ہمارا معاشرہ بنیادی طور پر ایک مذہبی معاشرہ ہے‘ لیکن اس میں ایک زبردست تضاد بھی موجود ہے۔ جہاں یہ ایک مذہبی معاشرہ ہے‘ وہاں ایک بدعنوان معاشرہ بھی ہے اس میں جہاں کثرت سے روزہ‘ نماز کیا جاتا ہے وہاں دھڑلے سے رشوت ستانی اور ناجائز منافع خوری بھی کی جاتی ہے۔ جہاں لوگ اس کثرت سے صدقہ خیرات کرتے ہیں کہ فقیروں پر ہزاروں کی زکوٰۃ لگتی ہے وہاں ملاوٹ اور چور بازاری نے بھی ناک میں دَم کر رکھا ہے۔ مولانامودودی نے اس تضاد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک مرتبہ لکھا تھا کہ ہم اپنی دکانوں اور مکانوں میں ’’یا اللہ‘‘ اور ’’یا محمدؐ‘‘ کے کتبے جس ذوق و شوق سے لگاتے ہیں‘ فلمی اداکارئوں کی تصویریں بھی اسی ذوق و شوق سے ٹانگتے ہیں۔ ہماری مذہبیت یہ ہے کہ ہمارے ملک کا نام پاکستان اور اس کے دارالحکومت کا نام اسلام آباد ہے اور ہماری بدعنوانی یہ ہے کہ ہم تمام دنیا میں ایک بدمعاملہ قوم کی حیثیت سے مشہور ہیں۔ یہ تضاد اتنا تکلیف دہ ہے کہ بعض لوگ ہمارے مذہب اور ہمارے معاشروں سے مایوس ہوجاتے ہیں۔ وہ یا تو یہ کہنے لگتے ہیں کہ ایسے مذہب سے کیا فائدہ جو معاشرے کے اخلاق و کردار کو بھی درست نہ کر سکے۔ یا یہ کہنے لگتے ہیں کہ ہماری مذہبیت ایک جھوٹی مذہبیت ہے اور ہم ہرگز کسی بھی معنی میں ایک مذہبی قوم نہیں ہیں۔ کہا جاسکتا ہے کہ یہ انتہا پسندانہ رویے ہیں‘ لیکن ان رویوں سے قطع نظر یہ سوال اپنی جگہ ہے کہ ایسے معاشرے میں جومذہب کا اتنا چرچا کرتا ہے‘ اتنی بدعنوانیاں کس طرح موجود ہیں؟ یہ سوال اس وقت اور زیادہ اہم ہو جاتا ہے جب ہم اپنے معاشرے کا مقابلہ بعض ایسے معاشروں سے کرتے ہیں جو مذہبی نہیں ہیں‘ مثلاً مغرب کے معاشروں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کھلم کھلا سیکولر معاشرے ہیں۔ وہ خدا کو مانتے ہیں نہ آخرت کو‘ لیکن ان کا معاشرتی اخلاقی ہم سے لاکھ درجے اچھا ہے۔ یہ ہو سکتا ہے کہ اُن کا تصورِ اخلاق ہم سے مختلف ہو‘ لیکن ان کا جو بھی تصورِ اخلاق ہے وہ اس پر عمل کرتے ہیں‘ سوال یہ ہے کہ ہمارے اندر یہ تضاد کیوں موجود ہے؟ اس سوال کے بعد دوسرا سوال یہ ہے کہ یہ تضاد کس طرح دور کیا جائے؟
کچھ لوگ اس کا یہ جواب دیتے ہیں کہ بدعنوانیاں ہر زمانے اور ہر معاشرے میں موجود رہی ہیں‘ کسی زمانے میں بھی کسی معاشرے میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ بدعنوانیوں سے مکمل طور پر پاک معاشرہ تھا۔ بڑے بڑے پیغمبروں‘ بانیانِ مذاہب اور مصلحینِ اخلاق کی موجودگی میں لوگ بدعنوانیاں کرتے تھے اور اخلاقی برائیاں موجود ہوتی تھیں‘ پھر اگر ہمارے معاشرے میں یہ بدعنوانیاں یا برائیاں موجود ہیں تو ان پر اتنی تشویش کی کیا ضرورت ہے؟ ہمارے نزدیک یہ جواب اس لیے درست نہیں ہے کہ کسی فرد یا معاشرے کی اچھائی برائی کا فیصلہ مطلق معیارات سے نہیں ہوتا۔اچھا آدمی اُس کو نہیں کہتے ہیں جس میں کوئی برائی نہ ہو‘ بلکہ اچھا آدمی وہ ہوتا ہے جس کی اچھائیاں اس کی برائیوں سے زیادہ ہوتی ہیں۔ اسی طرح معاشرہ وہ ہوتا ہے جس میں اچھائیاں برائیوں سے زیادہ ہوں‘ چنانچہ موجودہ معاشرے پر اعتراض یہ نہیں کہ اس میں کچھ برائیاں کیوں موجود ہیں‘ اعتراض یہ ہے کہ برائیاں اچھائیوں پر غالب کیوں ہیں؟ کچھ لوگ یہ بات تو تسلیم کرتے ہیں کہ معاشرے میں برائیاں اچھائیوں پر غالب ہیں‘ وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ ہماری مذہبیت کو دیکھتے ہوئے ہماری بدعنوانیاں ایک ایسا تضاد ہیں جو ہمارے پورے اجتماعی طرز عمل کو ایک معمہ بنا دیتا ہے‘ لیکن یہ لوگ ان باتوں کو تسلیم کرنے کے باوجود ان کا تجزیہ نہیں کرتے۔ اپنی گفتگو اور تحریروں میں وہ صرف لفظ بدل بدل کر صورتِ حال کو بیان کرتے رہتے ہیں اور ایک لمحے کو اس بات پر غور نہیں کرتے کہ مرض یا علامات مرض کو بیان کرنا سببِ مرض کی تشخیص نہیں ہے اور چونکہ اس تشخیص کے بغیر علاج بھی نہیں ہو سکتا اس لیے ایسے لوگوں کی گفتگو سے کوئی نتیجہ برآمد ہوتا ہے نہ تحریروں سے۔
ایک گروہ اور بھی ہے جو مذکورہ بالا دونوں گروہوں سے مختلف ہے۔ اس گروہ کے نزدیک معاشرے میں جو بدعنوانیاں یا برائیاں موجود ہیں ان کا سبب لاعلمی اور ناواقفیت ہے۔ اس گروہ کے لوگ سمجھتے ہیں کہ لوگ برائیوں میں اس لیے مبتلا ہیں کہ انہیں یہ بات معلوم نہیں ہے کہ جو کام وہ کر رہے ہیں وہ برے ہیں۔ چنانچہ یہ لوگ ہر وقت اس کوشش میں مصروف رہتے ہیں کہ لوگوں کو یہ بتائیں کہ برا کیا ہے‘ اچھا کیا ہے۔ وہ قرآن حکیم‘ احادیث شریف اور صالحینِ امت کے اقوال کی تبلیغ و اشاعت اس امید کے ساتھ کرتے ہیں کہ لوگوں کو جب معلوم ہو جائے گا کہ ہمارا مذہب کس چیز کو اچھا اور کس چیز کو برا سمجھتا ہے تو لوگ خود بخود ٹھیک ہو جائیں گے۔ ہمارے نزدیک مرض کی یہ تشخیص درست نہیں ہے۔ ہمارا معاشرہ بدعنوانیوں اور برائیوں میں اس لیے مبتلا نہیں ہے کہ اسے برائیوں کا علم نہیں ہے۔
اس کے برعکس وہ برائیوں سے خوب واقف ہے۔ کون نہیں جانتا کہ رشوت لینا برا ہے‘ دھوکا دینا برا ہے‘ ناجائز منافع خوری‘ چور بازاری‘ ذخیرہ اندوزی اور دروغ گوئی‘ وعدہ خلافی‘ گندم نما جو فروشی‘ فحاشی اور بے حیائی یہ سب برے اعمال ہیں۔ ہر شخص ان برائیوں سے خوب واقف ہے اور اس کے باوجود ان میں مبتلا ہے۔ چنانچہ جب یہ تشخیص غلط ہے تو علاج کی تجویز بھی غلط ہے۔ ہم روز دیکھتے ہیں کہ مسجدوں کے منبروں سے سیرتِ طیبہ کے جلسوں میں صحابہ کرامؓ اور صلحائے امت کے یوم پیدائش اور یومِ وفات کی تقریبات میں ریڈیو‘ ٹی وی‘ اخبارات اور رسائل کے مضامین اور تقریروں میں ہر وقت اچھائیاں اور برائیاں ہی بتائی جاتی ہیں مگر ہم پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ مرض کی دوا درست نہ ہو تو اس کے ڈوز میں اضافہ مرض کو دور نہیں کر سکتا۔
ایک چوتھے گروہ کے نزدیک بدعنوانیوں کی افراط قانون کی بے اثری ہے۔ اس گروہ کے لوگ امید رکھتے ہیں کہ اگر قانون کو سختی سے نافذ کر دیا جائے تو معاشرہ رات کی رات میں درست ہو سکتا ہے لیکن ہمارے نزدیک یہ تجویز بھی صورت حال کے مکمل تجزیے کے بغیر پیش کی جاتی ہے۔ اس سے معاملہ جزوی طور پر درست ہو سکتا ہے۔ کوئی معاشرہ صرف قانون کی سختی سے درست نہیں ہوتا جب تک وہ خود اس سے تعاون پر آمادہ نہ ہو۔ عام طور پر دیکھنے میں آتا ہے کہ ہر نیا قانون برائیوں میں نئے اضافے کرتا ہے اور قانون کو سخت تر بنانے کے لیے جتنے اقدامات کیے جاتے ہیں وہ معاشرے میں زیادہ برائیاں پیدا کرتے ہیں‘ مثلاً ہر شخص جانتا ہے کہ رشوت کی سزا کو جتنا سخت بنایئے‘ رشوت کی مقدار میں اتنا ہی اضافہ ہو جائے گا۔
ان سب باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ ہمارے مرض کا اس وقت تک کوئی علاج ممکن نہیں جب تک ہم صحت کے ساتھ اس کے اسباب کا تعین نہ کرلیں اور اس کے بعد ان اسباب کو دور کرنے کے لیے ہمہ گیر طور پر کوشش نہ کریں۔ ہمہ گیر کوشش سے ہماری مراد اس کوشش سے ہے جس میں معاشرے کے وہ تمام افراد حصہ لیں جو صورتِ حال کی اصلاح کی متمنی ہیں اور جن کے لیے معاشرے کی موجودہ حالت کسی حالت میں بھی قابلِ قبول نہیں ہے۔ حکومت‘ تجارت‘ معاشرت‘ خاندانی ماحول‘ غرض زندگی کے ہر شعبے میں ان افراد کو مل جل کر کام کرنا پڑے گا اور پوری قوت سے اصلاحِ ِمعاشرہ کے کام میں حصہ لینا ہوگا۔
قبل اس کے کہ ہم اپنے طور پر بدعنوانیوں اور برائیوں کے غلبے کے اسباب کا تجزیہ کریں اور اس کے حل کی تجویز پر غور کریں‘ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ دینی حیثیت سے اپنی برائیوں کے درجے اور حیثیت کا تعین کر لیں یعنی یہ دیکھیں کہ جن برائیوں میں ہم مبتلا ہیں‘ کیفیت کے اعتبار سے اسلام انہیں کس درجے کی برائی قراردیتا ہے۔ سوال کی وضاحت شاید ایک مثال سے بہتر طور پر ہوسکے‘ مثلاً اسلام کے نزدیک برائی کفر ہے‘ یعنی توحید‘ رسالت اور آخرت کا انکار‘ دینی اعتبار سے یہ سب سے بڑی برائی ہے‘ دوسری برائی شرک ہے‘ یعنی ایک سے زیادہ خدائوں کی پرستش اور خدا کی وحدانیت سے انکار یہ بھی کفر ہی کے درجے کی برائی ہے۔ اس کے بعد تیسری برائی نفاق ہے‘ یعنی کفر کو چھپانا اور ایمان کو ظاہر کرنا‘ یہ بھی کفر کے درجے کی برائی ہے۔ چوتھی برائی تحریف ہے یعنی اپنی اغراض کے لیے خدا کے احکام میں ردوبدل کرنا۔ قرآن حکیم میں یہ چاروں برائیاں تفصیل سے بیان ہوئی ہیں۔ اس کے بعد ان برائیوں کا نمبر ہے جنہیں ہم روحانی برائیاں کہتے ہیں مثلاً نماز نہ پڑھنا‘ روزے نہ رکھنا‘ اس کے بعد اخلاقی برائیاں مثلاً جھوٹ بولنا‘ دھوکا دینا‘ حقوق العباد کا ادا نہ کرنا وغیرہ۔ اس کے بعد نفس کی برائیاں مثلاً کبر‘ حرص و ہوس وغیرہ۔ اسلام میں ان ساری برائیوں کی حد بندی ہے اور اسی حد بندی کے حساب سے ان کی جزا و سزا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اسلام چار عناصر کا مجموعہ ہے۔ ایمان‘ عقائد‘ عبادات اخلاقیات اور احکام۔ چنانچہ پہلے درجے کی برائیاں وہ ہیں جو ایمان و عقائد سے تعلق رکھتی ہوں‘ دوسرے درجے کی برائیاں وہ ہیں جو عبادات سے تعلق رکھتی ہوں‘ تیسرے درجے کی برائیاں وہ جو اخلاقیات سے تعلق رکھتی ہو۔ خدا کے فضل سے ہم میں ایمان‘ عقائد اور عبادات کی برائیاں زیادہ کثرت سے موجود نہیں ہیں‘ ہم توحید‘ رسالت اور آخرت پر ایمان رکھتے ہیں اور ہمارا ایمان اس طرح کا ہے کہ ہم بحیثیت مجموعی ان کے خلاف کسی بات کو برداشت نہیں کرتے اور وقت آنے پر اس کے لیے جان دینے اور جان لینے کے لیے بھی تیار ہو جاتے ہیں۔ عبادات میں ہم سے غفلت کتنی ہی ہوتی ہیں لیکن خدا کا نخواستہ ہمارا معاشرہ عبادت کا منکر نہیں ہے اور گئی گزری حالت میں بھی نماز‘ روزہ‘ حج اور زکوٰۃ کی ادائیگی بڑے پیمانے پر ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہماری برائیاں دینی اعتبار سے صرف اخلاقی درجے کی برائیاں ہیں۔ اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔ آپ نے کچھ لوگوں کو کہتے سنا ہوگا کہ ہمارے معاشرے سے سیکولر معاشرے بہتر ہیں‘ کیوں کہ ان کا اخلاقِ معاشرہ ہم سے بہتر ہے اور وہ ہماری طرح بدعنوانیوں کا شکار نہیں ہیں۔ یہ نقطۂ نظر بعض حلقوں میں اتنا عام ہے کہ ان کے نزدیک سیکولر معاشرے مثالی درجے رکھتے ہیں جب کہ ہمارا اپنا معاشرہ انہیں صرف برائیوںکا مجموعہ نظر آتا ہے۔ دینی نقطہ نظر سے یہ رویہ یکسر باطل ہے۔
دینی نقطح نظر سے کوئی کافر معاشرہ‘ مومن معاشرے کے برابر نہیں ہو سکتا خواہ وہ اخلاقی اعتبار سے کتنا ہی بہتر کیوں نہ ہو‘ کیوں کہ اس کی بنیاد جن عناصر چہارگانہ پر ہے اُن میں اخلاقیات کا درجہ سب سے آخر میں ہے۔ اخلاقیات کو ایمان‘ عقائد اور عبادات ترجیح دینا ایک ایسا نقطہ نظر ہے جو خالص عہد جدید کی پیداوار ہے اور ہمارے یہاں سرسید سے پہلے وجود نہیں رکھتا تھا۔
بہرحال دین ایک کُل ہے اور کُل کے کسی جزو کا نقصان بھی کُل ہی کا نقصان ہوتا ہے اس اعتبار سے اخلاقیات کی بھی ایک اہمیت ہے اور اس اہمیت کو نظر انداز کرنا ایمان کے ضعف کو ظاہر کرتا ہے‘ اس بات کو پوری وضاحت سے بیان کرنے کے لیے ہم مسئلے کو ایک اور زوایے سے دیکھتے ہیں۔
ہم کہہ چکے ہیں کہ دین ایک کُل ہے جس کے تمام اجزا باہم مربوط ہیں اور انہیں کسی طرح بھی ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ دین میں سب سے پہلے ایمان و عقائد کا درجہ ہے پھر عبادات کا جنہیں حقوق اللہ کہا جاتا ہے۔ حقوق اللہ کے بعد حقوق العباد آتے ہیں‘ یعنی وہ حقوق جو بندوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ماں باپ پر اولاد کا حق‘ اولاد پر ماں باپ کا حق‘ آجر پر اجیر کا حق اور اجیر پر آجر کا حق‘ حاکم پر رعیت کا حق اور رعیت پر حاکم کا حق‘ ان سب کا تعلق اخلاقیات سے ہے‘ یہ انسانوں کے باہمی رشتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ اب بندوں میں چونکہ سب شامل ہیں اس لیے بندے کی حیثیت سے ہر انسان پر اس کے نفس کا بھی حق ہے۔ کھانا پینا‘ رزق حاصل کرنا‘ زندگی کی جائز ضرورت کو پورا کرنا انہی حقوق میں آتا ہے۔ یہ حقوقِ نفس کہلاتے ہیں۔ یہ سب چیزیں مل جل کر ایک وحدت بناتی ہیں اور دین کے کلی تصور میں شامل ہیں۔ نجات اخروی کا انحصار ان سب کی تکمیل پر ہے‘ دوسرے لفظوں میں ہم اس بات کو یوں کہہ سکتے ہیں کہ دینِ کُل کا کُل حقوق اللہ سے تعلق رکھتا ہے۔ حقوق العباد اور حقوقِ نفس بھی اللہ کے حکم سے قائم ہوتے ہیں اور اسی کی رضا کے لیے ادا کیے جاتے ہیں۔ ان معنوں میں مسلمان کی پوری زندگی عبادت بن جاتی ہے‘ لیکن تجزیے کی غرض سے ہم ان اجزا کو الگ الگ بھی کرتے ہیں اور ان کے درمیان درجہ بندی بھی کرتے ہیں۔ ایک زاویے سے حقوق اللہ کو حقوق العباد پرفوقیت حاصل ہے کیوں کہ دین میں اصل چیز تو خدا سے رشتہ ہے۔ باقی سب رشتے اس کے تابع ہیں لیکن ایک دوسرے زاوئے سے حقوق العباد کی اہمیت بھی کم نہیں‘ کیوں کہ اللہ تعالیٰ اپنے حقوق تو معاف کر سکتا ہے لیکن حقوق العباد کو اللہ اس وقت تک معاف نہیں کرے گا جب تک بندے ان حقوق کو معاف نہیں کریں گے۔ نجات اخروی کے اعتبار سے حقوق العباد کی یہی اہمیت ہے۔
اس بحث کا خلاصہ یہ نکلا کہ ہمارا معاشرہ جن برائیوں میں مبتلا ہے وہ اخلاقی برائیاں ہیں‘ یعنی انسانوں کے باہمی رشتوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ ایمان‘ عقائد اور عبادات کے بعد اخلاقی برائیاں چوتھے نمبر پر آتی ہیں اس لیے یہ ہرگز نہیں کہا جاسکتا کہ ہمارا معاشرہ خدا نخواستہ کافر معاشروں سے بھی زیادہ بگڑا ہوا ہے‘ لیکن اخلاقیات بھی دین کا جزو ہے‘ اس لیے اخلاقی برائیوں کو دور کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے۔ اب ہم اپنے بنیادی سوالوں کی طرف لوٹتے ہیں۔ یہ برائیاں کیوں پیدا ہوئیں اور ان کو درست کرنے کی کیا تدبیر ہے؟ (جاری ہے)
ہمیں چونکہ اپنے معاشرعے کی مذہبیت پر یقین ہے‘ اس لیے ہم مسئلے کو پہلے اسی کے حوالے سے دیکھیں گے۔ کیا ہمارے دینی تصورات میں کوئی ایسی بات ہے جو ہمیں اخلاقیات سے بے پروا بناتی ہے‘ ہمارے نزدیک یہ سوال انتہائی اہم ہے۔ ہم دین کا ایک مخصوص تصور رکھتے ہیں اور جب تک اس کا تجزیہ نہ کر لیا جائے‘ ہمارے اعمال کی بھی توجیہ نہیں کی جاسکتی۔ مثال کے طور پر ہمارا ایک تصور یہ ہے کہ توبہ پچھلے تمام گناہوں کو معاف کر دیتی ہے۔ ایک اور تصور شفاعت کا ہے۔ ہم یقین رکھتے ہیں کہ ہمارے رسولؐ رحمت اللعالمین ہیں اور وہ اپنی امت کو بخشوائیں گے‘ اس لیے کتنے ہی گناہ کرو آخر میں شفاعت کے وسیلے سے بخشش تو ہو ہی جائے گی۔ ہمارا تیسرا تصور یہ ہے کہ عبادات سے گناہوں کی تلافی ہو جاتی ہے اس لیے اگر ہم جو کچھ کرتے ہیں اس کے ساتھ نماز‘ روزہ بھی کرتے رہیں تو ہمیں آخرت میں کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ یہ تینوں تصورات ہمیں اخلاقیات سے بے پروا بناتے ہیں اور ہمارے معاشرے میں مذہب اور بدعنوانیوں کا تضاد بنیادی طور پر انہی تصورات سے پیدا ہوا ہے۔ اب ہمارے نزدیک یہ تصورات صحیح نہیں ہیں۔ توبہ بے شک تمام پچھلے گناہ دھو دیتی ہے لیکن توبہ گناہوں کے سچے احساس سے پیدا ہوتی ہے اور انسان کی ماہئیتِ قلب تبدیل کر دیتی ہے۔ توبہ کوئی منصوبہ نہیں کہ آج گناہ کرو کل توبہ کر لیں گے۔ منصوبہ بندی کی توبہ رسمی توبہ تو ہو سکتی ہے سچی توبہ نہیں۔ اسی طرح شفاعت برحق ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم گناہ گاروں کو بخشوائیں گے لیکن بندوں کی حق تلفی کی کوئی شفاعت نہیں‘ وہ تو صرف اسی وقت معاف ہو سکیں گے جب بندے انہیں معاف کریں گے یہی حال عبادات کا ہے۔ عبادت کا تعلق حقوق اللہ سے ہے‘ حقوق اللہ کی ادائیگی حقوق العباد کے نقصان کو پورا نہیں کرسکتی۔ مطلب یہ نکلا کہ توبہ‘ شفاعت اور عبادات سے بندوں کی حق تلفی کی تلافی نہیں ہو سکتی لیکن چونکہ ہم ان حقائق کا علم نہیں رکھتے اس لیے اپنی مذہبیت کے باوجود اخلاق سے روگردانی کرتے رہتے ہیں۔
صحیح تصورات سے ہماری لاعلمی یا ان کی غلط تفہیم ہمارے اخلاقی انحطاط کی پہلی اور سب سے اہم وجہ ہے اس کے بعد دیگر معاشرتی اسباب کا نمبر آتا ہے۔ انسان میں حرص و ہوس‘کبر و غرور‘ سنگ دلی اور بے حسی‘ خود غرضی اور مطلب پرستی‘ ریاکاری اور نمائش پسندی اور اسی طرح کی دوسری کمزوریاں فطری طور پر موجود ہیں۔ نفسِ انسانی کے اسلامی تصور کے مطابق انسان ترقی کے لامحدود امکانات کے ساتھ پیدا ہوتا ہے لیکن اس کی ابتدائی حالت نفسِ امارہ کی ہوتی ہے۔ نفسِ امارہ کی بنیاد ہوا پر ہے جو انسانی کردار کے تمام رذائل کا سرچشمہ ہے۔ ایک اچھی معاشرت میں تعلیم و تربیت کا ایک ایسا نظام موجود ہوتا ہے جس کے ذریعے انسان اس حالت سے نکلتا ہے اور دوسری حالت میں داخل ہوتا ہے جسے نفسِ لوامہ کہتے ہیں۔ یہ ضمیر کی پیدائش یا بیداری کی حالت ہے۔ نفس لوامہ ایک ایسی آنکھ کی طرح ہوتا ہے جو ہر وقت اپنے اعمال اور کیفیتِ نفس کو دیکھتا رہتا ہے اور اس کی زیاں کاری اور زبوں حالی پر آنسو بہاتا رہتا ہے۔ نفسِ لوامہ کے ذریعے انسان درجۂ حیوانی سے نکل کر درجۂ انسانی میں داخل ہوتا ہے اور خود اپنے اعمال کے احتساب کے قابل بنتا ہے۔ تیسرا مقام نفسِ مطمئنہ کا ہے جب انسان کا وجودِ حیوانی مکمل طور پر اس کے وجودِ روحانی کا تابع ہو جاتا ہے اور دونوں میں کسی طرح کا بھی تضاد اور تخالف باقی نہیں رہتا۔ اسلامی معاشرے میں صدیوں سے انسانی نفس کی تربیت کا جو نظام رائج ہے اس میں صوفیائے کرام کی تعلیمات زبردست اہمیت کی حامل رہی ہے۔ تزکیۂ نفس اور تصفیۂ قلب کے ضمن میں یہ تعلیمات ایک مدفون خزانے کی طرح ہیں جن سے ہر دور میں فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ بشرط یہ کہ ان کی طرف توجہ کی جائے۔فرد میں جب نفسِ لوامہ پیدا ہو جاتا ہے تو معاشرہ اسے زندہ رکھنے اور تقوویت دینے کے لیے چار بنیادیں فراہم کرتا ہے۔ یہ بنیادیں معاشرے میں اس طرح موجود ہوتی ہیں کہ جس طرح شیر خوار بچے کی ضروریات کی چیزیں اس کی پیدائش سے پہلے ہی تیار کر لی جاتی ہیں تاکہ ضرورت کے وقت انہیں فوراً استعمال کر لیا جائے۔ ہمارے نزدیک فرد کے اخلاقی وجود کو تقویت دینے والی بنیادیں چار ہیں -1 تصوراتی بنیاد‘ -2 تنقید کی بنیاد‘ -3 تقلیدی بنیاد اور -4 قانونی بنیاد۔ اب ہم ان چاروں پر الگ الگ بحث کریں گے۔
تصوراتی بنیاد سے ہماری مراد تصورات کا ایک ایسا نظام ہے جو کسی معاشرے میں اس کے تصورِ اخلاق کے مطابق اسے تقویت دینے کے لیے موجود ہوتا ہے مثلاً اسلامی اخلاقی کو تقویت دینے والے تصورات یہ ہیں سادگی و قناعت‘ صبر و شکر‘ ایثار و تواضع‘ انکسار و خاکساری‘ دنیا کے بجائے آخرت کی طرف توجہ۔ یہ تصورات اپنے اثر سے ایک ایسا مزاج پیدا کرتے ہیں جو افراد کو اخلاقی اقدار سے وابستہ رہنے میں مدد دیتا ہے بلکہ ان کی بنیاد بھی ہے۔
تنقیدی بنیادی سے ہماری مراد وہ رویے ہیں جو کسی معاشرے میں اس تصورِ اخلاق کے مطابق افراد کے کردار کے بارے میں اختیار کیے جاتے ہیں۔ کردار اچھا ہے تو رویے تحسینی ہوتے ہیں‘ برا ہو تو مذمتی۔اچھائیوں کی تلقین‘ برائیوں کی تنقید اور اچھے برے کے بارے میں ایک واضح طرز عمل ان رویوں میں اس طرح ظہور کرتا ہے کہ افراد کے خلاف عمل کرتے ہوئے ڈرتے ہیں اور حصولِ پسندیدگی اور خوفِ ملامت کے جذبے سے غیر اخلاقی افعال سے باز رہتے ہیں۔
تیسری بنیاد کو ہم نے تقلیدی کہا ہے۔ ہمارے ہر معاشرے کے لیے ایسے نمونے ضروری ہوتے ہیں جو اس معاشرے کے تصورِ اخلاق کی قابل توجہ نمائندگی کرتے ہوں۔ افراد ان نمونوں کی پیروی کرتے ہیں اور اپنے طرزع عمل کو نمونوں کے مطابق بناتے ہیں۔ یہ نمونے زندگی کے ہر شعبے میں ضروری ہوتی ہیں اور حکمرانوں‘ تاجروں‘ عالموں اور تمام پیشے کے لوگوں میں پائے جاتے ہیں۔ نمونہ جتنا زیادہ اہم سمجھا جاتا ہے اس کا اثر اتنا ہی زیادہ ہوتا ہے۔ اسلامی معاشرے میں یہ نمونے ہر دور میں موجود رہے ہیں۔
قانون بنیادِ اخلاق کا ایک محدود حصہ ہے۔ لیکن قانون کا عدل پر مبنی ہونا اور اس پر عمل درآمد میں اصولوں کی سختی سے پیروی کرنا اس کی بنیاد محکم بناتا ہے۔ چوری‘ شراب‘ زنا اور معاشرے کی دیگر برائیوں کے خلاف قانون کی موجودگی اور اس کا بااصول نفاذ معاشرے کی اخلاقی بنیاد کو تقویت دیتا ہے۔
ہمارے یہاں اخلاق کی موجودہ صورت حال ان چاروں بنیادوں کے انحطاط سے پیدا ہوئی ہے۔ معاشرے میں جو اخلاق صدیوں سے چلا آرہا تھا اس پر پہلی زد تصورات میں لگائی گئی اور روایتی تصورات مثلاً قناعت اور سادگی کی جگہ یہ تعلیم دی جانے لگی کہ دنیاوی ترقی انسان کے اعلیٰ ترین مقاصد میں سے ایک ہے اور ہر انسان کا فرض ہے کہ وہ اپنے معیارِ زندگی کو بلند کرے۔ یہ تعلیم زندگی کے ہر میدان میں مسابقت کی دوڑ میں ظاہر ہوئی اور ہر شخص یہ چاہنے لگا کہ ہر معاملے میں اپنے پڑوسی سے آگے بڑھ جائے۔ جاہ وحشمت‘ عہدہ و منصب‘ مال و زر‘ شہرت اور نمائش پسندی‘ پورے معاشرے کی رگ رگ میں سرایت کر گئے۔ دوسرے لفظوں میں انسان نفسِ امارہ کا غلام بن گیا۔ دوسری زد تنقیدی بنیاد پر پڑی اور امربالمعروف نہی عن المنکر یا نصیحت و تلقین کو برا سمجھا جانے لگا اور مہذب آدمی کی پہچان بن گئی کہ وہ اپنے کام سے کام رکھے اور کسی دوسرے کو کسی بھی عمل پر نہ ٹوکے۔ نصیحت کرنے والے کو طرح طرح سے مطعون کرنے کی روش پیدا ہوئی اور ’’شخصی آزادی‘‘ کا ایسا تصور پیدا ہوا جس میں مداخلت گناہِ کبیرہ ٹھہری۔ معاشرے میں ایسے حصے جہاں ابھی روایتی رویے فعال حالت میں ہیں‘ دوسروں کی نکتہ چینی اور ملامت کا خوف کسی نہ کسی درجے میں باقی ہے مثلاً دیہاتی علاقوں میں‘ لیکن شہری زندگی میں یہ رویے بالکل معدوم ہو گئے اور ’’آزاد معاشرہ‘‘ ظہور پذیر ہو گیا۔ تقلیدی نمونے ایک ایک کرکے غائب ہو گئے جو باقی رہے ان کا اثر مذکورہ بالا تبدیلیوں سے روز بہ روز سمٹنے لگا یہاں تک کہ نیکی اور اخلاق کو پسماندہ‘ قدامت پسند‘ خلافِ وقت اور بعض حالات میں کم ہمتی اور کم استطاعتی کی علامت سمجھا جانے لگا اس کی جگہ اس کے برعکس نمونے محرک‘ جان دار‘ مطابق وقت اور قابل تقلید سمجھے جانے لگے۔ قانونی بنیاد کا جو حال ہے سب کو معلوم ہے۔
اس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں جو بدعنوایاں اور اخلاقی برائیاں پائی جاتی ہیں ان کے دو بڑے سبب ہیں۔ پہلا سبب بعض مذہبی تصورات کی غلط تفہیم ہے۔ دوسرا سبب معاشرے کی اخلاقی بنیادوں کا انحطاط یا انہدام ہے۔ اس بحث کے بعد آیئے اس سوال پر غور کریں کہ اس کے ازالے اور اصلاح کی کیا تدبیر ہے۔ اس سوال سے متعلق دو سوال اور ہیں اصلاح کون کرے اور اصلاح کا آغاز کہاں سے ہو؟
اصلاح کون کرے؟ اس سوال سے ہماری مراد یہ ہے کہ اصلاح کی توقع افراد سے ہے یا حکومت سے؟ اگر افراد سے ہے تو اس کا طریقِ کار کچھ اور ہوگا۔ اگر حکومت سے ہے تو اس کا طریقہ کار کچھ اور۔ ہم پہلے افراد کے بارے میں گفتگو کریں گے۔ انفرادی نقطہ نظر سے سب سے پہلی اصلاح فرد کی اپنی اصلاح ہے۔ دوسرے لفظوں میں جو لوگ اصلاح کے کام میں حصہ لینا چاہتے ہیں ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ پہلے خود اصلاح یافتہ ہوں۔ وہ خود اخلاق پر عمل کریں اور اگر کوئی داخلی کمزوری موجود ہو تو اس پر قابو پائیں۔ اپنی اصلاح کے بعد ان کا دوسرا فریضہ اپنے قریب ترین ماحول کی اصلاح ہے کیوں کہ اسی ماحول میں ان کا اثر سب سے زیادہ ہے۔ قریب ترین ماحول میں پہلا نمبر اپنے گھر کا ہے۔ دوسرا نمبر رشتے داروں کا‘ تیسرا اہل محلہ کا۔ اس کے بعد دائرہ جہاں تک وسیع ہوسکے کیا جاسکتا ہے۔ جب اصلاح یافتہ افرا دکی ایک معقول تعداد اصلاح کے کام میں حصہ لینے لگے تو پھر ان افراد کی قوت کو مجتمع کیا جاسکتا ہے اور ان میں ایسا باہمی ربط پیدا کیا جاسکتا ہے کہ وہ آپس میں صلاح و مشورہ کر سکیں‘ ایک دوسرے کو مدد دیں اور ایک دوسرے کی غلطیوں اور کمزوریوں کو دور کرنے میں معاون ثابت ہوں۔ اگر ایسے لوگ مختلف پیشوں سے وابستہ ہوں تو وہ اپنے پیشہ وارانہ ماحول میں بھی اصلاح کا کام کرسکتے ہیں جب ایک محلے میں کئی ایسے افراد جمع ہو جائیں تو مقامی طور پر ان کو مجتمع کیا جاسکتا ہے اور پھر ایک محلے کے ایسے لوگوں کو دوسرے محلے کے ایسے لوگوں سے متعارف کرایا جاسکتا ہے۔ ایک شہر میں مختلف محلوں کے درمیان ایسا رابطہ وجود میں آجائے تو ایک پورے شہر میں ان کے درمیان رابطہ پیدا جاسکتا ہے‘ لیکن ان لوگوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ آپس میں رابطہ رکھنے اور ایک دوسرے سے تعاون کے باوجود کسی مرکزیت کے تابع نہ ہوں اور ان کے درمیان پارٹی یا تنظیم بازی کا کوئی رجحان نہ پایا جاتا ہو۔ وہ سب اپنے اپنے ماحول کے مطابق جو طریقہ کار چاہیں اختیار کریں اور پوری آزادی سے جس طرح کام کرنا چاہیں کریں بصورت دیگر اس بات کا اندیشہ ہے کہ اصل کام تو پیچھے رہ جائے اور پارٹی بازی سے پیدا ہونے والے نقصانات آگے آجائیں۔ اس بات کا خاص طور پر خیال رکھا جائے کہ ایسے لوگ عہد حاضر کے بعض رجحانات مثلاً پروپیگنڈا اور رکنیت سازی وغیرہ سے محفوظ رہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ایسے کام پارٹی یا تنظیم کے ؓبغیرنہیں ہوسکتے‘ لیکن یہ صرف غلط خیال ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ مشرق میں ہمیشہ تنظیموں اور پارٹیوں کے بغیر ایسے کام ہوئے ہیں۔ افراد کے نقطہ نظر وسے اس سے زیادہ اور کوئی کام نہیں ہوسکتا اور اگر اتنا بھی ہو جائے تو بہت ہے اور یقینا بہت سے مثبت نتائج پیدا کرے گا۔
اصلاح کا کام اگر حکومت کرنا چاہے تو اس سے متعلق بنیادی سوالات یہ ہیں کیا اس حکومت کے بنیادی اراکین مثلاً پارلیمانی یا صدارتی کابینہ یا انقلابی مجلس عمل آپس میں ہم خیال اور ہم مزاج ہیں؟ کیا وہ حکومت عوام میں مقبول ہے اور اس کے اقدامات کو اعتماد اور قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اگر ان سوالات کا جواب اثبات میں ہے تو اسے سب سے پہلے معاشرے کے تین طبقات کی حمایت اور تعان حاصل کرنا چاہیے۔
-1 علما اور صوفیا‘ -2 ادیب صحافی اور دانشور‘ -3 اساتذہ۔ یہ طبقات اصلاح کے کام کے لیے جو کچھ کریں حکومت کی طرف سے اس کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی ہونی چاہیے۔ ظاہر ہے کہ یہ طبقات صرف دو کام کرسکتے ہیں-1 تصورات کی اصلاح‘ -2عملی نمونہ پیدا کرنا۔تصورات کی اصلاح کا کام تحریری طور پر بھی ہونا چاہیے اور تقریری طور پر بھی۔ حکومت کا فرض ہے کہ تحریروں کی وسیع پیمانے پر اشاعت کرے۔ تقریری کام کے لیے حکومت کو یہ انتظام کرنا ہوگا کہ اصلاح کا کام کرنے والے سفر کرسکیں اور جگہ جگہ عوام سے رابطہ کر سکیں ۔ جو لوگ ان تصورات کی اشاعت کے ساتھ عمل میں بھی بہترین ثابت ہوں‘ حکومت کو چاہیے ان کو معاشرے میں نمایاں کرے جس کے لیے مختلف اعزازات دینے کا طریق کار اختیار کیا جاسکتا ہے۔ یہ اعزازات عوام میں سے بھی ان لوگوں کو دیے جائیں ان کے بارے میں یہ طبقات سفارش کریں۔ یہ کام ہو جانے سے یہ ہوگا کہ جیسے معاشرے کی تصوراتی بنیاد اور تقلیدی سمت کو درست کر دیا گیا یا کم از کم اس کی درستی کی جانب کوئی قدم اٹھایا گیا۔
حکومت کا دوسرا کام قانونی بنیاد کو درست کرنا ہے اس کے معنی یہ ہے کہ اخلاق کا وہ حصہ جو قانون سے تعلق رکھتا ہے حکومت سختی اور استقامت سے اس کا نفاذ کرے۔ رشوت‘ چور بازاری‘ منافع خوری‘ ملاوٹ‘ اسمگلنگ‘ ذخیرہ اندوزی اور اسی قسم کی دوسری برائیوں کے سدباب کے لیے جو قوانین بنے ہوئے ہیں ان پر بغیر کسی رعایت کے عمل ہو اور قانون کی عمل داری اس طرح قائم ہو کہ طاقت ور سے طاقت ور آدمی اس کی گرفت سے نہ بچ سکے۔ زندگی کے ہر شعبے میں قانون کے ذریعے بدعنوان لوگوں کا قلع قمع کیا جائے اور اس کام کو اس اہتمام سے کیا جائے کہ عوام میں قانون کی عملداری پر اعتماد پیدا ہو جائے۔ حکومت ایک محکمۂ احتساب قائم کرے جس کے دو کام ہوں -1 لوگوں کو معروف کا حکم کرنا اور منکرات سے روکنا‘ -2 ہر شعبے کے بارے میں حکومت کو صحیح صحیح رپورٹ پیش کرنا کہ وہ اخلاقی اعتبار سے کیسے ہیں۔
اب ہمارے نزدیک مثالی صورت تو یہ ہوگی کہ حکومت اور افراد مل جل کر اصلاحِ معاشرہ کی ذمہ داری قبول کریں۔ حکومت اپنے دائرۂ کار میں اپنے وسائل کے مطابق عمل کرے اور افراد اپنے دائرۂ کار میں اپنے وسائل کے مطابق ان دو قوتوں کے بیک وقت بہ روئے کار آنے سے اس بات کا پورا امکان موجود ہے کہ معاشرہ ایک اصلاح یافتہ معاشرہ بن جائے گا۔ خدا ہم سب کو اپنے اپنے فرض کی ادائیگی کی توفیق عطا فرمائے۔ اصلاح معاشرہ ہمارے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے اور اس چیلنج کا جواب دیے بغیر ہم دنیا اور آخرت میں اپنے مقاصد حاصل نہیں کرسکتے۔