’’رشتے احساس کے‘‘

228

کسی گائوں میں ایک کسان ہنسی خوشی رہتا تھا۔ اور اس کی بیوی کا نام نجمہ تھا۔ وہ ہنسی خوشی زندگی بسر کرتے تھے وہ کم کھا کر بھی ہمیشہ اپنے خدا کا شکر ادا کرتے تھے وہ بہت عزت دار اور دوسروں کو عزت دینا جانتے تھے کچھ عرصہ بعد ان کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا نام مبین رکھا ، وہ اپنے بیٹے مبین سے بہت محبت کرتے تھے اور اس کی اچھی تربیت کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں وہ اسے ہمیشہ بچپن میں ہی دوسروں کے ساتھ ہمدردی حسن و سلوک اور احساس کرنے کی تلقین کرتے چونکہ وہ خود بھی ایسے ہی ہمدرد اور احساس کرنے والے تھے ۔ ایک روز مبین کی ماں نجمہ بیگم شدید بیمار ہوئی۔ رپورٹس کے مطابق اس کو کینسر کا مرض لاحق ہوچکا تھا۔ جب میر فضل کو اور اس کی بیوی کو اس بیماری کا پتا لگا تو وہ بے چین اور رنجیدہ ہوگئے انہیں کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کریں۔ ڈاکٹر نے کہا ان کی زندگی اللہ کے ہاتھ میں ہے وہ چاہے تو انہیں زندگی دے سکتا ہے اور اگر وہ چاہے تو اس کی مرضی کیونکہ خدا کے آگے کسی کی مرضی نہیں چل سکتی۔ نجمہ کی صحت اب پہلے سے زیادہ خراب ہوچکی تھی پھر بھی اس نے اس حالت میں بھی اللہ کی کی شکر گزاری کو تھامے رکھا لیکن اسے صرف فکر تھی تو اپنے مبین کی تھی مبین کی عمر ابھی چھ سال کی تھی پر وہ اس عمر میں بھی بہت سمجھدار اور عقل مند تھا چونکہ اسے اپنے ماں باپ کی تربیت ہی اتنی اچھی ملی تھی اور ظاہر ہے جس کے والدین اتنے اعلیٰ کردار ہو وہ بچے بھی تقریباً اچھی تربیت کے حامل ہوتے ہیں اپنے ماں باپ کا سر جھکانے کے بجائے سر فخر سے بلند کرتے ہیں اب بات ہے نجمہ کی ان کی حالت دن بدن خراب ہوتی چلی گئی اس نے مرنے سے کچھ دن پہلے مبین کو سمجھانا شروع کردیا اور اس سے کچھ وعدے لیے اور اسے سمجھایا کہ وہ زندگی میں کبھی ہار نہ مانے اور ہمیشہ برے حالات کا مقابلہ کرے شکر گزاری کے ساتھ ساتھ اللہ پر ہمیشہ یقین رکھے اور سمجھایا ہمیشہ اپنے والد کا سر فخر سے بلند کرے کبھی اپنے والد کا سر شرمسار نہ کرے یہ سمجھاتے سمجھاتے کچھ دنوں بعد نجمہ اس دنیا سے چل بسی اور خالق حقیقی سے جاملی۔ نجمہ کے جانے کے بعد اس کے شوہر میر فضل اور بیٹے مبین کی زندگی مشکل ہوگئی پھر کچھ عرصے بعد گائوں والوں نے میر فضل کی شادی عابدہ نامی عورت سے کروادی۔ شادی کے بعد میر فضل نے اپنی بیوی عابدہ سے اپنے بیٹے مبین کے لیے اس کی بہتر ماں بننے کی درخواست کی۔ کچھ عرصے بعد ہی عابدہ کو اللہ نے ایک بیٹے سے نوازا جس کا نام انہوں نے شہزاد رکھا۔ شہزاد جوں جوں بڑا ہوتا رہا عابدہ کا رویہ مبین کے ساتھ خراب ہوتا گیا۔ اس نے ہمیشہ اپنے بیٹے شہزاد اور مبین میں فرق رکھا پر مبین کو ہمیشہ اپنی ماں کی نصیحت یاد رہتی اور اس نے صبر کی تلقین کو ہاتھ سے نہ جانے دیا اور اس نے عابدہ کو ہمیشہ اپنی سگی ماں کی طرح ترجیح دی اور شہزاد کو بھی ہمیشہ اپنے سگے بھائیوں کی طرح سمجھا اور اس کا ہمیشہ خیال کیا چونکہ عابدہ سوتیلی ماں ہونے کے ساتھ شہزاد کی سگی ماں تھی اس لیے اس نے ہمیشہ بے جا حمایت اور لاڈ پیار سے اسے ضدی اور بگاڑ دیا وہ خودسر، بدتمیز اور خود غرض بنادیا۔ ابھی مبین کی عمر 20 سال تھی اور شہزاد کی عمر 16 سال تھی اس عمر میں ان کا باپ یعنی میر فضل اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔ میر فضل کے جانے کے بعد شہزاد پڑھائی سے بالکل غافل اور دن بدن بگڑتا چلا گیا اسے اپنی ماں کی بھی کوئی پرواہ نہیں ہوتی تھی۔ اور گھر سے باہر وقت گزارنے لگا۔ عابدہ چونکہ عمر کے ساتھ بیمار رہنے لگی اور اس میں اب وہ ہمت بھی باقی نہ تھی اپنے بیٹے شہزاد کو بگڑتا دیکھ کر اپنا جی جلاتی ،ذہنی مریضہ ہوتی چلی گئی اور زیادہ تر اس کا وقت بستر پر گزرنے لگا۔ مبین بہت سمجھدار تھا اس نے پڑھائی کے ساتھ ساتھ کمانا بھی شروع کردیا اور اپنی سوتیلی ماں کے ساتھ گھر کے کام میں ہاتھ بٹانا شروع کردیا۔ گھر کے کاموں میں وہ باہر سے تھکا ہارا آکر اپنی سوتیلی ماں کو کھانا دیتا، دوا دیتا، اس کی خدمت کرتا، پائوں دباتا، پھر جا کر کھانا کھاتا۔ کیونکہ اس کی ماں نجمہ نے ہمیشہ اپنے بیٹے کو نیکی کرنے کی تلقین کی تھی۔ عابدہ ہمیشہ اپنے بیٹے شہزاد کی راہ تکتی رہتی لیکن شہزاد ہمیشہ کے لیے اپنی ماں کو چھوڑ کر دوسرے شہر چلا گیا اور اس کی ماں عابدہ ہمیشہ اپنے بیٹے شہزاد کے لیے تڑپتی رہتی۔ اسے مبین کے ساتھ اپنی ناانصافی اور زیادتی کا احساس دن بدن ہونے لگا اور وہ اپنے کیے ہوئے رویے کو لے کر پچھتانے لگی اور اپنے کیے کی معافی مبین سے مانگنے لگی اور اپنے خدا سے گڑگڑا کر معافی مانگنے لگی چونکہ مبین ایک اچھی تربیت کی وجہ سے اپنی سوتیلی ماں کو معاف کردیا اور ماں عابدہ کو اپنی ماں کی طرح سمجھتا اور اسے ہمیشہ اس کے سگے بیٹے کی کمی محسوس نہ ہونے دیتا۔ ہمیشہ اس کی عزت، خدمت اور ہمیشہ اس کا خیال اور احساس کرتا کیونکہ اس کی ماں نے ہمیشہ اپنے بیٹے مبین کو یہی تلقین کی تھی۔ اس بات سے یہ سبق ملتا ہے کہ رشتے صرف خون کے نہیں احساس کے بھی ہوتے ہیں ہر رشتہ احساس سے پیدا ہوتا ہے جس کے اندر احساس نہیں اس کے لیے ہر رشتہ بے معنی ہوتا ہے۔ nn

حصہ