوران میں غنیم کے لشکروں کے حدود سے باہر عام آبادیوں کو لوٹتے مارتے پھرنا شریعت کی نگاہ میںدرست نہیں۔ اگرچہ دارالحرب کے تمام اموال مباح ہیں اور اگر کوئی شخص غیر مقاتلین کے اموال سے تعرض کرے تو اس پر نہ کوئی ضمان لازم ہوگا نہ لوٹے ہوئے اموال واپس کیے جائیں گے‘ لیکن اس قسم کی لوٹ مار پسندیدہ نہیں ہے۔ امام مسلمین ہر ممکن طریقہ سے اپنی فوجوںکو ایسی حرکات سے روکے گا کیوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’جس شخص نے فخر کی نیت سے اور دنیا کو اپنی قوت و شجاعت دکھانے کے لیے اور ناموری حاصل کرنے کے لیے جنگ کی اور امام کی نافرمانی کی اور زمین میں فساد برپا کیا اسے اجر ملنا تو درکنا وہ تو برابر بھی نہ چھوٹے گا۔‘‘ (ابو دائود باب فی من یغزوویلتمس الدینا)
فے:
دوسری قسم ان اموال منقولہ و غیر منقولہ کی ہے جو غنیم کے لشکر سے لڑ کر حاصل نہ کیے گئے ہوں‘ بلکہ نتیجۂ فتح کے طور پر حکومت کے زیر تصرف آئیں‘ عام اس سے کہ وہ غنیم کی رعایا کے املاک ہوں یا دشمن سلطنت کے ہوں۔ اسلامی اصطلاح میں ایسے اموال کو ’’فے‘‘ کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اور یہ غنیمت سے بالکل مختلف چیز ہے۔ اس کے متعلق سورہ حشر میں تشریح کر دی گئی ہے کہ یہ کسی شخص کی ملکیت میں نہ دی جائے گی بلکہ اس کا تعلقبیت المال سے ہوگا اور اسے مصالح عامہ میں خرچ کیا جائے گا۔
لفظ ’’فے‘‘ کا کوئی اور مفہوم اس کے سوا نہیں ہے اور کتب فقہیہ میں ہم کو کہیں بھی کسی ایسی فے کا نشان نہیں ملا جس کو ہر شخص بطور خود حاصل کرے اور اپنی ہی جیب میں رکھ لے۔ جگہ جگہ فی المسلمین‘ فی یوضع فی بیت مال المسلمین فی لجماعۃ المسلمین اور ایسے ہی دوسرے ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے مہ متقدین صرف اس فے سے واقف تھے جو جماعت کی ملک ہوتی ہے اور حکومت اسلامی کے زیر تصرف ہوا کرتی ہے۔
غنیمت اور لوٹ میں امتیاز:
غنائم حاصل کرنے کا شرعی ہق صرف انہی لوگوںکو دیا گیا ہے جو اسلامی سلطنت کے زیر حفاظت ہوں اور جن کو امام مسلمین کی اجازت نصاً یا حکماً ہو۔ ان کے سوا اگر عام مسلمان فرداً فرداً یا جماعت بنا کر بطور خود لوٹ مار کرنے لگیں تو ان کی حیثیت لٹیروں کی ہوگی۔ ان کی غنیمت ’’غنیمت‘ نہ ہوگی‘ لوٹ ہوگی۔ اس لیے اس میں سے اللہ کا حصہ (یعنی خمس) قبول نہ کیا جائے گا۔ البتہ وہ انہی کے پاس رہنے یا دیا جائے گا‘ کیوں کہ دشمن کو واپس دلانا تو بہر حال ممکن نہیں ہے۔ اس کی وجہ جو کچھ علامہ سرخسی نے لکھی ہے وہ بھی ملاحظہ فرما لیجیے:
’’بات دراصل یہ ہے کہ جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں کہ غنیمت اس مال کا نام ہے جو انتہا درجے کے پاک اور اشرف طریقے سے ہاتھ آئے اور وہ یہ ہے کہ اس میں اللہ کے کلمے کا اعلاء اور اس کے دین کا اعزاز ہو۔ اسی لیے اس میں اللہ کا پانچواں حصہ مقرر کیا گیا۔ یہ بات اس مال میں نہیں ہوتی جس کوایک شخص چوروں کی طرح حاصل کرتا ہے کیوں کہ اس کا مقصد تو محض اکتساب مال ہے۔
اس کی نظیر میں امام سرخسی وہ حدیث پیش کرتے ہیں جس میں ذکر ہے کہ مشکرین ایک مسلمان لڑکے کو پکڑ لے گئے تھے۔ کچھ مدت بعد وہ لڑکا ان کے قبضے سے بھاگ نکلا اور ان کی کچھ بکریاں بھی پکڑ لایا۔ حضورؐ نے یہ بکریاں اسی کے پاس رہنے دیں اور ان میں سے خمس لینا قبول نہ کیا۔ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا واقعہ بھی اسی کی تائید میں ہے۔ وہ اپنے ساتھیوں کا مال لوٹ کر مدینہ حاضر ہوا اور اسلام پر ایمان لے آیا۔ جب انہوں نے لوٹ کا مال حضورؐ کی خدمت میں پیش کیا تو آپؐ نے فرمایا کہ تمہارا سلام مقبول ہے مگر یہ مال مقبول نہیں۔
دارالحرب میں کفار کے حقوق ملکیت:
غنیمت پر تیسری قید یہ لگائی ہے کہ غانمین جب تک دارالحرب میں مقیم ہیں اس وقت تک وہ اموال غنیمت سے استفادہ نہیں کرسکتے۔ اس قید سے صرف سامان خورونوش ار جانوروں کا چارہ مستثنیٰ ہے یعنی دورانِ جنگ میں جس قدر آذوقہ اور چارہ فوجوں کے ہاتھ لگے گا اس مین سے ہر مجاہد بقدر حاجت لے سکتا ہے اور اس کے سوا باقی تمام اموال گنیم سردار لشکر کے پاس جمع کر دیے جائیں گے اور ان کو غانمین میں اس وقت تک تقسیم نہ کیا جائے گا جب تک کہ وہ دارالاسلام کی طرف منتقل نہ کر دیے جائیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حنفیہ کے نزدیک اموال غنیمت جب تک دارالحرب میں ہوں غانمین کی ملک ان پر مکمل نہیں ہوتی۔ امام شافعیؒ کی رائے اس کے خلاف ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ محاربین کا مال مباح ہے اس لیے جس وقت مجاہدینا سلام ان پر قابض ہوئے اسی وقت ان کے مالک بھی ہوگئے۔ مگر امام ابو حنیفہؒ اور ان کے اصحاب فرماتے ہیں کہ یہ ملک ضعیف ہے۔ گو ہمارا قبضہ ہو چکا ہے لیکن دار تو انکا ہی‘ جب تک مال ان کے دار سے ہمارے دار مین نہ چلا جائے ہم پوری طرح اس کے مالک نہیں ہوسکتے۔ اس لیے کہ تکمیلِ ملک کے لیے محض استیلاء (Oceupation) کافی نہیں ہے۔ امام سرخسی اس مسئلے میں حنیفہ کے مسلک کی توضیح اس طرح کرتے ہیں:
’’ہمارے نزدیک نفس قبضہ سے حق صرف ثابت ہوتا ہے‘ دارالاسلام میں لے جانے سے مضبوط ہو جاتا ہے اور تقسیم غنیمت سے مکمل ہو جاتا ہے۔ اس کی مثال شفعہ کی سی ہے کہ شفیع کا حق بیع سے ثابت ہوتا ہے‘ طلب سے موکد ہوتا ہے اور قبضہ کے ساتھ مکمل ہوتا ہے۔ پس جب تک حق ضعیف رہے تقسیم جائز نہیں ہوتی۔ جس طرح اموال (جائداد منقولہ) پر نفس قبضہ سے ملک ثابت ہوتی ہی اسی طرح اراضی (جائداد غیر منقولہ) پر بھی قبضہ سے ملک ثابت ہو جاتی ہے‘ مگر جس سرزمین میںمسلمانوں کے لشکر اترے ہوں اس پر حق اس وقت تک پوری قائم نہیں ہوتا جب تک کہ اس کو دارالاسلام نہ بنا دیا جائے۔‘‘ (المبوسط: ج۔1‘ ص:33)
اس تصریح سے معلوم ہوا کہ نہ صرف غنیمت‘ بلکہ فے میں بھی اسلامی حکومت اس وقت تک تصرف کا پورا ہق نہیں رکھتی جب تک کہ علاقہ مقبوضہ کو دارالاسلام نہ بنا دیا جائے‘ یا بااصطلاح جدید اپنے مقبوضات کے ساتھ اس کے الحاق کا باقاعدہ اعلان نہ کر دیا جائے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کاطرز عمل اسی مسلک کی تائیدکرتا ہے۔ چنانچہ مکحول کا بیان ہے کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی غنائم کو دارالاسلام کے سوا کہیں تقسیم نہیں فرمایا۔‘‘ محمد بن اسحاق اور قلبی کی روایت ہے کہ حضورؐ نے حنین کے غنائم واپس جعرانہ میں تقسیم فرمائے تھے جو اس زمانے میں دارالاسلام کی سرحد پر تھا۔ راستے میں اعراب نے تقسیم کا سخت مطالبہ کیا اور حضورؐ کو اس قدر پریشان کیا کہ آپؐ کی چادر پھٹ گئی‘ مگر اس ہنگامہ کے باوجود آپؐ نے دارالاسلام کے حدود میں پہنچنے سے پہلے مال غنیم کا ایک حبہ تقسیم نہ فرمایا۔
رسولؐ خدا کے اس طرز عمل اور فقہاء کی ان توجیہات پر غور کیجیے۔ اس کا سبب بجز اس کے اور کچھ نہ معلوم ہوگا کہ اسلامی قانون جس طرح اسلامی مقبوضات پر اہل اسلام کے حقوق ملکیت کو تسلیم کرتا ہے اسی طرح غیر اسلامی مقبوضات پر اہل حرب تک کے حقوق مالکانہ کو بھی تسلیم کرتا ہے۔ اگرچہ چنگ ان کے اموال کو ہمارے لیے مباح کر دیتی ہے مگر شریعگت نے ہم کو اس اباحت سے فائدہ اٹھانے کی عام اور غیر مشروط اجازت نہیں دے دی ہے‘ بلکہ ان کے ملک سے ہماری ملک مین اموال کے منتال ہونے کی چند باضاطہ قانونی شکلیں مقرر کی ہیں وہ ایسی شکلیں جن میں ہمارے اور اہل کفر کے درمیان پوری مساوات ہے۔ حنفی قانون کہتا ہے کہ ہم ان کے اموال کے مالک اس وقت ہوں گے جب باقاعدہ جنگ میں ان پر قبضہ کرکے انہیں اپنے ’’دار‘‘ میں لے آئیں۔ اسی طرح وہ بھی جب ہمارے اموال پر جنگ کے ذریعے سے قابض ہو کر اپنے دار میں انہیں لے جائیں گے تو ان کے مالک ہو جائیں گے اور ان کے دار میں ان کے حقوق مالکانہ کا احترام کرنا ہم پر لازم ہوگا۔ اس بارے میں فقہا کی مزید تصریحات قابل غور ہیں:
’’جب مال پر قبضہ کرکے اس کو دار میں پہنچا دیا گیا ہو تو یہ اس مال پر حق ملکیت کا پورا سبب ہے اور دنیا حاصل کرنے کے اسباب میں ہمارے اور کفار کی درمیان کامل مساوات ہے بلکہ دنیا مین ان کا حصہ ہمارے حصے سے کچھ زیادہ ہی ہے کیوں کہ ان کے لیے تو دنیا ہی ہے اور اخذ مال سے ان کا مقصد بجز اکتساب مال کے اور کچھ نہیں بخلاف اس کے ہمارامقصد اکتسابِ مال نہیں ہے۔‘‘
’’اگر کوئی مسلمان دارالحرب میں امان لے کر داخل ہو اور وہاں خود اسی کی لونڈی اس کے ہاتھ آئے جسے کفار پکڑ لے گئے تو اس کے لیے اسی لونڈی پر قبضہ کرنا اور اس سے وطی کرنا جائز نہیں کیوں کہ اب کفار اس کے مالک ہیں اور وہ لونڈی ان کے املاک میں داخل ہو چکی ہے۔‘‘
’’اور اگر کافر حربی ہمارے دار میںامان لے کر آئے اور اس کے ساتھ خود ہم ہی سے لوٹا ہوا مال ہو تو ہم اس سے وہ مال نہیں چھین سکتے۔‘‘
اگر دشمن مسلمانوں کے مال پر قابض ہو کر اسے اپنے دار میں لے جائے اور وہاں کوئی مسلمان تاقجر مساتامن ہو تو اس کے لیے اس مال کو خریدیا اور کھانا حلال ہے اور وہ ان سے خریدی ہوئی لونڈی سے وطی بھی کرسکتا ہے کیوں کہ اپنے دار میں لے جانے کے بعد وہ اس کے مالک ہو گئے اور اب وہ ان کے املاک میں شامل ہے۔ بخلاف اس کے اگر کوئی تاجر امان لے کر دارالحرب میں جائے اور ان کے قبضے سے کسی لوڈی کو چرا کر دارالاسلام میں لے آئے تو مسلمان کے لیے اس لونڈی کو خریدنا حلال نہیں کیون کہ وہ غدر کرکے اسے لایا ہے اور فیما بینہ و بین اﷲ وہ اسے واپس کرنے پر مامور ہے۔ اگرچہ امام اس کو واپس کرنے پر مجبور نہیں کرسکتا۔‘‘
یہ مسلک ٹھیک ٹھیک حدیث کے مطابق ہے‘ فتح مکہ کے روز جب حضرت علیؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپؐ اپنے اس مکان میں کیوں نہیں قیام فرماتے جو ہجرت سے پہلے آپؐ کا تھا تو حضور نے جواب دیا کہ ’’عقیل نے ہمارے لیے چھوڑا ہی کیا ہے۔‘‘ اس کے معنی یہ ہیں کہ جب آپؐ اسے چھوڑ کر نکل گئے تھے اور عقیل بن ابی طالب نے اس پر قبضہ کر لیا تو اس پر سے آپؐ کی ملک ساقط اور عقیل کی ملکیت ثابت ہوگئی۔ اب باوجود اس کے کہ آپؐ نے مکہ فتح کر لیا تھا‘ آپؐ نے اپنے سابق حقوق ملکیت کی بنا پر اس مکان کو اپنا مکان قرار دینی سے خود انکار فرما دیا۔

حصہ