اس کے سوا کوئی اور صورت کیا ہو سکتی تھی جب دنیا کی تمام قومیں موقع اور قوت پاکر مسلمانوں کی جان و مال اور مملوکات پر قبضہ کر لیتی ہیں جیسا کہ قرآن کا خود بیان ہے کہ ’’اگر تم پر ان کو قابو مل جائے تو وہ تمہارے دشمن بن جائیں‘ اپنے ہاتھ چھوڑیں‘ زبان سے برائی پہنچائیں‘ وہ تو یہ چاہتے ہیں کہ کاش تم بھی خدا کے ناشکرے بن جائو۔‘‘
تو کیا اس قرآنی اور واقعی حقیقت کے بعد یہ ظلم نہ ہوتا اگر مسلمانوں کا مذہب ان کو بھی اس کی اجازت نہ دیتا؟ قرآن نے اگر اس کے بعدیہ حکم دیا ہے کہ ’’مقاتلہ کرو ان لوگوں سے جو اللہ پر ایمان نہیں لاتے اور نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جن کو اللہ اور اس کے رسولؐ نے حرام کیا اور نہ سچے آئین اور دین کو اپنی زندگی کا دستورالعمل بناتے ہیں ان لوگوں میں سے جنہیں کتاب دی گئی۔‘‘ (الآیۃ)
توکیا اس کا مفاد اس کلیہ سے زائد ہے جو ابھی اسلامی فقہاء کی تنقیح میں گزر چکا یعنی مسلمانوںکا مال‘ مسلمانوں کے مملوکات جس طرح غیر مسلم اقوام کے لیے خود اسلامی قانون کی رو سے مباح ہیں‘ اسی طرح وہ اور ان کے اموال بھی اللہ اور اس کی رسولؐ کی شریعت اور قانون کی رو سے مباح اور حلال ہیں۔ اگر مسلمان اس پر قبضہ کر لیں گے تو اس کے صحیح مالک اور ہر قسم کے تصرفات مجاز و مختار ہوں گے۔
عود الی المقصود:
بہرحال اصلی بحث یہ تھی کہ غیر اسلامی ملک میں مسلمانوںکی زندگی کا دستورالعمل کیا ہونا چاہیے اور وہاں کے باشندوں کے ساتھ ان کے تعلقات کی کیا نوعیت ہوگی۔ بیچ میں ایک مسئلے کا ذکر آگیا۔ بات تو بہت عام تھی لیکن تصحیح خیالات کے لیے مجھے اصل بحث سے تھوڑی دیر کے لیے دور جانا پڑا۔ اب میں پھر اپنے اصل مدعا کی طرف آتا ہوں۔
’’میں عرض کر چکا ہوں کہ ’’مستامن مسلمان‘‘ کے لیے فرض ہے کہ جس غیر اسلامی حکومت میں وہ امن کی ضمانت لے کر داخل ہو اہے وہاں کے مروجہ قوانین کی سختی سے پابندی کرے۔کسی کے مال و جان‘ عزت و آبرو پر حملہ کرکے قانونِ وقت کو تورنا غدر ہے۔ اور غدر قرآناً و حدیثاً و اجماعاً حرام ہے۔ الغرض قانون وقت کی پابندی اس کا ایک مذہبی فریضہ ہے۔ میں کہہ چکا ہوں کہ قانونِ ملکی کے خلاف لفافہ میں نصف ماشہ کا بھی اضافہ یا ریل کے سامان میں پائو سیر کی زیادتی بھی اس کے لیے ناجائز ہے۔ اور یہی وہ ہے کہ مسلمانوں سے زیادہ امن پسند قوم مذہبی حیثیت سے کوئی نہیں ہو سکتی۔
لیکن سوال اس وقت پیدا ہوتا ہے جب کہ ’’اسلامی قانون‘‘کی رو سے ایک فعل ناجائز ہے۔ مثلاً یہی سود کا مسئلہ ہے کہ اس کے ذریعے سے کسی دوسرے مال لینا اسلام میں قطعاً حرام ہے‘ مگر غیر اسلامی قانون میں اس ذریعے سے تحصیل مال کی اجازت ہے بلکہ حکومت بھی بڑے وسیع پیمانے پر مختلف صورتوں میں اس کا کاروبار کرتی ہے۔ ایسی صورت میں مسلمان کو کیا کرنا چاہیے ظاہر ہے کہ اس صورت میں اگر وہ ’’مستامن مسلمان‘‘ اس ذریعے سے اس ملک کے غیر مسلم باشندے کا مال حاصل کرتا ہی تونقض ماہدہ یا قانون شکنی یا غدر کا تو وہ قطعاً مرتکب نہیں ہے اور اس لحاظ سے مذہبی طور وہ قانون معاہدہ کا قطعاً مجرم نہیں۔
اب رہ گئی یہ بحث کہ کیا اس نے کسی دوسرے سے ایسے مال کو حاصل کیا ہے جس کے لینے کا گو قانون ملکی نے اسے مجاز گردانا ہے لیکن مذہب یا خدا اس کے لینے سے روکتا ہے؟ یا یوں کہو کہ کیا اس نے ایسا مال حاصل کیا ہے جو قانوناً نہ سہی لیکن اسلام کی رو سے وہ مباح نہ تھا بلکہ معصوم تھا؟ ابھی شریعت (اسلامی قانون) بلکہ قران سے گزر چکا ہے کہ اس قسم کا مال مسلمان کے لیے مذہباً غیر معصوم اور مباح ہے۔ پھر ایک مسلمان کیا کرے؟ قرآن اور مذہب جس کو غیر معصوم اور مباح کہتا ہے کیا وہ اپنے مذہب سے رو گردانی کرکے اس کو معصوم اور غیر مباح کہہ دے؟ سمجھ میں نہیں آتا کہ جس مال کو نہ قانون ناجائز قرار دیتا ہے اور نہ شریعت حرام قرر دیتی ہے بلکہ اس کے لینے کا حکم دیتی ہے‘ غیر مسلمان آخر اس جائز کو کس طرح ناجائز اور اس حلال کو کس طرح حرام کر دے؟ کیا وہ سلطنت کے قانون سے بغاوت کرے؟ یا شریعت کے حکم کو توڑے؟ کیا اس کے بعد مسلمان کے لیے کہیں بھی پناہ ہے؟
اسلامی قوانین کا یہی وہ اضطراری مقتضاد ہے کہ شریعت اسلامیہ کے سب سے محتاط‘ بلکہ بقول بعض عوام‘ سخت گیر امام‘ اما الائمہ‘ قدرۃ الاتقیاء قائم الیل‘ التابعی المجتہدالمطلق امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کا یہ فتویٰ نہایت بین اور غیر مبہم واضح لفظوں میں امام محمدؒ نے ’’سیر بیر‘‘ میں نقل فرمایا ہے:
’’جب مسلمان دارالحرب (غیر اسلامی ملک) میں ان کا معاہدہ کرکے داخل ہو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ وہاں کے باشندوں (غیر مسلم) کی مرضی سے ان کا مال لے خواہ ذریعہ کوئی بھی ہو‘ کیوں کہ اس نے ایک مباح مال کو لیا ہے اور ایسے ذریعہ سے لیا ہے جو قانون شکنی (غدر) سے پاک ہو تو یہ مال اس کے لیے پاک اور طیب ہے۔‘‘ (منقول از شامی‘ ص: 21‘ ج: 4‘ مطبوعہ مصر)
ظاہر ہے کہ یہ فتویٰ اس عہد تاریک کا نہیں ہے جس وقت مسلمان محکوم تھے۔ جس زمانہ میں امام رحمتہ اللہ علیہ نے شریعت سے اس قانونی دفعہ کو پیدا کیا تھا‘ غالباً اس وقت کسی کے حاشیہ خیال میں بھی مسلمانوں کے اعمال و افعال‘ عقائد و رسوم کی وہ ’’زشتی‘‘ نہ ھی جو ’’نادر یورپ‘‘ کی صورت میں یکایک ظاہر ہوگئی‘ یہاں تک عباد صالحین نے قوم عابدین کو عبادت کے کٹہرے کی طرف بھگانے کے لیے اپنی میراثوں میں‘ غوثی و قطبی میراثوں میں‘ ان شیروں کو کچھاروں سے چھوڑ دیا جو سب پر رحم کر سکتے ہیں‘ لیکن جن کا فریضہ عبادت تھا‘ ان کے پاس ان کے لیے کوئی رحمت نہیں ہے اور کہیں نہیں ہے۔ فقہا جب اس مسئلے کا ذکر کرتے ہیں کہ کسی اسلامی مقبوضہ پر فرض کرو کہ غیر اسلامی حکومت قابض ہو جائے تو بطور جملہ معترضہ کے عیاذاً باللہ کا لفظ بھی استعمال کرتے ہیں۔ یعنی اس مروضہ کو بھی وہ فرض کرنے سے گھبراتے ہیں۔ ایسی صورت میں اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ امام اعظمؒ نے کسی وقتی ضرورت کے آگے نہیں بلکہ کتنی شریعت کی مجبوریوں کے آگے گردن جھکا دی تھی اور حقیقت یہ ہ کہ صرف قرآن ہی نہیں بلکہ خود جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی اس فتویٰ کی عملی تصدیق صحیح روایتوں سے ثابت ہے۔ جس وقت حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے روم و ایران کی باہمی آویزشوں کے زمانے میں قرآن مجید کی پیش گوئی پر اصرار کرتے ہوئے ایک غیر اسلامی ملک یعنی مکہ مکرمہ میں (جو اس وقت حکومتِ اسلامیہ کے تحت نہ تھا) قریش شرط لگائی کہ ان ہی کی پیش گوئی پوری ہوگی۔ تو جب وہ پوری ہوئی تو خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شرط کے اونٹ لینے کا حکم دیا اور یہ اونٹ وارثوں سے وصول کیے گئے۔ (ترمذی)‘ فقہاء اسلام اس عمل سے اس قانون کی توثیق کرتے ہیں۔ ورنہ ظاہر ہے کہ اس قسم کی ’’شرط‘‘ صریح قمار (جوا) ہے جس کی حرمت قطعی نصوص سے ثابت ہے۔
دارالحرب میں سود حلال نہیں بلکہ فے حلال ہے:
لوگوں میں یہ عجیب بات مشہور ہے کہ غیر اسلامی حکومتوں میں سود حلال ہو جاتا ہے اور زیادہ تر اصل مسئلہ کے سمجھنے میں یہی تعبیر مانع آتی ہے۔ ورنہ مسئلے کی بنیاد جس قرآنی قانون پر ہے اس کے لحاظ سے یہ کہنا قطعاً غلط ہے کہ جو چیز حرام تھی وہ کسی وقت حلال ہوگئی۔ حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ جو چیز ہمیشہ سے حلال ہو۔ خدا جس چیز کو حلالاً طیباً فرماتا ہے امام اعظم رحمتہ اللہ علیہ اسی کو طیب فرماتے ہیں‘ ورنہ ایک مسلمان کو اس کا کیا حق ہے کہ قرآن جس چیز کو حرام کرے اسے وہ اپنی رائے سے یا کسی معمولی ظنی خبر کی بنیاد پر حلال کر دے۔ خصوصاً وہ جو واحد خبر سے نص پر اضافہ کو کسی طرح جائز قرار نہیں دیتا اور یہی وجہ ہے کہ علاوہ اس وجہ کہ(قانونِ وقت کے جس جائز کردہ ذریعہ سے بھی وہ مال ملتا ہو) کی عمومیت کے امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ نے سود ہی کو نہیں قمار (جوا) کے اُن ذرائع سے بھی تحصیل مال کو طیب قرار دیا ہے جس کی قانونِ وقت میں ممانعت نہ ہو مثلاً یہی بیمہ ہے یا لائف انشورنس کا ذریعہ ہے علمائے اسلام کے نزدیک قمار اور سود کی یہ مرکب شکل ہے‘ لیکن سیر کبیر میں امام محمد‘ امام اعظم سے ناقل ہیں۔ ’’اگر ان سے (غیر مسلموں سے) جوئے کے ذریعے سے مال لے گا تو یہ سب اس کے لیے پاک اور طیب ہے۔
سود کی حرمت کا سبب غالباً امام کمحول (جو محدثین کے نزدیک ایک ثقہ راوی ہیں) کی وہ مرثل حدیث ہے جو اسی مسئلے کی تائید پیش کی جاتی ہے اور وہ یہ ہے: ’’کمحول سے روایت ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روای ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حربی (غیر مسلم) اور مسلمان کے درمیان سود نہیں ہے۔‘‘ (بیہقی)
لوگ نہ معلوم اس کا مطلب کیا سمجھتے ہیں ورنہ ظاہر الفاظ سے جو کچھ مستفاد ہوتا ہے وہ یہی ہے کہ مسلم اور غیر ذمی نامسلمان کے درمیان اگر سود کا معاملہ ہو تو وہ سود‘ سود ہی نہ ہوگا بلکہ ’’قرآنی قانون اباحت‘‘ کے تحت یہ مال مسلمان کے لیے طیب و حلال ہے۔
بہرحال اسلامی شریعت‘ قرآن و حدیث‘ عمل صحابہ کی رو سے یہ ایک ایسا واضح اور صاف قانون ہے جس سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ لوگ کمحول کی حدیث مرسل کے متعلق حجیت و عدم حجیت کا سوال اٹھاتے ہیں حالانکہ یہ چیزیں تو تائید میں پیش کی جاتی ہیں ورنہ واقعہ یہ ہے کہ اس قسم کے اموال کے طیب و حلال ہونے کا حکم تو قرآن کے نصوص صریحہ کی واضح عبارت کا نتیجہ ہے۔ علامہ ابن ہمام نے بالکل صحیح لکھا ہے ’’اور تحقیق کا یہ فیصلہ ہے کہ اگر کھول کی روایت نہ بھی وارد ہوتی تو مذکورۂ بالا’’نظر‘‘ اس کی اجازت دیتی ہے۔‘‘ (فتح القدیر: ج 7‘ ص: 178)
صاحبِ بدائع نے اسی بنیاد پر امام ابو حنیفہؒ کے مذہب کی صحیح تعبیر کی ہے۔
’’اور اس بنیاد پر یہ مسئلہ ہے کہ اگر مسلمان یا ذمی دارالحرب (غیر اسلامی ملک) میں امن کا معاہدہ کرکے داخل ہو اور کسی غیر مسلم سے ربوٰ (سود) کا معاملہ کیا اس قسم کا کوئی معاملہ کیا جو اسلامی قانون کی رو سے فاسد ہو تو وہ معاملہ جائز ہوگا۔‘‘ (ص 132‘ ج:7)
فَے اور پھائو کی اصطلاح:
اور اسی لیے میرا ناچیز خیال ہے کہ اس قسم کی تمام ’’آمدنیاں‘‘ جو مسلمانوں کو غیر اسلامی حکومتوں میں قانوناً میسر آسکتی ہیں‘ ان کو بجائے سود یا قمار یا جوا وغیرہ کہنے کے مناسب ہوگا کہ اس کا خاص نام ’’فَے‘‘ رکھ دیا جائے جس کے معنی گویا یہ ہوں گے کہ وہ مال جو بغیر کسی حرب و قتال‘ جنگ و جدال کے دوسری اقوام سے امن پسندانہ طور پر قانون وقت کی پوری پابندی کے ساتھ مسلمانوں کو ملا۔ مجھے ایسا خیال آتا ہے کہ ہندی میں ایک لفظ ’’پھائو‘‘ کا ہے جو قریب قریب ’’فَے‘‘ کا ہم پلّہ بھی ہے اور غالباً ایک حد تک اسی معنی کو ادا بھی کرتا ہے۔ خواص توان آمدنیوں کو اپنی ’’فے‘‘ کی آمدنی کہیں گے۔ عوام کی زبان پر (ف) نہ چڑھے گی تو وہ اس کو ’’پھائو‘‘ کہہ دیں گے۔ اس تعین اصطلاح کی ایک بڑی ضرورت وہ وجہ بھی ہے جو بعض ثقات اسلام کی جانب سے اس مسئلے کے متعلق بطور اندیشہ یا خطرے کے پیش کیا جاتا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اگر اس مسئلے کا اعلان کر دیا گیا تو ممکن ہے کہ امتداد زمانہ کے بعد مسلمان اس کو بھول جائیں گے کہ سود‘ قمار اور ازیں قبیل دوسرے ذرائع ان کی شریعت میں حرام بھی تھے یا نہیں۔ اس لیے میرا خیال ہے کہ ان آمدنیوں کا نام ’’فَے‘‘ رکھا جائے کہ اس لفظ سے مسلمانوں کو یہ یاد آتا رہے گا کہ غیر اقوام سے ان کے شرعی تعلقات کیا ہیں اور غیر اسلامی حکومتوں کے معاہدۂ امن کی تکمیل ان پر شرعاً کس حد تک لازم ہے۔ آخر جن کاروباری معاملات سے خدا ناراض نہیں ہے‘ قانون خوش‘ حکومت خوش‘ دینے والے خوش‘ ان کے اختیار کرنے میں مسلمانوں کو کس چیز سے ڈرنا چاہیے۔
فَے سے انکار قوِمی جرم ہے:
سچ یہ ہے کہ مسلمانوں کے بچے کھچے سرمایہ دار‘ قلیل البضاعۃ اس حلال‘ بلکہ بالفظ امام ابو حنیفہؒ طیب آمدنی کو‘ جسے میں ’’فَے‘‘ یا ’’پھائو‘‘ کہتا ہوں اور جس کے متعلق قرآن کا صریح حکم حلالاً طیباً ہے‘ نہ لے کر قومی جرم اور قومی خودکشی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ مسلمانوں کے سرمائے جو بینکوں میں محفوظ ہیں ان کے لاکھوں روپے کا ’’فے‘‘ صرف یہی نہیں کہ غیر اسلامی قوتوں کی بالیدگی ہے اور مسلمانوں کے لیے معاشی راہوں کے بدلنے سے ہر مال بے کار ہوجاتا ہے بلکہ سنا جاتا ہے کہ مسلمانوں کی اسی ’’فے‘‘ کی آمدنی سے مسلمانوں ہی کے بچوں‘ عورتوں اور غریبوں کو اسلام چھڑا چھڑا کر محمدؐ رسول صلی اللہ کی صف سے توڑ توڑ کر غیر کِی صف میں بھرتی کیا جاتا ہے۔ کھلے بندوں یخرجون الرسول وایاکم انتوامنوا کا ارتکاب ہو رہا ہے۔ یہ اپنی قوم کے ساتھ غداری نہیں تو اور کیا ہے؟ ہائے مسلمانوں ہی کی چاندی کی چھری سے مسلمانوں کا ذبح کرنا کس نے جائز قرار دیا؟ کیا خدا نہیں دیکھ رہا ہے؟ امام الدنیا والدین رسول رب العالمین خاتمِ المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم تک یہ خبریں نہیں پہنچ رہی ہوں گی؟ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو دنیا والو! دیکھو! سود کے جالوں میں پھنسا کر پورب‘ پچھم‘ اُتر‘ دکھن کے لوگ دل کھول کر شکار کر رہے ہیں۔ سود دو‘ یا کھیت دو‘ یا جائداد دو‘ یا مکان دو‘ یا عرب کے امی لقب صلی اللہ علیہ وسلم کا آستانہ چھوڑ دو‘ ان مہروں کی شطرنج پر کیسی درد ناک بازیاں کھیلی جارہی ہیں۔