گڈو کا فلسفہ

371

اس دن گڈو کی باتیں سن کر حیرت ہوئی۔ وہ اپنے ہم خیال دوستوں کو باقاعدہ لیکچر دیتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ ’’ہماری قسمت بھی عجیب ہے… نہ ڈھنگ کے کپڑے، نہ اچھی بائیک، اور نہ ہی نسلی موبائل۔ کب تک فقیروں کی سی زندگی گزارتے رہیں گے! اور گھر والے ہیں کہ تعلیم حاصل کرنے کا بھاشن دیتے رہتے ہیں۔ اب انہیں کون سمجھائے کہ معاشرے میں زندہ رہنا ہے تو چار پیسے پلے ہونا ضروری ہیں، ڈگری بھی پیسے سے ملتی ہے۔ سرکاری اسکولوں میں پڑھ کر چپڑاسی بھی نہیں لگا جاسکتا۔ امیروں کے بڑے ٹھاٹھ ہیں، بچے نامور نجی اسکولوں میں بھاری فیسیں ادا کرکے او لیول نظامِ تعلیم کے تحت کامیابیاں حاصل کرتے ہیں، اگر کسی کا بچہ نااہل ہو تو بھی بیرونِ ملک سے ڈگری لاکر ہمارے سروں پر مسلط ہوجاتا ہے۔ یہ سب نوٹوں کا کھیل ہے۔ ایسی پڑھائی جائے بھاڑ میں۔ بہت ہوگیا، ہم بھی انسان ہیں۔ میں نے سوچ لیا ہے کہ معاشرے میں ہونے والی ناانصافیوں کے سامنے کھڑے ہوکر اپنا حق چھیننا ہے
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو
بس اب اس راستے پر چل کر ہی زندگی گزاری جائے گی۔ مال کما کر عزت کا مقام حاصل کیا جائے گا۔ پیسہ ہوگا تو سب کچھ ہوگا۔ اعلیٰ ڈگری خرید کر بھاری رشوت کے عوض کسی بھی اچھے محکمے میں ایگزیکٹو پوسٹ حاصل کرلوں گا۔ تم بتائو تمہارا کیا ارادہ ہے؟ کب تک یونہی یتیموں کی سی زندگی گزارتے رہو گے؟ سنو، اگر میری باتوں میں وزن ہے تو ساتھ دینا، ورنہ کوئی زبردستی نہیں۔ میری باتوں پر عمل کرو گے تو خوش حالی تمہارے دروازے پر دستک دے گی، ورنہ بے روزگاری، غربت، بھوک و افلاس جیسے عذابوں کی دلدل میں دھنستے چلے جائو گے۔‘‘
گڈو کی زبان سے نکلتے شعلوں، یا یوں کہیے اس کی جانب سے کی جانے والی زہرآلود گفتگو سن کر میرا دل کانپ اٹھا۔ اس کے لہجے کی تلخی سے صاف ظاہر ہورہا تھا کہ وہ نہ صرف معاشرے میں بڑھتی طبقاتی تفریق سے نالاں ہے بلکہ کسی غلط راستے کی جانب جانے کے لیے پر تول رہا ہے۔ معاشرے میں بڑھتی ہوئی طبقاتی تفریق ہو یا دُہرا نظامِ تعلیم… اس کے خلاف آواز بلند کرنا، یا پھر اس نظام سے اختلاف کرنا کسی بھی شخص کا بنیادی حق ہے۔ لیکن اس نظام سے آنے والی تفریق اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی خرابیوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے جس راستے کا انتخاب گڈو نے کیا ہے یا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، اس کی اجازت کسی کو بھی نہیں دی جاسکتی۔ ہمارا نوجوان طبقہ یہ بات نہ جانے کیوں بھول جاتا ہے کہ معاشرے میں اعلیٰ مقام حاصل کرنے کے لیے دولت کی ضرورت نہیں ہوتی، اور اسی طرح تعلیم بھی کسی بڑے اسکول کی دین نہیں۔ اس کے لیے لگن، محنت اور جنون چاہیے ہوتا ہے۔ اسکول سرکاری ہو یا پرائیویٹ… اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مجھے یاد ہے ایک زمانہ تھا جب ہماری نوجوان نسل تعلیمی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی بھرپور حصہ لیتی تھی، کھیلوں کے میدان آباد تھے، ہر طرح کے کھیل ہوتے تھے۔ کرکٹ، فٹ بال، ہاکی کے مقابلے ہوتے، تو کہیں پتنگ بازی ہورہی ہوتی تھی… کہیں بیڈمنٹن کھیلی جاتی، تو کہیں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اپنے اپنے حلقۂ احباب کے مطابق تعلیم کے ساتھ مختلف سرگرمیوں میں مصروفِ عمل نظر آتے تھے۔ یعنی غیر نصابی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے باوجود نوجوانوں نے ملکی ترقی کے پہیّے کو رکنے نہیں دیا، بلکہ دنیا میں ہونے والی جدید ترقی کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوکر پیلے سرکاری اسکولوں سے نہ صرف استفادہ کیا، بلکہ اپنے آپ کو اور ملک کو ترقی کی جانب ہمیشہ گامزن رکھا۔ اشتیاق بھائی اپنے ماضی کے قصے سناتے ہوئے وہ سب کچھ بتاتے ہیں جو تعلیم حاصل کرنے کے دوران اُن پر گزری، یعنی گائوں سے ایک میل دور اسکول ہونے کے باوجود انہوں نے نہ صرف تعلیمی سلسلہ جاری رکھا بلکہ اپنے والد کے انتقال کے بعد ہلدی سپلائی کرکے گھر کی کفالت بھی کی۔
معاشی عدم استحکام ہو یا تعلیمی نظام کی بڑھتی بے قاعدگیاں… روزگار کے مسائل ہوں یا پھر عدم تحفظ، معاشرتی ناہمواریاں، کرپشن، احساسِ کمتری، ناقص حکمتِ عملی، فیصلوں کا فقدان… ان سب کے باوجود اُس وقت کے نوجوانوں نے اپنی صلاحیتوں کے مطابق کامیابیاں حاصل کیں اور ہر میدان میں اپنا لوہا منوایا۔ اشتیاق بھائی کے مطابق اُن کے اسکول کے زمانے میں اُن کے گھر بجلی تھی نہ ہی دوسری آسائشیں، یہاں تک کہ اُن کے پیروں میں چپل تک نہ ہوتی، لیکن اس کے باوجود اُن کا تعلیم حاصل کرنے کا شوق کم نہ ہوا۔ یہی حالت اُن کے ساتھ پڑھنے والے دوسرے بچوں کی بھی تھی، یعنی غربت، افلاس اور تنگ دستی بھی انہیں حصولِ علم سے دور نہ کرسکے۔ دل میں اگر کچھ تھا تو بس تعلیم حاصل کرنے کا جنون تھا…سڑک کنارے لگے سرکاری بلبوں کے نیچے بیٹھ کر رات گئے تک پڑھنے کا جنون۔ پرائمری سے سیکنڈری اسکول گئے تو یونیفارم لازمی تھا، لیکن اتنے پیسے نہ تھے کہ سفید قمیص اور نیلی پتلون خریدتے۔ لہٰذا دو دن اضافی مزدوری کرنا پڑی، اس طرح کچھ پیسے ہاتھ لگنے پر لنڈا بازار سے پرانے کپڑے خرید کر اسکول یونیفارم کی شرط پوری کی۔ کتابیں دوستوں سے لے کر کام چلایا، تو کاپیاں کسی سے ادھار پیسے لے کر خرید لی گئیں۔ ادھار بھی ایسا جو مہینوں بعد بھی نہ اتر سکے۔ غرض جیسے تیسے میٹرک کیا اور کالج میں آگئے۔ کالج میں داخلہ ملتے ہی تعلیمی اخراجات بڑھنے لگے۔ ظاہر ہے جس کے گھر سے اسکول ایک میل کی مسافت پر ہو، کالج جانے کے لیے اسے خاصا لمبا سفر طے کرنا پڑے گا۔ سو، ایسا ہی ہوا۔ دو گھنٹے بس میں سفر کرکے کالج جانا پڑتا، اور شام ڈھلے گھر واپسی ہوتی۔ اب چونکہ سارا دن کالج آنے جانے میں گزرنے لگا اس لیے ہلدی کی سپلائی متاثر ہونے لگی، اس مسئلے کا حل انہوں نے یہ نکالا کہ ٹیوشن پڑھانے لگے۔ اس طرح وہ اپنی پڑھائی کے ساتھ ساتھ میٹرک کے بچوں کو بھی پڑھانے لگے جس سے کچھ نہ کچھ آمدن ہونے لگی۔ انٹر اچھے نمبروں سے پاس کیا اور یونیورسٹی جانے لگے، جہاں چند ایسے دوست بنے جن کا معیارِ زندگی اشتیاق بھائی سے خاصا بلند تھا۔ ایسے میں یہ دوستی چلنا مشکل تھی، اس لیے بات سلام دعا تک ہی محدود رہی۔ ظاہر ہے جس کی جیب میں اضافی ایک ٹکہ تک نہ ہو اُس کی دوستی یونیورسٹی کینٹین میں بیٹھنے والوں کے ساتھ کب تک چل سکتی تھی! لہٰذا کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے تنہائی میں کتابوں سے دوستی کرنے میں ہی عافیت جانی۔ قصہ مختصر یہ کہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد اشتیاق بھائی نے مقابلے کے امتحان میں کامیابی حاصل کی اور کلاس ون آفیسر کی پوسٹ پر تعینات ہوگئے۔ انہوں نے دورانِ سروس ایک فرض شناس آفیسر کی مثال قائم کی اور عزت سے ریٹائر ہوئے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایسا کیا ہوا کہ آج ہماری نوجوان نسل تعلیم سے راہِ فرار اختیار کرتے ہوئے جلد سے جلد امیر بننے کے چکر میں لگی ہوئی ہے! جائز و ناجائز طریقے سے پیسہ کمانے کی دھن ان کے سر پر سوار ہے! ذرا سا غور کرنے سے ہمیں اس سوال کا جواب باآسانی مل جائے گا، کہ اس سب کے پیچھے دہرے تعلیمی نظام، طبقاتی تفریق اور پیسے کی چمک کا ہاتھ ہے۔ ظاہر ہے جس معاشرے میں ڈگریاں فروخت ہوتی ہوں وہاں نوجوانوں کے ذہن میں ایسی منفی سوچ کا پنپنا اچنبھے کی بات نہیں، جس نے ہمارے نوجوانوں کی سوچ کو اس قدر تبدیل کردیا ہے کہ ان پر انتہا پسندی اور شدت پسندی کے عناصر غالب ہوتے جارہے ہیں۔ آج کا نوجوان شارٹ کٹ کی راہ پر گامزن نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے خوابوں کو حقیقت کا روپ دینے کے چکر میں ایسے راستے کا انتخاب بھی کرلیتا ہے جو اسے جرائم کی دنیا تک لے جاتا ہے۔ ہمارے اطراف کئی ایسی مثالیں موجود ہیں جو ہمارے معاشرے کے لیے لمحۂ فکریہ ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہمیں اپنے معاشرے کی بقاء اور نوجوان نسل کی اصلاح کے لیے ہنگامی بنیادوں پر ایسے قوانین مرتب کرنے ہوں گے جن سے نظامِ تعلیم اور دیگر بنیادی مسائل پر جلدازجلد قابو پایا جاسکے، تاکہ ہماری نوجوان نسل ایک مرتبہ پھر اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ ہر میدان میں محنت، لگن اور کاوشوں سے آگے بڑھ سکے۔ اس سلسلے میں ہر طبقہ فکر کو اپنا کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اساتذہ، ڈاکٹرز، وکلا، انجینئرز اور دیگر شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے افراد کو اس نوجوان نسل کو سنبھالنا ہوگا۔ سب سے پہلے یہ ذمہ داری والدین پر عائد ہوتی ہے، انہیں اپنی اولاد پر خاص توجہ دینا ہوگی، ابتدائی پرورش سے لے کر روزگار کے حصول تک اُن کی رہنمائی کرنا ہوگی تاکہ تمام نوجوان بلاتفریق آگے بڑھ سکیں۔ اور خود ہمارے نوجوان طبقے کو بھی یہ بات اچھی طرح سے ذہن نشین کرنا ہوگی کہ انہیں زندگی میں اعلیٰ مقام حاصل کرنے کے لیے شارٹ کٹ اور خوابوں کی دنیا سے نکل کر دوڑ دھوپ کرنا پڑے گی، تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ کوئی ایسا ہنر سیکھنا ہوگا جو ان کو منوانے میں مدد دے۔ تعلیم ضرور حاصل کریں، اور اگر کاروبار سے منسلک ہونا ہے تواپنا کاروبار کھولیں چاہے ایک ٹھیلا ہی کیوں نہ لگانا پڑے، ہمیشہ ایمان داری اور دیانت داری کو اپنا شعار بنائیں خواہ دنیا کی کوئی بھی طاقت آپ کے مقابل کھڑی ہوجائے۔ یاد رکھیں، گڈو کے فلسفے کے مطابق نہیں بلکہ اشتیاق بھائی کی زندگی کو مشعلِ راہ بناتے ہوئے سیدھی راہ پر چل کر ہی اپنے خوابوں کو حقیقت کا روپ دیا جاسکتا ہے، بصورتِ دیگر مستقبل تاریک جبکہ بدحالی، بے چینی، غربت اور افلاس آپ کا مقدر ہوں گے۔
nn

حصہ