جون ایلیا کہتے ہیں:
زندگی ایک فن ہے لمحوں کو
اپنے انداز سے گنوانے کا
ٹھیک ہی کہتے ہیں کہ کچھ کے لیے لمحوں کو گنوانا فن ہے اور کچھ کے لیے لمحہ لمحہ پکڑ کر اسے یوں قید کرنا کہ وہ دعائوں اور تمنائوں کے حصار میں سے نکل نہ پائے… یعنی وہ سارے ڈاکٹر اور پیرا میڈیکل اسٹاف جنہوں نے اپنی زندگی کو خطرہ ہونے کے باوجود خدمت کا فریضہ انجام دیا، یعنی جب اپنے دُور تھے اور معاملات ہاتھوں سے نکلتے ہوئے محسوس ہوئے تو یہی مسیحا سارے حفاظتی اقدامات کے ساتھ ہمارے پیاروں کے لیے خدمت انجام دیتے رہے اور دے رہے ہیں۔
پاکستان میں کورونا کی وبا سے نمٹنے کے لیے ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف نے اہم ترین کردار ادا کیا، اسی لیے ہمارے ہمسایہ ممالک کی نسبت پاکستان میں صورتِ حال بہت بہتر رہی۔
یہ پاکستان کے لیے بڑا اعزاز ہے کہ کورونا کی وبا کے دوران خدمات انجام دینے والے گلوبل ہیروز کی فہرست میں پاکستانی خاتون ڈاکٹر سیمی جمالی کو شامل کیا گیا۔ امریکی جریدے نے 9 گلوبل ہیروز کی فہرست جاری کی ہے۔ آن لائن امریکی جریدے نے کورونا وبا کے دوران کام کرنے والے ہیلتھ ورکرز کا دنیا بھر میں سروے کروایا تھا، جس کے نتیجے میں یہ فہرست جاری کی گئی۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستانی ڈاکٹرز اور طبی عملے نے اس وبا سے نمٹنے میں بہت بہادری کے ساتھ کام کیا۔ ایگزیکٹو ڈائریکٹر جناح اسپتال ڈاکٹر سیمی جمالی اس دوران کینسر کے مرض میں مبتلا ہوئیں، کورونا کی وباکے دوران ان کی کیمو تھراپی چلتی رہی۔ اس دوران وہ اپنے فرائض کی ادائیگی کرتی رہیں۔ یہ ایک انتہائی حیرت انگیز بات تھی۔
ہم نے ان سے اس سلسلے میں رابطہ کیا اور مبارک باد دی تو انہوں نے کہا کہ جو کچھ میں نے کیا یہ میرا فرض تھا، ہم نے تو حلف ہی خدمت کے لیے اٹھایا ہوتا ہے۔ بہرحال یہ اعزاز پاکستان کے سارے ڈاکٹروں، نرسوں اور پیرا میڈیکل اسٹاف کے لیے ہے، یہ جے پی ایم سی کے لیے ہے۔ کسی فردِ واحد کے بس میں نہیں ہوتا، ہم سب نے ایک دوسرے کا ہاتھ تھاما۔ میں حکومت کو بھی سراہتی ہوں کہ انہوں نے ہمیں سہولیات فراہم کیں اور ہماری ہدایات پر توجہ دی۔
اپنی صحت کے بارے میں سوال پر انہوں نے بتایا کہ مجھے اسی دوران کینسر تشخیص ہوا، اس کا علاج ہوا، میں نے اس دوران دس دن کی چھٹی کی۔ اس کے بعد میں اسپتال جاتی رہی اور وہاں کے سارے معاملات کودیکھتی رہی۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں کینسر جون 2020ء میںتشخیص ہوا۔
میں اخبار میں خبر دیکھ کر حیران ہوئی کہ 8 اپریل کو وہ جناح اسپتال کے مختلف شعبوں کا دورہ کررہی تھیں جہاں حفاظتی اقدامات کے تحت اسپرے کرایا گیا تھا، خاص طور سے ایمرجنسی اور کورونا وارڈ میں، اور وہاں کے عملے سے بھی ملاقاتیں کررہی تھیں۔
صحت کے لیے واقعی ان کا کردار سپاہیانہ تھا… اُس وقت بھی، آج بھی۔
ہمارے یہ پوچھنے پر کہ اس دوران جب کہ آپ کو کینسر اور بعد میں آپ کے میاں کو کورونا ہوا، کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟
انہوں نے کہا کہ جی ہاں بڑی آزمائش تھی، لیکن اللہ نے بڑا کرم کیا، میرے شوہر کی بہت سیریس صورتِ حال ہوگئی تھی، میرے دو بچوں میں سے بڑا بیٹا باہر تھا، وہ آ بھی نہیں سکتا تھا، فلائٹ بند تھیں، چھوٹا بیٹا ایسی صورتِ حال میں ناتجربہ کار تھا، لیکن بہرحال معاملات بہتر ہوئے۔ فلائٹ شروع ہوئیں تو امریکا سے میری بہنیں آگئیں، انہوں نے بہت سنبھالا۔ میرے والدین اور میرے شوہر کے والدین دونوں نہیں ہیں، لہٰذا ایسا کوئی قریبی بڑا نہیں تھا۔ لیکن میرا اسپتال میری فیملی تھا۔ وہاں سارے طبی عملے نے میرا بڑا ساتھ دیا، خیال کیا اور مجھے ہر طرح سے سپورٹ کیا۔ میرے دوست احباب سب ہی شامل تھے۔
جناح اسپتال میں صحت کی سہولیات خاص طور سے کورونا کے لیے کیسی ہیں؟ اس پر انہوں نے بتایا کہ جناح میڈیکل سینٹر میں کورونا کی پہلی لہر کے بعد ہی ہم نے 90 بستر کا کورونا وارڈ بنا لیا تھا۔ اس کے بعد جیسے جیسے مریض بڑھتے گئے ہم نے مزید 90 بستروں کا وارڈ سرجیکل بلاک میں بنایا۔کورونا کی تشخیص کے لیے لیب اسٹارٹ کی۔ کورونا مریضوں کے لیے یہ سارا علاج فری آف کاسٹ تھا، حالانکہ نجی اسپتالوں میں ایک دن کے ڈیڑھ سے دو لاکھ روپے لگ رہے تھے۔اب کورونا کی تیسری لہر ہے، اور بات یہ ہے کہ کورونا ابھی کئی سال رہے گا کیوں کہ وبائیں کئی کئی سال تک چلتی ہیں، لہٰذا عوام کو ابھی بھی اسی طرح احتیاط کی ضرورت ہے۔ کسی عوامی گیدرنگ سے پرہیزکریں۔ لوگوں نے بداحتیاطی کی، شروع میں مشکل سے یقین کیا جس کا خمیازہ اپنے پیاروں کی جدائی کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ تقریباً ہر ایک کا کوئی نہ کوئی قریبی عزیز متاثر ہوا۔ یہ وبا ابھی موجود ہے اور یہ تیسری لہر ہے۔ پنجاب اور خیبر پختون خوا میں کورونا کے کیس تیزی سے بڑھ رہے ہیں، لہٰذا میری عوام سے گزارش ہے کہ احتیاط کریں، اجتماعات میں جانے سے پرہیز کریں اور ویکسین لگوائیں۔ ساٹھ سال سے بڑی عمر کے لوگ ویکسین لگوائیں، جناح اسپتال میں ویکسین فری آف کاسٹ ہے۔
عوام کے لیے آپ کیا پیغام دینا چاہیں گی؟ ہمارے اس سوال پر انہوں نے کہا کہ میرا یہ پیغام ہے کہ آپ اپنے خاندان کے بزرگوں کی قدر کریں، یہ بڑا قیمتی اثاثہ ہیں۔ ماں باپ جن کے گھروں میں ہوتے ہیں وہ اللہ کی رحمت اور دعائوں کے حصار میں ہوتے ہیں۔
nn