نصیب

228

پڑوس سے آنے والی کھٹرپٹر کی آوازوں سے حریم کی آنکھ کھل گئی۔ کئی مہینوں سے یہ مکان خالی پڑا تھا۔ حریم نے دروازے سے جھانک کر دیکھا تو مزدور سامان چڑھا رہے تھے۔ ’’چلو اچھا ہوا کہ نئے لوگ آگئے، اگر میری ہم عمر لڑکی ہوئی تو میں جلد ہی دوستی کرلوں گی۔‘‘ حریم نے فوراً ارادہ کرلیا۔
حریم کے ابو کے انتقال کو بہت سال گزر گئے تھے۔ حریم اور اس کی امی اس گھر میں رہتے تھے۔ حریم اکلوتی اولاد تھی۔ دکان سے آنے والے کرائے سے ان کی گزربسر ہوتی تھی۔ حریم کو بی اے کیے دو سال ہوچکے تھے۔ گھر داری میں وہ طاق تھی مگر معمولی شکل و صورت کی بنا پر ابھی تک اس کا رشتہ طے نہیں ہوسکا تھا۔ حریم کی امی جلد سے جلد اس کے فرض سے سبکدوش ہونا چاہتی تھیں مگر ابھی تک کوئی بات نہیں بنی تھی۔ ’’حریم بیٹی! آج کھانا زیادہ بنا لینا، پڑوس میں نئے لوگ آئے ہیں، ابھی سامان آرہا ہے، کچن سیٹ کرنے میں وقت لگے گا، اس لیے میں انہیں کھانا دے دوں گی۔‘‘ امی نے اپنا ارادہ ظاہر کیا۔
’’جی اچھا امی!‘‘ حریم نے کہا۔ حریم اور اس کی امی کھانا لے کر پڑوس میں گئے تو پتا چلا کہ نئی پڑوسن کا نام بھی حریم ہے اور پورا نام حریم خان تھا۔
خوشی ہوئی اس پر، رشک بھی آیا، کیوں کہ حریم بہت خوب صورت اور باتونی تھی اور اس کی ہم عمر بھی تھی۔ گھر آکر حریم سوچنے لگی کہ یہ بھی تو میری ہم نام ہے مگر کتنی خوش قسمت ہے۔
دوسری صبح حریم نے ٹی وی کھولا تو مارننگ شو آرہا تھا۔ اس کی میزبان ’’حریم خان‘‘ خوب صورت لباس اور میک اَپ میں اتنی فریش لگ رہی تھی کہ حریم اس سے متاثر ہوکر دیر تک یہ پروگرام دیکھتی رہی۔ شو ختم ہونے کے بعد حریم خان اپنی میک اَپ آرٹسٹ فائزہ سے کہنے لگی ’’دعا کرو میرے شوہر عاشر کو مطلوبہ معیار کی نوکری مل جائے تاکہ میں صبح صبح پروگرام کرنے کے لیے آنے کے بجائے سکون سے گھر بیٹھوں، ایک سال سے ان کی جاب نہیں تھی، میری تنخواہ پر ہی گھر چل رہا تھا، اب جا کر لگی ہے، کتنی خوش قسمت ہوتی ہیں وہ لڑکیاں جو ہائوس وائف ہوتی ہیں۔ اپنی مرضی سے سونا، اپنی مرضی سے اٹھنا، گھر سجانا، بچے پالنا۔ کیا رکھا ہے اس مصنوعی گلیمر زدہ زندگی میں۔ بہت جلد میں یہ سب چھوڑ دوں گی۔‘‘ حریم خان نے اپنے دل کی بات کہی۔
ایک ماہ ہوچکا تھا حریم خان کو شفٹ ہوئے۔ گھر سیٹ ہوچکا تھا۔ نادر نے آفس سے ایڈوانس تنخواہ لے کر گھر کا ایڈوانس جمع کرایا تھا اس وجہ سے اس کا ہاتھ تنگ تھا۔ گھر میں راشن بھی ناپ تول کر آرہا تھا۔ حریم امید سے تھی، وقت بے وقت بھوک لگتی مگر گھر میں پھل یا بسکٹ کچھ نہ ہوتا۔ ایسی حالت میں روٹی سالن کو جی نہ کرتا تھا۔ حریم نے دبی زبان سے نادر کو پھل لانے کو کہا کیوں کہ اسے کمزوری بہت تھی اور ڈاکٹر کا لکھا ہوا دوائیوں کا نسخہ بھی نادر نے دراز میں ڈال دیا تھا۔
نادر کو پتا نہیں کس بات کا غصہ تھا کہ اتنی سی بات پر حریم کے منہ پر کئی طمانچے رسید کیے اور غصے میں آفس کے لیے نکل گیا۔ حریم خالی پیٹ بیڈ پر گر کر رونے لگی۔ خاصی دیر بعد دروازہ کھٹکھٹانے کی آواز آئی۔ ’’کون ہے؟‘‘ حریم نے زور سے پوچھا۔
’’میں ہوں حریم برابر سے، بریانی پکائی ہے آج، تمہارے لیے بھی لائی ہوں۔‘‘
’’اچھا کچن میں رکھ دو، دروازہ کھلا ہے، میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔‘‘ اس نے جواب دیا۔ ’’یہ حریم بھی کتنی خوش قسمت ہے، اس کی امی کتنا پیار کرتی ہیں اس سے، کھانا بھی اتنا مزے کا بناتی ہے کہ انگلیاں چاٹتے رہ جائو، سلائی کڑھائی میں بھی ماہر ہے۔ ایک میں ہوں بات بے بات نادر سے پٹتی ہوں، میرے میکے والوں کو بھی میری کوئی فکر نہیں، جیوں یا مروں اُن کے سر سے تو بوجھ اتر گیا۔ چلو اچھا ہوا حریم میرے کمرے میں نہیں آئی ورنہ میرا سرخ چہرہ دیکھ کر کوئی سوال کرتی تو میں کیا جواب دیتی؟ شکر ہے میرا بھرم رہ گیا۔‘‘
حریم خان نے ٹھنڈی سانس لی اور بمشکل اپنے آپ کو گھسیٹ کر کچن تک آئی تاکہ بریانی کھا کے پیٹ بھر سکے، اپنے لیے نہیں، اپنے آنے والے بچے کے لیے۔

حصہ