بانو قدسیہ کا انٹریو (حصہ اول)

1655

عورت کا دکھ عورت ہی سمجھ سکتی ہے۔ عورت کا دکھ عورت ہی لکھ سکتی ہے‘ بہ شرطے کہ لکھنے والی بانو قدسیہ ہو۔ عورت کی زندگی کا اس کی اذیتوں کا قصہ درد مندی سے لکھتے ہوئے ان کا قلم چھوٹے بڑے واقعات سے جو گہرے بصیرت افروز نتائج اخذ کرتا ہے اور جتنی سہولت سے انہیں بیان کر دیتا ہے اس سے یہ قیاس کرنا غلط نہ ہوگا کہ بانو قدسیہ کا ذہن فلسفیانہ خطوط پر سوچتا ہے‘ وہ قصے کو قصہ نہیں رہنے دیتیں۔ انسان کی تقدیر‘ اس کی حرماں نصیبی و نارسائی‘ زندگی کے اسٹیج پر ہر آن کھیلے جانے والے کھیل کو وہ سمجھنا اور سمجھانا چاہتی ہیں۔ دکھ‘ دکھ اور اذیت‘ اذیت نہیں رہتی جب اس کی حقیقت کو سمجھ لیا جائے۔ زندگی جیسی ہے‘ بری بھلی‘ اسے بدلا نہیں جاسکتا‘ اسے اپنے خواہش کے مطابق ڈھالا نہیں جاسکتا۔ زندگی ایک پیکج ڈیل ہے‘ آج کی تجارتی زبان میں اسے سموچا قبول کرکے ہی اس سے ہم آہنگ ہوا جاسکتا ہے۔
بانو قدسیہ کا یہ اعتراف کہ ان کے فن اور فکر میں گہرائی اشفاق احمد کی صحبت اور تربیت کا نتیجہ ہے۔ اگر اشفاق احمد میری زندگی میں نہ آتے‘ نہ بتایا ہوتا انہوں نے کہ حقیقت وہ نہیں جو نظر آتی ہے‘ جو کچھ سامنے ہوتا ہے‘ اصل حقیقت اس کے پیچھے کہیں چھپی ہوتی ہے۔ ایک ایک لکھنے والا اس پوشیدہ حقیقت کو سامنے لاتا اور بے نقاب کرتا ہے تو میں بھی ایک عام سی لکھنے والی ہوتی۔ میٹھی میٹھی رومانی کہانیاں لکھنے والی۔
یہ سچ ہے کہ شاگرد کے قد میں استاد کا قد شامل ہوتا ہے لیکن شاگرد استعداد ہی سے محروم ہو تو استاد بھی کیا کرسکتا ہے۔ آگ گیلی لکڑی نہیں خشک لکڑی پکڑتی ہے‘ گیلی لکڑی تو بس دھواں دیتی ہے۔ دھڑ دھڑ جلنا شروع کرتی ہے خشک لکڑی۔ بانو قدسیہ کے افسانوں میں‘ ناولوں میں اسلوب و بیان کی جو دریا کی سی روانی ہے اور اس کی ہر سطر کی تہہ میں یعنی بین السطور جو درد مندی‘ خلوص اور محبت کی گرمی ملتی ہے وہ کسی استاد کی عطا نہیں ہو سکتی اور بے ادبی نہ ہو تو اس معاملے میں وہ اپنے میاں سے دو قدم آگے ہی نظر آتی ہیں۔
جہاں تک معاملہ ان کے ناول’’راجا گدھ‘‘ کا ہے‘ نہایت احتیاط سے بھی کہا جائے تو یہ ناول کا امتیازی پہلو ہے کہ اس میں معاصر زندگی کو ایک خاص فلسفیانہ زاویۂ نگاہ سے دیکھا گیا ہے اور خصوصیت سے ہمارے معاشرے کے جملہ مصائب و آفات ارضی و سماوی کی وجوہ کی تلاش کی مخلصانہ جستجو گہرائی میں اتر کر کی گئی ہے اور مرکزی بنیادی سبب ’’رزقِ حرام‘‘ کو ٹھہرایا گیا ہے۔ رزاقِ حرام کے معنی محض حرام کمائی کے نہیں‘ ہر وہ چیز جو میری ملکیت نہیں‘ اسے اپنے تصرف میں لانا ہی رزق حرام کی مکروہ صورت ہے۔ چاہے وہ مال و دولت ہو یا شہوت و لذات۔
اس روز جب میں اشفاق احمد صاحب کی فراہم کردہ گاڑی میں ’’داستانِ سرائے‘‘ پہنچا تو ملازمہ نے مجھے ڈارئنگ روم میں بٹھا دیا اور انتظار کی گھڑی کو آسان بنانے کے لیے مشروب کا ایک گلاس بھی تھما دیا۔ تھوڑی دیر بعد بانو قدسیہ دوپٹہ سر پر سنبھالتی ہوئی اندر آئیں تو میں احتراماً اٹھ کھڑا ہوا۔ پڑھ رکھا تھا کہ ادبی حلقے میں وہ ’’بانو آپا‘‘ کہلاتی ہیں۔ ان کی شفقت‘ وقار اور سنجیدگی سے تصدیق کی کہ وہ واقعی اپنے چھوٹوںکی آپا ہیں۔ لیکن جب ان سے گفتگو شروع ہوئی تو آپا نے جو شاید ابھی تھوڑی دیر پہلے دال میں بگھار ڈال کر نیپکن سے ہاتھ صاف کرکے دوپٹہ درست کرتی ہوئی آئی تھیں۔ ایک انٹی لیکچوئل لیڈی کا روپ دھار لیا اور میرے تیکھے سوالوں کے نہایت اطمینان بخش جوابات دیے۔ عورت گھر گرہستی کے ساتھ بھی ایک شاعرہ‘ ادیبہ اور فلسفی ہو سکتی ہے۔ اس میں قباحت بھی کیا ہے؟ آخر ایک مرد شاعر یا مرد افسانہ بھی تو بازار سے گوشت اور سبزیاں خریدتا ہی ہے۔ انسان پہلے انسان ہے‘ اپنی ضرورتوںکا محتاج ہے۔ باقی سب حیثیتیں کتنی ہی قابل قدر ہوں مگر ہیں اضافی۔
بانو قدسیہ مشڑقی پنجاب کے گائوں فیروز پور میں 28 نومبر 1928 کو پیدا ہوئیں۔ لاہور کے کنرڈ کالج سے 1948ء میں گریجویشن اور گورنمنٹ کالج سے 1950ء میں اردو میں ایم اے کیا۔ انہیں اسکول ہی کے زمانے سے افسانہ نگاری کا شوق تھا لیکن تب عورت سماجی روایات کی قیدی تھی اور اس کا شعر و افسانہ لکھنا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ لیکن شوق پانی کی طرح رکاوٹوں میں بھی اپنا راستہ بنا لیتا ہے۔ وہ نصابی کتابوں میں افسانے اور ناول چھپا کر پڑھتی رہیں۔ اپنے ادبی ذوق کی آبیاری کا نتیجہ یہ نکلا کہ قلم و قرطاس سے رشتہ استوار ہوا اور پہلا افسانہ 1952ء میں ’’واماندگئی شوق‘‘ لکھا جو ’’ادبِ لطیف‘‘ میں چھپا۔ افسانے کے ساتھ ڈرامے کی طرف توجہ دی۔ امتیاز علی تاج کا کلاسیکی ڈراما ’’انار کلی‘‘ نے مہمیز کیا اور یوں انہوں نے پے در پے ڈرامے لکھے۔ ٹیلی وژن ڈراموں کے علاوہ انہوں نے فلموں کے اسکرپٹ بھی تحریر کیے۔ حکومت نے اعلیٰ ادبی خدمات پر 1982ء میں ستارۂ امتیاز مرحمت کیا۔ بانو قدسیہ ایک بھرپور ادبی زندگی گزار کر 4 فروری 2017ء کو دنیا سے رخصت ہوئیں۔
تصانیف:
افسانے: بازگشت‘ امربیل‘ کچھ اور نہیں‘ دانت کا دستہ‘ ناقابل ذکر (1985)‘ توجہ کی طالب (افسانوی کلیات 1985ء)
ناول: شہر بے مثال ‘ راجا گدھ (1981)
ناولٹ: ایک دن‘ موم کی کلیاں‘ پروا۔
ڈرامے: آدھی بات‘ اک تیرے آنے سے پہلے‘ منزل منزل‘ فٹ پاتھ کی گھاس (1989)
مقبول ٹی وی سیریل: ضرب جمع تقسیم‘ لگن اپنی اپنی‘ نیا دور‘ تماثیل
فلم: آنچ ‘ اک گناہ اور سہی۔
…٭…
طاہر مسعود: ’’راجا گدھ‘‘ ایک اہم ناول ہے جو قاری پر فکر کے نئے در وا کرتا ہے‘ میں اس سلسلے میں ایک روایتی سوال سے گفتگو کی ابتدا کرنا چاہوںگا کہ اس ناول کو لکھنے کا خیال آپ کے ذہن میں کیسے آیا اور آپ نے اسے کس طرح Work out کیا؟
بانو قدسیہ: ممکن ہے دوسرے ادیب اس سوال کا بہتر جواب دے سکیں اور اپنے تخلیقی عمل کا تفصیل سے تجزیہ کرسکیں۔ میرا ایمان تو یہ ہے کہ جب اللہ کو اپنے بندے سے کوئی کام لینا مقصود ہوتا ہے تو وہ کام خود بہ خود انجام پا جاتا ہے۔ میرے ساتھ بھی یہی ہوا کہ ناول کا خاکہ بھی میرے ذہن میں مرتب ہو گیا۔ کردار بھی مل گئے اور ساتھ ہی حوالے بھی ہاتھ آگئے۔ عام طور پر لوگ اپنی کامیابیوں کو اپنی محنت کا ثمر تصور کرتے ہیں حالانکہ محنت تو ناکام ہو جانے والے بھی کرتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ کسی کے ساتھ اللہ کی رحمت ہوتی ہے اور کسی کے ساتھ نہیں ہوتی۔ اگر میں آپ کے سوال کے جواب میں یہ کہوں کہ میں نے قوم کی خدمت کے پیش نظر ’’راجا گدھ‘‘ لکھا تو یہ بالکل درست نہیں ہوگا۔ ہاں کسی کی خدمت راہِ مولا ہو گئی ہو تو نہیں معلوم۔
طاہر مسعود: یعنی آپ کی ذات سے باہر کوئی ایسا مقصد کبھی موجود نہیں رہا جسے آپ نے اپنی تخلیقی کاوش کے ذریعے پانے کی خواہش کی ہو؟
بانو قدسیہ: میں لکھنے کے عمل کو خالصتاً اظہار ذات کا عمل تصور کرتی ہوں‘ بالکل اسی طرح جیسے کوئی خوش آواز لڑکا گائے بغیر اور چڑیا چہچہائے بغیر نہ رہ سکتی ہو۔
طاہر مسعود: جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں ’’راجا گدھ‘‘ کا مرکزی خیال رزق حلال کے اسلامی تصور سے عبارت ہے۔ انفرادی سطح پر فرد اور اجتماعی سطح پر معاشرہ اخلاقی اور روحانی زوال سے اس لیے دوچار ہے کہ رزق حرام کو فروغ مل رہا ہے۔
بانو قدسیہ: جی ہاں اس ناول کا بنیادی خیال یہی ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ استدلال کی سطح پر ہی سہی لیکن ہمارے لیے اہلِ مغرب کو رزق حلال کی اہمیت سمجھانا اور قائل کرنا ممکن نہیں ہے۔ مذہب کے بہت سے احکامات ایسے ہیں جن کا ادراک محال ہے اسی لیے ادب میں ماننے کا مقام ہے جاننے کا نہیں۔
مغرب کی تہذیبی برتری نے ہمارے مسائل اور بھی پے چیدہ بنا دیا ہے جس کا نتیجہ دیکھیے کہ وہاں سے آنے والے ہر تصور پر آنکھیں موند کر آمناً صدقاً کہہ دیا جاتا ہے۔ ’’راجا گدھ‘‘ میں ایک جگہ پروفیسر سہیل کہتا ہے ’’میں جو تھیوری پیش کر رہا ہوں‘ وہ تمہیں عجیب و غریب لگ رہی ہیں لیکن یہی تھیوری اگر مغرب پیش کرتا تو تم اسے فوراً مان لیتے۔‘‘ میں نے اپنے ناول میں بھی یہی کہنا چاہا کہ اگر ہم مغرب کے اثرات سے نکل کر رزق حلال کے عادی ہو جائیں تو صرف اسی تبدیلی کے زیر اثر ہماری معاشرتی زندگی سے تمام خرابیاں دور ہو سکتی ہیں کیوں کہ انسانی زندگی میں ان تمام بے چینیوں کا سبب جو بالآخر جرائم اور خودکشی کی طرف مائل کرتا ہے‘ رزق حرام ہے۔ میں نے ناول میں رزق حرام کے مختلف روپ دکھائے ہیں۔ زنا بھی اسی کا ایک روپ ہے جو انسان کو آخر کار مایوسی اور ناکامی کے اندھیرے میں دھکیل دیتا ہے۔
طاہر مسعود: ’’راجا گدھ‘‘ کا ایک حصہ تو قیوم‘ سیمی اور ڈاکٹر سہیل جیسے کرداروں کی کہانی پر محیط ہے دوسرا حصہ جنگل کے ماحول کے پس منظر میں راجا گدھ کی حکایت بیان کرتا ہے۔ یہ دونوں کہانیاں پہلو بہ پہلو آگے بڑھتی ہیں۔ دوسرے حصے میں مختلف پرندوں اور جانوروں کے ذریعے علامتی فضا کو جنم دیا گیا ہے۔ میں پوچھنا چاہوں گا کا ناو ل کا یہ علامتی حصہ ناول کی معنویت میں کس حد تک اضافہ کرتا ہے؟
بانو قدسیہ: آپ ناول کے جس علامتی حصے کا ذکر کر رہے ہیں اس میں زیادہ تر انسانی فطرت سے بحث کی گئی ہے اور انسانی فطرت کا رزق حلال سے نہایت گہرا تعلق ہے۔ فطرت انسانی پر کسی کو گواہ بنائے بغیر موضوع کی وضاحت ناممکن تھی۔ انسان چوں کہ خود پر تنقید کا اہل نہیں ہے اس لیے میں نے بہت سوچ بچار کے بعد انسانی فطرت پر اس معصوم چیز کو شاہد بنایا جو اس کی تمام سطحوں کو واضح کر سکے او ر ساتھ ہی راجا گدھ کی Analogy کی تکمیل کر سکے۔ ’’راجا گدھ‘‘ سے اگر اس کے علامتی حصے کو خارج کر دیا جائے تو ناول جو دو ٹانگوں پر کھڑا ہے‘ تو اس کی ایک ٹانگ ٹوٹ جائے گی۔ ممکن ہے اس سے مرکزی کہانی کو کوئی زک نہ پہنچے لیکن ناول میں ادھورا پن پیدا ہو جائے گا۔
طاہر مسعود: لیکن ناول کا یہ علامتی اور استعاراتی حصہ اس کی روانی اور بہائو کو متاثر کرتا ہے اور اس رکاوٹ کے باعث قاری جھٹکے لیتا ہوا آگے بڑھتا ہے اور دونوں کہانیوں کو باہم مربوط کرنے میں اسے دشواری محسوس کرتی ہے۔
بانو قدسیہ: ناول کا یہ حصہ ذہنی طور پر ناپختہ لوگوں کو رکاوٹ محسوس ہوتا ہوگا۔ ان کی مثال اس بچے جیسی ہے جو صرف کہانی پر توجہ دیتا ہے اس کی معنویت سے اسے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ یہ مسئلہ صرف اسی ناول کو نہیں‘ ٹیلی وژن کے ان ڈراموں کو بھی درپیش ہے جن میں کسی فلسفے یا دقیق مسئلے کو چھیڑا جاتا ہے لوگ فلسفے کو سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتے اس لیے اسکرین کے سامنے سے اٹھ جاتے ہیں حالانکہ اسی سنجیدہ مسئلے کو بیان کے لیے ساری کہانی کا ڈھانچا تیار کیا جاتا ہے۔ بہت سے قارئین نے مجھے بھی بتایا کہ راجا گدھ میں جہاں جہاں رزق حرام کے فلسفے پر بحث کی گئی ہے وہ ان صفحات کو پھلانگ کر آگے بڑھ گئے۔ جب میں اپنے ناول پر اس نوع کے تبصرے سنتی ہوں تو میری سمجھ میں آجاتا ہے کہ ہمارے ہاں دوستوفیکسی‘ میکسم گور کی اور ٹالسٹائی جیسے عظیم ادیب کیوں پیدا نہیں ہوئے۔
طاہر مسعود: کیا ناول یا کہانی میں فلسفے کو زیریں لہروں کی طرح ہونا چاہیے؟ اس لیے کہ فکشن میں اگر فلسفہ غالب آجائے تو پھر قاری فکشن کے بجائے فلسفے کی دقیق کتاب کیوں نہ پڑھے؟
بانو قدسیہ: یہ قطعی ضروری نہیں کہ ناول میں فلسفہ زیریں لہروں کی طرح ہو۔ کیا آپ نے دوستو فیکسی کو نہیں دیکھا جو انسانیت یا بہادری کے موضوع پر قلم اٹھاتا ہے تو صفحات کے صفحات سیاہ کر دیتا ہے۔ شیکسپیئر کے کردار بھی لمبی لمبی تقریریں کرتے ہیں اور شیکسپیئر انہیں تقریریں کرنے سے نہیں روکتا نہ ہی اس بات سے خوف زدہ ہوتا ہے کہ تماشائی بور ہو کر چلے جائیں گے۔
طاہر مسعود: ’’راجا گدھ‘‘ کا ہیرو قیوم (جو اینٹی ہیرو ہے) ناول میں راجا گدھ کی علامت ہے لیکن اس کردار کو علامتی بنانے کے لیے آپ نے راجا گدھ کا کردار علیحدہ سے تخلیق کیا ہے تاکہ ان دونوں کے درمیان عادات و خصائل کی مماثلت ثابت کی جاسکے۔ کیا یہ ممکن نہ تھا کہ اس طریق کار کو اختیار کرنے کے بجائے آپ مرکزی کردار کو اس طرح پیش کرتیں کہ اختتام پر ناول کا ہیرو از خود گدھ کی علامت بن جاتا؟
بانو قدسیہ: ایسا ممکن تو تھا لیکن پھر کہانی معمولی اور مختصر رہ جاتی اور کہانی کے اختتام پر ایک فقرہ لکھ دینا ہی کافی ہوتا کہ ’’ اس طرح وہ راجا گدھ میں تبدیل ہو گیا۔‘‘
دیکھیے! میں نے ناول کو جس ڈھنگ سے لکھا ہے اس کے لکھنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ ابھی تک اردو ادب میں انسانی فطرت پر کہانیاں نہیں لکھی گئی ہیں آپ سارا ادب چھان لیجیے ناول یا افسانوں میں آپ کو چند فلسفیانہ پیرا گراف نظر آجائیں گے لیکن پورا ناول کسی فلسفے کو بنیاد بنا کر نہیں لکھا گیا ہے میں نے تو صرف ایک کنکر پھینکا ہے۔ میرا خیال ہے کہ بائیس سے چالیس سال تک کی عمر کے قارئین کو سنجیدہ مواد پڑھوانے کی اشد ضرورت ہے‘ اب اتنا کافی نہیں کہ بستر پہ لیٹ کر کہانی پڑھی اور چادر تان کے سو گئے۔ لوگوں کو سوچنے پر مجبور کرنا ادیبوں کا اوّلین فریضہ ہے۔ (جاری ہے)
طاہر مسعود: ’’آگ کا دریا‘‘ کے بارے میں کیا خیال ہے؟
بانو قدسیہ: قرۃ العین حیدر انتہائی قد آور لکھنے والی ہیں لیکن آپ ان معنوں میں پوچھ رہے ہیں کہ یہ کوئی دقیق ناول ہے تو ایسا بالکل نہیں ہے چوکنا ہو کر پڑھنے کی صورت میں یہ ناول آسانی سے سمجھ میں آتا ہے۔
طاہر مسعود: ’’راجا گدھ‘‘ پر قارئین کا ردعمل کیسا رہا؟
بانو قدسیہ: لوگوں نے خیر مقدم کیا۔ انہوں نے مجھے خطوط لکھے اور اسے ایک نئے تجربے کے طور پر قبول کیا البتہ مجھے ان بچیوں کے تاثرات معلوم نہیں ہو سکے جو ابھی عمر کے پچیسویں برس میں ہیں۔ شاید وہ پچیس صفحات سے زیادہ نہیں پڑھ سکی ہوں گی۔
طاہر مسعود: اس ناول کے کتنے کردار حقیقی وجود رکھتے ہیں؟
بانو قدسیہ: میں چھپن سال سے مختلف قسم کے راجا گدھ دیکھتی چلی آرہی ہوں اس کے باوجود کہ ہمارا معاشرہ حدود و قیود کا قائل ہے اور اتنی لبرل ازم ابھی نہیں آئی ہے کہ آپ عشق میں مبتلا ہو کر کسی لڑکی کو فون کریں اور اسے اسکوٹر پر بیٹھا کر لے جائیں اس کے باوجود میرا مشاہدہ ہے کہ ہمارے معاشرے کا ہر دوسرا لڑکا اور ہر بارہویں لڑکی راجا گدھا ہے۔
طاہر مسعود: راجا گدھ کے بعض قارئین اس ناول کو پڑھ کر ڈپریشن کا شکار ہو گئے۔ ایک صاحب کے بقول اس ناول کا ایسا عجب تاثر تھا کہ میرا جی چاہا کہ خودکشی کر لوں۔
بانو قدسیہ: ہرمن بیسے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کا ناول پڑھ کر لوگ خودکشی کی خواہش کرنے لگتے ہیں اور یورپ میں دو‘ تین واقعات ایسے بھی ہوئے ہیں۔ اگر ناول پڑھنے والے زندگی کی تاب نہ لاسکیں تو اس میں مصنف کا کیا قصور ہے؟ میرا خیال ہے کہ ایسے لوگوں کو درمیان میں ہی چھوڑ دینا چاہیے۔
طاہر مسعود: آپ کے پاس اس مسئلے کا کوئی علاج نہیں ہے؟
بانو قدسیہ: میرے پاس کسی بھی مسئلے کا کوئی علاج نہیں ہے۔ پاکستان میں آج ٹیلی وژن کے ذریعے قہقہوں کو فروغ دیا جا رہا ہے لیکن ہم بھول رہے ہیں کہ کتھارسس کی بھی اپنی ایک اہمیت ہوتی ہے‘ جو سوسائٹی رونے سے گھبراتی ہے وہ آخر کار تنز ل کا شکار ہو جاتی ہے۔ جس طرح ہنسنا ضروری ہے اسی طرح رونا بھی ضروری ہے۔
طاہر مسعود: جب ہم آپ کے دو ناول ’’شہرِ بے مثال‘‘ اور ’’راجا گدھ‘‘ کا بالترتیب مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں موخزالذکر ناول میں زبان و بیان پر عبور‘ تیکنیک پر گرفت اور خیال میں گہرائی نظر آتی ہے۔ اس سے لگتا ہے کہ آپ نے ان دونوں کے درمیان ایک طویل سفر طے کیا ہے۔
بانو قدسیہ: ان دونوں ناولوں کی اشاعت میں پندرہ‘ سولہ سال کا فرق ہے لہٰذا ایسا تو محسوس ہونا چاہیے۔ علاوہ ازیں میں نے ’’راجا گدھ‘‘ پر بہت محنت کی ہے جس کا اندازہ یوں لگایئے کہ میں نے اسے پانچ سال کے عرصے میں مکمل کیا۔
طاہر مسعود: بعض حلقوں کی جانب سے راجہ گدھ پر فحش نگاری کا الزام بھی عائد کیا گیا ہے‘ اس الزام میں کس حد تک صداقت ہے؟
بانو قدسیہ: دیکھیے قرآن میں زنا سے ممانعت کا حکم ہے اور اس کے مجرموں کے لیے کوڑے کی سزا رکھی گئی ہے جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ زنا بھی رزق حرام ہی کی ایک شکل ہے اور ناول کا موضوع ایسا تھا کہ اس کے ذکر کے بغیر چارہ نہیں تھا لیکن میں نے اس ناول میں کوئی ایسی منظر کشی نہیں کی جس میں لذت کا پہلو نکلتا ہو اور مجھ پر یہ الزام لگایا جاسکتا کہ میں نے منٹو یا عصمت کی طرح فحش نگاری کی ہے۔
طاہر مسعود: کیا آپ کے خیال میں منٹو اور عصمت نے فحش نگاری کی ہے؟
بانو قدسیہ: نہیں میرا یہ مطلب نہیں ہے‘ اس زمانے میں ادب میں جنس کا موضوع نیا نیا متعارف ہوا تھا اور بعد میں تو اس موضوع پر لکھنے کا رجحان چل پڑا تھا۔ ان حالات میں منٹو اور عصمت نے بند دروازوں کو کھولنے کی کوشش کی اور اس عرصے میں جو افسانے لکھے گئے ان میں جنس کے بارے میں تفصیلات زیادہ بیان کی جاتی تھیں۔ ممتاز مفتی نے بھی اس قسم کی کہانیاں لکھیں۔ جب تحریک نئی ہو تو لکھنے والے بھی جوشیلے ہوتے ہیں لیکن اب یہ صورت حال نہیں رہی۔ آج تو ایک چھوٹے سے لڑکے کی بھی جنس کے متعلق معلومات اتنی وسیع ہوتی ہیں کہ اس قسم کے افسانوں میں قطعی دل چسپی نہیں ہوتی اس لیے آپ دیکھیں گے کہ ہماری نئی نسل منٹو اور عصمت کے افسانوں کو نہیں پڑھے گی۔
طاہر مسعود: آپ کے لکھنے کا طریقہ کار کیا ہے؟
بانو قدسیہ: میں ایک گھریلو عورت ہوں‘ اس لیے میرا بیشتر وقت دوسروں پر صرف ہوتا ہے‘ لکھنے کے سمے مہمان آجائیں تو میں ان سے کیسے کہوں کہ میں اپنے وقت کا ایک عظیم ناول لکھ رہی ہوں اس لیے آپ تشریف لے جائیں۔ میرا گھر‘ میرے شوہر‘ بچے اور رشتے دار یہ سب میری ذمہ داری ہیں۔ عموماً صبح دس سے دوپہر بارہ بجے تک لکھنے کا کام کرتی ہوں پھر باورچی خانے میں چلی جاتی ہوں۔ کم عمری میں میرے لکھنے کا وقت سہ پہر تین سے شام چھ بجے تک تھا لیکن اب یہ ہمارے آرام کاوقت ہے۔
طاہر مسعود: آپ ناول لکھنے کی منصوبہ بندی کس طرح کرتی ہیں؟
بانو قدسیہ: ہر قابلِ عزت خیال پر میں توجہ دیتی ہوں اور اسے دو مرتبہ لکھتی ہوں۔ پہلی بار ابتدائی ڈرافٹ کی صورت میں جسے آپ چاہیں تو نوٹس کہہ لیں۔ اس میں اگر کہیں کوئی کمی رہ جائے تو اگلی بار لکھتے وقت دور کر دیتی ہوں۔ کہانی کو حتمی شکل دینا‘ کرداروں کو اجاگر کرنا اس قسم کی ساری محنت دوسرے مرحلے ہی میں ممکن ہے۔
طاہر مسعود: کہانی یا کرداروں کے بارے میں اشفاق احمد سے بھی صلاح و مشورہ کرتی ہیں؟
بانو قدسیہ: ان کے پاس اتنا وقت کہاں ہے؟ ویسے موقع ملے تو مشورہ بھی کر لیتی ہوں۔
طاہر مسعود: اشفاق احمد سے شادی کا فیصلہ کرتے وقت آپ کو یہ خوف محسوس نہیں ہوا کہ آپ کی ادبی حیثیت ان کے سامنے دب جائے گی؟
بانو قدسیہ: ان سے شادی کرکے میں فائدے میں رہی۔ خیر فائدہ تو انہیں بھی ہوا لیکن سچی بات یہ ہے کہ اگر مجھے اشفاق احمد صاحب کی صحبت نہ ملتی تو شاید میں بھی غیر ادبی رسائل میں لکھنے والی عورتوں کی سطح کے ناول اور افسانے لکھتی رہتی۔ انہوں نے ہی مجھے اس بات کا پارکھ بنایا کہ اشیا کی حقیقت سطح میں نہیں گہرائی میں پوشیدہ ہوتی ہے۔ اس لیے لکھنے والوں کو گہرائی میں غوطہ زن ہونا چاہیے۔ وہ میرے پیرومرشد ہیں‘ وہ مجھے کسی تحریر پر شاباشی دیتے ہیں تو مجھے ایک اچھے شاگرد کی طرح خوشی ہوتی ہے اور جو وہ کسی تحریر کو ناپسند کریں تو میرے دل سے بھی وہ تحریر اتر جاتی ہے۔
طاہر مسعود: کبھی آپ نے غیر جانب داری سے غور کیا کہ آپ دونوں میں بڑا ادیب کون ہے؟
بانو قدسیہ: جی ہاں! اشفاق احمد۔
طاہر مسعود: اور ان کا کیا خیال ہے؟
بانو قدسیہ: (ہنستے ہوئے) وہ بھی اشفاق احمد ہی کو بڑا ادیب تصور کرتے ہوں گے۔ چوں کہ وہ میرے شوہر ہیں اس لیے میرے منہ سے ان کی تعریف اچھی نہیں لگتی۔ ورنہ سچ پوچھیے تو اشفاق احمد ایک ایسا دیب ہے جس کی برصغیر میں کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ وہ ایک چھوٹے سے پودے سے برگد کا پیڑ بنا ہے۔ ان کے افسانوں‘ ناولوں اور ڈراموں میں جتنا تنوع اور گہرائی ہے وہ ان کے ایک عظیم رائٹر ہونے کی دلیل ہے۔
طاہر مسعود: انہوں نے کافی عرصے سے افسانہ لکھنا ترک کر دیا ہے‘ آپ نے ان کی توجہ اس طرف کیوں نہیں دلائی؟
بانو قدسیہ: ان کا ذاتی خیال ہے کہ یہ دور افسانوں کا نہیں ہے۔ افسانہ پڑھنے والے ایک شہر میں مشکل سے ایک ہزار ہوں گے جب کہ ٹیلی وژن دیکھنے والوں کی تعداد دو کروڑ ہے اور ٹیلی وژن کے ذریعے لکھنے والے کا پیغام زیادہ دور تک پہنچتا ہے۔ دوسرے ان کی رائے یہ ہے کہ بہت جلد ہمارا سارا ادب سلو لائیڈ پر منتقل ہو جائے گا۔
طاہر مسعود: آپ نقادوں کو کتنی اہمیت دیتی ہیں؟
بانو قدسیہ: بلاشبہ نقاد کی اہمیت مسلمہ ہے بشرطے کہ وہ کتاب کو ذاتی اور گروہی اختلاف سے بلند تر ہو کر قاری کے سامنے پیش کرے۔ نقاد کا فرض ہے کہ وہ مصنف کو فراموش کرکے کتاب کا ادبی اور فنی مرتبہ و مقام متعین کرے کیوں کہ اسی صورت میں وہ انصاف کر سکتا ہے اگر وہ کسی فن پارے کے بارے میں لکھتے وقت مصنف کو بھی یاد رکھے گا تو اسے یہ بھی یاد آئے گا کہ فلاح پارٹی میں مصنف نے اس کے سلام کا جواب نہیں دیا تھا۔ افسوس کہ ہمارے نقادوں نے کتابوں پر کم اور شخصیتوں پر زیادہ لکھا ہے۔ نتیجتاً آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ لوگ یہ تو جانتے ہیں کہ فلاں مصنف کی دو بیویاں ہیں اور اس کی مرغوب غذا بھنڈی گوشت ہے لیکن اس مصنف کی کتابوں کے بارے میں ان کی معلومات صفر ہوتی ہیں۔
طاہر مسعود: بعض ادیبائوں کو گلہ ہے کہ نقاد حضرات انہیں نظر انداز کرتے ہیں‘ کیا آپ کو بھی اس قسم کا کوئی شکوہ ہے؟
بانو قدسیہ: بیشتر خواتین لکھنے والی عموماً گھروں میں بیٹھی رہتی ہیں اور ان کا باہر نکلنا اور لوگوں سے ملنا ملانا کم ہوتا ہے۔ یہ عورتیں نقادوں کو دوست بنائیں پھر ان شاء اللہ ان کے فن کو نظر نہیں کیا جائے گا۔ میں لاہور شہر میں ہوں‘ میرے شوہر کی سب سے واقفیت ہے‘ دو چار نقاد ان کے دوست ہیں تو ظاہر ہے وہ میری کتاب کو کس طرح نظر انداز کرسکتے ہیں۔ اصل میں یہ مسئلہ عورت اور مرد کا نہیں پبلک ریلشنگ ہے۔
طاہر مسعود: خواتین لکھنے والیوں کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
بانو قدسیہ: عورتوں میں دو قسم کی لکھنے والیاں پیدا ہو گئی ہیں ایک تو وہ جو زندگی سے وابستہ ہیں۔ دوسری وہ ہیں جو صرف رومانس میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ پہلی قسم میں خواہ قرۃ العین حیدر ہوں یا جمیلہ ہاشمی۔ ان کے افسانوں میں زندگی کے ٹھوس حقائق ملتے ہیں جب کہ دوسری قسم کی افسانہ نگار خواتین ڈائجسٹ اور پاکیزہ ڈائجسٹ میں لکھتی ہیں اور ان کا زندگی کی حقیقتوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اسی طرح مرد لکھنے والے بھی دو حصوں میں بٹ چکے ہیں۔ کچھ وہ ہیں جو صحافت سے منسلک ہیں اور کچھ وہ ہیں جنہوں نے اپنا تعلق صرف تخلیقی عمل سے قائم رکھا ہے۔ اوّالذکر مرد ادیب اخبار کی سرخیاں پڑھ کر افسانے لکھتے ہیں جیسے ایک زمانے میں بعض ادیب فلمی کہانی سن کر ناول لکھ مارتے تھے۔ دوسرے قسم کے ادیبوں میں احمد ندیم قاسمی‘ اے حمید اور اشفاق احمد جیسے لوگ شامل ہیں جن کی تحریروں پر صحافتی اندازِ تحریر کا گمان نہیں گزرتا۔
طاہر مسعود: پچھلے دس‘ بارہ برسوںمیں ادیب کا دائرہ اثر بے حد محدود ہوگیا ہے‘ آپ کے خیال میں اس کے کیا اسباب ہیں؟
بانو قدسیہ: ٹیلی وژن‘ وی سی آر اور فاسٹ فوڈ‘ لوگ پڑھنے کے بجائے بازاروں میں جا کر کوک پیتے ہیں‘ آئس کریم کھاتے ہیں‘ دوستوں سے ملتے ہیں‘ ڈسکو میوزک سنتے ہیں اور جو وقت بچتا ہے اس میں عورتیں ڈائجسٹ اور مرد جاسوسی ناول پڑھتے ہیں۔ ہمارے درمیان سے مطالعہ کرنے والی سنجیدہ نسل غائب ہوتی جارہی ہے تو جب خریدار نہیں ہوں گے تو بازار کیسے چلے گا۔
طاہر مسعود: آپ نے ابتدا میں جو رومانی افسانے لکھے تھے…؟
بانو قدسیہ: (بات کاٹ کر) میں نے رومانی افسانے لکھے ہی کہاں ہیں؟ ابتدائی دو‘ چار افسانے ایسے ہوں گے جن پر اب مجھے افسوس آتا ہے۔ کبھی کبھی اشفاق صاحب سے کہتی ہوں کہ آپ شگفتہ شگفتہ سی محبت کے افسانے اتنے ڈھنگ سے کیسے لکھ لیتے ہیں‘ مجھ سے تو نہیں لکھے جاتے۔ میرے افسانوں میں رومان سے زیادہ اس کا تجزیہ ہوتا ہے۔
طاہر مسعود: یہ تجزیہ آپ کے ٹی وی ڈراموں میں بھی کثرت سے ہوتا ہے اسی لیے ناظرین اونگھنے لگتے ہیں‘ پتا نہیں اس میں قصور کس کا ہے؟
بانو قدسیہ: میں نے کہا نا کہ میں پبلک کو اپنے تخلیقی عمل میںمداخلت کی اجازت نہیں دیتی۔ بالفرض محال میں یہ سوچنے بیٹھ جائوں کہ میں جو ڈراما لکھ رہی ہوں اسے میری سولہ سال کی بھانجی اور ان پڑھ بھاوج بھی دیکھیں گی اور اس ڈرامے کو ایسا تو ہونا ہی چاہیے کہ ماموں جان شاباشی دیں۔ پھر میں لکھ چکی۔
طاہر مسعود: پھر یہ ڈرامے آپ کن لوگوں کے لیے لکھتی ہیں؟
بانو قدسیہ: میں تو صرف لکھتی ہوں۔ میرے پروڈیوسر اکثر مسودہ اٹھائے آجاتے ہیں کہ ڈرامے کے فلاں منظر یا مکالمے یا کہانی کے کسی حصے میں ترمیم کر دیں۔ میں ان سے کہتی ہوں کہ ’’بہتر ہوگا کہ آپ میرا مسودہ مجھے واپس کر دیں۔‘‘ یہ بات وہ کیوں نہیں سمجھتے ہیں کہ شوقیہ نہیں اندرونی ضرورت اور دبائو کے تحت لکھتی ہوں۔ مجبور ہو کر لکھتی ہوں۔ دوسروں کی پسند اور ناپسند پر جب بھی میں نے غور کیا ہے ایسا لگا ہے جیسے میں کوئی اچھوت ہوں۔ لہٰذا میں نے اس بارے میں فکر مند ہونا عرصہ ہوا چھوڑ دیا ہے۔ میں صرف اپنی مرضی سے لکھتی ہوں‘ اس لیے عام لکھنے والوں سے مختلف ہوں۔ عام ڈراموںکے برعکس میرے ڈراموںکا کوئی انجام نہیں ہوتا۔ میرے کردار سنگ میل پر کھڑے رہ جاتے ہیں کیوں کہ میں جانتی ہوں کہ سفر کبھی ختم نہیں ہوتا۔ زندگی مسلسل اور لامتناہی ہے۔ باپ کے بعد بیٹا حیات کے تسلسل کو قائم رکھتا ہے اور زلزلے میں تباہ ہوجانے والے شہر پھر سے آباد ہو جاتے ہیں۔

حصہ