انتظار

275

’’اماں دیکھیے، بھیا مار رہے ہیں مجھے۔‘‘ صحن کے ایک کونے میں گڑیا کھیلتی ننھی نے روہانسی آواز میں ماں سے شکایت کی۔
’’ساجد! بری بات ہے بیٹا،کیوں تنگ کررہے ہو بہن کو۔ اب ہاتھ نہ اٹھانا۔‘‘ شاہدہ نے صحن میں بنی حوضیہ میں جلدی جلدی برتن دھوتے ہوئے بیٹے کو دور ہی سے ڈپٹا۔
’’اماں ہاتھ سے نہیں مار رہے، جامن کی گٹھلیاں مار رہے ہیں بھیا۔‘‘ ننھی نے گڑیا کا منہ دھلاتے ہوئے ماں کو تفصیل بتائی۔ ’’میں جہاں جارہی ہوں وہیں پھینک رہے ہیں۔‘‘
’’امی! مار نہیں رہا ہوں، نشانہ لے کر قریب پھینک رہا ہوں۔‘‘ ساجد اپنا کھیل بچانے کے لیے جلدی سے بولا۔
’’یہ بچے بھی ذرا فارغ ہوں تو کچھ نہ کچھ فضول کام پھیلا لیتے ہیں۔ تم باہر جاکر بچوں کے ساتھ بکرے کو کیوں نہیں کھلا رہے!‘‘ شاہدہ نے بیٹے کو اُس کے پسندیدہ مشغلے کی طرف متوجہ کیا۔
’’میں نہیں جا رہا باہر، کوئی مجھے اپنے بکروں کو ہاتھ نہیں لگانے دیتا، کہہ رہے ہیں ہاتھ سینی ٹائز کرکے آئو۔‘‘ ساجد نے ایک پکی سی جامن ماں کے منہ میں ڈالتے ہوئے کہا۔
’’یہ لفظ تو اب بچے بچے کے حواس پر سوار ہے۔ اچھا جائو دکان سے مجھے صابن لادو، اور ننھی! گڑیا رکھو اور صحن کی صفائی کردو، ابا آتے ہی ہوں گے، میں روٹی بنالوں۔‘‘ شاہدہ نے سب کو کام پر لگا کر اپنا کام بھی سمیٹ لیا۔
کچھ ہی دیر میں ساجد اور ننھی کے ابا پھولی ہوئی سانس کے ساتھ گھر آتے ہی پیڈسٹل فین کے آگے ڈھیر ہوگئے۔ ’’ارے شاہدہ بی! یہاں آئو، بھئی کام چھوڑو، بات سن لو آکر۔‘‘
’’جی جی ننھی کے ابا! آرہی ہوں۔‘‘ شوہر کے لہجے کی بے چینی سے شاہدہ بھی گھبرا گئی، پانی کا گلاس شوہر کو دیتے ہوئے بولی ’’خیریت ہے، آخر بات کیا ہے؟‘‘
’’ارے بھئی ذمے داری آگئی ہے اور وہ بھی کوئی معمولی نہیں… پتا نہیں تم کرسکو گی کہ نہیں، لیکن منع کرنے کا موقع نہیں ہے، کرنا تو ہے ہمیں۔‘‘ ماجد نے پانی ایک گھونٹ میں اندر اتارا۔
’’اور کیا ذمے داری لے بیٹھے آپ! پہلے ہی گھر کے کاموں نے کمر دُہری کررکھی ہے۔‘‘ شاہدہ شوہر کو شکایتی نظروں سے دیکھتے ہوئے بولی۔
’’بھئی وہ ہیں نا ہمارے حاجی صاحب، وہ مل گئے ابھی، مجھے باہر دیکھتے ہی آواز دی بلکہ کندھے پر ہاتھ رکھ کر روک لیا، کہنے لگے: مجو! تمہیں ہمارا ایک کام کرنا ہوگا، ہمارا بکرا اپنے گھر باندھ لو، بچوں نے ضد کرکے جلدی منگوا لیا ہے، مگر تمہاری بھابھی گھر کے اندر باندھنے پر آمادہ نہیں، اصل میں ہم نے صحن میں وہ والے پتھر لگوا لیے ہیں، کیا کہتے ہیں ٹائل لگوا لیے ہیں، تو اب یہ مشکل ہوگئی ہے۔ اپنے صحن میں باندھ لو، لے جاکر۔‘‘ ماجد نے بالآخر پوری تفصیل بتا دی۔
’’بکرا ہمارے گھر باندھا جائے گا۔ ساجد کے ابا اللہ کے نام کا جانور ہے، میں دل وجان سے اُس کی خدمت کروں گی، تم لے آئو۔‘‘شاہدہ نے شوہر کو تسلی دی۔
’’ابا! میں بکرے پر خوب ہاتھ پھیروں گا، اب مجھے کوئی منع بھی نہیں کرے گا۔‘‘ بارہ سالہ ساجد کو اچھی طرح یاد تھا کہ پچھلے سال وہ کس طرح ہری گھاس کی ٹہنی لیے گلی میں بکرا گھماتے بچوں کے پیچھے پیچھے چلتا۔ بکرا بھاگتا، بچے بھاگتے، اُن کے پیچھے ساجد بھاگتا۔ بکرا کھڑا ہوجاتا، بچے گھیرا لگا کر کھڑے ہوجاتے، ساجد بھی ان کے درمیان اپنی جگہ بنانے کی کوشش کرتا، مگر مجال ہے جو اس تگ ودو میں وہ بکرے کو گھاس کھلا سکا ہو، یا جی بھر کر ہاتھ پھیر سکا ہو! وہ بہت خوش تھا یہ سن کر کہ اب بکرا اس کے گھر باندھا جا رہا ہے۔
رات نو بجے حاجی صاحب اپنے بچوں کے جلو میں تین بکرے لیے مجو کے دروازے پر آگئے۔ دو اُن کے اور ایک اُن کے برادرِ نسبتی کا۔
’’بھئی! تمہاری بھابھی کے بھائی بکرے کو زینہ نہیں چڑھانا چاہتے، تو اپنا بکرا بھی ہمارے بکروں کے ساتھ رکھیں گے۔‘‘
بکروں کو آؤ بھگت سے صحن میں باندھا گیا۔ صحن اگرچہ چھوٹا تھا، مگر اپنے مکینوں کے دل کی طرح بڑی فراخی دکھا رہا تھا۔
صحن کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک کیلوں سے چادر تان کر دھوپ روکنے کا انتظام رات ہی میں کرلیا گیا، پینے کے پانی کا انتظام ساجد کے ذمے ہوا کہ باری باری سب بکروں کے آگے پانی کی بالٹی رکھے گا۔ سب انتظامات دیکھ کر حاجی صاحب رخصت ہوئے، مگر تھوڑی ہی دیر میں واپس آئے اور کہا ’’میاں مجو! تم نے بھی نہ سوچا، وہ تو تمہاری بھابھی نے مشورہ دیا کہ آج کل بارش کا کوئی بھروسا نہیں ہے، رات میں بکرے کمرے میں باندھے جائیں۔‘‘
’’کمرے میں…!‘‘ماجد کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ شاہدہ بھی حیران کھڑی رہ گئی۔
’’ہاں رات کمرے میں رکھنا، ویسے بھی تمہارے صحن کی دیوار چھوٹی ہے، کوئی رات ہی رات بکروں پر واردات نہ کرجائے۔‘‘ حاجی صاحب اسّی ہزار کے بکروں کے لیے ہر طرح کا اطمینان چاہ رہے تھے۔
’’نہیں حاجی صاحب! دروازے پر تالا رہے گا۔‘‘ ماجد کی تسلی سے حاجی اکبر کی تسلی نہ ہوئی۔
’’ارے چھوڑو مجو! پچھلے سال حافظ صاحب کا بکرا پہلی ہی رات کو وارداتیہ دیوار کودوا کر لے گیا اور گیٹ کا بند تالا جھولتا رہ گیا۔‘‘حاجی صاحب دونوں میاں بیوی کو نئے انتظامات کی ذمے داری دے کر الٹے قدموں واپس ہوئے۔
عید آنے والی ہو اور اس کی تیاری نہ ہو، یہ ممکن نہیں۔ ہر گھر کی طرح حاجی صاحب کے گھر بھی تیاری زور شور سے جاری تھی۔ قسائی سے پندرہ دن پہلے وقت طے کیا جارہا ہے۔ شکورن خالہ کی بھی آمد ہوچکی تھی، وہ عیدِ قرباں کے کھانے بنانے کی ماہر تھیں، آج آکر سودا اپنی نگرانی میں منگوا کر رکھ رہی تھیں۔
پچھلے سال کے تجربوں پر خوب تبصرے ہورہے تھے۔ ’’خالہ شکورن! اِس بار کلیجی کا مصالحہ وقت پر بھون کر رکھ لینا، پچھلے سال کی طرح نہ کرنا کہ کلیجی تیار کرنے میں گھنٹہ لگادیا۔‘‘
’’ہاں بھئی! اِس بار کلیجی ذائقے دار ہونی چاہیے، پچھلی بار…‘‘خالہ جی نے موضوع بدلنے کو نیا ذکر چھیڑ دیا۔
’’منے قسائی سے ذرا نفیس گوشت بنوانا، اب تو ہر اناڑی چھری بغدہ لیے عید پر قسائی بن جاتا ہے۔ تم لوگوں کو تو گوشت بنوانا ہی نہیں آتا، آنکھیں بند کیے بیٹھتے ہو کیا؟ اللہ بخشے ایک تمہارے خالو تھے، تیر کی طرح سیدھے بیٹھتے تھے قسائی پر نظر رکھ کر۔ ایک بار قسائی کے گھٹنے کے نیچے سے چھوٹے کے گردے نکلوا لیے۔‘‘ یہ کہہ کرخالہ، جنت مکین میاں کی سمجھداری پر ہنس دیں۔
آج کتنے دن ہوگئے تھے، ماجد کا گھرانہ بکروں کی دن رات دیکھ بھال کررہا تھا، ماتھے پر کسی کے شکن یا زبان پر تھکن کا شکوہ نہ تھا۔ بس ایک بار ماجد نے بیوی سے چھوٹے کے قورمے کی فرمائش کردی۔
’’نیک بخت اِس بار ہم بھی عید پر چھوٹے کا گوشت کھائیں گے، تم صبح سے مصالحہ تیار رکھنا، دیکھنا اِس بار حاجی صاحب سب سے پہلے ہمیں ہی چھوٹے کا حصہ بھیجیں گے۔‘‘
آج عید تھی، عیدِ قرباں، بکرے قربانی کے لیے لے جائے جا چکے تھے۔ حاجی صاحب نے دعا پڑھ کر ذبیحہ کی چھری چلادی۔
ساجد نے گھر آکر ماں کو بتایا ’’امی گوشت گھر کے اندر چلا گیا ہے، باہر دھلائی ہورہی ہے، میں پائپ لگا کر آیا ہوں۔‘‘
شاہدہ نے جلدی جلدی مصالحہ بنانے کی تیاری شروع کردی۔ اُدھر حاجی اکبر نے خالہ شکورن کو کلیجی کی تیاری کے ساتھ چانپوں کو مصالحہ لگانے کی ہدایت بھجوائی۔ گائے کا حصہ بھی جلدی منگوا لیا گیا تھا۔ ایک ساتھ کئی کام ہورہے تھے، بھابھی فون پر آج رات کی دعوت طے کررہی تھیں۔
ہر سال پہلے ہی دن وہ سب کو رات کی باربی کیو پارٹی دیتیں، سب سے تعریفیں سمیٹتیں اور پھر پورا ہفتہ آرام سے دیگر دوست احباب کی دعوتوں سے لطف اندوز ہوتیں۔ ابھی بانٹنے کا اہم مرحلہ باقی تھا، اس معاملے میں حاجی صاحب پوری ذمے داری کا ثبوت دیتے۔
چھوٹی بہن کے گھر چھوٹے کی دو رانیں جائیں گی، ایک اُس کی اور ایک اُس کے سمدھیانے کی۔ ایک ران ٹھیکیدار صاحب کے گھر، اور ایک کونسلر صاحب کے گھر۔ گھر کے لیے بیگم صاحبہ اور بچوں کی پسند چانپیں اور دستی ڈیپ فریزر میں رکھوا دیے گئے۔ حاجت مندوں کے لیے بڑے کے گوشت سے حصے بنوائے گئے۔ سب ضروری کام اپنی نگرانی میں کرواکر حاجی صاحب سونے چلے گئے۔
ماجد کے گھر بھی عید جم جم آئی تھی۔ سارا گھر صاف، صحن کی دھلائی ہوچکی تھی، دو سو روپے دے کر گلی کے صفائی والے لڑکے سے بکروں کی باقیات صاف کروالی گئی تھیں، صاف کپڑوں میں ملبوس بچے اندر باہر کے چکر لگا رہے تھے۔ باورچی خانے سے بھنے مسالے کی مہک سب کی بھوک کو اشتہا دے رہی تھی۔
ایسے میں ماجد نے گھر آتے ہی بیوی کو سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ شاہدہ نے بتایا ’’سب تیار ہے، بس چھوٹے کے حصے کا انتظار ہے، جب حاجی صاحب سب کو بانٹیں گے تو ہمارا حصہ بھی آجائے گا۔‘‘
’’لیکن حاجی صاحب تو گوشت کی تھیلیاں مسجد کے دروازے پر کھڑے ہوکر بانٹ رہے ہیں۔ میں ابھی وہی دیکھ کر آرہا ہوں۔‘‘ماجد نے بتایا۔
’’ابا میں ایک تھیلی حاجی صاحب سے لے آئوں؟‘‘ ساجد نے معصومیت سے کہا۔
’’نہیں بیٹے! یوں سڑک پر کھڑے ہوکر حصہ نہیں لیاجاتا۔‘‘ شاہدہ نے نادان بیٹے کو سمجھایا۔
’’چھوٹے کے گوشت کا آسرا چھوڑو اور مسالے میں جلدی سے دال ڈال کر کھانا تیار کرو… تین بج رہے ہیں۔‘‘ ماجد نے شاہدہ کو مشورہ دیا۔
تھوڑی دیر میں ساجد ایک ڈھکی ہوئی پلیٹ لیے گھر میں داخل ہوا۔ شاہدہ نے فوراً میاں کو آواز دی ’’لیجیے بھابھی نے پکوا کر ہی بھیج دیا، اتنی جلدی چھوٹے کا گوشت ہی تیار ہوسکتا ہے۔‘‘
’’اماں یہ چچا غفور کے گھر سے چنے کا پلاؤ آیا ہے۔‘‘

حصہ