پانی کیا ہے؟ ہائڈروجن کے دو ایٹم اور آکسیجن کا ایک ایٹم مل کر پانی کا ایک مالیکیول بناتا ہے۔اور یہ مالیکیول ہی درحقیقت پوری زندگی کافلسفہ ہے۔جی ہاں! کھیتی ہو یا پیاس دونوں کو سیراب کرنے کے لئے پانی کے ماسوا دنیا میں کوئی اور کیمیکل نہیں پایا جاتا۔جوں جوں وقت نے ترقی کی اس نعمت کی مانگ اور بھی بڑھتی گئی ۔فیکٹریاں ہوں یا بجلی کی پیداوار ، ہر طرف پانی ہی پانی کی طلب نظر آتی ہے۔انسانی جسم میں پانی کی وافر مقدار نہ ہو تو ڈی ہائڈریشن کی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے۔اسی طرح زراعت کے لئے بھی پانی کی وافر مقدار ضروری ہے۔دنیا کے کئی ممالک ایسے ہیں جہاں پینے کا پانی پیٹرول سے زیادہ مہنگا ہے۔اس کی قدر وقیمت صحرا میں سمٹے ہوئے ممالک کے باسیوں سے زیادہ کون جان سکتاہے؟پانی کی ایک بوند کے لئے ترستے ہوئے لوگوں کا وجود اب ان ممالک بھی نظر آنے لگا ہے جہاں کبھی پانی کی کمی نہ ہوا کرتی تھی۔دنیا بھر میں پانی کی قلت کو محسوس کیا جانے لگا ہے۔ اس کی قدر وقیمت کو پہچانا جانے لگا ہے۔بین الاقوامی سطح پر پانی کے تحفظ کی تحریکیں چل پڑیں ہیں۔ پانی کا مسئلہ ایک عالمی مسئلہ بن چکا ہے۔کہتے ہیں کہ آنے والے وقتوں میں جنگ کی وجہ پانی کا حصول ہوگا۔ابتداء ہوچکی ہے۔ سندھ طاس معاہدے کی سرعام خلاف ورزیاںاور دوسری طرف دریائے کابل پر بلا جواز تحفظات کا اظہار اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ پانی کے حصول کی جنگ ابتدائی مراحل میں داخل ہوچکی ہے۔عالمی سطح پر پانی کی تقسیم پر کئی ایک گٹھ جوڑ بننے جارہے ہیں۔موسمی تغیرات کی وجہ سے پہلے ہی کئی جغرافیائی تبدیلیاں آنے والے خطرات کی نوید سنا رہی ہیں۔دوسری طرف دریائوں کے رخ موڑنے اور دریائوں پر زائد ڈیموں کی تعمیرنے خطے میں بہت سی دشواریاں پیدا کر دی ہیں۔پاکستان بھر میں اور خصوصاً سندھ کے چھوٹے بڑے شہروں میں اس مسئلہ نے سنگینی اختیار کرلی ہے۔پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں اس مسئلے پر آئے دن احتجاجی مظاہرے برپا ء ہو رہے ہیں۔
پانی کی کمی اور اس کے حصول کے لیے آنکھوں دیکھا منظرآپ کی نذر کر رہا ہوں ۔ملاحظہ فرمائیںکہ پرسکون ماحول میں یکدم کھمبے بجنا شروع ہوئے اور پورامحلہ طبل جنگ بجنے سے گونج اٹھا،پانی آگیا کی صدائیں گونجنے لگیں، گھروں کے دروازے کھلنے شروع ہوئے اور ہر طرف افراتفری کا ماحول دکھائی دینے لگا،کسی کے ہاتھ میں پائپ اورکسی کے ہاتھ میں بجلی کا تار ،کوئی پانی کا پمپ گھسیٹنے میں مشغول اور کوئی ربرکے ٹکڑے پائپ پر لپیٹنے میں مصروف ہے۔ایک صاحب ہیں جو پائپ اپنے منہ میںلئے پھیپڑوں کا پورا زور لگا کرپانی کھینچنے میں مگن ہیں،ذرا سے فاصلے پر بیٹھے ایک موصوف ہیں جوپانی کی چوری پر ایک بھرپور لیکچر دے رہے ہیں ۔ ایک طرف چند لوگ کھڑے غضبناک نظروں سے پانی بھرتے ان جانداروں کو دیکھ رہے ہیں کیونکہ وہ پانی کے کنکشن سے محروم ہیں ۔
قارئین اکرام! یہ پورا منظر دور حاضر کی اُس عوام کی عکاسی کر رہا ہے جو شہرقائد کے ایک پسماندہ علاقے کے مکین ہیں ، یہاں کے مکین پانی آنے پر اتنی ہی خوشی کا اظہا رکرتے ہیں جتنی خوشی میٹھا تربوز نکل آنے پر ایک غریب کو ہوتی ہے۔یہاں پانی کی مرکزی لائن سے براہ راست کنکشن لینا ایک روایت اور ایک ضرورت بن چکی ہے ۔کیونکہ سابقہ تمام لائنوں میں ہوا کے سوا کچھ نہیں آتا۔یہاں پانی کے فقدان کا یہ عالم ہے کہ دوستی اور دشمنی کا معیا ر آدھے انچ کی پائپ لائن ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ سے لوگ ہنسی خوشی ملیں تو آپ کو پانی کی لائن سے دور رہنا ہوگا، اگر غلطی سے بھی آپ نے اپنے گھر کے لئے ایک عدد پانی کے کنکشن کی بات کی تو اگلے دن سے آپ اپنے محلے میں شجر ممنوعہ کے روپ میں نظر آئیں گے۔مبصرین سے سُنا ہے کہ آئندہ ہونے والی عالمی جنگ کی وجہ بھی یہی نعمت ہے۔پانی نہ صرف ہر انسان کی ضرورت ہے ، بلکہ نباتات سمیت ہر جاندار کی بنیادی ضرورت ہے اس کے بغیر زندگی کا تصور بھی محال ہے اوراسی کے فقدان نے دنیامیں ایک تشویش کو جنم دیا ہے جس کی وجہ سے اقوام عالم کے کئی نامور ادارے پانی کی قلت اور بڑھتی ضروریات کے تناظر میں آئے دن عالمی سطح پر خطرے کی گھنٹیاں بجائے جارہے ہیں۔دوسری طرف کئی ممالک میں اس حوالے سے تنائو میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور انہی ممالک میں ایک ہمارا پیارا دیس پاکستان ہے جو کئی دہائیوں سے ایک طرف سندھ طاس معاہدے کی سرد مہری سے متاثر ہورہا ہے تو دوسری طرف صوبوں کی نااتفاقی کی وجہ سے ڈیم جیسی بنیادی ضرورت پر حتمی فیصلوںکے تعطل کا شکا ر ہے۔ایسے وقت میں کراچی کے عوام آئے دن پانی کی قلت کا نعرہ لیے سڑکوں پر سراپائے احتجاج نظر آتے ہیں جس کا ذمہ دار وہ بلدیاتی نظام سمیت ،شہری انتظامیہ اور صوبائی حکومت سمیت وفاق کے عدم دلچسپی کو سمجھتے ہیں۔صاف پانی کی ترسیل اور تقسیم اس معاشرے میں ایک چیلنج کی صورت اختیا ر کرچکا ہے جس کے حل کے لیے کوئی فرد بھی سیاسی دائروں سے نکل کر انسانی بنیادوں پر کام کرنے کو تیار نہیں۔
ہمارے معاشرے کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ یہاں پانچ سو کا ڈھکن لگانے والا پانچ ہزار کے بینر لگائے بغیر کام کرنے کو تیا ر نہیں ہوتا ، یہاں خدمت سے زیادہ خدمت کی نمائش میں دلچسپی رکھنے والوں کا تناسب زیادہ ہے۔پانی کی پائپ لائنوں کی مرمت گذشتہ کئی برسوں سے توجہ کی منتظر ہے اور یہی حال نکاسی کے نظام کا بھی ہے جبکہ صورتحال اس وقت مزید گھمبیر ہو جاتی ہے جب ایک ہی مقام پر نکاسی کی لائن اورپینے کے صاف پانی کی لائن خستہ حال ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے میں ضم ہوجاتی ہیں اور اس کا نتیجہ ہسپتالوں میں یرقان کے مریضوں کی تعداد سے لگایا جاسکتا ہے۔پانی کی صاف ترسیل کے ساتھ وافر مقدار ایک شہری کا بنیا دی حق ہے جس کی ذمہ داری صاحبان اقتدار پر ہے مگر یہاں پوری گنگا ایک ہر رُخ پربہہ رہی ہے ۔پانی کو ترستے عوام جب ٹینکر سپلائر ز سے رجوع کرتے ہیں تو وہا ں کی مافیااپنی من پسند قیمت پر جوہڑ وں کا جمع شدہ پانی لئے حاضر ہوتے ہیں اور ایسے عناصر کی سرپرستی شہر کے وہ اشرافیہ کرتے ہیں جو اگر دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں۔پانی پلانا ایک عبادت ہے مگر اب ایک کاروبار سے زیادہ کچھ نہیں ، بعض اوقات یہ حالات ناشکری کی پاداش میں ملنے والی سزا لگتی ہے ،جب آپ پانی سے غیر ضروری طور پر پیر دھو رہے ہوں اور آپ کا پڑوسی ایک بوند پانی کو ترستا ہو تو معاشرے میں اس طرح کے حالات آنا کوئی انوکھی بات نہیں۔پانی کافقدان ہماری جسمانی ضرورت کے ساتھ ساتھ ہماری اخلاقی ساخت کو بھی متاثر کر رہا ہے وہ لوگ جو کبھی آپس میں شیر و شکر تھے آج پانی کی تقسیم نے انہیںایک دوسرے سے چہرے پھیرنے پر مجبور کر دیا ہے۔
گزشتہ سال بارشوں کی وجہ سے حب ڈیم کی سطح کافی حد تک حوصلہ افراء نتائج دے رہی تھی مگر اس کے باوجود لاکھوں گھروں کے نلکے خشک ہو چکے ہیں اور برتنوں میں پانی کا استعمال اب بھی کئی گھروں میں رائج ہے ۔ ہر گھر میں ایک عدد ایسا ذمہ دار ضرور ہوتا ہے جو دیگر اہل خانہ کو پانی کے اسراف سے منع کرنے پر مامور رہتا ہے ۔مگر سڑکوں پر بہنے والے لاکھوںگیلن پانی کی روک تھام کے لیے کوئی ایک حکومتی نمائندہ بھی اپنے فرائض ادا کرتے نظر نہیں آتا۔
پانی کی چوری اور پانی کی غیر مناسب تقسیم نے ایک محلے کو دوسرے محلے سے لڑوانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ ہر شخص کو اپنا مفاد عزیز ہے مگر افسوس کے ساتھ یہ معاملہ خود غرضی سے زیادہ اجتماعی بیداری کا ہے ۔سیاسی افراد نے اس معاملے کو انتخابات میں ووٹوں کے حصول کے لئے ایک انتہائی اہم مسئلے کے طور پر زیربحث لانے کی حد تک محدود رکھا ہے جس میں سنجیدگی کا عنصر نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔بہر حال اگر کراچی میں پانی کے نظام کو صحیح اصولوں پر استوار نہ کیا گیا تو آئندہ سالوں میں اس شہر کی افراتفری اور بدنظمی ایک تشویشناک صورتحال اختیا ر کرجائیگی۔واٹر بورڈ ہو یا ضلعی انتظامیہ انہیں اس معاملے کو ہنگامی بنیادوں پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔اسی تناظر میں کراچی کی بڑھتی ہوئی حدود کو کنٹرول کرنے کے لئے جامع پالیسی مرتب کرنا ہوگی کیونکہ وسائل انتہائی محدود ہیں جبکہ مسائل بڑھتی حدود کے ساتھ بڑھتے جارہے ہیں۔اور خاص کر پانی کے محدود وسائل پہلے ہی زبوں حالی کا شکار ہیں ایسے حالات میں پانی کا حصول جب ناگزیر ہوگا تو شہر کے تمام اندورنی اور مضافاتی علاقوں میں معاملات انتہائی سنجیدہ حد تک قابل تشویش ہونگے جو اس شہر کے امن کے لئے غیر موزوں ہے۔