سودائی

228


عرشمہ طارق
’’خوشی محمد! پتر ڈاکٹر کی دوا سے کوئی فائدہ نہیں ہورہا، میری تو پسلیاں جواب دے گئیں۔ کھانس کھانس کے برا حال ہوگیا ہے۔‘‘ اماں نے کراہتے ہوئے کہا۔
’’اماں! مہنگی دوائیں لینے کی استطاعت نہیں ہے، اور سستی دوائوں میں اثر نہیں ہے۔ بس اللہ کا نام لے کر استعمال کرتی رہو۔ اب دیکھو ناں راشد کا بخار کبھی اترتا ہے، کبھی چڑھتا ہے۔ مہنگی اور معیاری دوا لوں تو جلدی اثر ہوجائے۔‘‘ خوشی محمد نے فکرمندی سے کہا۔ بخار اور کمزوری نے اس کے بیٹے کو لاغر کردیا تھا۔
’’غریب آدمی تو سرکاری اسپتال سے ہی دوا لے سکتا ہے۔ بسوں کے دھکے کھاتے ہوئے اسپتال پہنچو، پھر لمبی لمبی لائنوں میں کھڑے ہوکر اپنی باری کا انتظارکرو۔ اسی وجہ سے آج کل فیکٹری بھی دیر سے پہنچتا ہوں، پھر سپروائزر کی باتیں سننی پڑتی ہیں۔ نیا مالک بھی بڑا سخت دل ہے، تنخواہ میں سے پیسے کاٹ لیتا ہے۔‘‘ خوشی محمد نے دل گرفتہ ہوکر کہا۔
ابا بھی ٹھنڈی سانس لے کر بولے ’’پتر! پہلے کم پیسوں میں بھی گزارا ہوجاتا تھا، اب تو مہنگائی نے کمر توڑ دی ہے، روزمرہ استعمال کی چیزیں قوتِ خرید سے باہر ہورہی ہیں۔‘‘
’’ٹھیک کہتے ہو ابا!‘‘ خوشی محمد نے باپ کی ہاں میں ہاں ملائی۔
’’پتر! تمہارا مالک تو بہت خدا ترس انسان تھا، عید تہوار پر بونس وغیرہ بھی دیتا تھا۔ پھر اب اس کو کیا ہوگیا؟‘‘ ابا نے ذہن پر زور دیتے ہوئے پوچھا۔
’’ابا! وہ تو اپنے علاج کے سلسلے میں ملک سے باہر گئے ہوئے ہیں، اب اُن کے بیٹے نے چارج سنبھال لیا ہے۔ وہ اپنے ملازمین کے ساتھ سخت رویہ رکھتا ہے۔‘‘
’’اللہ اُس کے دل میں نرمی پیدا کرے۔‘‘ خوشی محمد نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے۔ بعض اوقات خوشی محمد کو یہ سوچ کر ہنسی آتی کہ اُس کے ماں باپ نے اُس کا نام خوشی اس لیے رکھا ہوگا کہ نام کی مناسبت سے ان کے بیٹے کو خوشیاں ملیں گی، لیکن مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ خوشیاں میرے نصیب میں ہی نہیں ہیں۔
خوشی محمد کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں۔ پہلا بیٹا پیدائشی معذور تھا۔ بڑے بیٹے باپ کا سہارا بنتے ہیں، لیکن یہاں تو اس بے چارے کو خود ہی سہارے کی ضرورت تھی، اس کے بعد دو بیٹیاں ہوئیں۔ بڑی میٹرک میں تھی اور گھر میں بچوں کو ٹیوشن پڑھاتی تھی۔ دوسری آٹھویں کلاس میں تھی، اور اس کے بعد 8 سالہ راشد جو کہ تیسری کلاس میں تھا۔ اس کی بیوی سلمیٰ زیادہ پڑھی لکھی تو نہ تھی لیکن قرآن پاک پڑھی ہوئی تھی۔ وہ محلے کے بچوں کو قرآن پاک پڑھاتی تھی۔ ماں بیٹی مل کر کسی نہ کسی حد تک خوشی محمد کا ہاتھ بٹانے کی کوشش کرتی تھیں، پھر بھی تنخواہ سے آٹھ افراد کا گزارہ مشکل سے ہوتا تھا۔
ایک دن خوشی محمد فیکٹری گیا تو وہاں عجیب افراتفری مچی ہوئی تھی۔
’’ارے بھائی! یہاں کچھ ہوا ہے کیا؟‘‘ اُس کے پوچھنے پر اُس کے ساتھی ورکرز نے جو بتایا اس سے تو اُس کے ہوش ہی اڑ گئے ’’فیکٹری کے مالک نے چھانٹی کا فیصلہ کیا ہے۔ اس میں بیمار، بوڑھے اور وہ لوگ شامل ہیں جو ٹھیک طرح سے ڈیوٹی نہیں کرتے۔‘‘
سبھی کا تعلق غریب طبقے سے تھا، اس لیے ہر کوئی فکرمند تھا کہ کس کے گھر کا چولہا ٹھنڈا ہوتا ہے۔ تھوڑی دیر میں سپروائزر نے 15 لوگوں کے نام پکارے، اُن میں خوشی محمد کا نام بھی شامل تھا۔
’’چلو بھائیو! ہم مالک سے بات کرتے ہیں، ہم نے دن رات محنت کی ہے، ہمارے حقوق کا خیال کرنے کے بجائے ہمیں بے دخل کیا جارہا ہے!‘‘ایک ورکر طیش میں آکر بولا۔
’’اس کا کوئی فائدہ نہیں، مالک جا چکے ہیں‘‘ُ سپروائزر نے اطلاع دی۔ خوشی محمد نے سپروائزر سے التجا کی کہ ’’میرا کیا قصور ہے؟‘‘ تو اُس نے بتایا کہ ’’تم وقت پر نہیں آتے اور ڈیوٹی کے دوران بھی سست بیٹھے رہتے ہو۔‘‘
’’نہیں… نہیں یہ الزام ہے، پچھلے دنوں میرا بیٹا بیمار تھا، میں اُسے اسپتال لے کر جاتا تھا، اس لیے تھوڑی دیر ہوجاتی تھی، لیکن اس کے بعد میں زیادہ ٹائم دیتا تھا۔‘‘ خوشی محمد شدتِ غم سے نڈھال ہورہا تھا۔
وہ مرے مرے قدموں سے باہر نکل آیا۔ گھر جاتے ہوئے اس کے کانوں میں اپنے بچوں کی آوازیں گونجنے لگیں ’’ابا اس عید پر ہم نئے کپڑے لیں گے اور میچنگ کی چوڑیاں بھی۔‘‘ بچیاں کبھی کبھار ہی کوئی فرمائش کرتی تھیں۔
’’ہاں میری بچیو! ضرور لینا۔‘‘ خوشی محمد نے ان کے سر پر ہاتھ رکھا۔
’’اور ابا، میں؟‘‘ چھوٹے بیٹے نے لاڈ سے اُس کے گلے میں بانہیں ڈالتے ہوئے کہا۔
’’ارے بھئی میں اپنے شہزادے کو کیسے بھول سکتا ہوں! تجھے بھی نئے کپڑے اور جوتے دلوائوں گا۔‘‘ یہ سب سوچ کر خوشی محمد کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔
وہ روز صبح نوکری کی تلاش میں نکلتا اور شام کو نامراد گھر لوٹتا۔ ایک دن وہ اسی غرض سے نکلا لیکن جلدی گھر آگیا۔
’’سلمیٰ او سلمیٰ… جلدی سے اِدھر آ۔‘‘ اس نے خوشی سے لبریز آواز میں اپنی بیوی کو پکارا۔
’’کیا ہوا، آج اتنی جلدی آگئے!‘‘ وہ باورچی خانے سے باہر آئی۔
’’دراصل بات یہ ہے کہ آج مجھے ایک پرانا دوست مل گیا، وہ بازار میں بچوں کے سامان کا اسٹال لگاتا ہے، اچھی خاصی آمدنی ہوجاتی ہے۔ اُس نے مجھ سے بھی کہا ہے کہ میں کچھ رقم کا بندوبست کرلوں تو وہ مجھے سامان دلوا دے گا۔ فٹ پاتھ کے قریب جگہ خالی ہے، میں وہیں اپنا ٹھیلا لگا لوں گا۔ تُو نے کمیٹی ڈال کر کچھ پیسے اکٹھے کیے تھے، وہ مجھے دے دے، جب منافع ہوگا تو میں تجھے واپس کردوں گا۔‘‘ خوشی محمد نے اپنی بیوی کو تسلی دیتے ہوئے کہا۔
سلمیٰ اٹھ کر کمرے میں گئی، واپس آئی تو اس کے ہاتھ میں لفافہ تھا ’’میں یہ پیسے بچیوں کے جہیز کے لیے جمع کررہی تھی تاکہ وقت آنے پر کام آجائیں۔‘‘ سلمیٰ نے لفافہ خوشی محمد کے ہاتھ میں تھما دیا۔
’’اِن شاء اللہ اس سے زیادہ پیسے آجائیں گے۔‘‘ خوشی محمد رقم لے کر دوست کے پاس گیا۔ سب سے پہلے اس نے دوست کی مدد سے ٹھیلا کرائے پر لیا، پھر اُس کے ساتھ جاکر سامان خریدا، اور اگلے دن سے کام شروع کردیا۔ پہلے دن تو زیادہ خاص کام نہ ہوا، لیکن دوسرے دن کام اچھا رہا۔ کچھ دنوں میں آمدنی میں بھی اضافہ ہوا تو خوشی محمد نے دوست کے مشورے سے مزید مال ڈال لیا۔ لیکن اسے پتا نہیں تھا کہ یہاں بھتہ خور بھی اپنا حصہ وصول کرنے آتے ہیں۔ پولیس والے بھی ان بھتہ خوروں سے ملے ہوئے تھے۔ جو بے چارہ نہیں دیتا اُس کا جینا محال کردیتے ہیں۔ خوشی محمد تو ابھی نیا تھا، اس کے پاس اتنی رقم کہاں تھی کہ ان ظالموں کا پیٹ بھرتا۔ نتیجتاً ان بدمعاشوں نے اس کا سامان اٹھا کر پھینک دیا، اس کا ٹھیلا توڑ دیا اور مار پیٹ الگ کی۔
وہ بے چارہ غریب اپنا بچا کھچا سامان اٹھاکر لڑکھڑاتے قدموں سے برے حال کے ساتھ گھر پہنچا۔ اس نے فیصلہ کرلیا تھا کہ اپنے بیوی بچوں کو زہر دے کر مار ڈالے گا اور اپنے آپ کو بھی ختم کرلے گا۔ سب گھر والے اس کی حالت دیکھ کر پریشان ہوگئے۔
وہ ہذیانی انداز میں چیخنے لگا ’’ہم غریبوں کو جینے کا کوئی حق نہیں، ہم اسی طرح طاقت وروں کے ہاتھوں پستے رہیں گے، کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔ غربت ختم کرنے کے دعوے تو بہت سے لوگ کرتے ہیں لیکن غربت کے بجائے غریب ختم ہوجاتا ہے۔ ہم بھی ختم ہوجائیں گے۔‘‘ وہ سر پیٹتا ہوا گھر سے باہر نکل گیا۔

حصہ