ہم کورونا کے مریضوں کو آن لائن علاج کی سہولت فراہم کر رہے ہیں۔ مریضوں کے رشتے دار سوالات کرتے ہیں کہ آخر ہر اسپتال جانے والے مریض کو کورونا میں کیوں ڈال دیتے ہیں۔ پتّے کا آپریشن ہو، دل کا مریض ہو، ہڈی ٹوٹنے پر اسپتال میں داخل ہو‘ مریض پر کورونا کا لیبل لگا کر داخل کرتے ہیں۔ پھر آکسیجن پرپر ڈال دیتے ہیں۔ سوشل میڈیا کے ذریعے بھی اسی طرح کی داستانیں عام ہیں۔ بہت سے ایسے مریض جو کورونا میں مبتلا ہوتے ہیں‘ ڈر کر چھپاتے ہیں۔ اسپتال نہیں جاتے اور بیماری کے لیے ڈاکٹر سے جب رجوع کرتے ہیںبہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔ ہم ان سوالات کے جوابات‘ جو اکثر مریض اور ان کے رشتے دار کرتے ہیں‘ قارئین کے لیے پیش کر رہے ہیں۔
کورونا سے بچنے کا طریقہ:
احتیاط: نبیؐ نے وبا سے بچنے کی تاکید کی ہے اس لیے ماسک پہننا، فاصلہ رکھنا، بند کمرے میں میٹنگ، مذہبی مجلس یا کسی بھی طرح ایک کمرے میں دیر تک بیٹھنا یہ سب بیماری کے امکانات بڑھا دیتے ہیں۔ جتنی زیادہ دیر، زیادہ لوگوں کے ساتھ کسی ہال یا کمرے میں ہوں گے بیماری کا امکان بڑھ جائے گا۔
سوال: میں نے ویکسین لگوالی ہے کیا اب بھی ماسک ضروری ہے؟
جواب: ویکسین لگوانے کے بعد اگر ماسک نہ پہنیں گے تو کورونا ہوسکتا ہے۔ اس کی شدت میں کمی ہوگی۔ لیکن ایسا فرد اپنے گھر والوں اور بچوں میں کورونا پھیلا سکتا ہے۔ ماسک سماجی فاصلہ سب کے لیے ضروری ہے۔
سوال: کورونا جسم میں کس جگہ حملہ کرتا ہے؟
جواب: کورونا جسم میں داخل ہونے کے بعد ایک خاص طرح کے خلیوں پر حملہ کرتا ہے جو ناک، سانس اور خون کی نالیوں، آنتوں، دماغ کے اعصاب وغیرہ میں ہوتا ہے۔ اسی لیے سانس پھولنا، خون کی نالیاں متاثر، دماغ کے اعصاب پر حملہ کی وجہ سے خوشبو اور ذائقہ غائب ہو جاتے ہیں، آنتوں کے متاثر ہونے کی وجہ سے دست وغیرہ آتے ہیں۔لیکن ہر مریض میں تمام علامات نہیں ہوسکتیں۔
سوال: کورونا کا علاج گھر پر کرائیں یا اسپتال میں؟
جواب: کورونا کے بارے میں یاد رکھیں کہ پہلے چند دن ہلکی علامت، پھر زیادہ علامات سانس پھولنا وغیرہ پر اپنے ڈاکٹر سے رابطہ کریں اور اس کے مشورہ پر عمل کریں۔ اگر علامات کم ہوں تو گھر پر باآسانی علاج ہو سکتا ہے۔
سوال: کیا بیماری کا پہلا دن ناک کے ٹیسٹ سے معلوم ہوگا؟
جواب: ناک والے ٹیسٹ جب بھی کرائیں یہ صرف بیماری کے وائرس کا بتاتا ہے‘ بیماری کا پہلا دن علامت کے ظاہر ہونے سے گنا جائے گا۔
سوال: کورونا کے مریض کی گھر پر کسی طرح نگہداشت کریں؟
جواب: مریض کو الگ کمرے میں رکھیں۔
ایک بڑا چمچہ بلیچ اس میں ایک لٹر پانی لیں اور اسپرے گن کی مدد سے مریض کے استعمال کی چیزوں کو وائرس سے پاک کریں۔ مریض اور تیماردار دونوں ماسک باندھیں۔ یاد رکھیں مریض کے کمرے سے نکل کر کپڑے یا گائون ماسک تبدیل کریں۔کرونا 11 ویں دن چلا جاتا ہے۔ 11 دن کے بعد مریض کے پاس ماسک پہن کر جانا ضروری ہے۔
11 دن بعد مریض کی قوتِ مدافعت بہت کم ہو جاتی ہے‘ اس لیے مریض کو تیماردار سے خطرہ ہوتا ہے۔ یعنی پہلے 11 دن مریض سے خطرہ اور 11 دن بعد مریض کو خطرہ ہوتا ہے۔ اکثر مریضوں کو اپنے تیماردار کے کھانسنے‘ چھینکنے‘ ہاتھ ملانے سے نمونیا ہو جاتا ہے۔ اسپتالوں میں دوسرے مریضوں سے انفکشن لگتا ہے‘ جو گھر میں ہونے والے نمونیا سے خطرناک ہوتا ہے۔
سوال: مریض کو 11 دن بعد نمونیا سے بچانے کا کیا طریقہ ہے؟
جواب: درج ذیل ہدایات پر عمل کرکے مریض کو بچایا جاسکتا ہے:
٭مریض کے سامنے ماسک لگا کر جائیں۔
٭ مریض سے ہاتھ نہ ملائیں۔
٭ مریض کے کمرے میں صرف تیماردار جائیں۔
٭مریض کا رشتے داروں سے میل جول نہ رکھیں۔
یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ جتنے زیادہ لوگ مریض کے کمرے میں جائیں گے مریض کے شدید بیمارے ہونے اور نمونیا کے امکان بڑھ جاتا ہے۔
سوال: مریض کا علاج گھر پر اچھا ہی یا اسپتال میں؟
جواب: کورونا کی بیماری کے حملے کو سمجھیں۔
٭ مریض کو بخار‘ گلا خرابی‘ شدید درد‘ خوشبو محسوس نہ ہونا وغیرہ شروع کے دنوں میں ہوتا ہے۔ بعض مریضوں میں دست آنا بھی علامت ہوتی ہے۔
٭ تمام علامات نہیں ہوتی‘ مختلف مریضوں میں مختلف علامات ہو سکتی ہیں۔
٭ پہلے چند دن طبیعت کم خراب ہوتی ہے۔
٭ کورونا جسم میں داخل ہو کر اپنی تعداد بڑھاتا ہے‘ پہلے 5 سے 7 دن تک وہ جسم پر شدید حملہ کرتا ہے‘ اس دوران شدید علامات نہیں ہوتیں۔ مریض کو بعض اوقات پہلے 6 سے 7 دن تک اکثر پتا بھی نہیں چلتا۔
٭ 7-6 دن کے بعد دوسرا مرحلہ شروع ہوتا ہے‘ جسم کے سپاہی بیدار ہو جاتے ہیں اور وہ کورونا وائرس پر حملہ کرتے ہیں۔ یہ سپاہی یا خون کے خلیہ کورونا کے وائرس پر اس شدت سے حملہ آور ہوتے ہیں کہ وائرس کے ساتھ موجود جسم کے حلیہ کو بھی نقصان پہنچا دیتے ہیں۔
٭ شدید لڑائی کی وجہ سے جسم کے اندر سوجن آجاتی ہے۔
٭ شدید سوجن پھیپھڑوں میں ہوتی ہے جس کی وجہ سے پھیپھڑوں سے کم آکسیجن خون میں آتی ہے‘ بات کرنے‘ چلنے پر مریض کا سانس پھولنے لگتا ہے۔
٭ بہت سے مریضوں میں سانس پھولنا ہی کورونا کے جراثیم کو متاثر کرنے کی علامت ہوتا ہے۔ سانس پھولنا بتاتا ہے کہ پھیپھڑوں میں سوجن ہے‘ خون کے آکسیجن لے جانے والے ٹرک متاثر ہو چکے ہیں۔
سوال: کیسے پتا چلے گا کہ یہ کورونا ہے؟
جواب: ٭ 15 گنتی تک سانس روکیں‘ سانس نہ رکے۔
٭ آکسی میٹر (Plese oximeter) انگلی پر لگا کر آکسیجن چیک کریں اگر 95-94 سے کم ہو تو آکسیجن کی کمی ہے۔ ایسا مریض جسے پہلے سے کوئی سانس کی بیماری مثلاً دمہ‘ سگریٹ نوشی‘ ٹی بی وغیرہ نہیں ہے تو آکسی میٹر سے خون میں کم مقدار میں ہونا کورونا کی علامت ہے۔
٭ ناک سے کورونا کا ٹیسٹ کروائیں۔ یہ منفی بھی آسکتا ہے‘ اصل اہمیت آکسی میٹر اور خون کے ٹیسٹ کی ہے۔
٭ خون والے ٹیسٹ آپ کا ڈاکٹر کرائے گا‘ یہ ٹیسٹ بتاتے ہیں کہ جسم کو کورونا کا انفکشن ہوا تھا اور جسم میں سوجن ہے۔
سوال: ڈاکٹر صاحب کیا دوا دیں گے؟
جواب: ڈاکٹر صاحب جسم کے سپاہیوں کی غذائی طاقت وٹامن ڈی‘ زنک‘ وٹامن سی وغیرہ پر مشتمل گولیاں یا فروٹ چاٹ‘ سبزیاں‘ دلیہ‘ دہی وغیرہ دیں گے۔
٭ ایسی غذائیں جو جسم کا نظام مدافعت کو مضبوط کرتی ہیں۔ کچن میں موجود دار چینی‘ چھوٹی الائچی‘ ادرک‘ لہسن‘ پودینہ‘ مرچ بہترین اینٹی آکسیڈنٹ ہیں جو ہر گھر پر موجود ہوتی ہیں۔
٭ مریضوں کو کھانسی اکثر ہوتی ہے اس لیے وہ دار چینی+چھوٹی الائچی کی دودھ والی چائے استعمال کرے۔
٭ ادرک کا قہوہ پودینہ کے ساتھ لیموں ڈال کر۔
٭ لہسن کی کم مرچوں والی چٹنی۔
٭ پودینے کی چٹنی استعمال کرتے ہیں۔
٭ شروع کے دنوں میں وائرس کا مقابلہ کرنے والی دوا دیتے ہیں۔
٭ سپاہیوں کے Active ہونے کے بعد پورے جسم میں سوجن آجاتی ہے۔ یہ سوجن خون کے ٹیسٹ کے ذریعے معلوم ہوتی ہے۔ سوجن آنا جسم میں شدید جنگ کا پتا دیتی ہے جسے سائیٹو کائن کا طوفان (Cytorkine Storm) کہتے ہیں۔
٭ اس خطرناک صورت میں سوجن کم کرنے والی دوائیںدی جاتی ہیں جن کی مقدار آپ کا ڈاکٹر بتائے گا۔
٭ اینٹی بائیوٹک دیتے ہیں‘ انفکشن سے بچانے اور علاج کے لیے۔
سوال: جب کورونا 11 دن بعد چلا جاتا ہے تو مریض کئی ہفتے تک کیوں بیمار رہتا ہے؟
جواب: کورونا زلزلہ کی طرح ہوتا ہے‘ زلزلہ میں زخمی ہونے والوں کا علاج ہفتوں یا کئی ماہ تک اسی طرح کورونا جسم کو جو نقصان پہنچا گیا‘ خون کی نالیوں کو پہنچنے والے نقصان‘ خون کے سرخ خلیوں کو نقصان (خون کی سرخ خلیے آکسیجن لے جانے والے ٹرک کا کام کرتے ہیں)۔
پھیپھڑوں کو پہنچنے والا نقصان:
٭ کورونا اعصاب اور دماغ کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔
٭ ان نقصانات‘ ان زخموں کو ٹھیک ہونے میں کئی ہفتے یا کئی مہینے لگ سکتے ہیں۔
سوال: اگر آکسیجن کم ہو تو کیا کرنا چاہیے؟
جواب: اگر آکسیجن 94 سے کم ہو تو اوندھا لیٹ جائیں یا کروٹ پر لیٹیں‘ اس طرح 5-4 آکسیجن لیول بڑھ جاتا ہے۔ مثلاً آکسی میٹر میں ریڈنگ 90 ے تو 95 ہو سکتی ہے۔ یاد رکھیں پھیپھڑوں کا وہ حصہ جو پیٹھ کی طرف ہوتا ہے‘ اس سے آکسیجن زیادہ جذب ہوتی ہے‘ اس لیے اوندھا یا کروٹ‘ دائیں یا بائیں لیٹنے سے آکسیجن بڑھ جاتی ہے۔ کیوں کہ یہ حصہ بیڈ کے ساتھ ہوتا ہے تو آکسیجن کم جذب ہوتی ہے اس لیے مریض کو سیدھا نہیں لیٹنا چاہیے۔ کروٹ یا الٹا لیٹیں۔ اوندھا لیٹتے ہوئے سینہ اور پیٹ سے نیچے کی جگہ پر 2 تکیے رکھ لیں تاکہ پیٹ بیڈ سے نہ لگے۔ اوندھا لیٹتے ہوئے اتنے تکیے رکھیں کہ بیڈپیٹ سے اونچا رہے تاکہ سانس لینے پر پیٹ حرکت کرسکے۔ اگر ان ترکیبوں سے بھی آکسیجن نہ بڑھے تو ڈاکٹر صاحب سے رابطہ کریں۔
سوال: ڈاکٹر صاحب آپ ضرورت کے مطابق آکسیجن لینے کے بارے میں بتائیں کہ آکسیجن کیسے لیتے ہیں‘ کتنی لیتے ہیں؟
جواب: آکسیجن کی مقدار کے بارے میں آپ کے ڈاکٹر صاحب بتائیں گے‘ لیکن یاد رکھیں 1,2,3 لیٹر تک آکسیجن ناک سے لی جاسکتی ہے۔
٭ زیادہ آکسیجن ماسک سے لیں۔ کروٹ لیٹیں‘ اوندھا لیٹیں۔
سوال: آکسیجن مسلسل دینی چاہیے؟
جواب: یاد رکھیں جسم میں آکسیجن کی کمی سے ایسے مادّے نکلتے ہیں جو جسم اور دماغ کو نقصان پہنچاتے ہیں اس لیے آکسیجن مستقل لیں۔ ہلکی غذا لیں‘ پانی زیادہ پئیں اور کھاتے پیتے ہوئے ناک سے آکسیجن لیں۔
سوال: آکسیجن لگائیں تو باتھ روم کا کیا کریں؟
جواب: پیشاب بوتل میں کریں یا پیشاب کی بوتل بیڈ کے ساتھ کرسی پر رکھ لیں‘ ضعیف افراد کو پیمپر استعمال کرسکتے ہیں۔
اکثر مریض باتھ روم جانے کی وجہ سے اپنی طبیعت خراب کرا لیتے ہیں‘ آکسیجن اچانک 70-60 پر آجاتی ہے‘ ناقابل تلافی نقصان ہوتا ہے اور پھر انہیں اسپتال منتقل کرنا پڑتا ہے۔ بعض اوقات اتنا زیادہ خراب ہوجاتی ہے کہ مشین سے پندرہ ‘ بیس لیٹر آکسیجن دینی پڑتی ہے۔
سوال: اکثر بزرگ کہتے ہیں کہ ناپاکی ہو گئی‘ وہ نہیں مانتے اور لازمی واش روم جاتے ہیں۔
جواب: باتھ روم جانے پر آکسیجن کم ہو جاتی ہے۔ مریض کو پیشاب بیڈ سائیڈ پر یا بیڈ پرکرائیں یاد رکھیں بیٹھنے سے آکسیجن کم ہوتی ہے۔ باتھ روم میں مزید آکسیجن کم ہو جاتی ہے اس لیے باتھ روم میں آکسیجن ضرور لیں ورنہ ناقابل تلافی نقصان ہو سکتا ہے۔
سوال: آکسیجن کتنے دن تک لیتے ہیں؟
جواب: پھیپھڑوں اور خون کے خلیوں کو پہنچنے والے زخم جتنی جلدی ٹھیک ہوں گے اتنے جلدی آکسیجن کم لینا ہوگی اور پھر آکسیجن کے بغیر آکسی میٹر کی ریڈنگ 95 تک آجائے گی۔ لیکن مریض کی صحت‘ پھیپھڑوں کی صحت کے لحاظ سے مختلف افراد کے صحت مند ہونے کا دورانیہ مختلف ہوتا ہے۔
٭صحت مند ہونے والے مریضوں میں اکثر کو دن میں ضرورت نہیں ہوتی لیکن کئی ہفتوں تک رات کو آکسیجن لگ اکر سونا پڑتا ہے۔
یاد رکھیں:٭آکسیجن کے لیے اپنے ڈاکٹر سے مشورہ کرتے رہیں۔
٭ آکسیجن کے بغیر رہ کر بہادری دکھانے کی کوشش نہ کریں۔ یہ نقصان دہ ہو سکتی ہے۔
٭ اپنے ڈاکٹر کے مشورے سے آکسیجن لینا ختم کریں۔
سوال: کیسے پتا چلے گا کہ کورونا اب نہیں ہے؟ کیا اس کے لیے ٹیسٹ کرانا ضروری ہے؟
جواب: ناک سے ہونے والا PCR ٹیسٹ کروایا جائے‘ کئی ہفتے بعد تک مثبت آسکا ہے‘ مثبت کا مطلب یہ ہوگا کہ کورونا کی Dead Body ناک میں موجود ہے۔ نہ کور ونا کا دوبارہ ٹیسٹ کروانے کا مریض کو فائدہ ہے اور نہ خون کا ٹیسٹ Antibodies کرانے کا فائدہ ہے۔ اپنی مرضی سے ٹیسٹ کروانے سے اکثر پریشانی میں اضافہ ہوتا ہے۔ (دنیا بھر کے ماہرین وائرس اور انفکشن کی یہی رائے ہے)
سوال: کورونا کے بعد بعض افراد کو درد کی کیفیت اور ذہنی پریشانی رہتی ہے اس کی کیا وجہ ہے؟
جواب: کورونا کا وائرس اعصاب کو متاثر کرتا ہے اس لیے سونگھنے کی حس متاثر ہوتی ہے‘ ذائقہ ختم ہو جاتا ہے جو ایک‘ دو ہفتے میں بحال ہو جاتا ہے۔
٭ جسم کے حصوں ہاتھ‘ پائوں‘ کمر وغیرہ کی اعصاب متاثر ہوتے ہیں ان میں کئی ہفتے تک درد ہوتا ہے۔
٭ دماغ کے اندر کے اعصاب متاثر ہوتے ہیں جس کی وجہ سے مریض کو ذہنی پریشانی‘ انگزائٹی‘ ڈپریشن اور شدید طور پر اعصاب متاثر ہوتے ہیں۔
٭ ڈپریشن کی وجہ سے مریض میں مایوسی‘ نیند متاثر ہونا‘مایوسی‘ سستی‘ کام نہ کرنے کی ہمت ہونا جیسی علامات ہوتی ہیں۔
٭ شدید ذہنی کیفیت میں مریض زیادہ باتیں کرتا ہے‘ پرانی باتیں یاد کرتا ہے‘ نصیحت کرتا رہتا ہے‘ بہت زیادہ مذہبی باتیں کرتا ہے‘ دوسروں کو ہر وقت لیکچر دیتا ہے‘ اپنے کو بڑا آدمی‘ دوسروںکو چھوٹا سمجھتا ہے‘ غصے میں جلدی آجاتا ہے۔
بعض مریض ایسی بات کرتے ہیں جو ان کے ذہنی اور تعلیمی مرتبے کے بالکل خلاف ہوتی ہے۔ مثلاً والد کی شادی کا کہنا‘ بیوی کو طلاق دے دیناجھگڑا کرنا‘ گالیاں اور برے الفاظ کہنا۔ لیکن ہر مریض میں ساری علامات نہیں ہوتیں۔ یہ تکالیف کافی عرصے تک رہ سکتی ہیں‘ ان میں سے اکثر قابل علاج مریض نارمل ہوجاتاہے لیکن کمزوری‘ زیادہ کام کرنے پر تھک جانے کی کیفیت تک رہتی ہے۔