نفس امارہ کو نفس مطمئنہ کیسے بنایا جائے

5019

انسانی فطرت قدرت کا ایک شاہکار ہے ۔شاید اسی لیے قدرت نے خود اپنا وجود اور فطرت انسانی میں یہ صفت مشابہ رکھتی ہے کہ دونوں غیر مرئی ہیں لیکن ان کے کرشمے بے شمار ہیں اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں جہاں شمس وقمر ،لیل و نھار اور ارض و سماء کی قسمیں پیش کی ہیں ۔
وہیں انسان نفس کو بھی قسم کا حوالہ دے کر خود اس کی نفسیات اور حجتوں کا حوالہ دیا ہے۔ ترجمہ:ہم کو روز قیامت کی قسم اور نفس لوامہ کی (کہ سب لوگ اٹھا کر) کھڑے کیے جائیں گے-
نفس تو وہ قوت ہے جو انسان کو ملامت کرتی ہے اسے سوچنے سمجھنے اپنا اختیار استعمال کرنے میں،مجاہدہ کرنے اور کشمکش پر ابھارتی ہے۔ حدیث میں اسے یوں بیان کیا گیا۔ حقیقی مجاہد وہ ہیں جو اپنے نفس کے ساتھ کشمکش کرے ۔ (الترمذی)
اس طرح ایک موقع پر نبی کریم ﷺنے غزوے سے واپسی پر فرمایا۔ اب ہم جہاد اکبر کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ یعنی میدان جہاد میں ہونے والی جدوجہد کے علاوہ نفس کے ساتھ کی جانے والی جدو جہد اور مزاحمت کو جہاد اکبر سے تعبیر فرمایا۔
انسانی نفس کی تعریف ماہرین و علماء کی آراء میں کچھ یوں ہے ۔
نفس اور روح باہمی تغیر پزیر حالتیں یا قوتیں ہیں جب روح جسم میں موجود ہو تو اسے نفس سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ جبکہ روح کی غیر موجودگی میں اسے نفس نہیں کہا جاسکتا۔ اس سے بڑی حقیقت اور کیا ہو سکتی ہے کہ انسان روح کی موجودگی ہی میں نفس لوامۃ ، نفس امارۃ یا نفس مطمئنہ ہو سکتا ہے اس کی موت کے بعد نفس کی کارکردگی و اختیار بھی فنا ہو جاتا ہے تخلیق آدم کے وقت ہی انسان کی برائی اور نیکی دونوں اس پر الہام کر دی گئی ہیں۔
قسم ہے نفس کی اور اسے درست بنانے کی۔ پھر سمجھ دی اس کو بدکاری کی اور بچ کر چلنے کی جبلت میں اسے ودیعت کردیا گیا تھا لیکن نیکی کو اچھا سمجھتے ہوئے ا سے اختیار نہ کرنا اور برائی کو برائی سمجھنے کے باوجود اختیار کر لینا یہ بھی نفس انسانی ہی کا کارنامہ ہے جسے نفس امارہ انجام دیتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے نزدیک کامیاب وہ ہے جو اپنے نفس کا جائزہ لے کر اس کو تابع بنائے نہ کہ تا بع باطل ۔اس کے لیے ضروری ہے کہ نفس کی کیفیتوں کی پہچان کی جائے کہ کب اور کن راستوں سے برائی کی طرف مائل ہو رہا ہے۔
حدیث مبارکہ ہے ’’جس نے اپنے نفس کو پہچانا اس نے اپنے رب کو پہچانا-‘‘ کیونکہ نفس کو ہوا کے دوش پر نہیں چھوڑا جا سکتا لیکن اس کی شرارتوں سے وہی محفوظ رہتا ہے جن پر اللہ رب العزت رحم فرمائے۔ قرآن مجید میں ہے کہ” اور میں اپنے نفس کو بے قصور نہیں بتاتابے شک نفس تو برائی کا بڑا حکم دینے والا ہے مگر جس پر میرا رب رحم کرے بیشک میرا رب بخشنے والا مہربان ہے۔“
ہر دور میں برائی اور بھلائی کی کشمکش موجود رہی ہے لہٰذا کبھی بندے کا میلان بھلائی کی طرف اور کبھی شر کی طرف ہوتا رہتا ہے۔ برائی اپنے اندر کشش رکھتی ہے اور شیطان اسے خوش نما بنا کر پیش کرتا ہے لہذا اس کی طرف مائل ہونا اسی طرح نسبتاً آسان ہے جس طرح ہر خطرہ اور مصیبت پہاڑی پر سے اترنا۔ جب کہ نیکی کو ہر مشقت پہاڑ پر چڑھنا تصور کیا جا سکتا ہے۔جہاں معاشرے کی اکثریت برائی میں پراگندہ ہو تو مزاحمتی قوت نفس اور ضمیر کی آواز ماند پڑ جاتی ہے گویا ماحول اور معاشرہ انسانی نفس پر اثرات مرتب کرتا ہے- لہٰذا نفس کو جس شے کا عادی بنا دیا جائے وہ ا سے اختیار کر لیتا ہے اگر نیکی پر مشتمل معاشرہ ہوگا تو فرد کا میلان خودبخود خیر کی جانب ہوگا لیکن اس کی ابتداء کیسے کی جائے دراصل یہ انتھک محنت،اولوالغرمی ، استقامت اور نفس پر جبر کرنے کی ایک مشق ہے
جسے یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ جو لوگ بد پرہیزی کے عادی ہیں انہیں پرہیز مشکل معلوم ہوگا جو آرام کے عادی ہوں انہیں محنت مشقت مشکل کام لگتا ہے جو سنجیدہ محفلوں میں وقت گزارتے ہیں انہیں ہنسی مذاق سے کبھی دلچسپی نہیں ہوگی۔ جو وقت کے پابند ہوں ان کے لیے وقت کا ضیاع کوفت کا باعث ہوگا ۔ اس طرح بخیل کو مال خرچ کرنے، سخی کو بخل کی تربیت دینا مشکل ہے لیکن یہ تمام کام اگر ایک ٹریننگ یا مشکل کی صورت میں چند روز عزم ارادے کی پختگی سے کیے جائیں تو بالآخر نفس بخوشی اس کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ اور نفس مطمئنہ کی کیفیت پیدا ہونے لگتی ہے اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے سورہ حجرات میں یوں بیان فرمایا – ترجمہ :”اللہ تعالیٰ نے ایمان کو تمہارے لیے محبوب بنا دیا ہے اور اسے تمہارے دلوں میں زینت دے رکھی ہے اور کفر کو اور گناہ کو اور نافرمانی کو تمہارے نگاہوں میں ناپسندیدہ بنا دیا ہے، یہی لوگ راہ یافتہ ہیں۔“
یہ اللہ کا احسان عظیم ہے اپنے ان بندوں پر جو اپنے نفس کی خواہشات پر بن چکے ہو اور گناہ نافرمانی اور فسق کو چھوڑ چکے ہو یہی نفس مطمئنہ کی لذت کو پا سکتے ہیں۔ ”اور جو اپنے نفس کے لالچ سے بچایا جائے پس وہی لوگ کامیاب ہیں۔“درحقیقت نفس بخل اور بزدلی کی طرف جلد آمادہ ہو تے ہیں -شاعر نے بھی اسی جمال کو یوں بیان کیا ہے ۔
نہ ہنگ و اژدھا و شیر نر مارا تو کیا مارا
بڑے موذی کو مارا نفس امارہ کو گر مارا
گویا اخروی کا میابی کا دارومدار نفس کو صاف کر کے کھوٹ سے پاک کر نے میں ہے ۔جس نے اسے پاک کیا وہ کامیاب ہوا۔اور جس نے اسے خاک میں ملا دیا وہ ناکام ہوا۔اس آیات کا مفہوم یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ آدمی اپنی کوتاہیوں لغزشوں اور کمزوروں کو ادنیٰ نہ سمجھے بلکہ فوراً رجوع الی اللہ کے ذریعے اپنی غلطی پر نادم ہو۔ جس میں ندامت اور اعتراف معاصی صفت نہیں وہ اپنے نفس کی آواز کو دبا رہا ہے ۔
ایک اور حدیث کا مفہوم ہے کہ مومن اپنے گناہ کو پہاڑ کی مانند سمجھتا ہے جبکہ کافر ا سے ناک پر بیٹھی مکھی خیال کرتا ہے ۔اس لیے ضروری ہے کہ جس طرح جسمانی بیماری کی صورت میں طبیب سے ماہانہ اور سالانہ مشورہ کرنا پڑتا ہے اسی طرح روحانی اصلاح اور علاج کے لیے بھی ہر لمحہ اور ہر آن اپنے آپ کو ضمیر کی عدالت میں کھڑا کیا جائے کیوں کہ روح کی پاکیزگی مقصود ہیں۔”محاسبہ کیا کرو اپنے نفس کا قبل اس کے کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے۔“
یہ انسان کی خوش قسمتی ہے کہ اللہ رب العزت نے اس کے اندر میٹر نصب کر دیا جو حق وباطل کا امتیاز سکھا دیتا ہے۔ اس کے لیے کسی خانقاہوں میں جانے کی ضرورت نہیں اور یہ میٹر قلب کی شکل میں ہر آن خبردار کرتا رہتا ہے۔ ”گناہ وہ ہے جو تیرے دل میں کھٹکے۔“قلب جسے تمناؤں اور آرزوں کا تھیلا کہا گیا ہے جس کی کیفیت ایک سی نہیں رہتی جس حدیث میں یوں بیان کیا گیا ہے- انسانی جسم میں ایک عضو ایسا ہے اگر وہ درست ہو تو پورا جسم درست ہے اگر وہ فساد کرے تو پورا جسم بگڑ جاتا ہے خبردار رہو وہ عضو دل ہے۔
یہ انسان پر منحصر ہے کہ وہ کس قسم کے جذبات کواپنے اندر پلنے دیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جیسے جذبات ہوں گے ویسے ہی روئیے تشکیل پاتے ہیں جیسے روئیے تشکیل پاتے ہیں ویسی شخصیت تیار ہوتی ہے۔ روز مرہ زندگی میں ہم اپنے نفس کو بیسوں بار بیدار کرتے اور سلاتے رہنے کی مشق کر رہے ہوتے ہیں طرح طرح کے جذبات سے ہمارا واسطہ پڑتا ہے جن میں سے خوشی، غم ،انتقام ،خوف اور امید نہایت اہم ہیں۔
اگر جائزہ لیا جائے کہ کون سے موقع پر ہمارے نفس میں کون سے جذبہ پیدا ہو رہے ہیں ۔جب فریقِ مخالف سے اپنی ذات کی خاطر انتقام لینا ہو۔ خوشی کے موقع پر کن جذبات سے مغلوب ہو کر ہم نفس کی رو میں بہہ جاتے ہیں۔ مادہ پرستی کی دور میں حق کا ساتھ دینے میں کس قسم کے جذبات کا رفرما ہوتے ہیں ۔کسی انجان راستے میں سفر کرتے ہوئے کون سے اندیشے لاحق ہوتے ہیں ۔اس قسم کے سوالات کے ذریعے نفس امارہ کو شکست دے کر نفسِ لوامۃ کو سمجھا جاسکتا ہے اور اسے نفس مطمئنہ میں ڈالا جا سکتا ہے۔نفس کی تبدیلی جذبات کی تبدیلی سے مشروط ہے:
ایک دفعہ نبی کریم ﷺکے پاس مال غنیمت میں سے بہت سی بھیڑ، بکریاں اور اونٹ آئے جسے دیکھ کر مہاجرین بہت خوش ہوئے۔ آپ ﷺنے وہ تمام کے تمام مہاجرین میں تقسیم کر دیے۔ یہ بات انصار پر گراں گزری اور ان کے دلوں میں شکایات پیدا ہونے لگیں۔ آخر انہوں نے اپنے ایک فرد کو نبی کریم ﷺ کی خدمت میں بھیجا آپ صلی اللہ وسلم جاننے کے باوجود ان کی شکایات سنتے رہے پھر آپ ﷺنے ان سے سوال کیا!” کیا تم یہ پسند کرتے ہو کہ دوسرے لوگ تو مویشی لے کر اپنے گھروں کو جائیں اور تم اپنے ساتھ اللہ کے رسول کو لے کر جاؤ ۔“یہ سن کر ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور انہوں نے کہا کہ” ہم اللہ کے رسول کی معیت پر راضی ہیں۔ اسی طرح صحابہ کرام اور بزرگان دین کے واقعات نے مجاہدین نفس اور اپنے جذبات کو مثبت جانب مائل کرکے جو تابناک مثال قائم کی ہیں۔ وہ ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔
مثلا ًحضرت علیؓ کا ایک شخص سے جھگڑا ہوا جب آپ نے اسے پچھاڑ دیا تو اس نے غصے میں آکر آپؓ پرتھوک دیا آپ یہ کہہ کے جھگڑے سے دستبردار ہوگئے کہ پہلے حق کی خاطر لڑ رہا تھا اب اپنی ذات کی خاطر نہیں لڑوں گا۔ اسی طرح ایک بزرگ نے جب یہ سنا کہ فلاں شخص ان کی غیبت کیا کرتا تھا تو اس کے گھر کھجور کا ایک ٹوکرا بھجوا دیا اور کہہ دیا کہ سنا ہے کہ تم روزے قیامت مجھے اپنی نیکیاں دو گے تو میں نے دنیا میں ہی اس کا بدلہ تمہیں دے دیا۔
ایک دفعہ مولانا مودودی ؒنے یہ جانتے ہوئے کہ فلاں امام جو آپ کی مخالفت میں پیش پیش ہیں ان کے اقتدا میں نماز پڑھی۔ جب سوال کیا گیا کہ جب آپ انہیں اپنا امام تسلیم نہیں کرتے تو ان کے پیچھے نماز کیسے پڑھ لیتے ہیں تو آپ نے جواب دیا! جتنا قرآن و سنت کو میں نے سمجھا ہے اس میں مجھے یہ بات نہیں ملی کہ اگر امام کسی کی مخالفت کرے تو اس کے پیچھے اس کی نماز نہیں ہوگی ۔
اس تناظر میں جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ نفس کی چالیں اور شرارتیں تو قائم و دائم رہتی ہیں ۔لیکن نفس مطمئنہ پر اپنا اثر ڈالنے میں ناکام رہتی ہیں یہ طریقہ اور ہنر اللہ رب العزت نے صالحین کو سکھا دیا۔
”اور نیکی اور بدی برابرنہیں ہوتی۔ تم بدی کا دِفاع ایسے طریقے سے کرو جو بہترین ہو۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ جس کے اور تمہارے درمیان دُشمنی تھی، وہ دیکھتے ہی دیکھتے ایسا ہوجائے گا جیسے وہ (تمہارا) جگری دوست ہو۔ اور یہ بات نہیں دی جاتی مگر انہیں جو صابر ہوتے ہیں اور یہ بات نہیں دی جاتی مگر اس کو جو بڑا بخت والا ہے۔“

حصہ