جنگ یمامہ

10104

ختم نبوت و ناموس رسالت کا پہلا جہاد

نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد منافقین نے نبوت کے جھوٹے دعویداروں کی صورت میں سر اٹھایا۔ جانشین رسولؐ‘ امیر المومنین‘ خلیفہ اوّل سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے ناموس رسالتؐ و آبروئے ختم نبوت کی پاسبانی کا صحیح حق ادا کرتے ہوئے سیف اللہ حضرت خالد بن ولیدؓ کو اس فتنے کی جڑیں کاٹنے اور ان مفسدوں کے سر تن سے جدا کرنے پر مامور کیا۔ جنگ یمامہ کفر و اسلام کے اسی معرکے کا نام ہے جس میں بارہ سو کے قریب صحابہ کرامؓ نے جامِ شہادت نوش کیا۔ ان شہداء میں تین سو ستر ایسے تھے صحابہ کرامؓ تھے جو قرآن کے حافظ تھے اور ان کا درجہ مسلمانوں میں بہت بلند تھا۔ جنگ یمامہ کے جذبے اور ولولے شمع ختم نبوت کے پروانوں کے لیے رہتی دنیا تک نمونہ عمل رہیں گے۔
اے جان دینے والو! محمدؐ کے نام پر
ارفع بہشت سے بھی تمہارا مقام ہے
ختم نبوت کے اوّلین شہدائے کرام
حضرت حبیب بن زید انصاریؓ:
تاریخ اسلام میں عقیدہ ختم نبوت کے لیے سب سے پہلے اپنی جان کا نذرانہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نوجوان انصاری صحابی حضرت حبیب بن زید انصاری نے پیش کیا۔ وہ مسیلمہ کذاب کے ساتھیوں کے ہاتھوں گرفتار ہوئے اور انہیں مسیلمہ کے دربار میں پیش کیا گیا۔ مسیلمہ نے ان سے پوچھا کہ کیا تم حضرت محمدؐ کو اللہ کا رسولؐ مانتے ہو؟ انہوں نے جواب دیا ہاں مانتا ہوں۔ مسیلمہ نے پھر پوچھا کہ تم مجھے اللہ کا رسول تسلیم کرتے ہو؟ حضرت حبیب بن زیدؓ نے جواب میں فرمایا میرے کان تمہاری یہ بات سننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ مسیلمہ نے انہیں قتل کرنے کا حکم دیا اور تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ حضرت حبیب بن زیدؓ کو مسیلمہ کے دربار میں اس درندگی کے ساتھ شہید کیا گیا کہ پہلے ان کا ایک بازو کاٹا گیا پھر دوسرا بازو اور پھر ایک ٹانگ پھر دوسری ٹانگ‘ اس دوران مسیلمہ مسلسل سوال کرتا جاتا تھا اور اس عاشق رسولؐ صحابیؓ کا ہر سوال پر یہی جواب تھا کہ میرے کان جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی اور کے لیے نبوت کا لفظ سننے کے لیے تیار نہیں۔ حتیٰ کہ حضرت حبیب بن زید انصاریؓ عقیدہ ختم نبوت کے اسی والہانہ اظہار کے ساتھ جامِ شہادت نوش کر گئے۔
حضرت زید بن خطاب القرشی العدویؓ:
یہ اس لشکر کے علم بردار تھے جو مسیلمہ کذاب کے مقابلے میں حضرت صدیق اکبرؓ نے روانہ کیا تھا۔ دشمن کے ایک حملے میں ان کا لشکر متفرق ہو گیا تو انہوں نے کہ اکہ اب مرد‘ مرد نہیں رہے‘ پھر بلند آواز سے کہا الٰہی! میں اپنے ساتھیوں کے فرار کا تیرے حضور میں عذر پیش کرتا ہوں۔ مسیلمہ کذاب اور محکم بن طفیل کی سازشوں سے برأت کا اظہار کرتا ہوں۔ یہ کہہ کر آگے بڑھے اور شدت سے حملہ کیا اور مرتدیسدندد کو قتل کرتے ہوئے شہید ہوگئے۔ یہ حضرت زید خلیفۂ ثانی سیدنا عمر فاروقؓ کے بھائی ہیں۔
حضرت سالم بن معقل شہیدؓ:
حضرت سالم بن معقلؓ اصلی باشندے اصطخر کے تھے۔ بعض نے ان کا وطن موضظع کرمد (علاقہ فارس) بھی لکھا ہے۔ شبیۃ بنت تعار انصاریہ کے غلام تھے۔ یہ خاتون ابو حذیفہ بن عوتبہ بن ربیعہ بن عبد شمس بن عبد مناف کی زوجہ ہیں۔ انہوں نے ان کو آزاد کر دیا اور ابو حذیفہ نے ان کو اپنی تربیت میں لے لیا۔ حتیٰ کہ متبنیٰ (منہ بولا بیٹا) بن الیا اس لیے کہتے ہیں کہ وہ انصاریہ کے آزاد کردہ تھے اور مہاجر اس لیے شمار کرتے ہیں کہ انہوں نے مکہ میں ابو حذیفہ کے ہاں پرورش پائی اور مکہ ہجرت کرکے اس قافلہ میں مدینہ پہنچے جس میں حضرت عمر فاروقؓ بھی شامل تھے۔ ان کا شمار فضلا الموالی‘ خیار الصحابہؓ اور کبار صحابہؓ میں کیا جاتا ہے۔ ان کو عجمی اصل وطن کے لحاظ سے کہا جاتا ہے۔ قرآن مجید کے جید قاری تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معلمین قرآن میں ان کا نام تعین فرمایا تھا۔ غزوۂ بدر میں حاضر تھے‘ جنگ یمامہ حضرت سالمؓ اور ان کے مربی حضرت ابو حذیفہؓ دونوں نے جام شہادت نوش کیا۔ دفن ہونے میں حضرت سالمؓ کا سر ابو حذیفہؓ کے پائوں کی جانب تھا۔
حضرت سائب بن عثمان بن مظعون القرشی الحمجی شہیدؓ:
یہ سائب بن مظعون کے برادر زادے ہیں‘ ان کے والد عثمان بن مظعون اور ان کے چچائوں قدامہ‘ عبداللہ اور سائب نے ہجرت حبشہ کی تھی۔ یہ بھی حبشہ کی ہجرت دوم میں شامل تھے۔ جنگ یمامہ میں شہادت کے مرتبہ پر فائز ہوئے‘ اس وقت ان کی عمر 30 سال سے زائد تھی۔
حضرت شجاع بن ابی وہب الاسدی شہیدؓ:
ان کا نسب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خزیمہ میں شامل ہو جاتا ہے۔ یہ بھی حبشہ کی دوسری ہجرت میں شامل تھے اور پھر یہ سن کر کہ اہل مکہ مسلمان ہو گئے ہیں‘ حبشہ سے واپس آگئے تھے۔ غزوۂ بدر میں آنحضرت صلی اللہ کے ساتھ رہے‘ مواخات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ابن خول کا بھائی بنایا تھا۔ جنگ یمامہ میں شہید ہوئے‘ اس وقت ان کی عمر چالیس سال سے کچھ زائد تھی۔
حضرت عبداللہ بن مخرمہ شہیدؓ:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان کا نسب گیارہویں پشت میں فہر سے مل جاتا ہے۔ ان کی والدہ ام فہک بنت صفوان ہیں۔ یہ مہاجرین اوّلین میں سے ہیں اور بقول ذوالبجرتین بھی ہیں۔ جنگ یمامہ میں اکتالیس سال کی عمر میں شہید ہوئے۔ انہوں نے دعا کی تھی کہ الٰہی مجھے اس وقت تک موت نہ آئے جب تک میں اپنے بند بند کو تیری راہ میں زخم رسیدہ نہ دیکھ لوں۔ جنگ یمامہ میں ان کے زخموں کا یہی حال تھا کہ جملہ مفاصل (جوڑوں) پر زخموں کے نشان تھے۔
حضرت ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ جب میں ان کے پاس آخری وقت پہنچا تو انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ روزہ داروں نے روزے کھول لیے ہیں؟ میں نے کہا ہاں۔ انہوں نے کہا میرے منہ میں پانی ڈال دو۔ ابن عمر حوض پر گئے اور ڈول پانی لے کر آئے۔ آکردیکھا تو وہ سانس پورے کر چکے تھے۔
حضرت مالک بن امیہ بن عمر السلمی شہیدؓ:
یہ بنو اسد بن خزیمہ کے حلیف ہیں‘ بدر میں حاضر ہوئے۔ جنگ یمامہ میں جامِ شہادت نوش کیا۔
حضرت مالک بن عمرو السلمی شہیدؓ:
ابو حذیفہ بن عتبہ بن ربیعہ بن عبد شمس بن عبد مناف قرشی‘ ان کا نام مبہشم یا ہشیم یا ہاشم بیان کیا جاتا ہے۔ فضلا صحابہؓ میں سے ہیں۔ ابھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دارارقم میں داخل نہ ہوئے تھے کہ یہ اسلام لا چکے تھے۔ اوّل ہجرت حبشہ کی‘ پھر مکہ سے مدینہ ہجرت کی۔ ان کی اہلیہ سہلمہ بنت سہیل نے ہجرت حبشہ میں ساتھ دیا تھا۔ بدر‘ احد‘ خندق‘ حدیبیہ جملہ غزوات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم رکاب رہے۔ جنگ یمامہ میں بعمر 53 سال جامِ شہادت نوش کیا۔
حضرت عبداللہ بن عبداللہ بن ابی سلول الانصاری الخزرجی شہیدؓ:
یہ بنو عوف بن خزرج میں سے ہیں‘ ان کا قبیلہ مدینہ بھر میں مشہور تھا۔ ان کو ابن الحبلی بھی کہتے ہیں۔ سلول عبداللہ منافق کی دادی کا نام ہے‘ ابی اپنی ماں کی نسبت سے مشہور ہے۔ حضرت عبداللہ کے باپ عبداللہ کو اہل یثرب اپنا بادشاہ بنانے لگے تھے‘ اس کے لیے تاج تیار کرنے کی تجاویز ہو رہی تھیں کہ سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم رونق افروز ہوگئے۔ خزرجی مسلمان ہو گئے‘ ابن ابی کا اقتدار خاک میں مل گیا۔ رشد و حسد نے رئیس المنافقین بنا دیا۔
جب ’’لیجز جن الاعزمھا الازل‘‘ کا جملہ رئیس المنافقین کے منہ سے نکلا تو اس کے بیٹے حضرت عبداللہؓ جو نہایت مخلص مسلمان تھے‘ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گئے اور عرض کیا کہ اگر ارشاد ہو تو اپنے نالائق باپ کا سر کاٹ کر حاضر کر دوں۔ آپؐ نے فرمایا نہیں تم اپنے باپ سے حسن سلوک رکھو۔
الغرض ابن ابی رئیس المنافقین کے گھر میں حضرت عبداللہ‘ صدق و اخلاق کا کامل نمونہ تھے۔ ایمان اور محبت رسولؐ کے مدارج میں ترقی یافتہ تھے‘ ان کا شمار خیار صحابہؓ اور فضلائے صحابہؓ میں ہوتا تھا۔ بدر‘ احد اور دیگر تمام غزوات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمرکاب رہے اور جنگ یمامہ میں اپنی جان کا نذرانہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے حضور پیش کیا۔
حضرت عائد بن ماعض الانصاری شہیدؓ:
یہ اور ان کے بھائی معاذ بن ماعضؓ غزوۂ بدر میں حاضر تھے۔ مواخات میں ان کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سویبط بن حرملہؓ کا بھائی بنایا تھا۔ بیرمعنونہ یا بقول بعض یوم یمامہ میں جام شہادت نوش کیا۔
حضرت نعمان بن اعقر بن الربیع البلوی انصاری شہیدؓ:
یہ انصار بنو معاویہ بن مالک کے حلیف تھے۔ بدر‘ احد‘ خندق اور جملہ مشاہد میں شریک ہوئے۔ جنگ یمامہ میں شہید ہوئے۔
حضرت معن بدعدی بن جد بن عجلان ضیعہ البلوی الانصاری شہیدؓ:
انصار بن عمر کے حلیف تھے‘ عاصم بن عدی کے برادر حقیقی ہیں۔ مواخات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زید بن خطابؓ کو ان کا بھائی بنایا تھا۔ بدر سمیت جملہ مشاہد میں حاضر باش رہے۔ جنگ یمامہ میں شہید ہوئے۔
حضرت عقبہ بن عامرالانصاری الخزرجی شہیدؓ:
بیت عقبہ اولیٰ سے مشرف تھے‘ بدر و احد میں حاضر تھے۔ احد کے دن خود آہنی پر سبز عمامہ سجائے رکھا تھا اور دور سے نمایاں ہوتے تھے۔ خندق اور دیگر مشاہد میں بالالتزام حاضر رہے‘ جنگ یمامہ میں جام شہادت نوش کیا۔
حضرت عبدالرحمن بن عبداللہ البلوی الانصاری شہیدؓ:
یہ فرار بن بلی کی نسل اور بنو قضاع میں سے ہیں۔ ان کا نام عبدالعزیٰ تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام عبدالرحمن عدوالاوثان تجویز فرمایا۔ بدر میں حاضر تھے‘ جنگ یمامہ میں شہادت کے مرتبۂ جلیلہ پر فائز ہوئے۔
حضرت عباد بن بشر بن وقش الانصاری الاشہلی شہیدؓ:
حضرت عباد بن نشروقش بن زغبہ بن زعور ابن عبدالاشہل الانصاری الاشہلی یہ قدیم الاسلام ہیں۔ مدینہ میں حضرت مصعب بن عمیرؓ کے ہاتھ پر مسلمان ہوئے تھے۔
بدر‘ احد اور دیگر جملہ مشاہد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ رہتے تھے۔ فضلائے صحابہؓ میں سے ہیں۔ حضرت انس بن مالک نے روایت کی ہے کہ اندھیری رات میں ان کا عصا روشن ہو جایا کرتا تھا۔ یہ ان چھ بزرگوں میں سے ہیں جو لعب بن اشرف یہدی کے قتل میں شامل تھے۔ جنگِ یمامہ میں مردانہ وار لڑتے ہوئے مرتدین کو مارتے ہوئے بعمر 45 سال شہید ہوئے۔
حضرت ثابت ہزال بن عمر والانصاری شہیدؓ:
حضرت ثابت بن ہزال الانصاریؓ بدر اور دیگر مشآہد میں حاضر باش رہے‘ جنگ یمامہ میں شہادت پائی۔
حضرت ثابت بن اخلد بن نعمان بن خناالانصاری شہیدؓ:
یہ بنو مالک بن انجار میں سے ہیں۔ بدر و احد میں حاضر ہوئے اور جنگ یمامہ میں شہید ہوئے۔
حضرت ایاس بنورقہ الانصاری الخزرجی شہیدؓ:
یہ بنو سالم بن خزرج سے ہیں۔ بدر میں حاضر ہوئے اور جنگ یمامہ میں شہادت پائی۔
مندرجہ بالا شہدائے ناموس رسالتؐ کے علاوہ مولانا ابوالقاسم دلاوری نے ابن اثیر کے حوالے سے درج ذیل شہدائے ناموس رسالتؐ صحابہؓ کے اسمائے مبارک لکھے ہیں:
٭حضرت عباد بن حارث الانصاریؓ جو جنگ احد میں شریک تھے۔
٭ حضرت عمیر بن اوسؓ شریک احد۔
٭ حضرت عامر ابن ثابتؓ بن سلمہ انصاری۔
٭ حضرت عمارہ ابن حزم انصاریؓ جو غزوۂ بدر میں شریک تھے۔
٭ حضرت علی بن عبیداللہ ابن حارثؓ۔
٭ حضرت فوہ بن نعمانؓ جو جنگِ احد میں شریک تھے۔
٭ حضرت قیس بن حارث بن عدی انصاریؓ شریک جنگ احد۔
٭ حضرت سعد بن حجاز انصاریؓ شریک غزوۂ احد۔
٭ حضرت سلمہ ابن مسعود سنان انصاریؓ
٭ حضرت سائب ابن عووامؓ جو زبیرؓ کے حقیقی بھائی اور سید المرسلینؐ کے پھوپھی زاد بھائی تھے۔
٭ حضرت طفیل ابن عمر الدوسیؓ شریک غزوۂ خیبر۔
٭ حضرت زاراہ ابن قیس انصاریؓ
٭ حضرت مالک ابن امیہ سلمیٰ بدریؓ
٭ حضرت مسعد ابن سنانؓ اسود شریک غزوۂ احد۔
٭ حضرت صفوانؓ۔
٭ حضرت فرارابن ازوراسدیؓ جنہوں نے حضرت خالدؓ کے حکم سے مالک بن نویرہ کو قتل کیا۔
٭ حضرت عبداللہ بن حاعث سہمیؓ۔
٭ حضرت عبداللہ ابن عتیکؓ انصاری بدری‘ جنہوں نے گستاخ رسول ییہودی ابورافع بن ابی الحقیق کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر قتل کرنے کا فریضہ سرانجام دیا۔
٭ حضرت ہریم ابن عبداللہ مطلبی قرشیؓ۔
٭ اور ان کے بھائی حضرت جنادہؓ۔
٭ ولیدؓ بن شمس بن مغریب جو حضرت خالد کے عم زاد بھائی تھے۔
٭ حضرت ابوحبہ ابن غزیہؓ انصاری جو احد میں موجود تھے۔
٭ حضرت ابو قیس ابن حارث سہمیؓ جو مہاجرین حبش میں داخل اور جنگ احد میں شریک تھے۔
٭ حضرت یزید بن ثابتؓ جو حضرت زید بن ثابتؓ کے بھائی تھے۔
٭ حضرت مالک بن عووس ابن عتیک انصاریؓ جو احد میں شرجک تھے۔
٭ نعمان بن عصر بدریؓ
٭ حضرت یزید بن لاسؓ جو فتح مکہ کے دن مسلمان ہوئے تھے۔
٭ حضرت ابوعقیل بلوی بدریؓ۔
اس طرح مورخین نے چند اور نام بھی بتائے ہیں۔
(آئمہ تلبیس‘ جلد اوّل‘ صفحہ 88-87)

حصہ