عشرت آپا نے امی سے نہ جانے کیا کہا تھا کہ امی نے بے ساختہ کہا ’’کیا ہوگیا ہے عشرت! مذاق بنواؤ گی… اپنا بھی اطہر کا بھی؟‘‘
’’بس بھابھی! مجھے بڑا شوق ہے، بہت دل چاہ رہا ہے۔‘‘
’’یہ کیسا شوق ہے؟ چلو ہٹو۔‘‘
’’بھابھی! بس آپ آئیں گی۔‘‘
’’دیکھوں گی۔ تمہارے بھائی صاحب تمہیں پتا ہے رمضان میں کہیں نہیں جاتے، روزہ گھر میں ہی کھولتے ہیں۔ اپنی پسند کے چنے بنواتے ہیں اور پسی دال کی پھلکیاں۔ اماں کبھی کبھی کلونجی ڈال کر میدے کے پاپڑ تل لیتی ہیں اور خربوزے میں چینی برف ڈل جاتی ہے۔ مغرب کی نماز کے فوراً بعد کھانا اور سب فارغ۔ کہیں سے بھی افطار کی دعوت آئے تمہارے بھائی کہیں نہیں جاتے۔ ایک تو گرمی کا روزہ، پھر افطار کے وقت کی دھکم پیل۔ کسی کو کچھ ملے کسی کو نہیں، انہیں تو بالکل مناسب نہیں لگتا۔ تھوڑا بہت جو کھانا ہے روزہ کھول کر، اپنے گھر آرام سے کھاؤ۔‘‘
’’میں کون سا روز بلاتی ہوں؟ کسی کو نہیں بلایا… بس آپ، بھائی صاحب اور بچے… رونق ہوجائے گی۔ اطہر بھی خوش ہوجائیں گے۔‘‘
’’خوش ہوں گے یا برا مانیں گے؟‘‘
’’نہیں نہیں برا کیوں مانیں گے؟ وہ تو آپ لوگوں کی بہت عزت کرتے ہیں۔ میرا تو بس دو چار گھروں سے ہی ملنا جلنا ہے۔ ایک آپ کے ہاں ہی بے تکلف آجاتی ہوں۔‘‘
عشرت آپا کو ہم بچے بھی ’آپا‘ کہتے تھے۔ یہ کوئی پچاس سال قبل کی بات ہے جب میں سات آٹھ سال کا تھا اور مجھ سے دوچار سال چھوٹی دو بہنیں، جنہیں اپنی گڑیوں سے فرصت نہیں تھی۔ مکانوں کی دیوار مشترکہ ہوتی تھی۔ اب سوچو تو حیرت ہوتی ہے، یوں لگتا تھا گھر نہیں کمرے ہیں۔ کسی نے برتن زور سے رکھے، کوئی دل کھول کر ہنسا، ساری آوازیں دوسرے گھر تک آجاتیں ۔ شام کو کٹورے میں تھوڑا سا سالن پڑوس کے گھر میں ضرور جاتا۔
کھلتا گندمی رنگ لیکن چہرے پر ہلکے ہلکے نشان، شاید کبھی چیچک ہوئی ہو… پتا نہیں کیسے نشان تھے۔ عشرت آپا ہماری گلی کے دائیں جانب تھوڑے فاصلے پر تین گلیاں چھوڑ کر رہتی تھیں۔ کہا جاتا تھا میاں کی عاشق ہیں۔ اپنے ہاتھ کے کڑھے کُرتے پہناتیں۔ جوتے ہر وقت چمکا کر رکھتیں۔ کھانا اسٹیل کی چمکتی پلیٹ میں رکھتیں، اور جب تک اطہر میاں کھانا کھاتے، عشرت آپا کے ہاتھ میں پنکھا ہلتا رہتا۔ اِدھر اطہر میاں نے آخری نوالہ توڑا، اُدھر پانی کا گلاس حاضر۔ اور یہ بھی نہ سمجھ آیا کہ اطہر میاں کے نام کے ساتھ ’میاں‘ کب لگا۔ خود وہ اس زمانے میں بھی میاں کو اطہر ہی کہا کرتیں۔
دبلے پتلے، لمبے قد، اچھی شکل صورت کے اطہر گورنمنٹ کے کسی محکمے میی ملازم تھے۔ صبح دفتر جاتے اور شام کو واپسی میں ہماری گلی سے ہی گزرتے۔ کبھی کبھی گلی کے دوچار مرد کرسیاں ڈال کر گلی میں بیٹھتے تو اطہر نظر نیچی کیے سلام کرکے گزر جاتے۔
اور آج عشرت آپا ایک نیا دعوت نامہ لے کر آئی تھیں۔ وہ امی کے پہلو سے لگی بیٹھی تھیں۔ امی شاید کچھ کڑھائی کررہی تھیں جو ان کا فارغ وقت کا مشغلہ تھا۔ ایک تو عورتیں اُن دنوں فارغ ہوکر بھی کام میں لگی رہتی تھیں۔
’’بھابھی جب میں شادی ہوکے آئی تو اطہر کو تو دیکھ کر ہی فدا ہوگئی۔ سچ پوچھیں تو جیسی اچھی صورت تھی اتنے ہی اچھے مزاج کے بھی تھے۔ کام سے کام اور گھر کے سوا کوئی مصروفیت نہیں۔ میرا تو بہت خیال رکھتے۔ سب کہتے ہیں میں عاشق ہوں اطہر کی، مگر کوئی بتائے اتنے اچھے شوہر کے پاؤں دھوکر نہ پیوں تو کیا کروں؟‘‘ امی خاموشی سے عشرت آپا کی باتیں سن رہی تھیں۔
’’لیکن بھابھی جب پہلا رمضان آیا اور سحری میں مَیں نے اطہر کو اٹھایا تو میں تو حیران رہ گئی، نہ وہ روزہ رکھتے تھے نہ ان کی اماں یعنی کہ ہماری ساس۔‘‘
’’ہیں…؟‘‘امی نے حیرت سے کہا۔
’’ہاں بھابھی! افطاری بنتی مگر روزہ نماز کچھ نہیں۔ اطہر تو کہتے میرے بس کا نہیں۔ ان کے ابا تو روزے رکھتے تھے لیکن اماں اتنی پابند نہیں تھیں، اور اطہر اور ان کی بہن دونوں کو انہوں نے نماز روزے کی عادت ہی نہیں ڈلوائی۔ بہن کو تو سسرال اچھا ملا، وہ وہاں جاکر نماز روزے کی پابند ہوگئیں، مگر اطہر کا میں کیا کرتی! ہر رمضان سمجھاتی، گناہ ثواب بتاتی… لیکن ان کی ایک ہی رٹ کہ ’’نہیں رکھ سکتا‘‘۔ ان کو دن بھر بھوکا پیاسا رہنا مشکل لگتا۔ طرح طرح سے سمجھاتی کہ ہمت تو کریں کچھ نہیں ہوتا، سب رکھتے ہیں، چھوٹے بچے روزہ رکھتے ہیں۔ لیکن بچپن کی عادت ہی نہیں تھی۔ دل دُکھ جاتا تھا جب یہ دفتر سے آکر کھانا مانگتے۔ ہر سال دعا مانگتی کہ اس سال تو یہ روزے رکھ لیں۔ میری لگن کام آگئی، اِس سال مان گئے۔ بس پہلے روزے پر اطہر بھی روزہ رکھیں گے اور آپ میرے گھر افطار کریں گی۔‘‘
’’تو چپ چاپ روزہ رکھوا لو۔ ضروری ہے اعلان کرائو!‘‘ امی نے رائے دی۔
’’بھابھی! بس میرا دل ہے۔ اطہر کی تو روزہ کشائی ہی نہیں ہوئی۔ اب کرلوں تو کیا حرج ہے؟‘‘
’’ویسے حد ہے‘‘، امی قدرے الجھ کر بولیں۔
’’اچھا میں بچوں کو لے کر آجائوں گی۔تمہارے بھائی صاحب کا کچھ پکا نہیں کہہ سکتی۔‘‘
’’چلیں ٹھیک ہے بھابھی! میں چلوں۔ دو دن تو رہ گئے ہیں۔ چاند پرسوں نکل گیا تو دو دن بعد ہی روزہ ہو جائے گا۔‘‘
چاند ہوگیا۔ پہلا روزہ تھا۔ امی نے ہم تینوں بہن بھائیوں کو سویرے نہلا کر اچھے سوٹ پہنائے۔ خود بھی گلابی پھولوں والا ریشمی سوٹ پہنا۔ آنکھوں میں کاجل اور بالوں میں سیاہ چٹلا لگایا۔
’’چلو منیر بھاگ کر پھولوں کا ایک ہار تو لے آؤ۔‘‘ امی نے بٹوے سے پیسے نکال کر سامنے گھر کے بارہ تیرہ سال کے لڑکے کو دیتے ہوئے کہا۔ وہ بھاگ کر پھولوں کا مہکتا ہار لے آیا۔
ابا کو امی نے بڑی مشکل سے تیار کیا۔ وہ جانے کو تیار ہی نہیں تھے۔ ’’پہلا روزہ ہے، دوسروں کے گھر نہ افطار کا پتا چلتا ہے نہ کھانے کا، اور اطہر میاں نہ جانے پسند کریں یا نہیں۔‘‘ابا نے استفسار بھی کیا۔
’’عشرت نے ان سے پوچھ کر ہی تقریب رکھی ہے۔‘‘
’’سمجھ نہیں آتا۔‘‘ ابا بولے۔
عصر کی نماز کے بعد ہم پانچ لوگوں کا قافلہ عشرت آپا کے گھر چل پڑا۔ عشرت آپا کے گھر خوب رونق تھی۔ ان کے میکے والے تھے اور ہمارا گھر۔ اطہر میاں حسب ِمعمول سفید کڑھائی والے کرتا شلوار میں نظر نیچی کیے کھڑے تھے۔
افطار کی پلیٹیں تیار ہو رہی تھیں۔ عشرت آپا امی کے گلے لگ گئیں ’’آپا! آپ نے عزت رکھ لی اور بھائی صاحب بھی آگئے۔ اطہر بڑے خوش قسمت ہیں۔ بھابھی آپ برقع اتار کر ادھر کمرے میں بیٹھ جائیں، مرد باہر بیٹھک میں ہیں۔‘‘
چند پکوڑے، تھوڑے سے اُبلے سفید چنے،‘ موسمبی کی دو پھانکیں اور کھجوریں ہر پلیٹ میں رکھی تھیں۔ اسٹیل کے جگ میں شربت میں تھوڑی سی برف تھی۔ اطہر میاں دالان میں رکھی کرسی پر بیٹھے تھے۔ امی نے عشرت آپا کو پھولوں کا ہار دیا۔
’’لو یہ اطہر میاں کے گلے میں ڈال دو اور یہ ان کا سوٹ ہے بطور تحفہ۔‘‘ عشرت آپا خوشی سے بے قابو ہو گئیں۔ انہوں نے میاں کے گلے میں ہار ڈال دیا۔‘‘
کچھ ہی دیر میں اذان ہوئی۔پلیٹ میں رکھی افطار منٹوں میں ختم ہوگئی۔ امی اور عشرت آپا نماز کے لیے کھڑی ہو گئیں۔
باہر اطہر میاں روزہ کھول چکے تھے اور اندرجائے نماز پر کھڑی عشرت آپا کا چہرہ آنسوؤں سے بھیگ چکا تھا۔