طاہر مسعود: آپ نے تنقید میں ساختیاتی اور اسلوبیاتی تنقید کی راہ اپنائی ہے۔ تنقید کے اس زاویے کی طرف آپ نے توجہ کیوں کی؟ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ اردو تنقید میں یہ نسبتاً نیا میدان تھا یا اس کے علاوہ بھی کوئی سبب ہے؟ڈاکٹر گوپی چند نارنگ: حقیقت یہ ہے کہ تنقید صرف ذوقِ سلیم کا کام ہے۔ ناقد کی حیثیت ایک تربیت یافتہ قاری کی ہے اور تنقید سچی اور اصلی تنقید جو محسوس کرکے کی جاتی ہے۔ کسی فن پارے کے حسن کاری کو پرکھنے کی یا تفہیم و تحسین شناسی کرنے کی‘ دراصل یہ سرے کا سارا معاملہ جمالیاتی ذوق کا ہے۔ اس میں کوئی فیصلہ نہ نفسیات کرسکتی ہے نہ عمرانیات نہ لسانیات اور نہ ہی اسلوبیات‘ اسلوبیاتی تنقید سے بہت سی غلط فہمیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ یہ غلط فہمیاں نفسیاتی تنقید کے بارے میں بھی پیدا ہو سکتی ہیں لیکن اس کے بارے میں لوگ سوال کم اٹھاتے ہیں لیکن اسلوبیاتی تنقید کے بارے میں لوگ سوال زیادہ اٹھاتے ہیں اس لیے کہ لسانیات کا علم عام نہیں ہے اور جو چیز نئی ہوتی ہے اس سے بعض لوگوں کو اپنی اجارہ دری پر ضرب پڑتی محسوس ہوتی ہے۔ پہلی بات تو اسلوبیاتی تنقید کے بارے میں یہ عرض کروں گا کہ اسلوبیاتی تنقید‘ جمالیاتی تنقید یا اقداری تنقید کا بدل ہرگز نہیں ہے۔ جس طرح تنقید میں علم نفسیات سے‘ عمرانیات سے‘ تاریخ سے (جس میں ثقافت‘ تمدن اور تمام روایات آجاتی ہیں) مدد لے سکتے ہیں تو زبان کے علم کی شاخ جو لسانیت کہلاتی ہے‘ اگر اس سے ادب میں مدد لی جائے تو اس کے بارے میں کوئی پریشانی کی بات نہیں ہے لیکن پریشانی یوں پیدا ہوتی ہے کہ لسانیت ایک سائنس ہے اور ادب فنون لطیفہ کی جان ہے۔ سائنس کی مدد سے آپ آرٹ کو سمجھ یا پرکھ نہیں سکتے کہ لسانیات سائنس ضرور ہے لیکن زبان کے تفاعل کے بارے میں جیسی مدد اور جیسی روشنی لسانیات سے حاصل ہو سکتی ہے‘ اتنی مدد نہ ہمیں نفسیات سے مل سکتی ہے نہ عمرانیات سے اور نہ ہی تاریخ سے۔ اگر آپ تھوڑی سی لسانیات جانتے ہیں یعنی زبان میں آوازیں کس طرح کام کرتی ہیں‘ ان کی تخصیص کس طرح سے شعوری یا غیر شعوری طور پر ہوتی ہے۔ زبان میں لفظ کی کیا مرکزیت ہے؟ جملے کس طرح بنتے ہیں اور ہر فن کار جس کا اپنا اسلوب ہے‘ اپنا چہرہ ہے‘ اپنی شناخت ہے‘ اپنی تخلیقی انفرادیت ہے‘ اس کے یہاں جملوں کے انداز دوسروں کے یہاں جملوں کے انداز سے مختلف ہوں گے۔ جس طرح سے آپ کسی شخص کو اس کے ہاتھ کی لکیروں سے پہچان سکتے ہیں اسی طرح ہم اسلوبیات کی مدد سے کسی بھی فن کار کی تخلیقی شخصیت‘ اس کی انفرادیت کا نہایت آسانی سے تعین کر سکتے ہیں اور اس حد تک صحیح کرسکتے ہیں کہ کوئی اس کو غلط ثابت کر ہی نہیں سکتا۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ ادب کی دنیا میں خواہ وہ شعری عظمت ہو یا نثری‘ انفرادیت کے بغیر کوئی بات نہیں بنتی آپ کی اپنی شناخت کیا ہے؟ یہ جو سیکڑوں ہزاروں ذہنوں کا کاررواں ہے اس میں آپ نے جو چراغ روشن کیا ہے اس کی روشنی دوسروں کی روشنی سے کس حد تک الگ ہے۔ آپ نے کن کن چراغوں سے اپنا چراغ جلایا ہے اور آپ کے اپنے چراغ کی نوعیت اور اس کی روشنی کی اہمیت کیا ہے؟ یہ ساری چیزیں لسانیات کی مدد سے حل ہو سکتی ہیں اور جس کی ذریعے ادب کو سمجھنے میں زبردست مدد ملتی ہے۔ میرے اپنے علم کی جو حدود ہیں‘ ان کے اندر رہتے ہوئے کوشش کرتا رہتا ہوں کہ زیادہ سے زیادہ چیزوں کو پڑھوں اور جتنی بھی ترقی و توسیع اس میدان میں ہو رہی ہے‘ ان سب تک میری رسائی ہو سکے۔ ویسے یہ تو ممکن نہیں کیوں کہ علم کے اُفق روز بہ روز وسیع ہو رہے ہیں لیکن جتنی بھی تھوڑی بہت لسانیات میں نے پڑھی ہے اس سے میرے تو چودہ طبق روشن ہوگئے ہیں۔ اگر میں تاریخی تنقید لکھ رہا ہوں یا میں اردو افسانے پر لکھ رہا ہوں‘ اس میں بھی ادب کی لطف اندوزی میں لسانیات سے بیش بہا مدد مل سکتی ہے اور یہ ایسی مدد ہے جس کو دو اور دو چار کی زبان میں نہیں سمجھایا جاسکتا۔ اسلوبیات سے آئندہ چل کر تنقید میں مدد ملنے کی توقع ہے اور یہ وہ جہت ہے زبان کے مطالعے کی اور ادب کی تحسین شناسی کی جو آگے چل کر اور بھی روشن ہوگی۔میں نے اسلوبیات پر اس لیے توجہ نہیں کی کہ اردو میں اس پر پہلے نقادوں کی توجہ نہیں تھی اور مجھے اس پر توجہ کرنی چاہیے تھی بلکہ میری اپنی طبیعت کے جو تقاضے ہیں‘ اس کے تئیں کوشش کرتا رہتا ہوں کہ ادب کے مطالعے میں زبان سے مدد لوں۔ زبان کی مدد سے آپ کی حسیت کہیں زیادہ تیز ہو جاتی ہے۔ گویا یہ روشنی کا ایسا چراغ ہے جس سے آپ ادب کی تہوں تک اتر سکتے ہیں۔ ہم اکثر فن پارے کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور فن کار کی شخصیت سے بحث کرنے لگتے ہیں۔ ہم یہ نہیں دیکھتے کہ ہم فن کار کے جس نظریے بحث کر رہے ہیں وہ نظریہ شعر میں فکر محسوس بنا ہے یا نہیں۔ لسانیات نے مجھے ایک بات یہ بھی سکھائی ہے کہ نقاد کی ساری توجہ فن پارے پر مرکوز ہونی چاہیے۔ اگر اس میں کچھ ایسی تہیں کھلتی ہیں جن کے لیے سوانح‘ تاریخ‘ شخصیت یا پس منظر سے مدد کی ضرورت ہے تو یہ مدد ضرور لیجیے لیکن یاد رکھیے کہ اصل چیز فن پارہ ہے‘ اصل چیز شعر و افسانہ ہے۔ آخری بات یہ ہے کہ ساختیات کے بارے میں ابھی لوگوں کو زیادہ معلوم نہیں ہے۔ دو ایک مضمون لکھے گئے ہیں جن میں سے ایک مضمون محمد علی صدیقی نے ’’اوراق‘‘ میں لکھا تھا اور ایک آدھ کسی غیر ملکی اسکالر نے۔ اس کے علاوہ ساختیات کو کسی نے ہاتھ نہیں لگایا۔ اب عام طور پر تحریروں میں لفظ ’’اسٹرکچر‘‘ دیکھنے لگا ہوں جسے لوگ ’’ساخت‘‘ کے معنی میں استعمال کر رہے ہیں‘ حالانکہ اسٹرکچر کے یہ معنی نہیںہے۔ اسٹرکچر ازم ہر گز زبان کی ظاہری سطح سے بحث نہیں کرتا۔ اس کا کوئی تعلق ہئیت یا فارم سے نہیں ہے۔ جب ادب پر ساختیات کا اطاق ہوتا ہے تو اس میں زیادہ تر بحث معنیات کی ہوتی ہے اور اس بات کو اردو والے نہیں جانتے اور معنی سے بھی مراد یہ نہیں ہے کہ کوئی ایک لفظ اور اس کے معنی۔ ساختیات سے مراد وہ رشتہ ہے جو ایک تصور کا دورے تصور اور دوسرے تصور کا تیسرے تصور تیسرے تصور کا ان تمام تصورات سے جو ایک معاشرے یا کسی ایک فن پارے میں یا کسی ایک فن پارے میں یا کسی ایک صنف میں موجود ہے۔ گویا کہ ربط اور تضاد کا وہ رشتہ جو ایک عنصر اور دیگر عناصر کے مابین موجود ہے جس کی بنیاد تضاد پر ہے لیکن یہ تضاد معنی رکھتا ہے اپنے کسی نہ کسی ربط کی وجہ سے اور وہ ربط‘ ربط باہم بھی ہو سکت اہے‘ کسی ایک عنصر سے بھی اور کسی پورے فریم سے بھی۔ گویا اسٹرکچر کا تصور خاصا پے چیدہ اور ہمہ گیر نوعیت کا ہے۔ میں فکشنکی تنقید میں ساختیات سے مدد لیتا ہوں اور اسے مجھے بہت روشنی ملتی ہے۔ بعض اوقات تو ایسا ہوتا ہے کہ پورا ڈھانچہ ننگا ہو کر سامنے آجاتا ہے اور آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اس کی کڑیاں کون کون سی ہیں۔ گویا میں اسلوبیاتی اور ساختیاتی علوم کی شاخوں کو اقداری اور جمالیاتی تنقید کے ساتھ Assimilate کرتا ہوں۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ اس میں‘میں کس حد تک کامیاب ہوا ہوں۔ اس کا فیصلہ تو پڑھنے والے کر سکتے ہیں یا وقت کرے گا مثال کے طور پر عرض کروںگا محمد منشا یاد کی کہانی ہے ’’تماشا‘‘ یہ بہت اچھی کہانی ہے۔ بہت کم کہانیاں ایسی ہوتی ہیں جسے پڑھ کر آپ صدمے سے دوچار ہوتے ہیں۔ میں اس کہانی کو پڑھ کر شدید صدمے سے دوچار ہوا۔اس کہانی کا میں نے ساختیاتی تجزیہ کرنے کی کوشش کی۔اس کی چار‘ چھ ساختیے دیکھے ہیں مثلاً اس کہانی کو بیانیے کے طور پر دیکھیں تو تشفی بخش ہے۔ تمثیلی اور علامتی کہانی کے طور پر دیکھیں تو تشفی بخش ہے۔ ہر صورت میں جو نتائج نکلتے ہیں ان میں باہمی ربط و تضاد موجود ہے۔ اس کہانی کے چار‘ چھ ساختیے جو بنتے ہیں انہیںفن کار نے نہایت احتیاط سے گھڑا ہے۔ فن کاری محنت کا کام ہے‘ اس میںخون جگر صرف ہوتا ہے۔ شاعری میں ایک اچھا شعر فلیش میں ہوجاتا ہے لیکن فکشن میں ایسا نہیں ہوتا‘ اس میں تو گھڑنا اور بنانا پڑتا ہے۔طاہر مسعود: اردو فکشن کی تنقید کا سرمایہ بے حد محدود ہے‘ فکشن کے نقاد کی حیثیت سے آپ کے خیال میں کن عوامل کی وجہ سے ہمارے ہاں فکشن کی تنقید پر وہ توجہ نہیں دی گئی جو شعری تنقید کو دی گئی؟ڈاکٹر گوپی چند نارنگ: اس کی سامنے کی وجہ تو یہ ہے کہ ہماری شعری روایت زیادہ وقیع ہے اور نثری روایت نسبتاً اتنی وقیع نہیں ہیں۔ دوسری وجہ افسوس ناک ہے۔ فکشن کی تنقید میں زیادہ محنت کرنی پڑتی ہےزیادہ پڑھنا پڑتا ہے۔ شعر کے لیے آپ کو اتنا پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اردو زبان شعر زدہ زبان ہے۔ افسانہ‘ ناول‘ ڈراما ان پر لکھنے میں بڑی دشواریاں درپیش رہتی ہیں‘ اسی لیے یاروں نے بہت کچھ نظر اندازکیا ہے۔ پچھلے دس پندرہ برسوں میں افسانے اور ناول کے بارے میں خاصا لکھا گیا ہے پھر بھی افسانہ نگاروں کو شکایت رہتی ہے اور یہ شکایت بجا ہے۔طاہر مسعود: جو نقاد اس وقت فکشن کی تنقید لکھ رہے ہیں ان میں آپ کے نزدیک اہم نام کون کون سے ہیں؟ڈاکٹر گوپی چند نارنگ: آپ نے صحیح کہا ہے کہ بہت کم لوگوں نے فکشن کی تنقید کی طرف توجہ کی ہےشمس الرحمن فاروقی کی کتاب ’’افسانے کی حمایت میں‘‘ شائع ہو چکی ہے۔ محمود ہاشمی نے اگرچہ چند مضامین لکھے ہیں لیکن یہ اچھے مضامین ہیں۔ باقر مہدی اور ترقی پسندوں میں قمر رئیس نے بھی فکشن پر نہایت فکر انگیز مضامین لکھے ہیں۔ فکشن کی تنقید میں ممتاز شیریں کا نام نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ سب سے پہلے انہوںنے نہایت ذمہ داری کے ساتھ فکشن کے مسائل پر قلم اٹھایا تھا لیکن فکشن کی تنقید لکھنے والوں کی تعداد واقعتاً بے حد کم ہے۔طاہر مسعود: فکشن کی تنقید پر مستقل نوعیت کی کتاب کوئی بھی نہیں ہے۔ بیش تر کتابیں ان مختلف مضامین کا مجموعہ ہیں جو مختلف اوقات میں ادبی رسائل میں چھپتے رہے ہیں جنہیں بعد میں یک جا کرکے کتاب کی شکل دی گئی۔ خواہ وہ ممتاز شیریں کی کتاب ہو‘ شمس الرحمن فاروقی یا شہزاد منظر کی۔ کیا آپ اس ضرورت کو محسوس نہیں کرتے کہ فکشن پر کوئی مستقل نوعیت کی کتاب لکھی جائے جس میں اردو فکشن کی تاریخ کا مبسوط جائزہ لیا جائے‘ اس کے مسائل اور امکانات پر تفصیل سے بحث کی جائے؟ڈاکٹر گوپی چند نارنگ: اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک ایسے مطالعے کی ضرورت ہے۔ مختلف لوگ اپنے اپنے طور پر کام کرتے رہتے ہیں لیکن ایک مبسوط مطالعے کی ضرورت ہے‘ خود میری کوشش ہے کہ اس طرح کے کسی کام میں ہاتھ ڈالوں‘ مگر میری دل چسپیوں کا واحد میدان افسانہ نہیں ہے پھر بھی کوشش کروںگا کہ ایک کتاب اپنے اس پسندیدہ موضوع کے بارے میں لکھ سکوں‘ لیکن وقت تھوڑا ہے اور حسرتیں دل میں بہت زیادہ ہیں۔طاہر مسعود: آپ کی کل کتابوں کی تعداد پندرہ سے زائد ہے۔ ان میں زیادہ تر کتابیں آپ نے مرتب کی ہیں۔ آپ کا اوریجنل ورک اور اس کی تعداد آپ کی ترتیب دی ہوئی کتابوں کے مقابلے میں بے حد کم ہے۔ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ جمع و ترتیب کرنے کا کام عموماً وہ لوگ کرتے ہیں جن کا علم‘ علم ذاتی نہ ہو اور یوں بھی ترتیب و تدوین کا زیادہ تر کام ’’قینچی کا کام‘‘ ہوتا ہے۔ آپ تو صاحب ِعلم آدمی ہیں‘ آپ نے اوریجنل کام کرنے کے بجائے ایڈیٹنگ کا کام اس کثرت سے کیوں کیا؟ڈاکٹر گوپی چند نارنگ: میری ایک بہت بڑی کمزوری یہ ہے کہ میں اپنی ذات کو پس پشت ڈال کر کام کرتا رہتا ہوں۔ اس سے جو نقصان ہوتا ہے وہ ظاہر ہے اور آپ کا یہ سوال میرے اپنے اس ذاتی نقصان کے احساس کو شدید تر کر دیتا ہے۔ آپ کو یہ سن کر تعجب ہوگا کہ اگر میں اپنے منتخب مضامین کے مجموعےکی اشاعت پر توجہ دوں تو سال دو سال میں میری سات آٹھ کتابیں شائع ہو جائیں گی‘ لیکن یہ کام میں نے کیا نہیں۔ اس کے علاوہ میرا جو بنیادی کام ہے‘ وہ ہے ’’اردو شاعری کا ثقافتی مطالعہ: محمد قلی قطب شاہ سے لے کر فیض و فراق تک‘‘ وہ کتاب بھی آج تک منظر عام پر نہیں آئی۔ ایک اور میرا کام کام ہے (رک کر) خاص کام نہیں ہے کیوں کہ جو کام میں کرنا چاہتا ہوں وہ ابھی تک منظر عام پرآیا ہی نہیں۔ ایک کتاب بائیس‘ تئیس برس پہلے شائع ہوئی تھی ’’ہندوستانی قصوں سے ماخوذ اردو مثنویاں‘‘ یہ میرے تھسیس کے ایک باب کی توسیع ہے جس میں‘ میں نے دکھایا ہے کہ اردو کا پس منظر بہ یک وقت اسلامی اور ہندوستانی روایت کا ہے۔ ایک تو بہت سی ذمہ داریاں ایسی ہیںجن کے پیچھے میں نہیں بھاگتا بلکہ وہ مجھ پر ڈال دی جاتی ہیں اور میں مزاجاً انکار کرنے کی جرأت نہیں رکھتا۔ مروت میں انہیں قبول کر لیتا ہوں اور پھرمیرے اپنے کام کا حرج ہوتا رہتا ہے۔ ادھر یہ کوشش ہے کہ بہت سی ایسی ذمہ داریوں سے معافی مانگ لوں اور اپنا خاص کام منظر عام پر لے آئوں‘ ایسانہ ہو کہ یہ چیزیں میرے ذہن میں رہ جائیں یا پھر انہیں دیمک چاٹ لے۔ میرا ارادہ ہے کہ بیسویں صدی کے اردو ادب کی تاریخ پر‘ اردو افسانے پر‘ جنگ آزادی اور اردو شاعری اورسیاسی جہات جیسے موضوعات پر کتابیں لکھوں۔ وقت نے مہلت دی تو یہ سارے کام آہستہ آہستہ ہو جائیں گے اور آپ جیسے احباب کو شکایت نہیں ہوگی۔ (جاری ہے)طاہر مسعود: آپ علمی و ادبی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ سماجیاتی سطح پر بھی فعال رہتے ہیں‘ آپ کے بارے میں ایک تاثر یہ ہے کہ آپ ہر سال بھارت میں جو سیمینارکرتے ہیں اور پاکستان سے بھی ادیبوں کو مدعو کرتے ہیں اس میں آپ کی پبلک ریلشنگ کا بھی خاصا عمل دخل ہوتا ہے‘ یہ الزام کس حد تک درست ہے؟ڈاکٹر گوپی چند نارنگ: ایک چیز ہے پبلک ریلیشنگ اور ایک چیز ہے سیلف پروموشن‘ میری پبلک ریلیشنگ اردو کے لیے ہے‘ اپنی ذات کے لیے نہیں ہے۔ اردو کی خاطر میں ہر الزام اپنے سر لینے کو تیار ہوں۔ اردو سے میرا جو کمٹ منٹ ہے اس کی خاطر میں ملامتوں کے درمیان زندگی بسرکرنے کو تیار ہوں۔ یہ الزام تو اپنوں کی طرف سے لگائے جاسکتے ہیں لیکن ہندوستان کے ماحول میں غیروں کی جانب سے کیا کیا الزامات لگائے جاسکتے ہیں اس کا بھی آپ تصور کرسکتے ہیں۔ میں ان کی باتیں سنتا ہوں تو بھی اپنی راہ سے نہیں ہٹتا ہوں اور یہ باتیں سب پیاری پیاری باتیں ہیں۔ زبان سے میرا کمٹ منٹ اس درجہ راسخ ہے کہ میری اپنی ذات‘ اپنا خاندان‘ اپنے گھر کے لوگ‘ ان سب چیزوں کی حیثیت اردو زبان کی مقابلے میں ثانوی ہے۔ سیمینار ہو یا کانفرنس‘ جو لوگ اسے ظاہری نظر سے دیکھتے ہیں‘ ان کے نزدیک یہ پبلک ریلیشنگ بھی ہوسکتی ہے اور سیلف پروموشن بھی لیکن کیا درد ہے جس کی وجہ سے میں ایسا کم کرنے کے لیے مجبور ہوں۔ اس میں میری اپنی ذات کی منفعت بالکل نہیں ہے‘ بہت سی کانفرنسیں رسماً ہوتی ہیں لیکن میں کوئی کام رسماً نہیں کرتا۔ جب بھی میں نے کسی سیمینار میں ہاتھ ڈالا ہے اس کی علمی و ادبی حیثیت کو تسلیم کیا گیا ہے‘ مثلاً جب میں نے محسوس کیا کہ افسانہ ایک دورائے پر ٹھٹھکا ہوا ہے اور ضرورت ہے کہ بعض بنیادی سوالات پر غور و فکر کے لیے لوگ جمع ہوں‘ تبادلہ خیال کریں تاکہ تخلیق کی نئی راہیں روشن ہوں‘ تب میں نے کہا کہ آیئے ہم مل بیٹھتے ہیں۔ اس میں کسی مکتب فکر کی قید نہیں ہے۔ اردو کی روایت سے سب بڑے ہوتے ہیں اور اردو کی ترقی اور اس کے مستقبل سے سب لوگ کمیٹڈ ہیں اس کے لیے بہت وقت صرف ہوتا ہے‘ قربانی دینی پڑتی ہے صرف اس لیے کہ وہ زبان جس کے تئیں میں کمیٹڈ ہوں‘ اس کے فن کاروں کا تخلیقی سفر جاری رہے اور زبان کا مستقبل روشن ہو۔طاہر مسعود: ترقی پسندوں سے آپ کا جو جھگڑا ہے‘ اس کا بڑا چرچاہے‘ وہ آپ سے اور آپ ان سے خفا رہتے ہیں‘ اس کے اسباب خالصتاً ادبی نوعیت کے ہیں یا اس کا تعلق کسی اور بھی چیز سے ہے؟ڈاکٹر گوپی چند نارنگ: ترقی پسندوں سے میرا جو جھگڑا ہے‘ اس کے بارے میں غلط فہمیاں زیادہ ہیں اور اس میں اصلیت کم ہے۔ اس کے اسباب اتنے ادبی نہیں ہیں جتنے غیر ادبی ہیں۔ اس میں زیادہ دخل ذاتی مقاصد‘ رشک و رقابت اور حسد کا ہے۔ اگر ایک میدان میں کچھ لوگ کام کر رہے ہیں اور آپ اپنی بری بھلی صلاحیت کی وہ سے ان سے آگے نکل جاتے ہیں تو پھر وہ طرح طرح کی الزام تراشی اور کردار کشی شروع کر دیتے ہیں۔ ترقی پسندوں کے بارے میں بہت کچھ لکھ چکا ہوں‘ کیا عرض کروں۔ ترقی پسندوں نے ادب کی جو تعبیر کرنی شروع کر دی تھی اور جس کے نتیجے میں ایک خاص طرح کا ادب سامنے آنے لگا تھا‘ حقیقت کی ترجمانی کے طرف ایک تعبیر جسے وہ آج بھی جائز سمجھتے ہیں اور سب کو ایک لکیر پر چلانے کی کوشش کرتے ہیں‘ میں اس کا بھی مخالف ہوں۔ جہاں تک عوام کے دکھ درد کا تعلق ہے‘ سرمایہ داری یا نوآبادتی نظام کی مخالفت کا تعلق ہے اور ان تمام طاقتوں کی مخالفت کا تعلق ہے جو جبر و استبداد روا رکھتی ہیں‘ میں ان کا مخالف ہوں لیکن ادب کی ایسی تعبیر کے خلاف ہوں جو ذہن پر پہرے بٹھاتی ہو۔ میرا خیال ہے ایک سچے اور کھرے ادب کا پہلا فریضہ یہ ہے کہ وہ خود کو آزاد کرے۔ میں شدید طور پر باغی انسان اور آزاد خیال آدمی ہوں۔ اس آزاد خیالی میں ظاہر ہے انسانی ہمدردی‘ عوامی درد اور سامراج دشمنی یہ سب چیزیں شامل ہیں لیکن ادب کی دنیا میں فن پارے پر جس طرح اصرار میں کرتا ہوں‘ اس سے بعض لوگوں کو تکلیف پہنچتی ہے۔ تکلیف بھی اس نوعیت کی کہ جیسے ان کی اجارہ داری کو ٹھیس پہنچتی ہو۔ا گر کسی کی اجارہ داری کو میرے ادبی مؤقف کی وجہ سے ٹھیس پہنچتی ہے تو وہ ٹھیس بربنائے غیر ادبی مفادات پہنچے گی‘ اس کی میں پرو انہیں کرتا۔ میرا نقطہ نظر خالص انسانی اور ادبی ہے۔ باقی اگر کوئی حسد کرتا ہے یا الزام تراشی کرتا ہے تو میرا ضمیر صاف ہے۔ بعض لوگ گروہ بناتے ہیں‘ سازشیں کرتے ہیں اور ہر وہ شخص جو ان کے کہنے پر نہیں چلتا‘ اس کے خلاف بہتان تراشی کرتے ہیں۔ ترقی پسندوں کی تاریخ میں ایسی بہت سی مثالیں ملتی ہیں۔ جب اس طرح کی حرکتیں دوسروں کے بارے میں کی گئیں اور انہیں بد ترین لیبلوں سے نوازا گیا‘ انہیں رجعت پسند کہا گیا۔ آپ غور فرمایئے ایک طرف میں اپنے آپ کو ترقی پسند کہوں حالانکہ میں سرمایہ داری کے ساتھ گٹھ جوڑ کرتا ہوں‘ خطابات بھی لیتا ہوں‘ بیورو کریسی کا حصہ بھی ہوںاور پھر اپنے آپ کو ترقی پسند کہوں لیکن دوسرے جو میرے ساتھ نہ ہوں لیکن ادب کے معاملے میں کمیٹڈ ہوں‘ مجھ سے زیادہ لبرل اور انسان دوست ہوں لیکن چونکہ وہ میری دی ہوئی لیک پر نہیں چلتے اس لیے میں ان کے بارے میں تو کہوں کہ وہ رجعت پسند ہیں۔ یہ جو طریقہ کار ہے یہ غیر ادبی ہے۔ گروہ بناتی ہیں‘ بھیڑیں‘ شیر تو جنگل میں اکیلا چلتا ہے۔ میرا منصب تو یہ ہے کہ خواہ کوئی کتنی مخالفت کرے‘ میں اپنا کام کرتا رہوں۔ جتنی انہوں نے دھڑے بندیاں بنا رکھی ہیں کہ یہ روس کا دھڑا ہے یا یہ امریکا کا دھڑا ہے تو ہم کس دھڑے بندی میں شریک نہیں ہیں۔ ہم ایک دھڑے بندی میں شریک ہیں‘ وہ ہے ادبی دھڑے بندی اور اردو کی دھڑے بندی۔ ہم اس سے کمیٹڈ ہیں اور ہم ہر اس چیز کے خلاف ہیں جو اردو کے خلاف ہے اورجو ادب کے خلاف ہے۔طاہر مسعود: پچھلے چند برسوں سے ایک شاعر اور ناول نگار جن کا تعلق ہندوستان سے ہے اپنے بعض معاملات کی وجہ سے خاصے متنازع ہو چکے ہیں۔ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ غیر ادبی طریقوں سے ادیبوں کو رام کرتے ہیں۔ کچھ عرصے قبل ان کے حوالے سے آپ کے بارے میں کچھ ایسے کالم اور مضامین شائع ہوئے تھے جس میں کہا گیا تھا کہ آپ نے ان کے بارے میں توصیفی مضمون لکھ کر ادبی دنیا میں ان کا بت کھڑا کرنے کی کوشش کی جس میں دوسرے ادیبوں نے بھی آپ کے ساتھ تعاون کیا۔ آپ اس معاملے کی وضاحت کرنا پسند کریں گے؟ڈاکٹر گوپی چند نارنگ: ابھی میں آپ سے عرض کر رہا تھا کہ ادب کی دنیا میں ہر غیر ادبی چیز کا میں مخالف ہوں‘ اگر کوئی شخص اپنی ادبی حیثیت کو راسخ کرنے کے لیے غیر ادبی وسائل کا استعمال کرتا ہے تو میں اس کی پرزور تردید کرتا ہوں۔ جہاں تک کسی کے فن یا تخلیق کا تعلق ہے تو میری ہمیشہ یہ کوشش رہتی ہے کہ کہیں جو ہر نظر آئے یا ابھرتا ہوا فن کار دکھائی دے تو تنقید کو اس کی طرف توجہ کرنی چاہیے۔ میں نے شہریار اور سریندر پرکاش پر اس وقت لکھا جب انہیں کوئی جانتا نہیں تھا۔ وارث علوی تک نے اعتراف کیا کہ میں نے سریندر پرکاش کی کہانیوں سے لطف اندوز ہونا گوپی چند رنگ کی تحریروں سے سیکھا ہے۔برسوں پہلے کی بات ہے کہ میں نے ایک شاعر کی چھوٹی سی نظم پڑھی۔ شاعر کا نام تھا‘ صلاح الدین پرویز۔ جب میں علی گڑھ گیا تو خلیل الرحمن اور شہریار سے اس شاعر کے بارے میں دریافت کیا۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارے شعبہ انگریزی میں ایک طالب علم ہے‘ الٰہ آباد کا رہنے والا ہے۔ وہ صلاح الدین پرویز کو پکڑ کر لائے۔ میں نے اس کا کلام سنا۰ بہت خوشی ہوئی۔ اس وقت صلاح الدین پرویز علی گڑھ میں جوتیاں چٹخاتے پھرتے تھے۔ ان کے تمول اور ثروت کا کسی کوئی قصور نہ تھا۔ نہ ہی کسی کو معلوم تھا کہ آگے چل کریہ آدمی صاحبِ ثروت ہوگا اور اس کے چرچے ہوں گے۔ میں باہر سے پڑھ کر نیا نیا آیا تھا اور اس وقت تک صلاح الدین پرویز کی کوئی کتاب بھی نہیں چھپی تھی۔ لہٰذا اب یہ کہنا کہ فلاں صاحب نے ان کی تعریف کی‘ غلط ہے۔ میرا کسی کی دولت یا غربت سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ آپ میں کوئی خوبی دیکھوں گا تو اسے یقینا تسلیم کروں گا۔ اب یہ ہے کہ بعد میں صلاح الدین پرویز نے کئی ناول لکھے‘ کتابیں چھاپیں اس کے علاوہ بھی ان کے بارے میں بہت کچھ سنتا رہتا ہوں لیکن میں پھر یہی کہوں گا کہ ہمارا کام فن پارے کو دیکھنا ہے۔ ہمارا رشتہ آپ کے لکھے ہوئے لفظ سے ہے۔ آپ کی آنکھیں کیسی ہیں؟ آپ لباس کیسا پہنتے ہیں؟ آپ کے آبا و اجداد کہاں کے تھے؟ آپ جیٹ طیارے میں سفر کرتے ہیں یا فائیو اسٹار ہوٹل میں ٹھہرے ہیں؟ آپ دعوت کیسی کھلاتے ہیں؟ اگران باتوں سے کوئی خریدا جاسکتا ہی تو میں سمجھتا ہوں وہ ادیب ہی نہیں ہے۔ جو لوگ میرے بارے میں ایسی باتیں کرتے ہیں وہ احمقانہ باتیں ہیں۔ میرا قلم میری سب سے بڑی گواہی ہے۔ جو کچھ میں نے لکھا ہے وہ موجود ہے‘ اسے دیکھا جاسکتا ہے۔طاہر مسعود: میں نے آپ کے کئی لیکچر سنے ہیں‘ مجھ سمیت اور بھی لوگوں کی رائے ہے کہ آپ کے لیکچر میں جو بصیرت‘ سحر آفرینی اور گہرائی ہوتی ہے وہ ساری خوبیاں اتنی شدت کے ساتھ آپ کی تحریروں میں نظر نہیں آتیں‘ اس کی کیا وجہ ہے؟ڈاکٹر گوپی چند نارنگ: ایک راز کی بات میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ میں اپنے بہت سے مضامین ڈکٹیٹ کرواتا ہوں اور ایک ہی نشست میں تقریرکے طور پر دو‘ تین گھنٹے بولتا ہوں۔ بعض چیزیں ذہن میں مہینوں تک پکتی رہتی ہیں‘ اس کے علاوہ میں کچھ لکھنے کے لیے مہینوں مطالعہ کرتا ہوں جو کچھ میں بولتا ہوں وہی میں لکھتا ہوں۔ تحریروں میں اگر وہ ساری کیفیات نہیں آپاتیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ قارئین تک میری تمام چیزیں اپنے بھرپور تاثر کے ساتھ نہیں پہنچیں کیوں کہ وہ ساری ابھی چھپی ہی نہیں ہیں۔ رہا سوال لیکچروں یا تقریروں کا تو میں جہاں کہیں بھی اظہار خیال کرتا ہوں تو اچانک نہیں کرتا ہوں بلکہ اس موضوع پر مہینوں سوچتا ہوں۔ میں نے ادب کی روایت کا مطالعہ نہایت سنجیدگی اور محنت کے ساتھ کیا ہے اور آج تک میری کوشش یہی رہتی ہے کہ میں سب سے زیادہ توجہ مطالعے پر صرف کروں۔