آئو عہد کریں

340

بے شک سب زمانے اور سارے دن رات اللہ کے ہیں۔ لیکن جو ایام اللہ تبارک وتعالیٰ نے خود مقدس قرار دیے ہیں ان کی اہمیت اور فضیلت زیادہ ہے۔ ان میں رمضان المبارک سرفہرست ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ یہ میرا مہینہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس ماہِ مقدس میں اللہ کی رحمت کی گھٹائیں خوب برستی ہیں۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ یہ مہینہ تمام مہینوں سے افضل و اعلیٰ ہے۔ جب یہ آتا ہے تو رحمت اور برکت لے کر آتا ہے، اور جب جاتا ہے تو بخشش دے کر جاتا ہے۔ اس ماہِ مبارک میں اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ شیطان کو جکڑدو تاکہ کوئی اس کے وسوسوں کا شکار ہوکر برکتوں سے محروم نہ ہوجائے۔ لیکن اگر کوئی بندہ اس کے باوجود اپنے نفس پر ضبط نہ کرپائے اور اپنی مغفرت نہ کرا سکے تو اس سے بڑھ کر بدقسمتی اور کیا ہوگی! بے شک اللہ رب العزت کا وعدہ سچا ہے، وہ اپنے بندوں پر رحمتیں اور برکتیں نازل فرماتا ہے۔ اس نے انسان کو عقل و شعور دیا، قرآن کی صورت ایک ایسا ضابطہ حیات عطا کیا جس پر عمل پیرا ہوکر ہی کامیاب اور بامقصد زندگی گزاری جاسکتی ہے۔
یوں تو رمضان کا پورا مہینہ دیگر مہینوں میں ممتاز اور خصوصی مقام کا حامل ہے، لیکن رمضان شریف کے آخری دس دنوں کے فضائل اور بھی زیادہ ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں عبادت و طاعت، شب بیداری اور ذکر و فکر میں اور زیادہ منہمک ہوجاتے تھے۔ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آخری عشرے میں اتنا مجاہدہ کیا کرتے تھے جتنا دوسرے دنوں میں نہیں کرتے تھے۔ صحیح مسلم، ابن ماجہ، صحیح ابن خزیمہ اور مسند احمد میں بھی اسی مفہوم کی احادیث مروی ہیں، جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رمضان کے اخری عشرے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات دیگر ایام کے مقابلے میں بڑھ جاتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب آخری عشرہ شروع ہوجاتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات بھر بیدار رہتے اور اپنی کمرکس لیتے اور اپنے گھر والوں کو بھی جگاتے تھے، راتوں کو اٹھ کر عبادت کرنے کا معمول آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تو ہمیشہ ہی تھا، لیکن رمضان میں آپؐ کمر کس کر عبادت کے لیے تیار ہوجاتے اور پوری پوری رات عبادت میں گزارتے۔
یہ مضمون حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ایک دوسری روایت سے اور زیادہ واضح ہوتا ہے، وہ بیان فرماتی ہیں: مجھے یاد نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے سوا کبھی بھی ایک ہی رات میں پورا قرآن مجید پڑھا ہو یا پھر صبح تک عبادت ہی کرتے رہے ہوں، یا رمضان المبارک کے سوا کسی اور مکمل مہینے کے روزے رکھے ہوں (سنن نسائی،حدیث : 1336)۔ جبکہ رمضان المبارک کی اہمیت اور فضیلت کا اندازہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کی اس دعا سے بھی لگایا جا سکتا ہے جس میں فرمایا: ہلاک ہوجائے وہ شخص جس کو رمضان کا مہینہ ملے اور وہ اپنی بخشش نہ کروا سکے۔ جس پر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: آمین! حضرت جبرائیل علیہ السلام کی یہ دعا اور اس پر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا آمین کہنا اس ماہ مبارک کی افضلیت بیان فرماتا ہے۔
ان الفاظ کو پڑھ کر ہمیں رمضان کی اہمیت کو خوب سمجھ لینا چاہیے۔ بے شک رمضان رحمت، مغفرت اور گناہوں سے نجات حاصل کرنے کا مہینہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رمضان المبارک میں قبولیتِ دعا کے بعض خاص مواقع متعین کیے ہیں تاکہ انسان ان سے فائدہ اٹھا سکے۔ رمضان المبارک کے تمام لمحات قبولیت کے مواقع ہیں۔
اب جبکہ رمضان المبارک کے آخری ایام چل رہے ہیں، ہمیں سوچنا یہ ہے کہ کیا ہم نے اس رمضان میں ان سے فائدہ اٹھا لیا؟ نمازوں سے متصل رٹی رٹائی دعاؤں کے سوا کسی خاص وقت میں اپنی ساری ضروریات کی تکمیل، رحمتِ الٰہی کے حصول سے توبہ و استغفار کی محنت اور نعمتوں پر شکریہ کے حوالے سےکوشش کی؟ گزرتے رمضان میں یہ سوچنا ہوگا کہ جو فضائل وارد ہیں اور روزوں پر روحانی فوائد کے حصول کا جو وعدہ کیا گیا ہے ہم ان کے مستحق ہوگئے؟ ہمیں رمضان سے حاصل ہونے والا مخصوص تقویٰ حاصل ہوا؟ ہمارے روزے اس لائق تھے کہ باری تعالیٰ ان کے بارے میں یہ ارشاد فرمائے کہ یہ روزے میرے لیے ہیں اور میں ہی ان کا بدلہ دوں گا۔ سوچنا یہ بھی ہوگا کہ کیا ہمارے روزے اس معیار کے تھے کہ ان کی وجہ سے ہمیں باب الریان سے جنت میں داخلہ نصیب ہوسکے؟ کیا ہمارے روزے ہمارے حق میں گناہوں سے پرہیز کے حوالے سے ڈھال کی حیثیت اختیار کرسکے؟رمضان کے گزر جانے والے دو عشروں میں ہم نے ذکر و اذکار کے ذریعے خود کو کتنی غذا فراہم کرنے کی کوشش کی؟ کیا ہم میں اپنی ذاتی خواہشات کی تکمیل کے بجائے انسانیت کی خدمت کا جذبہ پیدا ہوا؟ یہ اور اس جیسے کئی سوالات ہیں جن کے مثبت جواب اس موقع پر ہمیں تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ یقین مانیے اگر ہم نے سچے دل سے ان امور پر غور کیا اور اصلاحِ احوال، اصلاحِ نفس اور اصلاحِ اعمال کی خاطر اپنا محاسبہ کرلیا تو یقینا ًہم سے زیادہ نیک بخت کوئی دوسرا نہیں ہوگا- اور اگر محاسبے کو غیر ضروری سمجھ کر اپنی بے ڈھنگی رفتار پر کنٹرول نہیں کیا تو یقیناً ہم سے زیادہ بدنصیب کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا۔
ماہِ رمضان رخصت ہورہا ہے اور عید کی آمد آمد ہے، آئیے ایسے معصوم یتیم بچوں اور ضرورت مندوں کی مدد کرنے کا عہد کریں، جن کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرنے والا کوئی نہیں۔ آئیے مدد کریں اپنے اطراف رہنے والے ایسے بچوں کی جنہوں نے کبھی عید کی خوشیاں نہیں دیکھی ہوتیں، اور اُن مجبور اور بیوہ خواتین کی جو اس پُرفتن دور میں اپنی عزت کی حفاظت کرتے ہوئے صرف دو وقت کی روٹی کی تگ و دو میں لگی رہتی ہیں۔ ان میں وہ مائیں اور بیٹیاں بھی ہوتی ہیں جنہیں گردشِ حالات نے آگھیرا ہوتا ہے۔ ان میں وہ بوڑھے اور معذور لوگ بھی ہوتے ہیں جو صرف اس لیے بھاگ دوڑ کرتے ہیں کہ ان کے بچوں کو دو وقت کی روٹی نصیب ہوسکے۔ عہد کریں ایسے لوگوں کی مدد کرنے کا جو ضرورت پڑنے پر بھی کسی سے سوال نہیں کرتے، جو ایسے سفید پوش ہوتے ہیں کہ کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے، ایسے دہاڑی دار مزدوروں کی مدد کا جو کام نہ ملنے کے باعث سڑکوں کی خاک چھاننے پر مجبور ہیں۔ یاد رکھیے ایسے ہی لوگ ہماری مدد کے مستحق ہیں۔
فی زمانہ زکوٰۃ، فطرہ اور صدقات دیتے وقت ہمیں اس بات کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے کہ آپ کا مال اور زکوٰۃ مستحقین تک پہنچے۔ لہٰذا اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ خود تھوڑی سی محنت کرکے ایسے لوگوں کو تلاش کریں جو مستحق ہیں، جو پانی پی کر روزہ رکھتے ہیں اور پانی پی کر ہی روزہ کھولتے ہیں، لیکن کسی کے آگے دستِ سوال دراز نہیں کرتے، جو کچھ گھر میں میسر ہوتا ہے کھاپی کر گزارہ کرلیتے ہیں لیکن کسی دوسرے کو اپنی مجبوری اور غربت کا احساس تک نہیں ہونے دیتے۔ اگر آپ واقعتاً اللہ کی رضا کے لیے غریبوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں تو نمودو نمائش کے کیمپ لگانے کے بجائے اپنے رشتے داروں، گلیوں اور محلوں میں سفید پوش لوگوں کو تلاش کریں اور ان کی اس طرح مدد کریں کہ ان کی عزتِ نفس مجروح نہ ہو، انہیں ذلت محسوس نہ ہو۔ خاموشی کے ساتھ کیے گئے اس عمل سے شہرت تو نہیں ملے گی لیکن قلبی و روحانی تسکین ضرور ملے گی۔ اور حقیقی ضرورت مندوں کی باعزت طریقے سے مدد کرنے پر اُن کے دل سے جو دعائیں نکلیں گی وہ جلد ہی قبولیت کے درجے پر فائز ہوں گی۔ اور ویسے بھی صدقہ، خیرات کرنے کا حکم تو یہ ہے کہ اسے اللہ کی رضا کے لیے چھپا کر دیا جائے، یہاں تک کہ بائیں ہاتھ کو بھی معلوم نہ ہو کہ کتنا صدقہ کیا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں چھپاکر صدقہ کرنے کے بجائے تشہیر کرکے صدقہ کیا جاتا ہے۔ زکوٰۃ کو تو احسان سمجھ کر دیا جاتا ہے جو حقیقت میں ریاکاری کے زمرے میں آتا ہے۔ اس سے خلوص ختم ہوجاتا ہے اور سارا اجر ضائع ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔ اس کا صلہ نہ دنیا میں ملتا ہے اور نہ آخرت میں ملے گا، بلکہ آخرت میں اس فعل پر ثواب کے بجائے عذاب ہوگا، کیونکہ ریاکاری نہایت قبیح فعل ہے۔ اسلامی تعلیمات میں اس بات کو بڑی اہمیت دی گئی ہے کہ بندئہ ٔ مومن جو بھی کام کرے وہ اللہ کے لیے کرے، اس کا دل اخلاص کے جذبے سے سرشار ہو، اس کا مقصد اللہ کی رضاجوئی اور خوشنودی کا حصول ہو، جس سے غریب کی عزتِ نفس مجروح نہ ہو۔
آخر میں حکمرانوں سے اتنا ہی کہوں گا کہ غریبوں کی مدد کریں،ضرور کریں،مگر با عزت طریقے سے کریں۔ خیراتی ادارے قائم کرنے کے بجائے انہیں اس لائق بنائیں کہ وہ خود اپنے پیروں پر کھڑے ہوکر ملک کی ترقی و تعمیر میں حصہ لے سکیں۔ انکم سپورٹ کی خیرات کے بجائے بے روزگاروں کو کاروبار کروا کر دیں۔ کوئی ٹھیلہ، دکان، گھریلو صنعت یا کوئی ہنر جس سے وہ اپنی محنت سے باعزت روزگار کما سکیں۔

حصہ