زندگی کا کیا بھروسہ ؟

1230

ابھی کل ہی تو اس سے بات ہوئی اچھی خاصی تھی۔بس تھوڑا بی پی ہائی تھا۔ڈاکٹر نے بھی کہا گھبرانے کی بات نہیں۔آپریشن سے پہلے مریض تھوڑا پریشان ہوجاتے ہیں۔اسی لئے یہ سب نارمل ہے۔باجی آپریشن کےبعد نہ اسکا خون رکا اور نہ اسے ہوش آیا رپورٹس آئی ہیں تو پتا چلا کرونا وائرس تھا۔وہ ابھی بھی رو رو کر اپنی بہن کے غم کا سوگ منارہی تھی۔اسکی بہن کے انتقال کودوسرا ہفتہ گزر کاتھا۔دو بچوں کے بعد تیسرا بھی آپریشن ہی سے ہونا تھا۔بس بچے کی پیدائش کےبعدوہ خودابدی زندگی سدھارگئی۔اسکی بڑی بہن کاسارا غم یہ تھاکہ مرنے سے پہلے وہ اسکو گلے لگاکر پیار و تسلی بھی نہ دے سکیں۔کیونکہ عرصے سے بہنوں میں سلام دعا کے علاوہ ہرطرح کی بات چیت بند تھی۔وہ کہہ رہی تھیں اور میں سن رہی تھی۔باجی پتا نہیں میرارب بھی مجھے معاف کرے گا یا نہیں۔وہ مجھے فون بھی کرتی تو میں اسکا فون نہیں اٹھاتی تھی۔میں نے اسے دکھ دیئے ہیں باجی۔میں نے انہیں تسلی دی اللہ سے اپنے اور اسکے لئے مغفرت کی دعاکریں اوراسکی طرف سے کچھ صدقہ کردیا کریں۔اللہ بہت رحیم و کریم ہے۔
کیا بھروسہ زندگی کا ہم کریں
آج ہم میں جان ہو کل ہونہ ہو
واقعی کسی کی زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں۔اب اس کورونا کی وباء کے دوران تو موت کو ہم سب بہت قریب سے دیکھ رہے ہیں۔اللہ ہم سب کو ناگہانی و وبائی امراض،بیماریوں،آفات و مصائب سے اپنی پناہ میں رکھے۔آمین
رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا ،کثرت سے موت کو یاد کیاکرو ،اس لئے کہ موت کا یاد کر نا ،گناہوں کو دور کرتاہے ۔انسان جس زندگی سے محبت کرتا ہے وہی اتنی بے اعتبار ہے کہ کچھ خبر نہیں کب ہم سے بے وفائی کرے اور کب جیتے جاگتے انسان کو موت کی آغوش میں دھکیل دے اور انسان جس موت سے بہت دور بھاگنے کی کوشش کرتے ہوئے یہ سمجھتا ہے کہ جیسے زندگی سے یہ محبت زندگی کو انسان سے وفا پر راضی کر لے گی اور جب تک وہ چاہے گا زندگی اس کا ساتھ دے گی جبکہ موت وہ اٹل حقیقت ہے جو کبھی ٹل نہیں سکتی ۔بے شک مومن کی دوستی اور دشمنی کا پیمانہ اللہ کیلئے ہوتا ہے اس لئے وہ ہوش مند رہتا ہے۔ اپنے سارے راز ،دل کی باتیں اپنے جگری دوست سے بھی نہیں کہتا۔لیکن بعض اوقات ایسا ہوتاہے کہ ہم اپنے کسی بہت قریبی بھائی،بہن،دوست،احباب جاننے والے سے کافی عرصے تک نہیں ملتے۔کچھ رنجشیں،کچھ مصروفیات اور کچھ ترجیحات ہمارے ملنے کی راہ میں حائل ہوجاتی ہیں۔ہم انا۔ سے نبرد آزما رہتے ہیں کہ پھر اچانک اس عزیز کی موت کی خبر ہمیں ہماری مصروف زندگیوں سےیک لخت نکال کر باہر لے آتی ہے۔اور پھر ہمیں اندازہ ہوتاہے کہ اب ہم اس سےقیامت تک نہیں مل سکتے۔ایسی صورتحال میں بعض لوگ اپنے آپ کو مجر م سمجھنے لگتے ہیں اور سوچتے رہتے ہیں کہ وہ مزید کیا کہہ سکتے تھے اور کر سکتے تھے۔وہ انہیں خوشی دے سکتے تھے۔وہ انہیں مناسکتے تھے۔ اکثر لوگ کسی عزیز کے مرنے کے بعد میں اپنے آپ کو قصور وار ٹھہراتے ہیں کہ شاید اگر وہ کچھ اور کرسکتے تو ان کا عزیز بچ جاتا۔ موت کسی کے اختیار میں نہیں اور بعض دفعہ پیچھے رہ جانے والوں کو بار بار یہ بات یاد دلانے کی ضرورت ہوتی ہے۔
کچھ لوگ ہر اِک پر اعتماد کرتے ہیں مگر لوگ ٹھیس پہنچا دیتے ہیں۔ چند افراد ایسے بھی ہیں جو بہت سوں پہ اپنا اعتماد قائم رکھتے ہیں۔ دوسروں پر سے بھروسہ اُٹھ جانے پر بھی اُنکی ذات پر اعتماد کا بھرم قائم رکھتے ہیں۔ وُہ دوسروں پر اپنی ذات کا اعتماد ہر حال قائم رکھتے ہیں۔ وُہ رشتوں کو اعتماد کی ڈوری سے پروتے ہیں۔اعتماد کا رشتہ ہم مزاجوں میں قائم ہوا کرتا ہے۔ غیر مزاج غیر ہی ہوا کرتے ہیں۔ گھروں میں جب مزاج یکساں نہ رہے تو فاصلے اندر ہی اندر پیدا ہو جایا کرتے ہیں۔ہمیں ہر آن لوگو پر اپنا اور لوگوں پر اعتماد کو بحال رکھنا چاہیئے۔اس سے انسان ایک مطمئن زندگی گزارتاہے۔
بعض اوقات کچھ لوگ خواہ مخواہ لڑائی و فساد کےبہانے ڈھونڈتے ہیں۔ہمیشہ آپ کو دوسروں کی نظروں میں نیچادکھانے کی کوشش کرتےہیں۔ایسی صورت حال میں انسان کو معلوم ہونا چاہیےکہ اس کا اصل محبوب اس کا رب ہے اور مؤمن اختلاف، نزاع و جھگڑے میں اخلاق و ایمان سے محروم ہونے والے اعمال نہیں کرتا کہ اس کا دشمن انسان نہیں شیطان ہے اور ساری نفرت اور جنگ اسی سے ہونی چاہئے۔
اگر کسی قریبی عزیز کا انتقال کسی بہت تکلیف دہ اور طویل مرض کے بعد ہوا ہو تو بعض دفعہ قریبی عزیز انتقال کے بعد ایک اطمینان کی سی کیفیت محسوس کرتے ہیں کہ مریض کی جان اس تکلیف سے چھٹ گئ۔جس کے لیے پھر وہ شرمندہ ہوتے ہیں۔ یہ احساس فطری ہے، بہت سے لوگوں کو ہوتا ہے اور اس کے لیے ندامت محسوس کرنے کی بالکل بھی ضرورت نہیں۔
ڈاکٹر کی مدد:
اگر کسی عزیز و اقارب کے مرنے کے بعد انسان پر نفسیاتی کیفیات طاری ہونے لگیں تو کسی معالج یا کنسلٹنٹ سے رجوع کرنے میں بالکل نہیں ہچکچانا چاہیئے۔
کبھی کبھی ان حالات میں راتوں کی نیند کافی عرصے کے لئے خراب ہو جاتی ہے جس کے برے اثرات پیدا ہونے لگتے ہیں۔ لہٗذا ڈاکٹر سے چند دنوں کے لئے نیند کی دوائی لی جا سکتی ہے۔
اکثر ڈپریشن زیادہ بڑھ جائے جس میں آپ کی بھوک، نیند اور طاقت و توانائی متاثر رہنے لگے تو ایسی صورت میں ڈاکٹر کے مشورے سے اینٹی ڈپریسنٹ دوا لینے سے فائدہ ہو سکتا ہے۔
کچھ لوگ کونسلنگ اور سائیکو تھراپی سے فائدہ مند ہوتے ہیں۔
کسی کی موت کے غم سے گزرنا زندگی کا حصہ ہے۔ یہ ایک عجیب، دردناک اور تکلیف دہ مرحلہ ہےلیکن پھر بھی بہت سے لوگوں کو اس دوران اور بعد میں بھی کسی طبی مدد کی ضرورت نہیں پڑتی۔
نہیں زیبا کسی کی بد دعا لو
سنو روٹھے ہوؤں کو اب منا لو
مدد کو آ ہی جائے گا کوئی پھر
ضرورت ہے ابھی خود کو سنبھالو
تری دہلیز پر کب سے پڑا ہے
نہ دھتکارو اسے اپنا بنا لو
مسرت کی گھڑی میں تم زباں سے
کوئی منحوس جملہ مت نکالو
بہت مضبوط اپنا حوصلہ ہے
جو چاہو تم ہمیں بھی آزما لو
اگر تم چاہتے ہو سرخروئی
” مدد مجبور کی کرکے دعا لو ”
بھلے محمود سے ہے بیر مانا
کسی کے ساتھ لیکن تم نبھا لو

حصہ