عید کیسی گزری

511

عیدالفطر مسلمان معاشرے کے لیے خداتعالیٰ کا وہ انعام ہے جو اس کو رمضان المبارک کی برکتوں اور رحمتوں کے بعد عطا ہوتا ہے۔ طاق راتوں کی عبادتوں کا ثمر لیتے ہوئے آخرکار مسلمان اُس دن کو پہنچ جاتے ہیں جس کا ہر بچے بڑے کو انتظار ہوتا ہے، یعنی عیدالفطر اسلامی معاشرے کا ایک ایسا عنصر ہے جسے صرف ایک اسلامی معاشرہ ہی سمجھ سکتا ہے۔
29 ویں روزے کی شام کو چاند دیکھنے کی رسم سے لے کر صبح نمازِ عید تک ہمارا یہ تہوار رنگارنگ خوشیوں سے بھرپور ہوتا ہے۔ چاند رات کو بازاروں کا رُخ کریں تو لاکھوں کی تعداد میں لوگ خریداری میں مصروف نظر آتے ہیں۔ عید کی خریداری اگر چاند رات کو نہ کی جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے آپ نے شاپنگ کی ہی نہیں۔ روشنیوں سے جگمگاتی دکانیں، چوڑیوں سے سجے اسٹال، مہندی لگوانے کے لیے خواتین کی لمبی قطاریں، جوتوں اور گارمنٹس کی خریداری کرنے والوں کا تانتا بندھا ہونا… یہ وہ رونقیں ہیں جو صرف چاند رات کو ہی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ماں باپ چھوٹے چھوٹے بچوں کو لیے بازاروں، گلی کوچوں کی رونقیں دکھاتے نظر آتے ہیں۔
رنگا رنگ چوڑیوں اور مہندی سے سجے اسٹال کئی دہائیوں سے ہماری ثقافت کا حصہ ہیں، لیکن اِس چاند رات ایسا کچھ نہ تھا۔ نہ وہ رونقیں، نہ وہ شور وغل، اور نہ ہی پہلے جیسی وہ گہما گہمی۔ جب سے کورونا وائرس آیا، سب کچھ بدل گیا، یا یوں کہیے سب کچھ بدل دیا گیا۔ شادی بیاہ کی تقریبات ہوں یا مذہبی اجتماعات… کھیل کے میدان ہوں یا پھر تفریحی مقامات… ہر جگہ کورونا وائرس نے ایسا خوف و ہراس پھیلایا جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ جبکہ ہر آنے والے دن کے ساتھ اس وائرس کا قہر بڑھتا ہی جارہا ہے۔ ہر کوئی پریشان ہے، اور یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ ایک چھوٹے سے وائرس نے پوری دنیا میں تباہی مچا کر رکھ دی ہے۔
ہر سال عید کے موقع پر ہر امیر و غریب کی کوشش رہتی ہے کہ وہ اپنی حیثیت کے مطابق کم سے کم اِس دن تو نئے ملبوسات خریدے۔ اِس کے علاؤہ گھریلو ضرورت کی چیزیں بھی خریدی جاتی ہیں۔ گھروں میں خاص سجاوٹ اور سفیدی کی جاتی ہے۔ رشتے داروں، عزیز واقارب کے لیے تحفے تحائف بھی خریدے جاتے ہیں۔ مٹھائیوں کی مختلف اقسام، جبکہ شیر خورمے پکائے جاتے ہیں۔ لیکن اِس مرتبہ ایسا ہونا ممکن نہ تھا۔ ظاہر ہے جب کسی کے گھر جانا نہ ہو اور کوئی آپ کے گھر نہ آسکے تو ایسی صورت میں صرف اتنا ہی کہا جاسکتا ہے:
”نئے کپڑے بدل کر جاؤں کہاں
اور بال بناؤں کس کے لیے“
بالوں اور کپڑوں سے یاد آیا کہ میں چاند رات کو سلے سلائے کپڑے خرید لیا کرتا ہوں، جبکہ رات گئے ہیئر ڈریسر کے پاس جانا بھی میری عادت میں شامل ہے۔ اِس چاند رات پر مجبوراً برسوں کی عادت پر عمل پیرا نہ ہوسکا، لہٰذا پچھلے سال کے کپڑوں اور الجھے ہوئے بالوں کے ساتھ سارا دن گھر میں رہ کر ہی عید مبارک، عید مبارک کی تسبیح پڑھتا رہا۔ ویسے بھی ان حالات میں کہاں جاتا! کیونکہ اس مرتبہ صورتِ حال خاصی ابتر دکھائی دے رہی تھی۔ محلے کی ساری دکانیں بند ہونے کی وجہ سے کرفیو کا سماں تھا۔ لوگ گھروں میں محصور تھے۔ کچھ کورونا وائرس سے ڈر کر، تو کچھ خراب معاشی حالات کی وجہ سے۔ رہی سہی کسر گلے ملنے کی پابندی نے نکال دی۔ اگر کوئی کسی سے ملنے کا خواہش مند تھا بھی تو وہ حکومت کی جانب سے جاری کردہ ایس او پیز کے باعث گھر سے نہ نکل سکا۔ مزدور طبقے کی حالت تو رلا دینے والی تھی۔ ان کی حالت دیکھ کر کلیجہ منہ کو آرہا تھا۔ لوگوں کے اترے ہوئے چہرے، دکانوں اور ہوٹلوں پر تالے منہ چڑا رہے تھے۔ اِس مرتبہ پرائیویٹ فیکٹریوں کے ملازمت پیشہ لوگوں میں سے اکثریت کو آدھی تنخواہ تک نہ ملی۔ کئی لوگ مہینوں سے بے روزگار تھے۔ کیا تاجر، کیا ملازمت پیشہ، کیا صنعت کار… ہر کسی کے چہرے پر دکھ نظر آرہا تھا، اور صرف یہی تحریر لکھی دکھائی دے رہی تھی کہ کب مالی حالات پھر سے بہتر ہوں گے اور کب زندگی کی گاڑی پھر سے اپنی رفتار سے رواں دواں ہوگی؟
یہی نہیں، پبلک ٹرانسپورٹ پر پابندی عائد کردی گئی، بین الصوبائی ٹرانسپورٹ بند کرکے لوگوں کو قید کیا گیا۔ حالات کو دیکھ کر صاف ظاہر ہوتا کہ اِس مرتبہ یہ عید گھروں کی چار دیواری میں قید رہ کر ماضی کی اُن تمام گزری عیدوں کو یاد کرکے منائی جارہی ہے جب چاند رات پر بازاروں میں بہترین سے بہترین کارڈ کی تلاش میں ہر اسٹال کو ٹٹولنا اور پھر اپنے دوستوں اور رشتے داروں کے لیے محبت بھرے جملے لکھ کر کارڈ کو سجایا جاتا تھا۔ عید کارڈ بنانا، خریدنا اور لکھنا بچوں اور بڑوں سب میں بے حد مقبول اور ایک روایتی انداز ہوا کرتا تھا جو کہ دورِ جدید میں موبائل فون کی مرہونِ منت میسجز اور واٹس ایپ میں تبدیل ہوگیا ہے۔
گھر کے بزرگوں سے عیدی وصول کرنے کا لطف وہی جان سکتے ہیں جن کے گھر اس نعمت سے فیض یاب ہوتے ہیں۔ سارا سال عیدالفطر کا انتظار کرنے اور پھر عید کے دن سب سے عیدی لینے کا اپنا ہی مزہ ہوتا، اور صرف مزہ ہی نہیں بلکہ اس عیدی کو سنبھال کر رکھنا اور ”سب سے زیادہ عیدی کس کی ہوئی؟“ بھائی بہنوں کا آپس میں ایک دوسرے سے پوچھنا بھی عید کے تہوار کا ایک اہم جز ہوتا تھا۔ چونکہ یہ روایت ہمیشہ ہی رہی اس لیے عیدین کے تہوار خالص مذہبی اور روایتی طور پر منائے جاتے اور ان کو اسی انداز میں منانے کا لطف بھی خوب آتا تھا۔
اور وہ لمحے بھلا کیسے بھلائے جا سکتے ہیں جب شیر خورمہ کی تیاری کے لیے امی جان میوے کاٹا کرتیں اور میں اُن کی آنکھوں سے بچ کر میووں پر اپنے ہاتھ صاف کیا کرتا تھا۔ سارا دن دوستوں کے ساتھ موج مستیاں کرنا، دن کے دوسرے پہر رشتے داروں کے گھر جانا، عید کے اگلے روز تفریحی مقامات کی سیر کرنا، جبکہ شام ڈھلے ساحلِ سمندر کا رخ کرنا بھی ماضی کی یادوں میں شامل رہا۔
آخر میں بس اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ اِس عید پر نہ کسی کے کپڑے زرق برق ہوئے، نہ گلی کے بچوں نے شور مچایا، نہ کسی نے گلی کے موڑ پر ٹھیلا جمایا، نہ کسی اجنبی نے گلے لگایا، نہ محلوں میں جھنڈیاں سجیں اور نہ ہی میلے لگے۔ عید کیا تھی بس ایک عام سا دن تھا، جو آیا اور چلا گیا۔

حصہ