دادی اماں عشاء کی نماز و اذکار سے فارغ ہو کر جب اپنے کمرے میں آئیں تو ان کی نظر عمر میاں پر پڑی جو اپنی شیشوں کے کام والی ٹوپی پہنے ہاتھوں میں تسبیح لیے آنکھیں بند کرکے بہت خشوع و خضوع کے ساتھ مصروف تھے۔ دادی اماں حیران ہوگئیں اور ان کے برابر میں بیٹھ کر اُن کے فارغ ہونے کا انتظار کرنے لگیں۔ عمر میاں نے آنکھیں کھول کر دیکھا اور ہونٹوں پر انگلی رکھ کر دادی اماں کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔ دادی اماں نے بھی گردن ہلا کر رضا مندی دی جیسے ان کی بات سمجھ گئی ہوں۔ تسبیح کی گنتی پوری کرکے عمر میاں نے تکیہ پر رکھی اور دعا مانگنی شروع کردی پھر منہ پر ہاتھ پھیرا اور اپنے اطراف میں پھونکنا شروع کردیا۔ ان کے فارغ ہونے کے بعد دادی اماں نے پوچھا ’’ارے بھئی! کیا پڑھا جارہا ہے۔ اسکول کے امتحان شروع ہونے والے ہیں کیا؟‘‘۔
’’دادی اماں! استغفار پڑھ رہا تھا۔ عمر میاں نے سنجیدگی سے جواب دیا۔
’’وہ کیوں بھئی: دادی اماں نے استفسار کیا۔ ’’آج جمعہ کے خطبہ میں مولوی صاحب فرما رہے تھے کہ یہ بیماری دراصل ہمارے گناہوں کی وجہ سے ہے، جب کسی معاشرے میں افراد کے گناہ بڑھ جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی وبا کی صورت میں مختلف بیماریاں بھیجتا ہے۔ لہٰذا ہمیں ہر وقت استغفار کرتے رہنا چاہیے۔ عمر میاں نے دادی اماں کو تفصیل سے سمجھایا۔
اچھا آ آ آ… دادی اماں نے اچھا کو طول دیا۔ پھر کہنے لگیں وہ تو ٹھیک ہے مگر کیا ’’آپ کے خیال میں صرف استغفار پڑھنا کافی ہوگا‘‘۔ ہاں جی کیوں نہیں۔ ’’مولوی صاحب بتارہے تھے اس طرح معافی مانگنے سے اللہ تعالیٰ معاف کردیتے ہیں‘‘۔
’’ہاں بھئی یہ تو ٹھیک ہے مگر یہ بتائو اگر آپ کے ماما، بابا کسی بات پر آپ سے ناراض ہوجائیں اور آپ اُن سے معافی مانگ لیں اور پھر آپ وہ ہی کام دوبارہ کریں اور پھر معافی مانگیں بار بار ایسا ہی کریں تو کیا ہوگا‘‘۔
ہاں! یہ تو غلط ہوگا۔ عمر میاں نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
بس پھر یہ سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنے کے لیے صرف استغفار پڑھنا کافی نہیں ہوگا۔ بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے ہم اپنی غلطی مانیں کہ ہم نے یہ کام غلط کیے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ سے معافی مانگیں اور دوبارہ ایسا وہ کام نہ کرنے کا وعدہ کریں اور اس پر قائم رہیں۔
اور یہ غلط کام بہت سے ہیں۔ مثلاً چوری کرنا، جھوٹ بولنا، ناپ تول میں کمی کرنا، بڑوں کا ادب نہ کرنا، کسی کے کام نہ آنا وغیرہ۔ یعنی ہمیں چاہیے کہ ہم سب سے پہلے اپنے معاملات ٹھیک کریں۔ حقوق العباد پورے کریں، کیونکہ قرآن مجید میں جتنی بھی قوموں کی تباہی کا ذکر ہے ان میں سے ایک بھی قوم کی تباہی کی وجہ نماز، زکوٰۃ، حج اور روزہ چھوڑنا نہیں تھا بلکہ کم تولنا، رشوت، انصاف نہ کرنا، کسی کا حق مارنا، کسی کو ناحق قتل کرنا۔ یعنی اللہ کے بندوں کو ہی نقصان پہنچانا اور حقوق العباد ادا نہ کرنا تھا۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمیں استغفار نہیں پڑھنا چاہیے بلکہ ضروری ہے کہ پہلے ہم اپنے اعمال و افعال کی اصلاح کریں۔ دوسروں سے اپنے معاملات ٹھیک کریں اور گزشتہ خطائوں پر دل سے توبہ کریں۔ اور شرمندگی محسوس کریں اور یہ کہ دکھاوا نہ کریں کہ میرے منہ سے استغفار کے کلمات سُن کر لوگ مجھے پاکباز و دین دار سمجھیں، ورنہ جس نے گناہ کا ارادہ ہی نہیں چھوڑا اور اللہ کی جانب رُخ نہیں موڑا اس کو یہ کہنے کا کوئی حق نہیں کہ میں اللہ سے مغفرت کا طلبگار ہوں۔ دادی اماں نے ایک سانس میں ہی دل کی بات کہہ دی۔
’’بس دادی اماں میں سمجھ گیا‘‘۔ عمر میاں نے ذہانت کا مظاہرہ کیا۔ اب میں سب کو ان برے کاموں سے منع کروں گا۔ دکان والے منو بھائی کو بتائوں گا کہ سامان پورا دیں اور پیسوں کا حساب کتاب ٹھیک رکھیں اور سبزی والوں سے بھی کہوں گا کہ اپنا ترازو ٹھیک رکھیں اور ناپ تول میں کمی نہ کریں۔
نہیں بیٹا وہ لوگ آپ کی بات نہیں مانیں گے اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ اپنا جائزہ لیں اور سب سے پہلے اپنی کمزوریوں اور خامیوں کو سمجھیں اور انہیں دور کریں۔ پھر اپنے حلقہ احباب اور دوستوں کے لیے مثال بنیں تا کہ وہ بھی آپ کو دیکھ کر اچھے بچے بنیں، جھوٹ نہ بولیں، ایک دوسرے کی مدد کریں، اپنے والدین اور اساتذہ کا کہنا مانیں اس طرح اس نیک کام کی ابتدا اپنی ذات سے کریں۔ یہ ہے اصل استغفار کی حقیقت اور صحیح معنوں میں اللہ تعالیٰ سے معافی طلب کرنا۔
’’اچھا دادی اماں میں صبح سب سے پہلے یہی کام کروں گا‘‘۔
دادی اماں: صبح کیوں بھئی ابھی سے کیوں نہیں چلو شاباش اپنے دن بھر کے کاموں کا جائزہ لو اور جو ایسے کام آج کرنے سے رہ گئے ہیں کل انہیں کرنے کا عہد کرو۔
عمر میاں نے جھٹ آنکھیں بند کیں اور ہونٹ ہلانے شروع ہوگئے۔ دادی اماں نے اپنے پیارے پوتے پر ایک شفقت بھری نظر ڈالی اور مطمئن ہو کر آنکھیں بند کرلیں جیسے انہوں نے اپنی نسل کو محفوظ کرلیا ہو۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی صحیح معنوں میں استغفار کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین nn