پروفیسرڈاکٹر ریاض احمد جامعہ کراچی کے’’شعبۂ نفسیات‘‘ کے مایہ ناز ادارے ’’انسٹی ٹیوٹ آف کلینکل سائیکالوجی‘‘کے سابق سربراہ ہیں۔ آپ کلینکل سائیکالوجی میں ڈاکٹریٹ ہیں اور گزشتہ کئی سالوں سے کلینکل سائیکالوجی سے وابستہ ہیں۔نفسیات سے متعلق مختلف موضوعات پر آپ کے تحقیقی مقالے قومی اور بین الاقوامی سطح پر شائع ہوچکے ہیں۔ ذہنی و نفسیاتی مسائل کی تشخیص اور اُن کے علاج پر آپ مہارت رکھتے ہیں۔آپ سے ایک ملاقات میں ذہنی نفسیاتی مسائل اور اس سے متعلقہ موضوعات پر تفصیلی بات چیت ہوئی ،گفتگو کے آغاز میں ڈاکٹر صاحب سے ہم نے پوچھا کہ ہمارے یہاں ذہنی صحت زوال پذیر ہے، اعصابی تناؤ میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے ہر شخص کسی نہ کسی ذہنی بیماری کا شکار ہے۔کیا آپ کو بھی ایسا ہی لگتا ہے تو پروفیسر ڈاکٹر ریاض احم نے فرمایا “”معاشرے میں ذہنی صحت سے متعلق منفی رجحانات، بیماریوں، ذہنی پریشانیوں، پریشان خیالی اور نسبتاً کم صحت مند رجحانات کی بڑی وجہ خواہشات کا بڑھ جانا اور تعیشاتِ زندگی کے حصول میں مقابلے کے رجحان نے خصوصاً ان حالات میں جب وسائل محدود ہوں، لوگوں میں بے اطمینانی اور تناؤ کو جنم دیا ہے۔ آپس کے تعلقات میں کھنچاؤ اور لاتعلقی در آنے سے افراد میں تنہائی کا احساس بڑھ گیا ہے۔ خوشی کے مواقع اور معاشرتی اور سماجی سپورٹ کی کمی بڑی حد تک انسان کو بے چین اور خوفزدہ کردیتی ہے۔ یہی عوامل جب حد سے بڑھ جائیں تو ذہنی بیماریوں کا سبب بھی بن سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ خاندانی نظام، والدین کے متضاد رویّے، اساتذہ کی اپنے شاگردوں کے بارے میں عدم دلچسپی، غیر منصفانہ نظام اور معاشی تفریق بھی ذہنی پسماندگی کے اسباب ہیں۔
اسی پس منظر میں ایک اور سوال کیا کہ ہمارے معاشرے میں ماضی کے مقابلے میں عدم برداشت اور تشدد کے رجحان میں بھی اضافہ ہورہا ہے، آپ کے خیال میں اس کا سدباب کس طرح ممکن ہےتو آپ کا کہنا تھا کہ “” روزمرہ کی فرسٹریشنز جن کا کوئی مثبت نکاس نہ ہو، عدم برداشت کو جنم دیتی ہیں۔ عموماً تشدد اس کا انتہائی نتیجہ ہوتا ہے۔ اپنی ذات پر حد سے بڑھا ہوا ارتکاز، اور صرف اپنے بارے میں سوچنا بھی انسان کو عدم برداشت کی طرف لے جاتا ہے۔ اس کا سدباب لوگوں میں مثبت سوچ اور باہمی تعلق کو پروان چڑھا کر ہی کیا جاسکتا ہے۔ اس کے مختلف طریقے ہوسکتے ہیں جن میں صحت مند سرگرمیوں میں حصہ لینا، جیسا کہ کھیل اور دوسری صحت مند سرگرمیاں، دوسرے کے نقطہ نظر کو سننے کی بچپن سے عادت ڈالنا، اور بچپن سے ہی تربیت میں جسمانی تشدد یا جھگڑے کی حوصلہ شکنی شامل ہے۔ اچھی اور مثبت مصروفیات انسانی ذہن سے اضطراب اور غصے کی شدت کو کم کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔
ہم نے اسی ضمن عرض کیا کہ ڈاکٹر صاحب ویسے تو کہا جاتا ہے کہ وہم کا علاج تو لقمان حکیم کے پاس بھی نہیں تھا، لیکن ہر دوسرا شخص اس بیماری کا شکار ہے، آخر یہ کیوں ہوتا ہے اور اس کا واقعی کوئی علاج نہیں ہے؟ تو پروفیسر ڈاکٹر ریاض احمد نے جواب میں فرمایا”” معاشرے میں تواتر کے ساتھ استعمال ہونے والی اس طرح کے اقوال دراصل ان رویوں کے بارے میں ہوتے ہیں جو عام افراد کے بارے میں وضع کیے جاتے ہیں۔ ذہنی امراض سے نبردآزما افراد میں وہم دراصل کچھ خاص ذہنی امراض کا شاخسانہ ہوتا ہے جس کی شدت عام افراد میں پائے جانے والے وہم کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوتی ہے۔ ایسا وہم جو اتنی شدت سے ہو اور جس پر مریض کو مکمل یقین ہو باوجود اس کے مخالف دستیاب ثبوتوں کے، یہ ذہنی امراض کی نشانیوں میں سے ایک ہے۔ اس کا علاج یقینا موجود ہے اگرچہ کہ کافی وقت طلب اور محنت طلب ہے۔ دوا کے ساتھ ساتھ سائیکو تھراپی اور کونسلنگ کا استعمال اس میں بہتری لاسکتا ہے۔
اسی طرح ہم سب میں پائی جانے والی ایک عمومی بیماری غصّہ کے بارے پوچھا کہ یہ کیو ں آتا ہے اور یہ کب ایک بیماری کی صورت اختیار کرلیتا ہے اور پھر اس سے کس طرح بچا جاسکتا ہے؟ تو آپ نے فرمایا”” غصہ آنا فطری عمل ہے۔ یہ ایک انسانی جذبہ ہے جس سے فرار ممکن نہیں۔ غصہ آنے کے اظہار کا ’’طریقہ‘‘ اس کو صحیح اور غلط بناتا ہے۔ جب غصے کو دبایا جاتا ہے یا اسے غیر حقیقی انداز میں برتا جاتا ہے تو انسان مسائل کا شکار ہوسکتا ہے۔ اگر افراد کو یہ سکھادیا جائے کہ غصے کا مثبت انداز میں کیسے اظہار کیا جاسکتا ہے اور اپنے آپ پر قابو رکھتے ہوئے کس طرح اپنا نکتہ نظر دوسرے فرد تک پہنچایا جاسکتا ہے تو فرد اپنے اور دوسروں کے لیے تکلیف کا باعث نہیں بنتا۔ بنیادی طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ ہمارے ہاں لوگوں میں Assertive Communication Skillsکی کمی کے باعث غصے کا اظہار ایک منفی رُخ اختیار کرجاتا ہے۔ خود پسندی اور اپنی رائے ہی کو صحیح سمجھنا بھی غصے کے اسباب ہوسکتے ہیں۔
بات آگے بڑحی تو میں نے سوال کیا کہ “”کیا یکسوئی کا نہ ہونا بھی کوئی ذہنی مرض ہے؟ زندگی میں یکسوئی کس طرح پیدا ہوسکتی ہے ؟تو اس بارے میں آپ کا کہنا تھا کہ یکسوئی کا نہ ہونا بجائے خودکوئی ذہنی مرض نہیں، مگر یہ مختلف ذہنی امراض یا پریشانیوں کا نتیجہ بھی ہوسکتا ہے۔ اکثر ڈپریشن میں مبتلا مریض یکسوئی سے متعلق مسائل کا شکار ہوتے ہیں۔ یکسوئی ایک صحت مند معمولِ زندگی اور بامقصد زندگی کے ساتھ ہی ممکن ہے۔ اگر آپ کو کوئی کام پسند ہے یا بالفرض آپ اپنی پسندیدہ کتاب پڑھ رہے ہوں یا فلم دیکھ رہے ہوں تو آپ دیکھیں گے کہ آپ اس میں کتنا مگن اور یکسو ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح اگر آپ کی زندگی کا ایک مقصد ہو جو آپ کی پسند کے مطابق ہو تو یکسوئی کے ساتھ کام کرنا ممکن ہے۔ یعنی عدم دلچسپی، ناکامی کا خوف اور احساسِ کمتری جیسے مسائل یکسوئی میں کمی کا باعث ہوسکتے ہیں۔
موبائل فون کا ہمارے سماج میں کثرتِ سے استعمال ہے چھوٹے بڑے سب کا ایک ہی حال ہے جب ڈاکٹر صاحب سے پوچھ کہ کیا یہ موبائل انسان کی ذہنی صحت کے لیے کسی خطرے کی علامت ہے؟تو آپ کا کہنا تھا کہ موبائل فون کا کثرت سے استعمال چھوٹے اور بڑھتے ہوئے بچوں کی ذہنی صحت کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔ اس سے ان کی ذہنی نشوونما متاثر ہوتی ہے۔ بڑوں کے لیے بھی صحت کے مختلف مسائل اس کا نتیجہ ہوسکتے ہیں۔ ذہنی صحت کے لحاظ سے موبائل فون کا استعمال اگر زیادہ ہو تو یہ فرد کے تنہائی کا شکار ہونے، اپنے آس پاس کے لوگوں سے کٹ جانے، باہمی ربط و ضبط میں خرابی اور بڑھتی ہوئی بے چینی کا باعث ہوسکتا ہے۔ خصوصاً موبائل فون پر سماجی میڈیا میں بڑھتی ہوئی دلچسپی لمحۂ فکریہ ہے۔
آخر میں پوچھاکہ ڈاکٹر صاحب یہ بتائیے کہ “”کیا شاعری اور دماغ کا بڑا گہرا تعلق ہے۔ کیا سائنس دانوں، شاعروں، ادیبوں یا دوسرے تخلیق کاروں کی دماغی صلاحیتیں دوسروں سے زیادہ ہوتی ہیں؟
تو اس ضمن پروفیسر ڈاکٹر ریاض احمد کا کہنا تھا کہ “” دنیا میں ہر شعبے میں دماغی صلاحیتیں درکار ہوتی ہیں۔ چاہے کوئی سائنس دان ہو، شاعر ہو یا ادیب یا کوئی حساب دان… ہر شعبے کے لیے کچھ خاص قسم کی صلاحیتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی لیے اکثر لوگ اپنی خاص صلاحیتوں کے لحاظ سے مختلف شعبوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ مثلاً کسی بچے میں اگر موسیقی سے متعلق غیر معمولی صلاحیتیں ہیں تو شاید اسے حساب سمجھنے میں دشواری ہو، اسی طرح کوئی بچہ سائنس میں اچھا ہو تو ضروری نہیں کہ ادب بھی اس کو بہت اچھی طرح سمجھ میں آتا ہو۔ غرض یہ کہ متفرق صلاحیتیں بہرحال دماغ سے تعلق رکھتی ہیں، وہ کم یا زیادہ ہوسکتی ہیں۔ اگر زیادہ ہوں اور محنت بھی ہو تو فرد اپنے منتخب کردہ شعبے میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتا ہے، ورنہ اوسط درجے پر رہتا ہے۔