ایک امیر کبیرسودا گر گھوڑے پر سوار ہو کر جا رہا تھا۔اس کے پاس جواہرات اور سُچے موتیوں سے بھری ہوئی چار تھیلیاں تھیں۔ان سُچے موتیوں کو بیچ کروہ تجارت کا سامان خریدنے کی غرض سے یہ سفر کررہا تھا۔اچانک وہ راستہ بھول کر ایک صحرا میں جا نکلا۔
اس کے پاس دولت تو بہت زیادہ تھی ،لیکن کھانے پینے کا سامان نہ ہونے کے برابر تھا۔چھا گل(پانی کی بوتل)میں تھوڑا پانی تھا،جوتپتے ہوئے صحرا میں داخل ہوتے ہی اس نے پی لیا۔گرم ریت پر تھوڑا بھی چلنے کے قابل نہ رہا۔رفتہ رفتہ اسے بھوک پیاس نے تنگ کرنا شروع کیا۔
وہ اگر اونٹ پر سوار ہوتا تو شاید اس مصیبت کا مقابلہ کر لیتا،کیونکہ اونٹ تو صحرا کا جہاز کہلاتاہے۔
گھوڑا صحرا کی ریت پر گر کر تڑپنے لگا تو سودا گرتھیلیوں کو سنبھال کر پیدل ہی چل نکلا۔
تھوڑی دور اسے ایک کانٹوں والی بہت بڑی جھاڑی دکھائی دی۔
سودا گر اس کے سائے میں بیٹھ گیا ۔اس نے اپنی کمر سے بندھی ہوئی چاروں تھیلیاں نکالیں،پھر چمکتے ہوئے قیمتی موتیوں کو غور سے دیکھنے لگا۔وہ موتی جن کی چمک سے وہ خوش ہوا کرتا تھا،اسے پتھروں سے بھی کم قیمت لگ رہے تھے۔اس کی صرف ایک ہی خواہش تھی کہ کاش وہ جواہر کے دانے جوار یا گندم کے دانوں میں تبدیل ہو جاتے،کم از کم اس کی بھوک تو مٹ جاتی۔
رفتہ رفتہ سورج ڈھلنے لگا تو صحرا کی گرم ریت ٹھنڈی ہو گئی۔اس نے جھاڑی کی جڑوں کوکھودا،تو گیلی ریت دیکھ کر بہت خوش ہوا۔گیلی جڑوں کو چوس کر اس نے اپنی پیاس بجھانے کی کوشش کی۔اب بھوک نے اس کا برا حال کر دیا۔رات ختم ہوئی تو اس نے سورج سر پر آنے سے پہلے صحرا سے نکل جانے کا ارادہ کیا لیکن وہ صحرا اتنا بڑا تھا کہ سوداگر چلتے چلتے تھک کر چور ہو گیا مگر صحرا ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔
دھوپ میں تیزی آئی تو جواہرات کی قیمتی تھیلیاں اسے بڑی بوجھل محسوس ہونے لگیں۔اس نے چاروں تھیلیوں کو غور سے دیکھا ،پھر سب سے بڑی تھیلی ناکارہ بوجھ کی طرح ریت پر پھینک دی۔اسے تھوڑا سا دکھ ضرور ہوا لیکن موتیوں کو وہ چوں کہ کھا نہیں سکتا تھا،لہٰذا اس وقت وہ کسی کام کے نہیں تھے۔
تھوڑی دور جاکر اس نے دوسری تھیلی سے بھی نجات حاصل کرلی۔اس طرح اس نے چاروں تھیلیوں کو صحرا میں پھینک کر اپنابوجھ ہلکا کر لیا۔آخر ی تھیلی پھینکتے ہوئے اسے ذرا بھی دکھ نہ ہوا۔اس لیے کہ اس کی بھوک اسے پاگل کیے دے رہی تھی۔وہ باربار ایک ہی فقرہ دہرارہا تھا۔
جواہر کے دانوں سے جوار کے دانے بہتر ہوتے ہیں۔بھوک پیاس کی شدت سے جب وہ مرنے کے قریب ہو گیا تو اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔اس نے بڑی عاجزی سے خدا کے حضور دعا کی:”اے میرے خدا!توان جواہرات کی چار تھیلیوں کے بدلے مجھے صرف ایک تھیلی چنوں کی عطا کردے تاکہ بھوک کے اس عذاب سے میری جان چھوٹ جائے۔“
کہتے ہیں سچے دل سے مانگی ہوئی دعا ضرور قبول ہوتی ہے۔سودا گر کو تھوڑی دور درختوں کا ایک جھنڈ دکھائی دیا۔یہ ایک چھوٹا سا نخلستان تھاجو صحرا میں زندگی کی ضمانت سمجھا جاتاہے۔اس نخلستان میں پانی کا ایک چشمہ بھی بہہ رہا تھا۔
سوداگر نے اپنی پیاس بجائی تو اس کی جان میں جان آئی ۔تھوڑی دیر بعد اس کی بھوک اور زیادہ چمک اٹھی۔اچانک اسے بالکل ویسی ہی تھیلی نظر آئی۔جیسی اس نے سب سے پہلے صحرا میں پھینکی تھی۔اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔تھیلی موتیوں سے بھری ہوئی دکھائی دے رہی تھی۔
اس نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے تھیلی کو کھولا،ایک بار پھر اس نے عاجزی سے خدا سے دعا کی:”یا اللہ!اس تھیلی میں اگر سُچے موتی ہیں تو ان کو بھنے ہوئے چنوں میں بدل دے۔
اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ رہا،جب اس نے دیکھا کہ تھیلی بھنے ہوئے چنوں اور جوارکے دانوں سے بھری ہوئی تھی۔
اس نے خدا کی اس نعمت پر لاکھ لاکھ شکر اداکیا۔وہ سودا گر اپنی جان بچا کر صحرا سے واپس آیاتو بالکل بدلا ہوا انسان تھا۔یہ واقعہ وہ اپنے دوستوں کو سناتا اور کہتا کہ امیر سے امیر اور غریب سے غریب انسان میں صرف دو ایک وقت کی روٹی کا فرق ہوتا ہے۔لہٰذا دولت کی ہوس میں انسان کو کوئی غلط کام نہیں کرنا چاہیے۔
سبق
جو دعا خلوص دل سے مانگی جائے، وہ ضرور قبول ہوتی ہے۔