یوں تو نماز بھی دوزخ کی کلید بن سکتی ہے اگر اسی طرح فتویٰ دے کر لوگ آپس میں ایک دوسرے کی گردن مارنے لگیں تو کیا اس کی وجہ سے قانون جہاد کی حرمت کا فتویٰ صحیح ہوگا؟
ایک شبہ اور بھی ہے کہ سیونگ بینک میں تو نہیں‘ لیکن عام بینکبوں اور کو آپریٹیو بینکوں کے مالکوںمیں بعض بعض مسلمان بھی ہوتے ہیں۔ ایسی صورت میں کیا کیا جائے گا؟ یہ صحیح ہے کہ بینک کا کاروباری عملہ جس سے لوگ لین دین کرتے ہیں‘ عموماً غیر اقوام کے لوگ ہوتے ہیں لیکن مالکوں کی جماعت میں جب مسلمان بھی ہیں تو عمل کی صورت کیا ہو سکتی ہے؟
کاش علما غور کرتے‘ مسئلہ جوائزالسلاطین میں فقہا نے لکھا ہے بہرحال میری غرض کچھ نہیں۔ صرف ایک مسئلے کے متعلق علما کو چونکانا ہے یا تو وہ انسداد سود کے لیے ایسی آواز بلند کریں جیسی کہ ’‘مانع سکرات‘‘ کی سوسائٹی نے بلند کی ہے یا کم از کم قانونی حدود میں رہ کر اتنا تو کریں جتنا گائے والے کرتے ہیں۔ شاید حکومت توجہ کرے یا وطن والے کچھ رحم کھائیں۔ ہو سکتا ہے کہ ’’سود‘‘ کا تصفیہ گائے کی قربانی سے ہو جائے ورنہ پھر سرمایہ دار مسلمانوںکوکسی باضابطہ نظام کے تحت اس پر آمادہ کیا جائے کہ جو سلوک غیر اقوام کے لوگ غریب مسلمانوں کے ساتھ کر رہے ہیں وہی وہ دوسروں کے ساتھ کریں۔ ’’پس جو تم پر زیادتی کرے تو تم بھی اس پر زیادتی کرو جتنی کہ اس نے کی۔‘‘
مقصد صرف اسی قدر ہے۔ ورنہ جولوگ محض شکم پروری یا دولت مندی کے لیے اس مسئلے کے جواز کی فکر میں ہیں اور اس فکر میں اتنے دیوانے ہو رہے ہیں کہ صحیح‘ غلط‘ جس طرح بن پڑتا ہے قرآن کے ایک منصوص حکم کے توڑنے میں زور لگا رہے ہیں‘ ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ اسلام کی بنیاد امارۃ و دولت پر نہیں بلکہ جس کا فخر ’’فقر‘‘ تھا‘ اسی حقیقتِ مقدسۂ کبریٰ نے اس کے ستون قائمِ کیے ہیں۔ بلندی صرف ایمان کے ساتھ ہے۔ انتم الاعلون کا وعدہ محض ’’ان کنتم مومنین‘‘ کے ساتھ مشروط ہے۔ ثروت دولت والے پہلے بھی وہی تھے جو اب ہیں‘ اس وقت بھی قرآن کی یہی ہدایت تھی۔
’’پھر ان کے اموال اور اولاد (مردم شماری) تم کو پسندیدہ نہ معلوم ہوں۔ اللہ چاہتا ہے کہ اس کے ذریعے سے انہیں دکھ پہنچائے اور ان کی جان فرسودہ ہوکر نکلے‘ ایسی حالت میں کہ وہ ناشکرے ہوں۔‘‘
اور اب بھی ہم مسلمانوں کے لیے اسی حکم میں قوت ہے۔ ہم امتیوں کو کیا‘ خود ہمارے پیشوا و سردار آقا امام صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا۔
’’اور اپنی انکھیں ان کی طرف اونچی نہ کروجنہیں میں نے قسم قسم کی تازگی دے رکھی ہے‘ میں اس میں انہیں آزماتا ہوں۔ تیرے رب کی روزی تیرے لیے بہتر اور باقی رہنے والی ہے۔‘‘
آج جو یورپ کے خدائوں کو دیکھ دیکھ کر چیخ رہے ہیں کہ ہمارے لیے بھی اس قسم کے ’’الٰہ‘‘ ہونے چاہئیں کیا ان کو یہ سنایا نہ جائے کہ تم جس کی امت کے لیے روتے ہو‘ اسؐ نے ارشاد فرمایا اور قسم کھا کر فرمایا۔ بخاری میں ہے ’’پس قسم خدا کی میں فقر یا افلاس سے تمہارے نہیں ڈرتا ہوں کہ تم پر دنیا پھیلائی جائے گی جس طرح تم سے پہلوں پر پھیلائی گئی پھر جس طرح انہوں نے اس میں باہم رشک و نافس کیا۔ اسی طرح کہیں تم بھی نہ کرو اور تم بھی غافل نہ ہو جائو جس طرح وہ ہوئے۔‘‘
تم کہتے ہوکہ مسلمانوںکے پاس روپیہ نہیں ہے‘ گنیاں ہیں‘ عمدہ کوٹ نہیں ہیں‘ عمدہ کپڑے نہیں ہیں‘ یہ نہیں ہے وہ نہیں ہے لیکن مسلمان جن کے ہیں انہوں نے جو فرمایا ہے‘ دیوانو! اس کی تمہیں خبر بھی نہیں ہے۔ ارشاد فرمایا‘ بخاری میں ہے ’’اشرفیوں اور روپوں والے جھالر دار لباس والےسیاہ عباہ والے سب گروہ‘ ہلاک ہوئے۔‘‘
تم کہتے ہو کہ مفلس قوم تباہ ہوئی جاتی ہے‘ لیکن جس کی قوم ہے وہ فرماتا ہے کہ درہم و دینار کے بندے تباہ ہوئے۔اب تمہی بتائو کہ ہم مسلمان کس کی سنیں؟ اور سچ ہے کہ جس قوم میں افلاس کا رونا ہے انہوں نے جب سود کھایا اور خوب پیٹ بھر کر کھایا‘ تیرہ تیرہ برس کے اندر بائیس بائیس روپے کو بائیس بائیس لاکھ روپے تک بنا کر رہے ان کے افلاس کے مرثیہ خانوں کو دنیا میں کیا کمی ہے۔ کیا۔ دونوں وقت پیٹ بھر کر کھانا اسی قوم کو پہنچ جاتا ہے جو سود کے میدان میں بازی مارے ہوئے ہے؟ فی کس تین پیسے کن قوموں کی آمدنی ہے؟ اور ان کو تو جانے دو ‘ حکومت کے زور سے جو سود کھا رہے ہیں ان کے مزدوروں کا حال اخبارات میں کیا تمہاری نظروںسے نہیں گزرتا ہے‘ سچ فرمایا امت کے ہادی صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’اگر آدم کے بچوں کے پاس مال کی دو وادیاں ہوں تو وہ تیسری کی تلاش میں مصروف ہوگا اور آدم کے بچے کا پیٹ (یا آنکھ)مٹی کے سوا کوئی چیز نہیں بھر سکتی۔‘‘ (بخاری)
پس:
سرِ منزل قنادعت نتواں زدست دادن
ایسارباں فروکش کیں رہ کرا ندارد
مسلمان کے لیے تو وہی نغمہ کافی ہے جو آج سے تیرہ سو برس پیشتر گایا گیا تھا للھم لاعیش الا عیش الآخرۃ۔
(ترجمان القرآن: شعبان 55 ھ‘ رمضان 55ھ… نومبر 36ء دسمبر 36 ء)
تنقید
(از: ابولاعلیٰ مودودی)
مجھ کو مولانا مناظر احسن صاحب کی رائے سے جن جن امور میں اختلاف تھا‘ ان کا اظہار مختصر طور پر حواشی میں کر دیا گیا ہے لیکن جن اصولی مسائل پر مولانا نے اپنے استدلال کی بنا حسب ذیل امور پر ہے۔
مولانا کے دلائل کا خلاصہ:
-1 ان کا دعویٰ ہے کہ نہ صرف تحریم ربویٰ کا حکم‘ بلکہ تمام عقودِ فاسدہ اور ناجائز معاشی وسائل کی ممانعت کے احکام بھی صرف ان معاملات سے تعلق رکھتے ہیں جو مسلمان اور مسلمان کے درمیان ہوں۔ بالفاظ دیگر غیر قوموں کے ساتھ جو معاملات پیش آئیں ان میں حرام و حلال اور جائز و ناجائز کی کوئی تمیز نہیں۔
-2 ان کے نزدیک شریعت نے تمام ان غیر مسلمانوں کو مباح الدم والاموال قرار دیا ہے جو ذمی نہ ہوں‘ لہٰذا ایسے غیر مسلموں کا مال جس طریقے سے بھی لیا جائے‘ جائز ہے خواہ کہ وہ سود ہو یاقمار ہو‘ یا ان کے ہاتھ شراب اور لحم خنزیر اور مردار فروخت کیا جائے یا اور دوسرے وہ طریقے اختیار یے جائیں جنہیں اسلام نے ’’مسلمانوں کے معاملے میں‘‘ اختیار کرنے کو حرام ٹھہرایا ہے۔ مسلمانوںکے معاملے میں اختیار کرنے کو حرام ٹھہرایا ہے۔ مسلمان جس طرح بھی ان کا مال لیں گے‘ اس کی حیثیت مال کی غنیمت یا فے کی ہوگی اور وہ ان کے لیے حلال و طیب ہے۔
-3 ان کی رائے میں ہر وہ ملک جہاں اسلامی حکومت نہیں ہے دارالحرب ہے اور اس کے غیر مسلم باشندے حربی ہیں‘ وہ دارالکفر کو دارالحرب کا اور کافر غیر ذمی کو حربی کاہم معنی سمجھتے ہیں‘ اس لیے ان کے نزدیک تمام وہ ممالک جن پر غیر اسلامی سلطنتیں قابض ہیں‘ پورے معنوں میں دارالحرب ہیں اور وہاں علی الدوام وہی احکام مسلمانوں پر جاری رہنے چاہئیں جو دارالحرب کے متعلق کتب فقیہ میں مذکور ہیں۔
-4 دارالحرب کی جو تعریف فقہائے متقدین نے کی ہے وہ مولانا کی رائے میں ہندوستان پر چسپاں ہوتی ہے اور اس ملک کے مسلمانوں کی فقہی پوزیشن ان کی رائے ’’مستامن‘‘ کی ہے۔دوسرے الفاظ میں مسلمان اس دارالحرب میں اس حیثیت سے رہتے ہیں کہ انہوں نے یہاں کی حربی سلطنت سے امان لی ہے۔
-5 مستامن کے متعلق اسلامی قانون یہ ہے کہ وہ اس غیر اسلامی سلطنت کے قانون کی خلاف ورزی نہیں کرسکتا جس سے امان لے کر وہ اس کے ملک میں رہتا ہو‘ لہٰذا مولانا کی رائے ہندوستان کے مسلمانوں پر غیر اسلامی حکومت کے قانون کی اطاعت تو ایسی فرض ہے کہ اگراس سے سرمو انحراف کریں گے تو عذاب جہنم کے مستحق ہوں گے لیکن اسلام کے اکثر احکام اور قوانین کی اطاعت سے وہ بالکل آزاد ہیں‘ اس لیے کہ وہ دارالحرب میں مقیم ہیں۔ قتل‘ غارت گری‘ چوری‘ ڈکیتی‘ رشوت‘ ٹھگی اور ایسے ہی دوسرے ذرائع سے حربی کفار کو نقصان پہنچانا اور ان کا مال لینا ہندوستانی مسلمانوں کے لیے صرف اس وجہ سے ناجائز ہے کہ ملکی قانون اس کو ناجائز کہتا ہے‘ نہ اس لیے کہ یہ افعال بجائے خود اسلامی شریعت میں حرام ہیں کیوں کہ تمدن اور معیشت اور اخلاق کے بیشتر معاملات میں ہندوستان کے اندر اسلامی شریعت اس وقت منسوخ ہے جب تک یہاں غیر اسلامی حکومت قائم ہے۔ اب شریعت کے قوانین میں سے صرف قانونِ معاہدہ کا اطلاق یہاںکے مسلمانوں پر ہوتا ہے اور اس کی رُو سے لین دین اور کسب مال کے جو ذرائع ملکی قانون میں ناجائز ہیں ان کو اختیار کرنا تو ہندوستانی مسلمانوں کے لیے شرعاً حرام ہے‘ بخلاف اس کے جن ذرائع کو شریعت نے حرام ٹھہرایا ہے اور ملکی قانون حلال ٹھہراتا ہے وہ سب کے سب قانوناً بھی حلال ہیں اور شرعاً بھی حلال‘ نہ دنیا میں ان پر کوئی تعزیر نہ آخرت میں کوئی مواخذہ۔
دلائل مذکورہ پرمجمل تبصرہ:
میرے نزدیک ان میں سے ایک بات بھی صحیح نہیں۔ خود حنفی قانون بھی ‘ جس کے نمائندے کی حیثیت سے مولانا نے یہ تمام تقریر فرمائی ہے‘ ان بیانات کی تائید نہیں کرتا۔ اس مضمون میں مولانا نے اسلامی قانون کی جو تصویریں پیش کی ہے وہ صرف غلط ہی نہیں بدنما بھی ہے‘ اس کو دیکھ کر اسلام اور مسلمانوں کے متعلق ہرگز کوئی اچھی رائے قائم نہیں کی جاسکتی۔ اگر کوئی ناواقف شخص اس تصویر کو دیکھے گا تو وہ اسلام کو دنیا کا بدترین مذہب اور مسلمانوں کو ایک نہایت خطرناک قوم سمجھے گا اور خداکا شکر ادا کریگا کہ غیر مسلم حکومت کے قانون نے ان ’’مستامنوں‘‘ کے ہاتھ سے دوسری قوموں کی جان و مال اور آبرو کو بچا رکھاہے۔ دوسری طرف اگر شریعت کی اسی تعبیر کو قبول کرکے ہندوستان کے مسلمان اس ملک میں زندگی بسر کرنا شروع کر دیں تو شاید پچاس برس کے اندر اُن میں برائے نام بھی اسلام باقی نہ رہے‘ بلکہ اگر خدا نہ کرے کفار کے تسلط کے آغاز سے ہندوستان میں انہی اصولوں پر عمل درآمد کیا گیا ہوتا تو اج جو کچھ رہی سہی اسلامیت ہندوستان کے مسلمانوں میں نظر آتی ہے یہ بھی نہ ہوتی اور ڈیڑھ سو برس کے اندر ہندوستان کے مسلمان بالکل مسخ ہو چکے ہوتے۔ البتہ یہ ضرور ممکن تھا کہ ان کی جائدادوں کا ایک حصہ محفوظ رہ جاتا اور ان مین بھی مارواڑیوں اور بنیوں اور سیٹھوں کا ایک طبقہ پیدا ہو جاتا۔