نظریاتی مملکت میں ادیب کا کردار

295

سب سے پہلے اکادمی ادبیاتِ پاکستان کا شکریہ اداکرتاہوں کہ اس نے ہمیں ایسے اہم اجتماع میں‘ جس میں ملک کی مقتدر ترین سیاسی‘ علمی‘ ادبی اور تہذیبی شخصیتیں موجود ہیں‘ ایک اتنے ہی مہتمم بالشان موضوع پر مجھے اپنے ناچیز خیالات کے اظہار کا موقع فراہم کیا۔اس سے مجھے جو مسرت ہوئی اس کو ظاہر کرنے میں بخل سے کام لیے بغیر مجھے اعتراف ہے کہ جب مجھے اکادمی کا دعوت نامہ ملا تو اسے قبول کرنے میں جھجک اور تذبذب کا شکار ہوگیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مجھے اپنے موضوع کی نزاکتوں اور پیچیدگیوں کا علم تھا۔ میں جانتا تھا کہ جو موضوع مجھے تفویض کیا گیا ہے‘ وہ طرح طرح کے اختلافات کو آوازیں دیتاہے اوراس پر بات کرنا خودکو تنازعات کی بجلیوں کی زد میں کھلا چھوڑ دینے کے مترادف ہے۔ شاید میں اس تذبذب سے باہر نہیں نکل سکتا۔ اگر مجھے یہ یقین نہ ہوتا کہ ہر انسان کی سچائی اس کی آخری پناہ ہوتی ہے اور لکھنے والا اگر اپنی صداقت کے ساتھ ہے۔ تو پھر اسے کسی بھی چیز سے خوف کھانے کی ضرورت نہیں۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں آپ سے جو باتیں کہوں گا۔ وہ صرف وہی باتیں ہوں گی جو میرے ضمیر میں زندہ ہیں اور جن کو میں نے اپنے محدود تجربے اور اس سے بھی زیادہ محدود تر علم میں درست پایا ہے۔ اس مختصر سی تمہید کے بعد میں اپنے موضوع کی طرف پیش قدمی کرتا ہوں۔
ہمارا موضوع نظریاتی مملکت میں ادیب کا کردارہے۔ معاف کیجیے اس سلسلے میں جو پہلی بات میں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اپنی مجرد صورت میں مجھے اس سوال سے کوئی دل چسپی نہیں۔ دراصل مجھے جس سوال سے دل چسپی ہے وہ میرے ذہن میں ایک اور طرح آتا ہے۔ فرض کیجیے میں یہ تسلیم کر لوں کہ میں ایک نظریاتی ریاست کا شہری ہوں اور ازارہِ عنایت آپ بھی تسلیم کر لیں کہ میں ایک ادیب ہوں۔ تو میرا سوال یہ ہوگا کہ مجھے جس نظریاتی ریاست کی شہریت کا حق حاصل ہے اس میں کردار کیا ہوگا؟ بات دراصل یہ ہے کہ میرے نزدیک ہر سچا خیال ایک شخصی اعتراف ہوتا ہے۔ ہم جو کچھ سوچتے ہیں اگر وہ واقعی سوچنا ہے تو ہمارے تجربے کا حاصل ہوتا ہے جس میں ہمارے محسوسات‘ جذبات‘ خیالات یہاں تک کہ تعصبات اور ترجیحات سب شامل ہوتے ہیں۔ ہم اپنے تجربات کو مربوط اور منظم کرکے یا ان کی ہدایات کے ذریعے ایک پورا نظامِ خیال مرتب کر سکتے ہیں۔ مگر وہ ہمارے تجربے سے کبھی آزاد نہیں ہوسکتا اور نہ ہونا چاہیے۔ ورنہ بصورتِ دیگر وہ سوچنے کے نام پر نہ سوچنے کا عمل ہوگا۔
اب یہ سوال کہ ایک مخصوص نظریاتی ریاست میں میرا کردار کیا ہوگا؟ مجھے یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ میرا اپنا نظریہ کیا ہے اور وہ ریاست کے نظریے سے مطابقت رکھتا ہے یا نہیں؟ فرض کیجیے اس کا جواب نفی میں ہے۔ میرا نظریہ کچھ اور ہے‘ ریاست کا نظریہ کچھ اور اس صورت میں مجھے یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ میں ریاست کا وفادار ہوںیا اپنے نظریے کا۔ اگر اب میں ریاست کی وفاداری میں اپنے نظریے سے دست بردار ہو جائوں تو میرے لیے یہ امن اور عافیت کا راستہ ہوگالیکن اس کے ساتھ ہی میرے ادیب ہونے کی حیثیت بھی ختم ہو جائے گی کیوں کہ اپنے نظریے یا بالفاظ دیگر اپنے تجربے سے غداری کرکے میں ادیب نہیں رہ سکوں گا دوسری صورت یہ ہے کہ میں اپنے نظریے سے وفاداری پر قائم ہوں۔ اس صورت میں مجھے یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ ریاست سے میرا تعلق کیا ہو؟
میرا خیال ہے کہ ایمان داری اور سچائی کا راستہ یہ ہے کہ میں ادب کے ساتھ اس ریاست کی شہریت اسے واپس کر دوں اور جہاں سینگ سماوے نکل جائوں۔ یقینا یہ میرے لیے اس سے زیادہ عزت کا راستہ ہوگا کہ میں ریاست کے اندر رہتے ہوئے اس کے قانون کے تحت وہ مراعات حاصل کر تے ہوئےجو اس کے وفادار شہریوں کا حق ہیں‘ریاست کے خلاف سازشیں کروں یا اس کے دشمنوں کا آلۂ کار بن جائوں یا اندرہی اندر انتشار اور افتراق کی آگ بھڑکانے کی کوشش کروں اور اگر میں ایسا کروں تو اس کا مطلب ہے کہ میں ایک سچے ادیب کی زندگی بسر کرنے کے بجائے ایک بزدل اور سازشی کی زندگی بسر کر رہا ہوں جو انسانی اور اخلاقی نقطۂ نظر سے ایک قابل مذمت اور سیاسی اور قانونی نقطہ نظر سے ایک قابل تعزیر زندگی ہے۔ یہ صورت اس وقت پیدا ہوگی جب ریاست کے نظریے اور میرے نظریے میں اختلاف ہو۔ دوسری ممکنہ صورت یہ ہے کہ میرے اور ریاست کے نظریے میں مطابقت اور ہم آہنگی ہو۔ میرے خیال میں یہی وہ صورتِ حال ہے جو ہمارے موضوع کا صحیح تعین کرتی ہے۔ زیادہ صاف لفظوں میں مجھے یہ کہنا چاہیے کہ سوال خلا میں نہیں اٹھایا گیا ہے اس کے پیچھے حقیقت کی ٹھوس زمین موجودہے۔ وہ حقیقت یہ ہے کہ کچھ لوگوں کے نزدیک پاکستان ایک نظریاتی مملکت ہے اور اس کے لیے بعض لوگ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اس نظریاتی ریاست میں ادیب کا کردار کیا ہوگا؟ جیسا کہ میں نے ابتدا میں عرض کیا میں اس کا ایک شخصی جواب ہی دے سکتا ہوں‘ مجھے قطعی طور پر یہ اصرار نہیں ہوگا کہ دوسرے بھی اسے تسلیم کریں‘ لیکن میں اپنے شخصی جواب کو عقل اور فہم کی عدالت میں اس طرح پیش کروں گا کہ جو لوگ میرے استدلال سے متاثر ہو کر میرے خیال میں شریک ہونا چاہیں انہیں میری طرف سے ہر ممکنہ سہولت فراہم کی جائے۔ آپ مجھے معاف کریں مجھے اس بات سے اختلاف ہے کہ پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے‘ اس بات پر اگر آپ چونک پڑیں تو مجھے حیرت نہیں ہوگی لیکن میں آپ سے درخواست کروںگا کہ میری پوری بات سننے سے پہلے آپ برہم نہ ہوں۔ میں جانتا ہوں جو خیالات فیشن بن جاتے ہیں ان کے خلاف کوئی بات کہنا خطرے سے خالی نہیں ہوتا‘ لیکن یقین کیجیے کہ ہماری عافیت فیشن کی پیروی میں نہیں‘سچائی کی مطابقت میں ہے۔ نظریاتی ریاست ایک بورژوا ریاستوں کے مقابلے پر جو عوام کی اکثریت کے فیصلے کے سوا کسی اصول کی تابع نہیں ہیں اس بات کا اعلان کرتی ہیں وہ ایک مربوط اور منظم نظریے کی تابع ہیں۔ اب کچھ لوگوں نےیہ دیکھ کر کہ پاکستان اسلام کو اپنی بنیاد تسلیم کرتا ہے‘ نیک نیتی‘ لیکن سادہ دلی سے پاکستان کو نظریاتی ریاست قرار دیا ہے۔ مجھے اس بات پر بنیادی اعتراض یہ ہے کہ اسلام ایک دین ہے نظریہ نہیں۔ دین خدا کا دیا ہوا ہوتا ہے جب کہ نظریے انسانی دماغوں کی پیداوار ہوتے ہیں۔ پاکستان اگر اسلام کو تسلیم کرتا ہے تو پاکستان ایک دینی ریاست ہے نظریاتی ریاست نہیں ہے۔ کچھ لوگ کہیں گے کہ یہ لفظی اختلاف ہے۔ نظریہ اور دین میں بہت سی ایسی مماثلتیں موجود ہیں کہ ایک کے بجائے دوسرالفظ اختیار کیا جا سکتا ہے۔ اس خیال کے پیچھے مجھے کچھ لوگوں کا یہ اضطراب بھی جھانکتا نظر آتا ہے کہ ذہنِ عالم کی موجود فضا میں ’’دینی ریاست‘‘ کا لفظ استعمال کرنا مناسب نہیں معلوم ہوتا کیوں کہ دین کا لفظ لوگوں کو چونکاتا ہے‘ جب کہ نظریے کا لفظ وہ آسانی سے قبول کر لیتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ نظریے کا لفظ استعمال کرکے اگر اس سے اسلام مراد لی جائے تو اس میں کیا حرج ہے۔ مطلب تو آم کھانے سے ہے۔ آم کو املی کہہ دیا تو کیا فرق پڑتا ہے۔ میں اس استدلال کے زور کو تسلیم کرتا ہوں‘ لیکن اس کے باوجود اپنی بات پر قائم رہنا چاہتا ہوں۔ ہمارا زمانہ فتنہ الفاظ کا زمانہ ہے۔ ہم لفظ کو ایک بے وقعت چیز سمجھ کر اس کی جگہ دوسرا لفظ رکھتے ہیں‘ لیکن اس کا نتیجہ ہمیشہ یہ نکلتا ہے کہ لفظ کے ساتھ حقیقت بھی بدل جاتی ہے۔ آم کو املی کہتے کہتے ایک وقت ایسا آجاتا ہے جب ہمیں املی ہی کھانی پڑتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہمارا اپنا دین کو دین کہنے سے شرمانا کوئی ایسی اچھی بات نہیںہے جسے اختیار کرنا لازمی سمجھ لیا جائے‘ اس کے علاوہ جب میں پاکستان کو ایک دینی ریاست کہتا ہوں تو اس کا ایک اور مقصد بھی ہوتا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ ایک طرف تو اسے اشتراکی ریاستوں سے بالکل الگ کر دیا جائے اور دوسری طرف ان ریاستوں کو جو نام نہاد طور پر غیر نظریاتی ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں۔ ہم کہہ چکے ہیں کہ غیر نطریاتی ریاستیں وہ ہیں جنہیں اشتراکی بورژدا جمہوری ریاستیں کہتے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ ان ریاستوں کے وجود میں آنے سے پہلے یورپ ایک طویل و عریض مسیحی ریاست کی حیثیت رکھتا تھا۔ بورژوا جمہوری ریاستیں مذہب کے خلاف ایک مسلسل اوربہ تدریج بغاوت کا نتیجہ ہیں یہی بغاوت تھی جس نے ایک تدریجی تاریخی عمل کے ذریعے یہ تصور پیدا کیا کہ دین کا ریاست سے کوئی تعلق نہیں ہے اور دین ہر فرد کا ایک شخصی معاملہ ہے اس تصور کے ذریعے پہلے ریاست کو دین کی بالادستی سے آزاد کرایا گیا اور پھر افراد کی شخصی زندگی میں بھی دین کاجو حشر ہونا تھا ہوا‘ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم غیر نظریاتی ریاستوں کو لادینی ریاست کہہ سکتے ہیں۔ اب پاکستان ان لادینی ریاستوں سے اس وجہ سے مختلف ہے کہ وہ دین اور سیاست کی دُونی کو تسلیم نہیں کرتا اور ریاست کو دین کے تابع رکھنا چاہتا ہے۔ اسی طرح وہ اشتراکی ریاستوں سے اس بنا پر الگ ہے کہ وہ انسانوں کے بنائے ہوئے کسی یک رخے‘ ناقص اور محدود زمانی و مکانی تناظر میں تشکیل پانے والے نظریے کا نہیں بلکہ دین کا پابند ہے۔
دین اگر ہم اس کے عناصرِ ترکیبی کا تجزیہ کریں تو چار چیزوں کا مجموعہ ہوتا ہے -1 عقائد -2 عبادات -3 اخلاقیات -4 ایمان۔ نظریے کا لفظ ان چاروں عناصر میں سے کسی ایک کا بھی احاطہ نہیں کرتا اور اگر کھینچ تان کر اسے ایسا کرنے پر مجبور کیا جائے تو بڑے مضحکہ خیز نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ مثلاً کہنے کو کہا جاسکتا ہے کہ اشتراکی نظریے میں جدلیاتی مادیت کی فلسفیانہ اساس عقائد کے مترادف ہے جب کہ معاشی نظام اور اس سے متعلقہ احکام اخلاقیات کے مساوری ہیں شاید کوئی منچلا یہ بھی کہہ دے کہ یوم مئی اور یوتھ فیسٹیول جیسی چیزوں کو عبادات کا درجہ حاصل ہے اور اشتراکی جس جوش اور جذبے سے کام کرتے ہیں اسے ایمان کہا جاسکتا ہے۔ اس طرزِ استدلال کو تسلیم کر لیا جائے تو اشتراکیت تو بڑی چیز ہے ہاکی کے کھیل کو بھی پورا دین و ایمان ثابت کیا جاسکتا ہے۔ دراصل دین اور نظریے میں چار بنیادی فرق ہوتے ہیں جن کی وجہ سے نظریے کو دین اوردین کو نظریہ نہیں کہا جاسکتا۔
-1 دین خدا کا دیا ہوا ہوتا ہے جب کہ نظریے انسانوں کے ساتھ ہوتے ہیں۔
-1 دین دائمی ہوتا ہے جب کہ نظریے ہر انسانی چیز کی طرح عارضی و فانی ہوتے ہیں۔
-3 دین کا مرکز خدا ہوتا ہے جب کہ نظریے ہمیشہ انسان کو مرکز بناتے ہیں۔
-4 دین حیاتِ دنیوی کے ساتھ حیات اُخروی سے بھی وابستہ ہے جب کہ نظریے صرف حیاتِ دنیوی سے تعلق رکھتے ہیں۔ معاف کیجیے میں اس بحث کو لمبا نہ کھینچتا اگر اس کا میرے موضوع سے گہرا تعلق نہ ہوتا۔ مجھے یقین ہے کہ ایک دینی ریاست میں ادیب کا کردار ایک نظریاتی ریاست میں ادیب کے کردار سے مختلف ہوتا ہے۔ اس بات کو واضح کرنے کے لیے ہمیں پہلے اپنے اردگرد دیکھنا پڑے گا۔ ہمیں معلوم ہے کہ ادب کوریاست کے مقصد کے لیے استعمال کرنا اشتراکی ریاستوں کا ایک ایسا امتیازہے جس پر بورژوا ریاستوں میں شدید ردعمل پایا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے اشتراکی ریاستوں نے ادیب کی آزادی کو ختم کرکے رکھ دیا ہے اور نتیجے کے طورپر وہاںآزادی کے ساتھ ادب کا بھی خاتمہ ہو گیا ہے۔ یہ صورت حال اتنی واضح ہے کہ پاکستان میں جب بھی نظریاتی سیاست کا موضوع زیر بحث آتا ہے اور اس کے حوالے سے ادب پر گفتگو ہوتی ہے تو ہمیشہ اس خطرے کا اظہار کیا جاتا ہے کہ آیا پاکستان میں بھی ادب پر وہی کچھ گزرے گی جو اشتراکی ریاستوں میں گزرتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں اشتراکی ریاستوں سے بھی زیادہ خراب حالات کا سامنا ہے۔ اشتراکی ریاستیں ادیب سے جو کام لیتی ہیں اس کے صلے میں ادیب کو طوقِ زریں بھی پہنایا جاتا ہے‘ لیکن ہمارے یہاں یہ توقع کی جاتی ہے کہ ادیب مشقت تو کرے گا مگر طوق زریں کے لیے ادیب کی گردن کبھی منتخب نہیں کی جاتی۔ عام طور پر ریاست کو اس بات سے مطلق کوئی غرض نہیں ہے کہ یہاں ادیب نام کی کوئی چیز موجود ہے یا نہیں لیکن وقتاً فوقتاً ایسی آوازیں اٹھتی رہتی ہیں کہ ادیبوں کو ریاست کے لیے کام کرنا چاہیے۔ گویا ریاست کو ادیب صرف اس وقت یاد آتے ہیں جب اسے اپنا مطلب یاد آتا ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ ادیب ریاست کے متعلق اپنے فرائض ادا کریں لیکن یہ سیدھی سی بات بھول جاتی ہے کہ حقوق کے بغیر فرائض کا کوئی تصور نہیں کیا جاسکتا اشتراکی ریاستیں ادیبوں کو ان کا حق دیتی ہیں۔ آں جہانی اسٹالن نے ایک مرتبہ ادیبوں کو روحوں کا انجینئر کہا تھا۔ اشتراکی ریاستیں تسلیم کرتی ہیں کہ روحانی تعمیر میں حصہ لینے کی وجہ سے ادیب اہمیت اور عزت کے مستحق ہیں۔ وہاں ادب کاجو حال بھی ہوا ہو‘ لیکن ادیب ریاست کے خوش حال اور باعزت ترین طبقوں میں سے ایک ہیں۔ ہمارے یہاں صورت حال اس کے برعکس یہ ہے کہ ادیب بہ حیثیت ادیب معاشرے کے سب سے پسماندہ طبقوں میں شمار ہوتے ہیں۔ اشتراکی ریاستوں میں ادب کا چاہے خاتمہ ہو گیا ہو‘ لیکن ادیب زندہ ہیں۔ ہمارے یہاں ادب کے ساتھ ادیبوں کا بھی خاتمہ ہو رہا ہے اور کوئی دن جاتا ہے کہ دونوں ٹھکانے لگ جائیں گے۔ بہرحال مجھے اس بات کی کوئی توقع نہیں ہے کہ کل کی سنہری صبح کے ساتھ ریاست ہمارے ادیبوں کو سونے کا نوالہ کھلانے لگے گی۔ اس لیے میں اپنے سوال کی طرف لوٹتا ہوں۔
اشتراکی ریاستیں ادیب سے جو کام لیتی ہیں اس کے نمونے ہمارے سامنے ہیں۔ ادیب یا تو اپنے نظریے کی برتری ثابت کرتے ہیں یا پھر یہ دکھاتے ہیں کہ ریاست اس نظریے کے تحت جو کچھ کر رہی ہے وہ اچھا ہی اچھا ہے۔ اسٹالن کے دور میں روسی افسانوں میں اسٹالن کو فوق الفطرت کے مالک کے طور پر پیش کیا جاتا تھا اور ’’ملک الشعرائی‘‘ کا خطاب ایسے شاعروں کو ملتا تھا جو ثابت کر سکیں کہ اشتراکی ریاست میں تلوں کے سلینڈر بورژوا معشوقوں کی پنڈلیوں سے زیادہ حسین ہوتے ہیں۔ اشتراکی ریاستوں میں ادب کا خاتمہ یا زوال ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ آیا ادب ریاست کی ضرورتوں کو پورا کرکے ادب رہ سکتا ہے یا نہیں؟ ضروری ہے کہ ہم ریاست کے مقاصد کو بیان کریں اور پھر ان کی روشنی میں یہ دیکھیں کہ ادب سے ان کا کوئی تعلق بنتا ہے یا نہیں؟ ریاست کے مقاصد میں امن عامہ کا قیام۔ معاشی منصوبہ بندی‘ ریاست کے مختلف طبقات میں ہم آہنگی پیداوار میں اضافہ اور وہ چیزیںشامل ہیں جو ریاست کے شہریوں کی جان و مال‘ عزت و آبرو اورپرامن بقا کے لیے ضروری ہیں۔ ادب کا ان چیزوں سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں ہے‘ لیکن ریاست کے یہ مقاصد جب شہریوں کی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں اور ان کا ردعمل شہریوں میں اطمینان‘ مسرت‘ سکون یا اس کے برعکس جذبات و کیفیات پیدا کرتا ہے تو ادب سے اس کا تعلق ہو سکتا ہے۔ اشتراکی ریاستوں کی غلطی یہ ہے کہ انہوں نے ادب کو اپنے مقاصد کا براہِ راست آلۂ کار بنانے کی کوشش کی۔ مثال کے طور پر ریاست نے معاشی منصوبے بنائے تو ادیبوں کا فریضہ قرار دیا گیا کہ وہ ان معاشی منصوبوں کے بارے میں لکھیں یا حکومت نے عوام کو محنت پر اکسانا چاہا تو ادیبوں سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ عوام کو ’’کام کرو کام‘‘ کے نغمے سنائیں۔ اس کے علاوہ اشتراکی ریاستوں میں ایک اور بنیادی خرابی موجود ہے جو ادب کے لیے مہلک ثابت ہوئی۔ یہ خرابی ریاست کی نہیں نظریے کی خرابی ہے۔ اشتراکی نظریے میں انسانوں کی باطنی زندگی کی تہذیب و ترتیب کا کوئی اصول موجود نہیں ہے۔ یہ نظریہ انسانوں کی باطنی زندگی کے بجائے خارجی حالات ہی کو سب کچھ سمجھتا ہے۔ ادب کے تعلق سے اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ادب انسانوں کی باطنی ترتیب‘ گہرے روحاجی تجربات کے انکشاف اور زندگی کی حقیقی معنویت سے الگ ہو کر خارجی واقعات کی کھتونی یا ماحول کے عمل اور ردعمل کا اظہار بن کر رہ جاتا ہےابھی کچھ دیر پہلے میںنے کہا تھا کہ ایک دینی ریاست میں ادیب کا کردار ایک نظریاتی ریاست میں ادیب کے کردار سے مختلف ہوتا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ اس کی وضاحت کر دی جائے۔ نظریے کے برخلاف دین میں باطنی تربیت ہی سب کچھ ہے۔ اشتراکی ریاست ہر ریاست کی طرح اپنے شہریوں کے اعمال کو دیکھتی ہے۔ جب تک اعمال اس کے مطابق ہیں اسے اس کیفیت قلب سے کوئی سروکار نہیں ہوتا جسے ایمان کہتے ہیں۔ یہ وہ داخلی معاملہ ہے جس کا ریاست کے حدود و اختیار سے کوئی تعلق نہیں۔ جب کہ دین میں ایمان ہی اصل چیز ہے۔ اگر کسی شخص کو اسلام کو عقائد پر ایمان نہ ہو تو خواہ اس کے اعمال ظاہری طور پر سب اسلامی ہوں وہ مسلمان نہیں کہلائے گا۔ یہاں داخلی پہلو ہی سب سے اہم ہے۔ یہ ایک بنیادی بات ہے جس کے مضمرات پر ابھی کچھ اور عرض کرنے کی کوشش کروںگا۔ ریاست کا تعلق اگر ظاہری اعمال سے ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے پاس باطنی کیفیت یعنی ایمان کو پرکھنے کا کوئی ذریعہ نہیں۔ وہ مجبور ہے کہ اپنی نظر صرف خارجی اعمال پر رکھے‘ لیکن ایک دینی ریاست میں خارجی اعمال کا کوئی اعتماد نہیں اگر وہ اخلاص پر رکھے‘ لیکن ایک دینی ریاست میں خارجی اعمال کا کوئی اعتماد نہیں اگر وہ اخلاص اور ایمان سے وابستہ نہ ہوں۔ اس لیے ایک دینی ریاست کا لازمی فریضہ ہے کہ وہ خارجی اعمال کے ساتھ باطنی کیفیت کو بھی جاننے اور پرکھنے کا ذریعہ پیدا کرے۔
اب مجھے کہنے دیجیے کہ یہ ذریعہ ادب اور صرف ادب ہے۔ ادب باطنی زندگی کا مقیاس الحرارت ہے اور صرف ادب ہی کے ذریعے ریاست جان سکتی ہے کہ اس کے شہریوں کے نفسِ باطن اور اعماقِ قلب میں دین کتنی گہرائی تک موجود ہے۔ آپ مجھے مبالغہ آرائی کا مجرم قرار نہ دیں تو میں کہوں گا کہ صرف ایک دینی ریاست ہی میں ادب کو وہ حیثیت مل سکتی ہے جس کا وہ مستحق ہے۔ اشتراکی ریاستوں میں وہ ریاست کا آلۂ کار بن کر موت کا شکار ہو جاتا ہے جب کہ دینی ریاست میں وہ دین کا آلۂ کار ہوتا ہے۔ اس اصول سے ایک اہم نتیجہ برآمد ہوتا ہے‘ ایک دینی ریاست میں ادیب دین کے تابع ہے اور ریاست سے اس کی وفاداری کی بنیاد یہ ہے کہ ریاست بھی دین کے تابع ہے۔ یعنی دونوں کے مقاصد دین کے مشترک بنیاد پر مشترک ہیں‘ لیکن اس سے دونوں کے حدودِکار کا تعین بھی ہوتا ہے۔ ریاست کا کام دین کی ظاہری شکل کو برقرار رکھنا اور زندگی کے نت نئے تقاضوں سے اسے ہم آہنگ کرنا ہے جب کہ ادیب کا کام باطن میں دین کی بنیادوںکو استوار کرنا اور ایمان و اخلاص کی اس کیفیت کو پیدا کرنا ہے جو خارجی شکل میں ریاست پیدا کرتی ہے۔ جب ہم ادب اور ریاست کے حدودِکار کو واضح طور پر سمجھ لیں تو ہمارے لیے یہ کہنا ممکن ہوجاتا ہے کہ ایک دینی ریاست میں اپنے مشترک مقصد کی بنیادپر ادیب اور ریاست کا کردار ایک دوسرے کے ہم پلہ ہوتا ہے مثال کے طور پر قائداعظم کو ریاست کے نمائندے کے طور پر لیں اور اقبال کو ادیب کی جگہ رکھیں تو ہم کہہ سکیں گے کہ قائداعظم اور اقبال کا کام مل کر ہی اپنے مشترکہ مقصد کو پورا کرتا ہے۔ قائداعظم نے ریاست کے ظاہری وجود کو جنم دیا جب کہ اقبال نے اسلام کی نشاۃ الثانیہ کے تصور کو اپنے جذبِ باطن سے اس طرح زندہ کر دیا کہ وہ اجتماعی تجربے کی آواز بن گیا۔ اب ہم ایک اور نقطۂ نظر سے اس بات کو آگے بڑھائیں گے۔ ریاست کا اصل اصول عدل ہوتا ہے جس پر اجتماعی خیر کی بنیاد ہوتی ہے جب کہ ادب کا اصل اصول صداقت ہے۔ جس طرح ریاست عدل کے اصول سے منحرف ہو کر فساد کا شکار ہو جاتی ہے اسی طرح ادب صداقت سے محروم ہو کر غیر ادب میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اس اصول کو اچھی طرح سمجھ لینا ضروری ہے۔ صداقت کی تعریف یہ کی جاتی ہے کہ بیان کو امرِ واقعہ کے مطابق ہونا چاہیے۔ مثلاً اگر میں لکڑی کی بنی ہوئی ایک چیز کو میز کہوں اور وہ میز ہو تو یہ بات صداقت کے مطابق ہوگی لیکن امر واقعہ کی دو صورتیں ہیں ایک خارجی ایک داخلی۔ خارجی صداقت کی مثال میں نے پیش کردی‘ باطنی صداقت کے معنی یہ ہیں کہ بیان داخلی تجربے کے مطابق ہو مثلاً میں کہتا ہوں کہ میں خوش ہوں۔ تو اگر یہ بیان میری داخلی کیفیت کے مطابق ہو تو صداقت کہلائے گا۔ ادب کے لیے یہی داخلی صداقت سب سے اہم ہوتی ہے۔

حصہ