اگر ہم تاریخ سے سبق حاصل نہیں کرتے تو جغرافیہ ہمیں سبق سکھاتا ہے، اور وہ سبق بہت تباہ کن ہوتا ہے۔ کچھ ایسی ہی بدقسمتی پاکستان کے نصیب میں بھی لکھی تھی۔ نصف صدی قبل کے واقعات کا تذکرہ جنوری میں شروع کیا تھا، کیونکہ 1971ء ملکی تاریخ میں بہت تباہ کن اور عبرتناک تھا۔ پاکستان کے ’’اصل حکمرانوں‘‘ نے دسمبر 1970ء کے عام انتخابات میں واضح کامیابی حاصل کرنے والی عوامی لیگ کو اقتدار سونپنے کے بجائے مارچ 1971ء میں مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن شروع کردیا۔ یعنی اپنے ہی عوام کا قتلِ عام۔۔۔!!!
خانہ جنگی:
مشرقی پاکستان میں بغاوت اور خانہ جنگی شروع ہوچکی تھی اور اسے بھارت کی مکمل پشت پناہی حاصل تھی۔
مارچ 1971ء کے اواخر سے عوامی لیگ کے حامیوں نے بغاوت یا مسلح جدوجہد کا آغاز کیا۔ شیخ مجیب الرحمٰن نے بھارت کے بل بوتے پر پاک فوج سے براہِ راست ٹکرانے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے ریٹائرڈ کرنل ایم اے جی عثمانی کو یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ مدافعت کے لیے ایک فورس تیار کریں۔ شیخ مجیب کی اس پرائیویٹ فوج کے افراد سابق فوجیوں، عوامی لیگ کے رضاکاروں اور یونیورسٹی کے طلبہ سے لیے گئے۔ مجیب کی ہدایت پر کرنل عثمانی نے ایسٹ بنگال رجمنٹ، ایسٹ پاکستان رائفلز اور پولیس سے بھی رابطہ کیا تاکہ ضرورت پڑنے پر ان سے بھی مدد لی جاسکے۔ ان تینوں فورسز سے وابستہ بنگالی پہلے ہی تربیت یافتہ اور مسلح تھے اور ان کی دلی ہمدردیاں بھی عوامی لیگ کے ساتھ تھیں، لیکن اوپر سے ڈسپلن کا خول یا بھرم قائم تھا۔ ان میں سے کئی خفیہ طور پر عوامی لیگ کی فوجی کمیٹی کے اجلاس میں باقاعدہ شرکت کیا کرتے تھے۔
25؍مارچ 1971ء کو مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن ’’سرچ لائٹ‘‘ کے نام سے شروع ہوا، ڈھاکہ میں تو ایک ہی رات میں پاک فوج نے باغیوں کے چھکے چھڑا دئیے اور ڈھاکہ پر مکمل کنٹرول حاصل کرلیا۔ لیکن دیگر شہروں میں عوامی لیگ کے باغیوں کا قبضہ تھا۔
اپریل میں مشرقی پاکستان میں خانہ جنگی بھرپور انداز میں جاری تھی۔ چاٹگام شہر اور چھاؤنی پر مکمل قبضہ 6اپریل کے لگ بھگ بحال ہوا۔ اس کے قریب واقع کُشتیا اور پبنہ میں بھی پاک فوج نے باغیوں کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔ لیکن مقابلے پر اپنے ہی بھائی یعنی فرسٹ ایسٹ بنگال رائفلز اور ان کے ساتھ بھارت کی بارڈر سیکورٹی فورس۔۔!! اسی دوران اصل معرکہ جیسور میں ہوا، جہاں پاک فوج کو بہت جانی نقصان اٹھانا پڑا۔ اس تباہی کے پیش نظر جیسور بریگیڈ ہیڈکوارٹر میں فوری مدد کے لیے پیغام بھیجا گیا۔ بار بار پیغامات کے جواب میں یہ مایوس کن جواب موصول ہوا کہ فوجی کمک خارج از امکان ہے، کیونکہ ساری نفری پہلے ہی کسی نہ کسی کارروائی میں مصروف ہے۔
پبنہ میں بھی ایسٹ پاکستان رائفلز کے سیکڑوں بنگالی سپاہی اسلحہ سمیت باغیوں سے مل گئے تھے، ان کے ساتھ پولیس اور عوامی لیگ کے کارکن بھی تھے۔ پاک فوج کے جوانوں نے اپنی جانوں پر کھیل کر اور وطن عزیز کے دفاع میں شہید ہوکر اس علاقے کا بھی دفاع کیا۔ راجشاہی سے میجر اسلم اپنے سپاہیوں کے ساتھ پہنچے۔ لیکن یکم اپریل تک میجر اسلم اور ان کے زیادہ تر سپاہی شہید ہوچکے تھے۔ اتنی بھرپور قربانیوں کے بعد چاٹگام پر 6اپریل، پبنہ پر 10اپریل اور کشتیا پر 16 اپریل کو حکومتِ پاکستان کا اقتدار بحال کردیا گیا۔
اس سارے آرمی ایکشن کا المناک پہلو یہ تھا کہ باغیوں نے نہ صرف پاکستانی فوجیوں کو بے دردی سے قتل کیا بلکہ ان کے اہلِ خانہ کو بھی سفاکانہ سلوک کا نشانہ بنایا۔
کرنل صدیق سالک نے اپنی کتاب ’’میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا‘‘ میں لکھا ہے کہ 2 ایسٹ بنگال رائفلز کی پلٹن ڈھاکہ کے شمال میں جودیپ پور کے مقام پر تھی۔ اس میں ساری نفری بنگالی تھی، البتہ چند افسر مغربی پاکستان سے تعلق رکھتے تھے، ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی۔ اس نے آرمی ایکشن کے بعد دوسری بنگالی پلٹنوں سے مواصلاتی رابطہ قائم کرنے کے بعد بغاوت کردی۔ بغاوت کے بعد سب سے پہلا کام یہ کیا کہ مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے تمام افسروں، جوانوں اور ان کے اہلِ خاندان کو قتل کردیا۔ البتہ صوبیدار ایوب، جودیپ پور سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوگیا تھا، وہ ڈھاکہ پہنچا اور اس سفاکی کی داستان سنائی۔ جب وہ ڈھاکہ سے کمک لے کر جودیپ پور پہنچا تو بٹالین کا سارا علاقہ مقتل میں تبدیل ہوچکا تھا۔ گندگی کے ایک ڈھیر پر پانچ بچے ذبح ہوئے پڑے تھے۔ ان کے پیٹ سنگینوں سے چاک کیے گئے تھے۔ صوبیدار ایوب ان میں اپنے کنبے کے افراد کو پہچان کر چلاّ اٹھا اور انتہائی صدمے سے دماغی توازن کھو بیٹھا۔
کہیں قتل وغارت کے بعد اور کہیں اس کے بغیر پاکستانی فوج نے چند بڑے بڑے شہروں کو باغیوں کے نرغے سے نکال لیا۔ اس کے بعد مضافات پر توجہ دی گئی اور مختلف فوجی دستے مختلف مقامات پر روانہ کیے گئے۔ ایسی کارروائیوں کے دوران باغی بڑی سڑکوں سے ہٹ کر یا تو دیہی علاقوں میں چلے جاتے یا پسپا ہوتے ہوئے سرحد پار کرکے بھارت پہنچ جاتے۔
دوسرا مؤقف:
پاک فوج کے ایک بنگالی افسر ریٹائرڈ کرنل شریف الحق دالیم 1964میں پاک فضائیہ میں شامل ہوئے اور 1965ء کی جنگ میں مغربی پاکستان میں بہت بے جگری سے لڑے۔ جنگ کے بعد وہ برّی فوج میں آگئے اور اپریل 1971ء تک خدمات انجام دیتے رہے۔ وہ پاک آرمی کے بنگالی افسروں کے اس پہلے گروپ کے لیڈر تھا، جو غداری کی نئی تاریخ رقم کرکے مغربی پاکستان سے فرار ہوکر بھارت گیا اور پھر مشرقی پاکستان جاکر باغیوں سے مل گیا۔ انہوں نے اپنی کتاب ’’پاکستان سے بنگلہ دیش تک۔ اَن کہی جدوجہد‘‘ میں، جو سن 2018ء میں شائع ہوئی، بغاوت کرنے والے بنگالیوں کا مؤقف بیان کیا۔ انہوں نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ’’آخرکار حکمران فوجی ٹولے نے سیاسی تحریک کو گولی اور بندوق کے ذریعے ختم کرنے کا فیصلہ کیا اور 25؍مارچ کی رات ایک خوفناک رات میں ڈھل گئی۔ پاکستانی فوج نے بنگالیوں پر ان کی سیاسی تحریک کو کچلنے کے لیے اپنی بے مثال وحشیانہ اور ظالمانہ کارروائیوں کا آغاز کردیا۔ اس طرح راستوں کی جدائی ناگزیر ہوگئی۔ 25؍مارچ کی رات ہونے والی نسل کُشی نے اس قسم کے تمام مظالم کی تاریخ کے نئے ریکارڈ قائم کردئیے۔ فوج نے وحشیانہ انداز میں ہزاروں معصوم بچوں، خواتین اور مردوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ شیخ مجیب سے حکمران فوجی ٹولے کی متوقع مسلح کارروائی کے خلاف مسلح مزاحمت کو منظم کرنے کے لیے باربار لیڈرشپ مہیا کرنے کی درخواست کی گئی، لیکن شیخ مجیب نے ان اپیلوں پر کوئی توجہ نہ دی اور ہمیشہ اس بات کو دہرایا کہ میں نے اپنی ساری زندگی میں جمہوری سیاست کی ہے، میں بندوقوں کی سیاست پر یقین نہیں رکھتا۔ یہ کیسی ستم ظریفی تھی، پوری قوم نے اُن کے کہنے پر ہمیشہ قربانیاں دی تھیں، دھرتی کے بہت سے سپوتوں نے ان کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنی جانیں دی تھیں، انہوں نے انہیں ایک غیر متنازع لیڈر کے طور پر قبول کیا تھا۔ وہ انہیں جو بھی مانگتے، دینے کے لیے تیار تھے، اسی لیڈر نے ایک نازک وقت میں پوری قوم کو پیچھے چھوڑا اور مغربی پاکستان جانے کے لیے اپنی گرفتاری پیش کردی۔ ایک وقت کے لیے پوری بنگالی قوم سکتے میں آگئی۔ پورا مشرقی پاکستان ناامیدی میں حوصلے ہار بیٹھا۔ عوامی لیگ کے دوسرے لیڈروں نے بھی عوام کو بے یار ومددگار چھوڑا اور اپنے آپ کو بچانے کے لیے روپوش ہوگئے۔ لیڈروں کی اس قسم کی بے وفائی پر عوام کو اپنی قسمت خود اپنے ہاتھوں میں لینا پڑی اور انہوں نے چیلنجوں کا سامنا کرنے کا فیصلہ کیا۔ امن پسند بنگالیوں نے اپنی حفاظت کی خاطر اسلحہ اٹھا لیا۔
اس نازک موڑ پر 26 اور 27 مارچ کی رات ایک غیر معروف نوجوان میجر ضیاء الرحمٰن نے جس کا تعلق ایسٹ بنگال رجمنٹ سے تھا، قومیت کے جذبے سے سرشار ہوکر بغاوت کا فیصلہ کیا۔ وہ اپنے دوسرے بنگالی ساتھیوں سے مشورے کے بعد ریڈیو اسٹیشن آیا اور قوم سے آزادی کی جنگ منظم کرنے کی تاریخی اپیل کی۔ لوگوں کو اُس کی اس پُرجوش اپیل میں امید کی ایک کرن نظر آئی۔ اس پُرجوش اپیل کے نتیجے میں پورے مشرقی پاکستان میں لوگوں نے مزاحمت کی تحریک منظم کرنی شروع کردی۔ مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والی دوسری ایجنسیوں کے بنگالی ارکان نے اس مسلح جدوجہد کو منظم کرنے میں ہراول دستے کا کام کیا جو آخرکار ایک خونریز قومی جنگِ آزادی کا روپ دھار گئی۔‘‘ (”پاکستان سے بنگلہ دیش تک۔ ان کہی جدوجہد“، کرنل (ر) شریف الحق دالیم۔ ص 92، 93)
نفری کی قلت:
مشرقی پاکستان میں آرمی ایکشن کے اعتبار سے نفری کم تھی۔ یعنی 55 ہزار 126 مربع میل علاقے کے دفاع کے لیے پاک فوج کے 260 افسر اور41060(اکتالیس ہزار ساٹھ ) سپاہی متعین تھے۔ دوسری جنگِ عظیم کے مشہور گوریلا لیڈر ٹی ای لارنس نے اپنی کتاب ”سیون پلرز آف وزڈم“ میں لکھا ہے کہ ہر چار مربع میل قطعۂ اراضی کی حفاظت کے لیے بیس سپاہی درکار ہوتے ہیں۔ لارنس نے یہ تناسب صحرائی جنگ کے تناظر میں مقرر کیا تھا جہاں حدِّ نگاہ خاصی دور تک جاتی ہے۔ لیکن مشرقی پاکستان میں گھنے جنگلوں اور سبزے کی وجہ سے حدِّ نظر خاصی محدود تھی، جس کا مطلب تھا کہ یہاں تھوڑے فاصلے کے لیے زیادہ نفری درکار تھی۔ لیکن اگر ٹی ای لارنس کے فارمولے سے بھی اندازہ لگایا جائے تو مشرقی پاکستان کی حفاظت کے لیے 3 لاکھ 75 ہزار سپاہی درکار تھے، یعنی دستیاب وسائل سے تقریباً سات گنا زیادہ۔ ایک غیرملکی صحافی ڈیوڈ لوشک نے مطلوبہ تعداد کا کم از کم اندازہ دولاکھ پچاس ہزار لگایا تھا۔
ان مساعد حالات کے باوجود پاک فوج نے ڈٹ کر باغیوں کا مقابلہ کیا او ر پورے آٹھ ماہ تک لڑتی رہی، اور اہم ضلعی ہیڈکوارٹرز اور سب ڈویژنل ہیڈکوارٹرز سمیت تمام بڑے شہروں اور قصبوں کو مکتی باہنی سے محفوظ رکھا۔ 370 سرحدی چوکیوں میں سے 260 چوکیوں کو اپنے قبضے میں رکھا۔
اسی دوران 6 اپریل تک مزیدکمک پہنچی۔ اس میں دو ڈویژنل ہیڈکوارٹرز (9 ڈویژن اور 16 ڈویژن)، پانچ بریگیڈ ہیڈکوارٹرز، ایک کمانڈو بٹالین اور بارہ انفنٹری بٹالین (پیدل پلٹنیں) شامل تھیں۔ یہ سب اپنے بھاری ہتھیار (توپیں وغیرہ) مغربی پاکستان ہی میں چھوڑ آئے تھے، کیونکہ انہیں چند شرپسندوں کی سرکوبی کرنا تھی، کوئی باقاعدہ جنگ تھوڑی لڑنا تھی!
اس کے علاوہ اپریل کے آخر تک مزید تین پیادہ پلٹنیں اور دو مارٹر بیٹریاں (ہلکی توپیں) مشرقی پاکستان پہنچیں۔ نیم فوجی لشکر جو ایسٹ پاکستان رائفلز کی جگہ لینے یکم اور 21 ؍اپریل کے درمیان پہنچا، اس میں ایسٹ پاکستان سول آرمڈ فورسز، مغربی پاکستان رینجرز اور شمال مغربی سرحدی صوبے (کے پی کے) کے اسکاؤٹس شامل تھے۔ جتنی نفری آئی، اسے آپریشن سرچ لائٹ کی تکمیل پر لگادیا گیا۔
اسی دوران راولپنڈی سے پانچ ہزار افراد پر مشتمل پولیس اور کوئی دو درجن سی ایس پی افسر بھیجے گئے، لیکن وہ کمک بھی بے اثر ثابت ہوئی، کیونکہ ان کی تربیت ایک باقاعدہ انتظامی شعبے کو چلانے تک محدود تھی۔ اور نوکر شاہی سے مسیحائی کی توقع فضول تھی۔ یہ کام سیاست دانوں اور مدبروں کا تھا، مگر افسوس کہ مارشل لا کے خارزار میں ایسے پھول نہیں کھلا کرتے۔
غیرملکی نامہ نگاروں کا انخلاء:
آرمی ایکشن شروع کرنے کے بعد ڈھاکہ سے غیرملکی نامہ نگار وں کو نکالنے کا فیصلہ پاکستان کو بہت مہنگا پڑا۔ انہوں نے باہر جاکر مشرقی پاکستان کے متعلق طرح طرح کی خبریں تخلیق کرنا شروع کردیں جن میں سے بیشتر مبالغے یا غیر مصدقہ اطلاعات پر مبنی ہوتی تھیں۔ ان سے یہ تاثر پیدا ہوتا تھا کہ پاکستانی فوج معصوم اور نہتے بنگالیوں کو ناحق موت کے گھاٹ اتار رہی ہے۔ اس پروپیگنڈے کا زہر کم کرنے کے لیے پاک فوج کے بعض دوراندیش افسروں نے حکام بالا کو یہ تجویز دی کہ ہمیں برملا اس حقیقت کا اعتراف کرلینا چاہیے کہ مشرقی پاکستان میں متعین تمام بنگالی یونٹس، ایسٹ پاکستان رائفلز اور پولیس بغاوت کرچکی ہے اور پاکستان آرمی کو ان مسلح اور منظم باغیوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، نہ کہ ’’معصوم اور نہتے ‘‘ بنگالیوں کا۔ یہ تجویز دینے والے افسران ہی کو سخت سست سنائی گئی کہ کیا آپ لوگ دنیا کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ پاکستان آرمی کا ڈسپلن ٹوٹ گیا ہے!
(جاری ہے)
ان افسروں کے علاوہ میجر جنرل راؤ فرمان علی نے ڈھاکہ میں فوجی کارروائی کے بعد اپریل کے شروع میں اعلیٰ قیادت کو مشورہ دیا کہ باغی عناصر کے لیے فوراً عام معافی کا اعلان کردیا جائے تاکہ جو لوگ (ناکام مدافعت کے بعد) واپس آنا چاہیں، آجائیں۔ انہوں نے اس پر فوری طور پر عمل کرنے کو کہا تاکہ باغی عناصر بھارت کے چنگل میں نہ پھنس جائیں۔ اس پر ایک سینئر جنرل نے ان کی اس بات کو مذاق میں اڑا دیا۔ اسی اعلیٰ قیادت کو پانچ ماہ بعد (4ستمبرکو) عام معافی کا اعلان کرنا پڑا، لیکن اس وقت تک وہ مکتی باہنی (سپاہِ آزادی) میں تبدیل ہوچکے تھے جنہوں نے بھارت کا کام مزید آسان کردیا۔
جنرل نیازی کی آمد:
اسی دوران لیفٹننٹ جنرل امیر عبداللہ خاں نیازی کو مشرقی پاکتان بھیج دیا گیا، چونکہ جنرل ٹکا خان بیگ وقت گورنر، مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور کمانڈر ایسڑن کمان تھے۔ اس لیے جنرل نیازی کو کمانڈر ایسٹرن کمان بنایا گیا۔ وہ دوسری عالمی جنگ میں ملٹری کراس اور ۱۹۶۵ء کی جنگ میں ہلال جرأت حاصل کرچکے تھے اور ٹائیگر کے نام سے مشہور تھے۔ بقول کرنل صدیق سالک غالباً ارباب اختیار کا خیال تھا کہ بنگال کے ٹائیگر کو زیر کرنے لیے پنجاب کے شیر کو بھیجنا ضرور ہے۔
وہ ۱۰؍ اپریل کو ڈھاکہ پہنچے اور اگلی صبح کمانڈر ایسٹرن کمان کے عہدے کا چارج سنبھال لیا۔ چارج لینے کے بعد جنرل نیازی نے اپنے اسٹاف سے خطاب کیا جس میں انہوں نے ماضی کی ’’فاختاؤں‘‘ (یعنی صلح جو اور نرم مزاج فوجی افسروں) پر تنقید کی اور بنگالیوں، خاص طورپر بنگالی دانشوروں اور بنگالی ہندؤوں پر خوب برسے کیونکہ ان کا خیال تھا کہ بنگالی قومیت کو پروان چڑھانے والے یہی لوگ تھے۔
فوجی کارروائی کے بارے میں انہوں نے اپنے پیشرو سے مشورہ کیا اور جس طرح کام چل رہا تھا، چلنے دیا۔
ماہ اپریل میں تین میجر جنرل، جنرل نیازی کی معاونت کے لیے ڈھاکہ پہنچے۔ میجر جنرل رحیم ( جنرل خادم راجہ والے) ۱۴ ڈویژن کے جی او سی مقرر ہوئے جبکہ میجر جنرل شوکت رضا اور میجر جنرل نذر حسین شاہ کو بالترتیب ۹ ڈویژن اور ۱۶ ڈویژن دئیے گئے۔ یہ دونوں ڈویژن تازہ تازہ مغربی پاکستان سے آئے تھے۔ جنرل نیازی نے اپنے تازہ وسائل کے پیش نظر مشرقی پاکستان کو تین حصوں میں تقسیم کردیا۔ مشرقی سرحد جنرل شوکت رضا کو، شمال مغربی علاقہ جنرل نذر حسین شاہ کو اور باقی علاقہ جنرل رحیم کو سونپ دیا۔
پورے علاقے پر کنٹرول:
اس اضافی طاقت کے ذریعہ سارے مشرقی پاکستان میں حکومت کا کنٹرول بحا ل کرنے میں زیادہ دیر نہیں لگی۔ اپریل کے آخر تک بڑے بڑے شہروں سے باغیوں کو نکالا جاچکا تھا اور وسط مئی تک ہر قابلِ ذکر جگہ پاکستانی فوج پہنچ چکی تھی لیکن ان کا کنٹرول طاقت کے بل بوتے پر قائم تھا اس کا دلوں پر حکمرانی سے کوئی تعلق نہ تھااور اس پر کوئی توجہ بھی نہیں تھی۔ بلکہ ’’عمل صفائی‘‘(Sweep Operation) کے نام پر مشکوک گھروں چھاپے مار مار کر زخموں پر نمک چھڑکنے کا تاثر دیا گیا۔
دائیں بازو کی جماعتوں کا تعاون:
پاک فوج سے اس آڑے وقت میں دائیں بازو کی جماعتوں نے تعاون کیا، جس کا مقصد پاکستان کی بقاء تھا۔ ان میں کونسل مسلم لیگ، جماعت اسلامی، کنونشن مسلم لیگ، قیوم مسلم لیگ اور نظام اسلام پارٹی شامل تھیں۔ یہ ساری جماعتیں ۱۹۷۰ء کے عام انتخابت میں عوامی لیگ سے شکست فاش کھاچکے تھے۔ جب فوج نے ان کا تعاون حاصل کرنا شروع کیا تو اکثر لوگ یہ سمجھنے لگے کہ پٹے ہوئے مہرے فوج کی سرپرستی میں دوبارہ میدان میں آگئے ہیں۔ اس پر پاک فوج نے غیر سیاسی بنگالی شخصیات سے مدد لینے کی کوشش کی لیکن اس سلسلے میں انہیں کوئی کامیابی نہیں ہوئی۔
غیرملکی میڈیا کی مقبولیت:
ایک جانب فوجی آپریشن پوری قوت کے ساتھ جاری تھا، دوسری جانب ریڈیو، ٹیلی ویژن اور اخبارات حالات تیزی سے معمول پر آنے کا تاثر دے رہے تھے۔ جس سے بنگالیوں کا اعتماد سرکاری نشریاتی اداروں سے اٹھ گیا۔ وہ آل انڈیا ریڈیو اور دیگر غیر ملکی نشریاتی اداروں کی طرف رجوع کرنے لگے۔ آل انڈیا ریڈیو بنگالیوں کے ذہنوں میں زہر گھولنے میں پیش پیش تھا۔ وہ بنگالیوں کے دلوں میں نفرت کے جذبات بھڑکانے اور انہیں اپنی جان، مال اور عزت بچانے کیلیے اپنے گھر بار چھوڑنے کی ترغیب دے رہا تھا۔ بہت سے بنگالی جو ہندوستان میں پناہ گزیں ہوئے، کچھ فوجی کارروائی کے ستائے ہوئے تھے اور کچھ آکاش وانی کے پڑھائے ہوئے۔۔
بھارتی تیاریاں:
اسی خانہ جنگی دوران بھارت تین محاذوں پر کام کررہا تھا۔ اس کی مسلح افواج کے سربراہ جلداز جلد اپنی جنگی مشینری کو مزید مضبوط بنانے میں لگ گئے، وزارت خارجہ سفارتی محاذ پر سرگرم ہوئی۔ اس نے روس سے دوستی کے معاہدے کی تجدید کی۔ عالمی رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لیے پناہ گزینوں کے مسئلے کو بڑھا چڑھا کر دنیا کے سامنے پیش کیا۔ حالانکہ ان میں سے اکثر خود بھار ت کی شہ پاکر اپنے گھروں کو چھوڑ کر بھاگ گئے تھے۔
(جاری ہے)