نور احمد میرٹھی ۔”میرے بابو”

645

غیر مسلم شعراء کا حمدیہ، نعتیہ، ورثائی کلام پر آپ کی تین کتابیں ’’گلبانگِ وحدت‘‘، ’’بہر زماں بہر زباںﷺ‘‘ اور ’’بوستانِ عقیدت‘‘ جو ہزاروں صفحات پر محیط ہیں
17 جون دو ہزار گیارہ، میری خوشبو، پھول، تتلیاں، اور میرے رنگ ایک بار پھر بکھر گئے۔ پہلے کی طرح اب بھی نجانے کیوں یقین نہیں آرہا کہ میں ایک بار پھر اپنے ’’بابو‘‘ سے بچھڑ گیا ہوں۔ پہلی بار جب میں اپنے ’’بابو‘‘ یعنی اپنے والد عبدالرزاق صدیقی مرحوم مغفور سے سولہ ستمبر انیس سو تہتر کو بچھڑا تھا جب وہ اچانک رات کو مجھے سوتا چھوڑ کر پھولوں کے دیس چلے گئے تھے، مجھے یقین نہ آتا تھا اور آتا بھی کیسے، جب وہ میرے شفیق استاد سید شاہ محمد خلیل اللہ ندیم کی صورت موجود تھے۔ شاہ صاحب نے مجھے وہ ہی محبت دی جو میرے بابو مجھے دیتے تھے۔ میں اپنے بابو کی آنکھ کا تارا تھا، گھر کے دروازے سے لے کر تانبے کے ہر برتن پر میرا ہی نام چمکتا تھا۔ شاہ صاحب نے بھی اولاد کی طرح عزیز رکھا اور اپنے بڑے صاحبزادے اسد میاں سے کبھی کم نہ سمجھا، وہ میرا مزاج سمجھتے تھے، میں ان کا شاگرد بھی تھا اور اولاد بھی اور اس کا میں نے خوب فائدہ اُٹھایا وہ کبھی خفا نہ ہوئے آخری دنوں میں حالات نے مجھے ان سے کچھ دنوں کے لیے دور کردیا تھا مگر آپ نے ہمیشہ مجھے قریب رکھا، ہر آنے والے سے پہلا سوال میرے بارے میں ہی ہوتا، اور کیوں نہ ہوتا وہ میرے ’’بابو‘‘ بھی تو تھے۔
وقت کو آپ کچھ بھی کہیں یہ کبھی کاٹے نہیں کٹتا اور کبھی اپنی رفتار برق سے زیادہ تیز کرلیتا ہے۔ اور وہ رات ایک بار پھر لوٹ آئی میرے یہ ’’بابو‘‘ بھی مجھے رات میں سوتا چھوڑ کر ’’جنت البقیع‘‘ میں رہ گئے۔ اس بار بھی یقین نہیں آیا دل کہتا نہیں نہیں وہ نہیں جاسکتے وہ آئیں گے ضرور آئیں گے میری نظریں انہیں تلاش کرتی رہیں اور بالآخر میرے بابو مجھے مل گئے۔
کورنگی ٹائون میں مشاعرہ تھا ایک شخصیت سب کی توجہ کا مرکز تھی، معلوم کرنے پر پتا چلا کہ یہ نور احمد میرٹھی ہیں۔ نور احمد میرٹھی کا نام سنتے ہی برسوں پہلے دیکھی سبز رنگ کی وہ ضخیم کتاب بہر زماں بہر زباں، یاد آگئی جو سید مختار علی(شعور اکیڈمی) نے چند یوم کے لیے عاریتاً مجھے رحمت فرمائی تھی۔ اس وقت میں شدید خواہش کے باوجود نور احمد میرٹھی سے نہ مل سکا تھا۔ آج وہ میرے سامنے تھے میں نے ہمت کی اور سامنے جا کر سر جھکا دیا۔ انہوں نے بڑی محبت سے میرے گال تھپتھپائے، میں نے نظر اٹھائی تو آپ کا چہرہ، میرے بابو کا چہرہ میرے شاہ صاحب کا چہرہ سامنے تھا۔ آنسوئوں کی جھڑی سے تروتازہ میرے پھول، میری تتلیاں، میرے رنگ مجھے گھیر چکے تھے۔ آپ نے ایک چٹ پر گھر کا پتا اور فون نمبر لکھ کر دیا اور کہا کہ ’’گھر پر تشریف لائیے۔ مشاعرہ ختم ہوچکا تھا شاعروں اور منتظمین نے انہیں گھیر لیا، برسوں سے آنکھوں میں قید پانی کی جب آخری بوند نے رخسار کو بوسہ دیا تو چہرہ ہی نہیں بدن بھی پھول ہوگیا تھا۔ اس سہانی رات کا بقیہ حصہ رت جگے میں گزرا۔
دوسرے دن آپ کے مطب میں آنے والا پہلا مریض میں تھا۔ وہ بڑے تپاک سے ملے، خیریت پوچھی، گھر والوں کا احوال دریافت کیا، اپنے دواخانے کے اوقات بتائے، اپنی مصروفیات سے آگاہ کیا۔ میں نے بتایا کہ 96ء میں آپ کا مرتب کردہ تذکرہ ’’بہرزمان بہر زباںﷺ‘‘ دیکھنے کو ملا تھا اس میں درج ایک خوبصورت شعر آج بھی یاد ہے۔
یہ کائنات تو لگتا ہے نور ہو جیسے
کسی کی خاص ادا سے لکھا ہوا اک نام
آپ نے بڑے تجسس سے پوچھا ’’آپ نے بہرزماں پڑھی ہے؟‘‘ میں نے کہا پڑھی نہیں صرف چند یوم تک دیکھی ہے۔ وہ اپنے اندر بڑی اثر انگیز کیفیت رکھتی ہے۔ وہ روا روی میں نہیں پڑھی جاسکتی کیونکہ وہ روا روی میں لکھی ہی نہیں گئی ہے۔ فرمانے لگے درست کہتے ہو اس کی تحریر میں میرے بدن کا رواں رواں شامل ہے۔ آپ کل شام چار پانچ بجے کے درمیان گھر پر تشریف لائیے‘‘۔ میں نے اجازت لی کیونکہ باقاعدہ مریض آنے شروع ہوگئے تھے۔
حسب پروگرام پانچ بجے شام آپ کے دولت کدے پر حاضر ہوا۔ آپ نے دروازے پر استقبال کیا اور اپنے اسٹڈی روم میں لے گئے، اسی سے متصل اپنی ذاتی لائبریری بھی دکھائی جس میں ہزاروں قیمتی کتابیں موجود تھیں۔ میں نے بتایا کہ ’’بابو‘‘ مجھے بھی پڑھنے لکھنے کا شوق تھا مگر اب طویل عرصے سے ایک لفظ بھی نہیں لکھا ہاں ایک پبلشر لطیف احمد لطفی (مشعل راہ بک ڈپو) کے اصرار پر بچوں کے لیے ایک مختصر کتاب ’’مریم کی نظمیں‘‘ لکھی ہے جو شائع ہوچکی ہے۔ دوسرا ایڈیشن بھی آنے کو ہے یہ کتاب اسکولوں میں تیزی سے مقبول ہورہی ہیں۔ میں نے اس کی ایک کاپی انہیں پیش کی۔ وہ دیکھ کر بہت خوش ہوئے فرمایا ’’بڑے سلیقے سے شائع کی ہے آپ کے عمدہ ذوق کا پتا چلتا ہے۔ ہاں! لکھنا ترک نہ کریں اور دوبارہ جلد سے جلد لکھنا شروع کردیں‘‘۔ آپ کے لہجے اور کہنے کا انداز بالکل وہی تھا جو شاہ صاحب کا تھا میں نے وعدہ کیا اور کہا کہ جلد ہی حکم کی تعمیل ہوگی اور میری پہلی تحریر آپ پر ہوگی اور آپ کی توقع کے خلاف ہوگی۔ وہ مسکرائے، گو کہ یہ پہلی ملاقات تھی مگر اجنبیت نام کو بھی نہ تھی۔ وہ اس طرح پیش آئے جیسے میرا ان کا برسوں پرانا ساتھ ہو۔ پرتکلف تواضع کے بعد آپ نے اپنی سات عدد کتابیں، ’’گل بانگ وحدت‘‘، نور سخن، بہرزمان بہر زباںؐ، بوستان عقیدت، تذکرہ شعرائے میرٹھ، مشاہیر میرٹھ، اور شخصیات میرٹھ مجھے عطا فرمائیں۔ اور کہا کہ آپ کی تحریر کا انتظار رہے گا ہاں جب دل چاہے آپ تشریف لائیں آپ پر کوئی پابندی نہیں۔
اس ملاقات کا تاثر ابھی ختم نہ ہوپایا تھا کہ آپ کی طبیعت ناساز ہونی شروع ہوگئی۔ اچھے علاج معالجہ کے باوجود وہ سنبھل نہ سکے اور بستر سے لگ گئے۔ پتا چلا کہ کمر کے مہروں میں تکلیف ہے اور بڑا طویل علاج ہے۔ انہوں نے ہمت نہ ہاری اور مسلسل پرہیز اور علاج جاری رکھا۔ اللہ کا کرم ایک سال علاج اور فزیوتھراپی نے اس مرض سے نجات دلا دی اس دوران مجھے بھی آپ کی خدمت کا وہ موقع ملا جو میرے بابو اور شاہ صاحب نے مجھ سے نہیں لیا تھا۔
ڈھائی تین صفحات پر مبنی میری مختصر تحریر ’’اکبر وارثی سے نور احمد میرٹھی تک‘‘ آپ نے بستر پر لیٹے لیٹے ہی پڑھی اور صفحات سرہانے رکھ لیے، کچھ دیر بعد سہارے بیٹھے تو فرمایا ’’صمد صاحب! آپ کی تحریر میری توقع کے عین خلاف ہے۔ میرا خیال تھا کہ آپ سطحی اور نصابی قسم کی تحریر لکھ کر آئیں گے جس میں تعریفوں کے پُل باندھے گئے ہوں گے مگر آپ کی یہ تحریر تو اعلیٰ درجہ کا شہہ پارہ ہے۔ آپ اسے اشاعت کے لیے بھجوادیں۔ چنانچہ یہ تحریر پہلی بار کراچی کے ایک اخبار میںشائع ہوئی۔ دوسرے دن جب اخبار کی کاپی لے کر حاضر ہوا تو معروف ادیب شاہد حمید اور نعت گو شاعر عزیز الدین خاکیؔ بھی عیادت کے لیے آئے ہوئے تھے۔ آپ نے اخبار شاہد حمید کو دیا اور کہا کہ ذرا صمد میاں کی تحریر دیکھیے۔ انہوں نے بری یکسوئی سے پڑھا اور مجھے سینے سے لگالیا اپنے صاحبزادے مدثر میاں سے کہا کہ فوراً اس کی پندرہ بیس فوٹو اسٹیٹ کاپیاں کرا لائو، میری تحریر کی نقول انہوں نے اپنے احباب اہل قلم اصحاب کو بجھوائیں کہ دل چاہتا ہے کہ آپ یہ تحریر ضرور پڑھیں اور مجھ سے کہا کہ ایسی بیس پچیس تحریریں ہوجائیں تو میں ادارہ فکر نو کی جانب سے انہیں کتابی شکل میں شائع کروں گا۔ یہ کتاب اب ’’گلاب رخ‘‘ کے نام سے طباعت کے مراحل میں ہے۔ بابو تیزی سے صحت یاب ہونا شروع ہوگئے تھے۔ اس دوران آپ کی اہلیہ محترمہ فرزانہ نور اور بیٹی حبیبہ کا کردار مثالی رہا۔ انہوں نے مہمانوں کی تواضع میں کبھی کوئی کمی نہیں آنے دی جو بابو کی وضع داری کا حصہ رہی۔ بابو نے اس حال میں بھی قلم سے رشتہ برقرار رکھا اور بستر پر لیٹے لیٹے آئینہ جمال، جمال شاہ، ’’کس قیامت کے یہ نامے مرے نام آتے ہیں‘‘ شیر خان، ’’وہ فسانے تیرے‘‘ روحی فرخ، ادارہ فکر نو کی جانب سے شائع کرائیں۔ وہ بلا کے محنتی اور آہنی عزم کے مالک تھے۔
آپ کی حیات ہی میں آپ کی علمی، ادبی، تحقیقی خدمات پر جامعہ کراچی کے پروفیسر ظفر اقبال نے ’’ایم فل‘‘ کا مقالہ لکھوانے کا اعلان کیا اور سعادت جامعہ کراچی کی ایک ہونہار طالبہ فوزیہ رحیم کے حصے میں آئی۔ برادرم منظر عارفی نے اپنا حمدیہ شعری مجموعہ ’’کمالِ سخن‘‘ کا مسودہ شبیر احمد انصاری کے توسط سے بابو کو بجھوایا۔ بابو مصروفیت کی وجہ سے توجہ نہ دے سکے۔ جوں جوں اس کی اشاعت کا مرحلہ نزدیک آتا گیا منظر بھائی کی بے چینی بڑھتی گئی مگر شدید دبائو پر بابو نے اظہار خیال رقم کردیا اور یہی تحریر بابو کی زندگی کی شام کی آخری تحریر ٹھہری۔
15 جون زندگی کے آخری روشن دن وہ انور وارثی مرتبہ ’’آئینہ جمال‘‘ کے ہمراہ موٹر سائیکل پر مجھ سے ملنے مشعل راہ بک ڈپو (کورنگی) تشریف لائے۔ میرے موجود نہ ہونے کی وجہ سے پیغام دیا کہ میں فوراً آپ سے ملوں، میں جب گھر پہنچا تو ’’کمال سخن کا مسودہ آپ کے ہاتھوں میں تھا کہا کہ بس چند سطریں فائنل کرنی ہیں آپ شربت پیجیے میں نے کہا بابو آپ آرام سے لکھیے میں شام کو لے لوں گا۔ اسی دوران میں نے منظر عارفی کو فون پر خوشخبری سنادی۔
شام کو گھر پہنچا تو منظر ہی تبدیل ہوچکا تھا۔ بیٹی حبیبہ کی سرخ آنکھوں اور کمھلائے ہوئے چہرے نے ہوش اُڑا دیے۔ بیٹی نے روتے ہوئے بتایا کہ انکل! بابو کو اسپتال لے کر گئے ہیں ان کی طبیعت بہت خراب ہے۔ فوراً فرخ عبداللہ کو فون کیا تو اُس نے بتایا کہ ہم آغا خان اسپتال میں ہیں بابو پر مکمل بے ہوشی طاری ہے ہم انہیں ٹبا اسپتال کریم آباد منتقل کرنے کی تیاری کررہے ہیں آپ صبح ٹبا اسپتال میں آئیے۔
اور وہی رات ایک بار پھر لوٹ آئی لیکن اس رات میں سویا نہیں پہلی گاڑی سے اسپتال کے لیے روانہ ہوا تو راستے میں فرخ عبداللہ کا فون آیا۔ ’’بابو‘‘ ہم سے رخصت ہوگئے ہیں ہم انہیں گھر لے کر آرہے ہیں۔ میرے پھول، تتلیاں، رنگ پھر بکھر گئے ہیں میری آنکھیں ایک بار پھر ’’بابو‘‘ کی تلاش میں ہیں مجھے یقین ہے کہ میں ایک بار پھر اپنے بابو کو ڈھونڈ لوں گا کیونکہ ان کی دعائیں میرے ساتھ ہیں۔
لیکن! سُن اے عبدالصمد تاجی سُن!
تیرے والد عبدالرزاق صدیقی بڑے فیاض، بڑے وضع دار، تیرے شاہ صاحب اللہ کے برگزیدہ بندے، صاحب علم و کمال، تیرے بابو نوراحمد میرٹھی بڑے ادیب، دانشور، خلیق اور ملنسار، یہ سب بڑے لوگ تھے‘ ان کی بڑی باتیں تھیں یہ سب ان کی اعلیٰ ظرفی اور بڑا پن تھا کہ تجھے اپنی آنکھوں کا تارا سمجھا وگرنہ تو چہ پدی چہ پدی کا شوربہ۔

قائد اعظم ؒ رائٹرز گلڈپاکستان کی
جانب سے مرحومین قلم کاریاد گاری بکس ایوارڈز

قائد اعظم رائٹرز گلڈ پاکستان کی جانب سے مرحومین قلم کار یاد گاری بکس ایوارڈ کے پروگرام تقسیم ایوارڈ واسناد یافتگان کا جسٹس پینل کے اراکین نے حتمی فیصلہ کردیا ہے ۔ یہ تقریب ان شاء اللہ اسی ماہ کے آخر میں کراچی میں ہوگی ۔ جس کی صدارت ملک کی اہم شخصیت کرے گی اور مہمانان خصوصی ڈاکٹر پیر زادہ قاسم رضا صدیقی جسٹس حاذق الخیری ہوں گے ۔ ( ان شاء اللہ جسٹس چینل کے اراکین جنہوں نے ایوارڈواسناد یافتگان کا فیصلہ کیا ہے ان میں بھی نامور وممتاز اہل قلم شامل ہیں ۔ جن میں جسٹس حاذق الخیری ( سابق چیف جسٹس ، فیڈ رل شریعت کورٹ )،جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ ( سابق ۔ چیف آف آرمی اسٹاف ) مختلف یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز ڈاکٹر پیر زادہ قاسم رضا صدیقی ، ڈاکٹر اقبال محسن ، ڈاکٹر ظفر اقبال ، مختلف یونیورسٹیوں کے سابق وحاضرسروس ڈین ، ڈاکٹر معین الدین عقیل ، ڈاکٹر غزالہ ایچ رضوانی ، ڈاکٹر نثار احمد ، ڈاکٹر حسام الدین منصورے ، ڈاکٹر یاسمین سلطانہ فاروقی ، مختلف یونیورسٹیوں کے سابق وحاضر سروس صدور ڈاکٹر نثار احمد زبیری ، پروفیسر سحر انصاری ، پروفیسر نرگس رشید ، ڈاکٹر ریاض احمد ، ڈاکٹر محمد اسحاق منصوری ، پر وفیسر رفیع الدین ہاشمی ، ڈاکٹر حافظ محمد شانی ، ڈاکٹر رعنا صبا سلطان ، ڈاکٹر عابدہ پروین ، ڈاکٹر نزہت عباسی ، دیگر یونیورسٹیوں کے پروفیسر ز ، ڈاکٹر حمیر اناز غوری ، ڈاکٹر عصمت آراء ، ڈاکٹر زیبا افتخار ، ڈاکٹر حفصہ صدیقی ، ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی ، فراست رضوی ، ڈاکٹر شمع افروز ، ڈاکٹر روبی سردار ، ڈاکٹر فاطمہ حسن ، اخبارات وجرائد کے مدیران محمود شام ،سجاد میر ، مشتاق سہیل ، ملک افروز روہیلہ ، نسیم احمد شاہ کے علاوہ جسٹس ایس اے ربانی، ڈاکٹر عزیز احسن اور سید مظفر الحق ، طارق عرفان شامل ہیں ۔

حصہ