آکسیجن سلنڈر کی اہمیت ماضی میں اتنی نہیں تھی جتنی کورونا کی وبا کے دوران سامنے آئی ہے ۔فروری 2020میں جب کورونا کی وبا پاکستان میں آئی تو کورونا کی علامات کے ساتھ 60سال یا اس سے زائد عمر کے افراد میں کورونا کی علامات میں سانس لینے میں دشواری کا بھی ذکر آیا اور یوں جب 60سال یا اس سے زائد عمر کے وہ افراد جن کاقوت مدافعت کا نظام کمزور تھا ،ان کو سانس لینے میں دشواری کی تکلیف بھی سامنے آئی اور ایسے افراد میں آکسیجن کی ضرورت اور اس کی اہمیت بڑھ گئی جبکہ بات ان کی سانسیں بحال رکھنے اور زندگی بچانے تک پہنچ گئی۔ ایک ارب سے زائد انسانوں والے پڑوسی ملک بھارت کو بھی کورونا کے شدید اثرات نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور وہاں لوگ زندگی کی سانسیں بحال رکھنے کے لیے آکسیجن کی بھیک ما نگتے نظر آرہے ہیں ،اسپتالوں میں آکسیجن ختم ہو چکا ہے اوراسپتال مریضوں سے بھر چکے ہیں ۔اس تناظر میں وہاں انسانی المیہ جنم لے رہا ہے۔
پاکستا ن میں بھی آجکل آکسیجن کی بات ہورہی ہے ،حکومت کی کوششیں اپنی جگہ مگر ملک کی سب سے بڑی این جی الخدمت نے کورونا کی وبا کے آغاز کے ساتھ ہی ملک بھر میں لوگوں کو مفت آکسیجن فراہم کرنے کے عمل کا حصہ بنی ہوئی ہے ۔کورونا کی پہلی اور تیسری لہر کو آئے اب تک سواسال کا عرصہ ہو چکا ہے ،مگر الخدمت ابھی تک لوگوں کی خدمت میں مصروف ہے ۔الخدمت نے جہاں کورونا کی وبا کے دوران انسانی خدمت کی دیگر تاریخی مثالیں رقم کیں وہاں کورونا سے متاثرہ مریضوںکی سانسیں بحال رکھنے اوران کی زندگی بچانے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔
الخدمت نے کورونا وبا کی پہلی لہر کے دوران مفت آکسیجن سلنڈر اور پلز آکسو میٹرکی بلا تفریق مفت سروس کا آغاز کیا اور آکسیجن سلنڈر کے حصول کیلئے کو ئی مشکل شرط بھی نہیںرکھی ، صرف مریض کیلئے ڈاکٹر کی تجویز کردہ آکسیجن کی پرچی اور قومی شاختی کارڈ کو لازمی بنایا گیا تھا جس کے بدلے میں ڈاکٹر کی تجویز کردہ مدت کیلئے آکسیجن سلنڈر فراہم کیے جاتے رہے اور یہ سلسلہ کورونا کی دوسری اوراب تیسری لہر میں بھی جاری ہے ۔ یہ سہولت آکسیجن سلنڈر یا آکسیجن خریدنے کی استطاعت نہ رکھنے والوں کیلئے بڑی سہولت ہے ،جس کے تحت لواحقین اپنے پیاروں کے لیے اسپتال سے گھر پر منتقلی پر یہ آکسیجن سلنڈرلے جاتے ہیں اور جب ضرورت پوری ہوتی ہے تو خالی سلنڈر واپس کر جاتے ہیں ،جبکہ پلز آکسو میٹر بھی مفت فراہم کرنے کا عمل جاری ہے ۔
ملک میں کورونا کی تیسری لہر کو پہلی لہر سے زیادہ خطرناک قرار دیا جا رہاہے اور ملک میں آکسیجن کی دستیاب پیدا وار سے متعلق متضاد حکومتی بیانات سامنے آرہے ہیں ۔کئی وزرا کے الگ الگ بیانات نے آکسیجن کی ملک میں دستیابی یا عدم دستیابی سے متعلق خدشات کو جنم دیا ہے دوسری جانب آکسیجن سلنڈرزکی قیمتوں میں بھی ڈیڑھ سے ڈھائی گنا اضافہ کردیا گیا ہے۔ ایک سلنڈر عموما ً 15سے20 ہزار روپے تک ملتا ہے ،جبکہ صرف آکسیجن جو فی سلنڈر 500روپے میں ملاکر تی تھی اسے مہنگا کر کے 1200روپے کر دیا گیا ہے ،جس کے مشکلات کا شکار لوگوں کی پریشانیوں میں مزیداضافہ ہوا ہے ۔
پاکستان آکسیجن لمیٹڈ کے مطابق اس وقت ملک میں آکسیجن فراہم کر نے والی 5کمپنیاں ہیں جو اسپتالوں کو آکسیجن فراہم کررہی ہیں ،حکومتی عہدے داروں کے متضادبیانات کے تناظر میں کہا جارہا ہے کہ خدا نخواستہ ملک کو بھی پڑوسی بھارت جیسے حالات کا سامنا کرنا نہ پڑ جائے۔ لہٰذا اس کے لیے پیش بندی ضروری ہے ۔
ملک میں اسٹیل ملز کا آکسیجن پلانٹ 2015سے بند ہے ،اگر یہ فعال ہو تو اس سے یومیہ 520ٹن آکسیجن کی پیداوار کی جا سکتی ہے اوراس سے 99.5فیصد خالص آکسیجن کی پیداوار ممکن ہے ۔پاکستان اسٹیل کے ملازمین یہ پلانٹ ہنگامی بنیادوں پر چلانے کی پیش کش کر چکے ہیں ۔ملازمین کے مطابق پلانٹ کو کھولنے کیلئے 40افراد پر مشتمل عملہ درکار ہوگا ،جبکہ کہا جاتا ہے کہ اسے آٹھ سے دس روز میں چلایا جا سکتا ہے ،جبکہ فیبریکیٹنگ ڈپارٹمنٹ میں آکسیجن کیلئے سلنڈر بھی تیار کیے جا سکتے ہیں ۔
اسٹیل ملز کے بند آکسیجن پلانٹ کو کھولنے کیلئے امیرجماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے بھی حکومت کو پیش کش کی ہے ۔انہوں نے کہا کہ آکسیجن پلانٹ شروع ہو جائے تو ملک میں آکسیجن کی کمی کا بڑا مسئلہ حل ہو سکتا ہے ۔انہوں نے الخدمت کراچی کے چیف ایگز یکٹونو ید علی بیگ ،ڈائریکٹر کمیونٹی سروسز قاضی سید صدرالدین اور ڈائریکٹر کامل ملتانی کے ساتھ پریس کانفرنس کر تے ہوئے کہا کہ پاکستان اسٹیل مل میں موجود آکسیجن پلانٹ کو فعال کرنے کیلئے ایک ارب روپے کی لاگت کی ضرورت ہے۔حکومت بتائے کہ آئی ایم ایف کی جانب سے 12 سوارب روپے کا دیا گیاکورونا ریلیف فنڈ کہاں خرچ کیا گیا؟ اگرحکومت 12سوارب روپے سے ایک ارب روپے خرچ کردے تو آکسیجن پلانٹ کا مسئلہ باآسانی حل ہوسکتا ہے ۔
انہوں نے این سی اوسی کے رکن ڈاکٹر فیصل سلطان سے استفسار کیا کہ وہ بتائیں کہ آکسیجن کی نرخ میں اضافہ کیوں کیا جارہا ہے ؟انہوں نے بتایا کہ آکسیجن سلنڈرز کی فراہمی کیلئے الخدمت ہیڈ آفس اور الخدمت لیاقت آباد سینٹر 24گھنٹے عوام کی خدمت میں مصروف ہیں،جبکہ کورونا کی پہلی لہر سے ہی لوگوں کو اپنے پیاروں کیلئے مفت آکسیجن سلنڈرز فراہم کرنے کیلئے کر اچی کے12مقامات پرسینٹرز بنائے گئے تھے۔ حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ آکسیجن کا مسئلہ ترجیحی بنیادوں پر حل نہ کیا گیا تو پریشان کن صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔
ملک میں جہاں مسائل کے دیگر انبار ہیں وہاں صحت کا شعبہ بھی گونا گوں مسائل کا شکار ہے اور الخدمت کا شعبہ صحت بھی کارہائے نمایا ں انجام دے رہا ہے۔ اس کی جانب سے صحت کی معیاری سہولتیں جہاں لوگوں کے اطمینان کا باعث ہیں ،وہاں ان کی مالی طور پر بھی آسانیوں کا سبب بن رہی ہیں ۔الخدمت کے تحت ناظم آباد میں قائم کورونا ٹیسٹنگ لیب اس کی اعلیٰ مثال ہے،جہاں 12ہزار روپے والا ٹیسٹ 3ہزار روپے میں کیا جا رہا ہے اور کورونا کی پیلی لہرمیں قیام کے بعد سے اب تک ہزاروں ٹیسٹ کیے جا چکے ہیں ،جبکہ الخدمت ملک بھر میں معیاری ڈائیگنو سٹک سروسز بھی فراہم کرنے میں پیش پیش ہے ۔
دنیا بھر میں عوام کو صحت سمیت دیگر سہو لتیں پہنچانا ان کی حکو متوں کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے اور وہ اپنی ذمہ داریاں انجام بھی دیتی ہیں تاکہ ان کے عوام کو ریلیف مل سکے ۔بدقسمتی سے پاکستان میں حکومت کو پہلے ہی اتنے مسائل درپیش ہیں کہ وہ آکسیجن جیسے چھوٹے مگر اہم مسئلہ کی جانب بھی توجہ نہیں دے پارہی اورنہ ہی اس کیلئے کو ئی چیک اینڈ بیلنس کا نظام ہے ۔
الخدمت کورونا وائر س کی پہلی لہر سے اب تک لوگوں کو کراچی میں 2500اور ملک بھر میں ہزاروں آکسیجن سلنڈرز فراہم کر چکی ہے اور یہ عمل بلاتفریق اب بھی جاری ہے ،جو الخدمت کا قابل قدر اور قابل تقلید کام ہے ،اس کو مزید بڑھنا چاہیے اور لوگوں کی زندگیوں کو بچانے کیلئے مخیر حضرات کوالخدمت کا ساتھ دینا چاہیے اور حکومت کو بھی اپنی ذمہ داری انجام دینی چاہیے تاکہ پڑوسی ملک جیسی صورتحال سے بچا جا سکے ۔