تریاق

222

’’عید کے پہلے دن بوسکی کرتا، سفید شلوار، کالے جوتے… دوسرے دن کے لیے آسمانی رنگ کی قمیص اور سرمئی پینٹ، سرمئی سینڈل… تیسرے دن کے لیے عنابی رنگ کا شلوار سوٹ۔ مشہور ڈیزائنر کے ہیں سب کپڑے…‘‘ خالد کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی زینب درمیان میں بول پڑی ’’اور خواب ختم ہوا‘‘۔ ساتھ ہی ایک زوردار قہقہہ لگایا۔ اپنا سر پیچھے کرکے اور آنکھ بند کرکے وہ یہ قہقہہ جب دل سے لگاتی تو اس کی آنکھوں میں نمی آجاتی، بالکل اِسی طرح۔ اب وہ اپنی آنکھوں میں آیا پانی صاف کررہی تھی۔
’’تم نے بات کہاں سنی؟‘‘ خالد قدرے غصے سے بولا۔
’’اچھا کہو کیا رہ گیا ہے۔‘‘ زینب مسکراتے ہوئے بولی۔ اس کی نظریں خالد کے چہرے پر ٹکی تھیں۔
’’یہ باتیں چھوٹے بابو اپنے دوست سے فون پر کررہے تھے۔‘‘ خالد گویا ہوا۔
’’اوہو… اچھا تو یہ بات ہے، آگے سنائو۔‘‘ اس نے کہا۔
’’امی کھانا پکاتی ہیں اور میں خالی بیٹھا بیٹھا تھک جاتا ہوں تو اِدھر اُدھر نکل جاتا ہوں، کبھی چھوٹے بابو کے پاس بھی چلا جاتا ہوں۔ اُن کا نیا فون ایسا چمک دار اور خوب صورت ہے کہ کئی دفعہ میرا دل چاہتا ہے کہ کاش ہمیں بھی اللہ تعالیٰ فون دے دیں، ایسا نہ سہی، جیسا ابو کے پاس ہے ویسا ہی سہی۔ چھوٹے بابو سے کہنے میں ڈر لگتا ہے، ورنہ ان سے کہتا کہ مجھے دیکھنے کے لیے دے دیں۔ اس میں ڈھیر سارے گیم بھی ہیں، جو وہ کھیلتے رہتے ہیں۔ میں دور سے بس آوازیں سنتا ہوں۔ چھوٹے بابو کی ساری چیزیں بہت اچھی ہیں۔ فون کے علاوہ ان کے کھلونے بھی بہت مہنگے ہیں، سیل سے چلتے ہیں۔ گاڑیاں ریس والی وہ ہاتھ میں لیے ریموٹ سے چلاتے ہیں اور ان کی ٹکریں بھی ہوجاتی ہیں۔ میں دیکھتا رہتا ہوں۔ اس کے علاوہ ان کے پاس بہت سے گیم لوڈو کی طرح بھی ہیں جو ڈبوں میں بند کرکے رکھے جاتے ہیں، وہ تب کھیلتے ہیں جب ان کے دوست آتے ہیں۔ میں وہیں بیٹھ جاتا ہوں، وہ منع نہیں کرتے، لیکن اگر بیچ میں بولوں تو کہتے ہیں کہ بس بولو نہیں ہمارے کھیل کے وقت ورنہ یہاں بیٹھنے نہیں دوں گا۔ میرا دل چاہتا ہے میں بھی کھیلوں۔ میں دیکھ دیکھ کر سیکھ گیا ہوں لیکن وہ میرے ساتھ نہیں کھیلتے، ہاں اگر کوئی فلم لگاکر دیکھ رہے ہوں تو دیکھنے دیتے ہیں۔ انگلش میں ہوتی ہیں، سمجھ میں نہیں آتیں، لیکن جب لڑائی ہوتی ہے تو مزا آتا ہے۔ کبھی گن سے لڑائی ہوتی ہے اور کبھی کراٹے۔ وہ بہت مزے کی ہوتی ہیں۔ لیکن تب مجھے بہت غصہ آتا ہے جب فلم چلنے کے دوران بیگم صاحبہ آواز دیتی ہیں، پھر مجھے بھی کسی کام میں لگا دیتی ہیں۔ ان کا کتا بالکل شکاری لگتا ہے، مجھے تو پہچان گیا ہے ورنہ ہر ایک کے اوپر بھونکتا ہے۔ نئے آنے والے تو بہت ڈرتے ہیں، ان کو دیکھ کر ہی چلاّنا شروع کردیتا ہے۔ مہمانوں کے بچے تو روتے روتے جاتے ہیں۔ میں تو اس کو کھانا بھی دیتا ہوں۔ کتے کے سارے کام میں کرتا ہوں۔ کب زنجیر باندھنا، کب کھولنا ہے، کب نہلانا ہے یہ مجھے معلوم ہوگیا ہے۔ وہ مانوس بھی ہوگیا ہے۔ ایک دفعہ گارڈ مجھے ڈانٹ رہا تھا تو وہ اس پر بہت بھونکا۔ بس ٹہلانے کے لیے کوئی اور آدمی ہے۔ بہت مہنگا ہے، باہر کوئی مجھ سے چھین نہ لے اس لیے باہر نہیں لے جاتا۔ چھوٹے بابو اچھے اچھے کپڑے پہنتے ہیں اور ان کے جوتے اور چپل بھی مجھے بہت اچھے لگتے ہیں۔ اپنی گھسی ہوئی چپل تو دل چاہتا ہے کہ پھینک دوں۔ دل چاہتا ہے کہ اپنا کوئی پرانا کھلوانا ہی مجھے دے دیں، لیکن وہ بیگم صاحبہ اپنے بھانجے کو دے دیتی ہیں۔ امی سے جب بہت ضد کرتا ہوں تو وہ ایک بال خرید کر دے دیتی ہیں اوروہ دوسرے دن پھس ہوجاتی ہے۔ ہمارے پاس نہ کھلونے ہیں اور نہ عید میں پہننے کے کپڑے۔‘‘ اس کی آنکھیں بھر آئیں۔
زینب نے اپنے آنچل سے اس کے آنسو پونچھ ڈالے۔ وہ خالد سے دو سال بڑی تھی اور ایک گھر کی صفائی کرتی تھی۔ 12 برس کی عمر میں وہ خاصی پختہ ہوچکی تھی، لگتا تھا کہ اس نے اپنے ذہن کو سمجھا لیا ہے کہ بس تمہاری یہی اوقات ہے، ایسے ہی خوش رہو۔ لیکن خالد ابھی چھوٹا تھا۔ بچپن کی نازک عمر سے گزر رہا تھا، اور اس عمر کا انسان اپنی حیثیت نہیں پہچانتا، اسے ہر ایسی چیز لینے کو دل چاہتا ہے جو بھلے اس کی پہنچ سے دور ہو لیکن ہو اس کے پاس۔
اس کے محلے میں اس کا ایک دوست رہتا تھا، اکثر خالد اس کے ساتھ کھیلتا۔ اس کے پاس کھلونے بھی تھے، خالد اس کے گھر چلا جاتا، اس سے پوچھتا تمہیں یہ کھلونے کس نے دیے ہیں؟
’’خود خریدے ہیں…‘‘ عامرکا جواب ہوتا۔
’’تمہارے پاس پیسے کہاں سے آتے ہیں؟‘‘ خالد پوچھتا۔
ایک دن اس نے خالد سے کہا ’’کیا تمہیں پیسے چاہئیں؟‘‘
’’ہاں… ہاں۔‘‘ خالد بولا۔
’’توچلو میرے ساتھ…‘‘ وہ دونوں ایک فٹ پاتھ پر جا کر بیٹھ گئے۔ عامر نے بتایا کہ ’’میں جیب کاٹتا ہوں اور یہ ہنر میں تمہیں سکھا سکتا ہوں، چلو ایسا کرو تم میرے ساتھ چلو اور آج میرا کام دیکھو۔ یہ تو ایک ہنر ہے، اسے چوری نہیں کہتے۔‘‘ عامر نے بتایا۔
خالد اور عامر باہر نکل گئے۔ عامر کے کہنے کے مطابق خالد تھوڑی دور رہ کر اُس کو دیکھتا رہا۔ جس دکان پر رش ہوتا وہ درمیان میں گھس جاتا اور ایسی صفائی سے جیب کاٹتا کہ اس آدمی کو پتاہی نہ چلتا۔
ایسی لائنوں میں کھڑے لوگ معمولی حیثیت کے ہی ہوتے ہیں، دو جیبیں کاٹ کر تقریباً ہزارروپے تو مل جاتے۔ خالد کو تو عامر باور کرا ہی چکا تھا کہ یہ چوری نہیں ہے، اس لیے خالد نے بھی اس سے قدم ملا لیے۔ کھانا پینا بھی اچھا ہوگیا۔ بازار سے خوب چاٹ وغیرہ کھاتے، کبھی کولڈ ڈرنک پیتے جس کا خالد نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ وہ گھر میں کوئی چیز نہ لاتا مبادا کوئی سوال کرلے کہ اسے خریدنے کے لیے تمہارے پاس پیسے کہاں آئے؟ عید کے کپڑے بھی خود خرید لیے، اور گھر میں کہہ دیا کہ ایک آدمی کچی بستی میں تقسیم کر رہا تھا۔
عامر ابھی اس کو کام سکھا رہا تھا۔ اس نے بلیڈ پکڑنے اور جیب کاٹنے کا طریقہ خالد کو خوب اچھی طرح سکھا دیا تھا۔ خالد زیادہ وقت عامر کے ساتھ گزارتا، جبکہ پہلے ماں کے ساتھ جاتا تھا۔ جب سب چلے جاتے تو وہ گھر سے نکل جاتا، عامر اس کا انتظار کر ہا ہوتا۔ پھر دونوں آوارہ گردی کرتے رہتے، کھاتے پیتے، موج اڑاتے۔ اب خالد کو خوش رہنے کا فن آگیا تھا۔ خوشی توہے ہی اپنی تمنائیں اور آرزوئیں پوری ہونے کا نام۔ عامر نے کوئی بہت بڑا ہاتھ نہیں مارا تھا، جتنے پیسے ہوتے وہ کھانے پینے اور ڈبو کھیلنے میں خرچ کرتے۔ اس کی اب خالد کو کوئی حاجت نہ تھی کہ گھنٹوں ماں کی خوشامد کرکے پیسے یں۔ اب وہ سب سے مہنگا فالودہ کھاتا، پان گٹکا بھی خوب چلتا۔ گٹکا تو اتنے مزے کا لگتا کہ اس کے بنا رہنا مشکل ہوگیا تھا۔ گٹکے والا پڑیا بند کرتے ہوئے اس میں کوئی چیز چھڑک دیتا اور عامر اور خالد سے کہتا جائو عیش کرو۔ اس کے پاس سگریٹ بھی ہوتیں لیکن وہ دونوں ابھی تک وہاں نہ پہنچے تھے۔ شام کا گٹکا پڑیا میں بندھوا لیتے، بس ہوجاتا سارے دن کا انتظام۔ وہ گھر چلے جاتے دوسرے دن کی آوارہ گردی کا منصوبہ بناتے ہوئے۔
کھانے میں کبھی تکا کھاتے، کبھی نکڑ کے ہوٹل کی نہاری اور گرم نان۔ اب رات کو وہ ماں کے ہاتھ کی پکی ترکاری کھاتا تو وہ بے مزا معلوم ہوتی۔ ماں پراٹھا نہ بناتی، تیل نہ ہونے کا عذر کرتی۔ خالد کا دل چاہتا کہ ایک دن گھر کے لیے تیل لے آئے اور پراٹھے کا مزا اڑائے، لیکن وہ اتنا بے وقوف نہیں تھا، خوب جانتا تھا کہ پکڑے جانے کے مواقع کہاں کہاں ہیں، اس لیے اپنی پہلی والی معصوم صورت بناکر گھر میں داخل ہوتا۔
عامر نے کہا کہ اب میں رفتہ رفتہ تمہیں بھی کام سکھا دوں گا۔ لیکن سکھانے کے باوجود ابھی تک اس کا وار خالی گیا تھا۔ وہ ڈر کر ہاتھ پیچھے کرلیتا، کبھی اسے لگتا یہ کام وہ نہ کرسکے گا۔ لیکن ہمت نہ ہارتا۔ اب وہ چھوٹے موٹے ہاتھ مارنے لگا تھا۔ عامر بھی کہتا آگے بڑھو، میں کب تک تمہیں کھلائوں گا! کوششیں جاری تھیں۔
ایک دن خالد پرچون کی دکان پر رش دیکھ کر سب کے درمیان گھس گیا اور پاس والے آدمی کو دیکھا، وہ فون میں مگن تھا۔ خالد نے دھیرے دھیرے اس کی جیب کی طرف ہاتھ بڑھایا، لیکن یہ کیا! اس کے ہاتھ کو پشت پر کھڑے آدمی نے پکڑ لیا۔ پل بھر میں سارے لوگ اس کی طرف متوجہ ہوگئے اور اس کی تواضع لاتوں اور مُکّوں سے کرنے لگے، جس سے وہ خاصا زخمی ہوگیا۔ اتنے میں وہ آدمی جس کی جیب پر اس نے ہاتھ ڈالا تھا اس کے نزدیک آیا اور اس کے بلیڈ سے اس کے ہاتھ کی نس کاٹ دی۔ خون فوارے کی طرح نکلنے لگا۔ اس مجمع میں اس کی مدد کرنے والا کوئی نہ تھا۔ خالد نے تڑپ تڑپ کر جان دے دی۔ پولیس آئی اور خالد کی لاش وہاں سے ہٹا لی گئی۔ لوگ جیب کتروں اور لوٹنے والوں کو فحش گالیاں دے رہے تھے۔ کبھی حکومت کو برا کہتے، کبھی پولیس کو، تو کبھی ایسے لڑکوں کے گھر والوں کو۔ کچھ دیر میں بھیڑ چھٹ گئی۔ عامر بھی چلا گیا، لیکن گلی کے نکڑ پر وہ بیٹھ کر سوچنے لگا کہ کسی دن اس کی لاش بھی خونم خون سڑک پر پڑی ہوگی اور لوگ مغفرت کی دعا کے بجائے گالیوں سے نوازیں گے۔
بس آگیا ایک موڑ اس کی زندگی میں۔ اس نے تہیہ کرلیا کہ اب یہ کام نہیں کرے گا۔ خالد کا بہتا خون اس کی زندگی میں خوب صورت موڑ لے آیا۔ یوں کہیے جو زہر ان فضول کاموں کے ذریعے وہ اپنے وجود میں اتار رہا تھا، خالد کا بہتا خون اس زہرکا تریاق بن گیا۔

حصہ