اپنے بچوں کی فکر کیجئے

256

ایک سروے کے مطابق پاکستان میں 5 سے 16 سال کی عمر کے تقریباً 7 کروڑ بچے ہیں۔ ان بچوں میں اسکول جانے یا باقاعدہ تدریس سے منسلک بچوں کی تعداد 3.1 کروڑ کے قریب ہے۔ اسکول میں اس غرض سے داخلہ کرادینا کہ بچے کی اچھی تعلیم و تربیت ہو جائے گی پاکستان کے تمام ہی شہری علاقوں میں والدین کا عمومی رحجان ہے کیونکہ دیہی علاقوں میں تو اسکول کی سہولت ہی صحیح طورسے میسر نہیں ۔اسکولوں کا مجموعی منظر نامہ خصوصاً کورونا کی وبا کے بعد یہی سامنے آیا کہ بس وہ سب ایک ’کاروبار‘ بن چکے ہیں ، جن کو مطلب صرف فیسوں سے ہے ، ان فیسوں سے تنخواہیں و دیگر اِخراجات پورے کیے جاتے ہیں ۔ان کا اول و آخر مدعا ہی کاروبار چلانا ہے ، بہت کم ، انتہائی قلیل تعداد میں ایسے تعلیمی ادارے ہوں گے جن کا مقصد اعلیٰ اخلاقی اقدار وتربیت دینا ہوگا۔ایسی صورتحال میں اب یہ بات ہمارے سامنے ہی کی ہے کہ تعلیمی اداروں سے جو نسل تیار ہو کر نکلتی ہے وہ معاشرے میں خیر کے فروغ کا سبب نہیں بن رہی ۔ اُس کی ایک وجہ یہی ہے کہ ان تعلیمی اداروں یا تعلیمی نظام کا قیام انگریزدور میں انگریز ذہن کی پیداوار ہے جہاں سے اُس کو غلام ، نوکر مائنڈ سیٹ درکار تھا سو وہ آج بھی قدرے بدلی شکل میں ہمارے درمیان موجود ہے۔یہ بات ٹھیک ہے کہ ماں کی گود بچوں کی اہم و بنیادی درس گاہ ہے مگر اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ ان اسکولوں یا تعلیمی نظام سے بغیر تربیت والی تیار شدہ مائیں ہی تو نئی نسل کو اُسی طرز پر اُنہی نتائج کے ساتھ پروان چڑھا رہی ہیں۔ا سکول میں تعلیم کے نام پر ’معلومات‘ کی بھرمار تو ہے مگر تربیت کا بہت فقدان ہےجہاں انگلش‘ ریاضی اور سائنس پر توخاص توجہ دی جاتی ہے مگر بچوں کی سیرت کے نکھار پر توجہ نہیں دی جاتی۔ صرف اپنے اطراف گلی محلہ کے یا بڑے نام والے مخلوط اسکولوں کا ماحول کا جائزہ لے کردیکھ لیں ۔ وہاں سے سکھائی جانے والی روایات، آرام و سکون سے سیکولر بنا دیتی ہے کہ بچی اسٹیج پر ڈانس کرتی ہے اور ماں باپ سامنے بیٹھ کر تالیاںبجاتے ہیں۔ ایسے حالات و تربیت کو آپ ذہن میں رکھیں تو اندازہ ہوگا کہ یہی وہ وقت ہے جب ہمیں اپنی نسل کو درست سمت لانا ہے۔
جماعتِ اسلامی پاکستان ملک کی سب سے بڑی نظریاتی و انقلابی جماعت ہے جس کی پشت پر ایک زبردست تاریخ اور بنیادوں میں عظیم الشان لٹریچر موجود ہے ۔اس نظریاتی و فکری لٹریچر کی بدولت 79سال سے جماعت اسلامی اپنی جگہ تناور درخت کی مانند کھڑی ہے اور دنیا بھر میں اپنی شاخیں پھیلا چکی ہے ۔جماعت اسلامی کے بانی و قائد امام سید ابو الاعلیٰ مودودی علیہ رحمہ نے ایسے انداز سے جماعت اسلامی کی ساخت مرتب کی کہ آج جماعت اسلامی زندگی کے ہرشعبہ میں اپنی مکمل شناخت کے ساتھ موجود ہے ۔خواتین ، مرد، طلبہ طالبات، نوجوان،یہاں تک کہ اقلیت بھی ، پھریہی نہیں پیشہ وارانہ لحاظ سے ڈاکٹر، علماء، انجینئر، اکاؤنٹنٹ،وکلا، مزدور، سمیت تمام محاذوں پر جماعت اسلامی آپ کو نظر آجائیگی۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے ۔ قیام پاکستان کے وقت سے ہی قائم ہونے اور ایک منظم و مستحکم روایات کی امین ہونے کی وجہ سے ملک میں سیاست کے تمام ٹرینڈز ( بشکل خدمت) جماعت اسلامی ہی سے لوگوں یا جماعتوں نے سیکھے ہیں۔ دھرنے ، کیمپ و ترانوں کی مثال بھی کافی ہے یہ تقلید والی بات سمجھانے کے لیے ۔
ایک وقت تھا جب سوشل ازم کا پاکستان میں نظریاتی و فکری و عملی محاذ پر سخت مقابلہ تھا اور ہر جانب سے تھا۔جماعت اسلامی نے الحمدللہ ہر ہر محاذ پر اس کو شکست دی لیکن اس کی جگہ لینے والا آج کا ’سرمایہ دارانہ نظام‘ مغربی تہذیب کی شکل میں پوری طرح سے سیاسی ، سماجی، معاشی غلبہ پا چکا ہے ۔جماعت اسلامی الحمدللہ پورے شعور کے ساتھ اس شیطانی تہذیب سے لڑنے کے لیے میدان عمل میں موجود ہے ۔نئی نسل کو اس تہذیب کے اثرات سے بچانے اور ان کی تربیت کے لیے جماعت اسلامی نے شعبہ اطفال کے قیام کا فیصلہ کیا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ کام مطلب بچوں میں جماعت اسلامی نے کبھی دعوت دین کا کام نہیں کیا ۔فرق صرف منظم کوشش کا ہے۔ جماعت اسلامی جموعی طور پر تو دین پر عمل اور اس کو قائم کرنے کی دعوت دینے والی جماعت ہے اور اس کے مخاطبین کے لیے عمر و جنس کی کوئی قید نہیں ہے ۔ اس لیے بچوں کو بچہ ہونے کی وجہ سے پہلے بھی کبھی نظر انداز نہیںکیا گیا۔ چرم قربانی کی مہم ہو یا اچھے ساتھی کی تنظیم۔ بچوں کے رسائل کا ایک بڑا جال ہے ، جماعت اسلامی کا خواتین ونگ اس حوالے سے خاصا متحرک ہے ۔ جماعت اسلامی کے تحت سیکڑوں اسکول و مدارس بھی کام کر رہے ہیں ۔
ہم اپنے مستقبل کے اس سرمایہ کو اقامتِ دین کے تصور سے ہم آہنگ کرنے اور نوخیز ذہنوں کی ایک منظم انداز سے آبیاری کے لیے یہ باقاعدہ شعبہ ترتیب دیا گیا ہے ۔جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق نے عمیر ادریس کو پاکستان بھر میں شعبہ کا انچارج مقرر کیا ہے جبکہ ان کے ساتھ عمار محبوب ، فصیح اللہ حسینی،نجیب حنفی اور علی ارسلان شعبہ اطفال پاکستان کی مرکزی ٹیم کا حصہ ہیں۔ اس شعبے کا جب اعلان ہوا اور کام کا آغاز ہوا تو اندازہ ہوا کہ یہ کام یا اس نوعیت کے کام کی ضرورت کو سب بہت عرصے سے محسوس کر رہےتھے ۔
جماعتِ اسلامی کراچی نے بھی منصوبہ بندی کی روشنی میں کراچی میں ایک ریسورس سینٹر شعبہ اطفال قائم کر دیا ہے ۔ انجینئر سلیم اظہر صاحب (نائب امیر جماعت اسلامی کراچی) کو اس شعبہ کا نگران اور فصیح اللہ حسینی کو اس کا ناظم ریسورس سینٹر شعبہ اطفال مقرر کیا ہے۔ کراچی کے بعد اضلاع کی سطح پر شعبہ کے قیام کی کوششیں کی جا رہی ہیں ۔کچھ اضلا ع میں ذمہ داران کا تقرر ہو گیا کچھ جگہ جاری ہے ، لیکن بہر حال سب نے اس کام کی اہمیت و ضرورت کو سمجھا ہے۔ کراچی کے ریسورس سینٹر کے بارے میں فصیح اللہ حسینی بتاتے ہیں کہ ’اس سینٹر کا بنیادی کام منصوبہ بندی، تربیتی نصاب، آڈیو ویڈیو مواد کی تیاری اور اسکولوں کے لیے معاون تربیتی مواد کی تیاری ہوگا۔اس کے ساتھ ہی شعبہ اطفال کے تحت برادر تنظیمات، تحریکی اسکولوں اور رفاہی انجمنوں کے تحت ہونے والے اطفال کے کام میں معاونت و مشاورت بھی ہمارے پیشِ نظر ہے۔اسی طرح شعبہ اطفال جماعتِ اسلامی حلقہ خواتین کراچی کے نظم نے بھی شعبہ اطفال کے دائرہ کار اور لائحہ عمل اور کام کے طریقے پر گفتگو اور تعاون کی یقین دہانی بھی کرائی۔ انہوں نے بتایا کہ ’ضلع اسلام آباد میں بھی یہ کام شعبہ اطفال اور بزمِ پیغام مشترکہ طور پر انجام دے رہے ہیں جس کے مثبت ثمرات حاصل ہو رہے ہیں ۔‘‘

حصہ