تحریک پاکستان مسلم تشخص کی بازیافت کی تحریک تھی

801

ممتاز ادیب، شاعر، محقق، سابق ڈائریکٹر قائداعظم اکادمی خواجہ رضی حیدر

ممتاز ادیب، شاعر، محقق، سابق ڈائریکٹر قائداعظم اکادمی خواجہ رضی حیدر ہندوستان کے صوبے یوپی کے شہر پیلی بھیت کے ایک علمی خانوادے میں 1946ء میں پیدا ہوئے
دورانِ تعلیم 1966ء میں پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز روزنامہ ’’حریت‘‘ کراچی سے بطور سب ایڈیٹر کیا۔ مگر جلد ہی تحریک پاکستان کی تاریخ اور قائداعظم محمد علی جناح کی سوانح میں دلچسپی لینے لگے۔ 1976ء میں قائداعظم کے صد سالہ جشنِ ولادت کے موقع پر پانچ سو صفحات پر مشتمل کتاب ’’قائداعظم کے 72 سال‘‘ شائع ہوئی، جس کے اب تک چار ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ خواجہ رضی حیدر کی دیگر تصانیف میں ’’تذکرہ محدث سورتی‘‘ 1981ء۔ ’’قائداعظم خطوط کے آئینے میں‘‘ 1985ء۔ ’’قراردادِ پاکستان‘‘ 2014ء۔ ’’رتی جناح: قائداعظم کی رفیقہ حیات‘‘ 1995ء۔ ’’سید شمس الحسن: تحریک پاکستان کا ایک اہم کردار‘‘ 2003ء۔ ’’کانپور نزدیک سے دور تک‘‘ 2003ء۔ ’’راجا صاحب محمود آباد: حیات و خدمات‘‘ 2005ء۔ ’’بابائے صحافتِ سرحد اللہ بخش یوسفی‘‘ 2006ء۔ ’’محترمہ فاطمہ جناح: رفقا کی نظر میں‘‘ 2006ء۔ دو شعری مجموعے ’’بے دیار شام‘‘ 1995ء۔ ’’گماں گشت‘‘ 2007ء شامل ہیں۔ رَتی جناح کا انگریزی ایڈیشن 2004ء میں پاکستان اسٹڈی سینٹر جامعہ کراچی سے اور 2010ء میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس سے شائع ہوا۔ آپ کا مکتبہ فکر وہی ہے جو معروف شاعر اور نقاد سلیم احمد کا تھا۔ ان کے دبستان روایت سے وابستہ ہیں اور اس روایت کے تحت جو چیزیں آتی ہیں ان پر بحث بھی کرتے ہیں اور لکھتے بھی ہیں۔ 2012ء میں سلیم احمد پر آپ کی تاثراتی کتاب شائع ہوئی، جبکہ 2013ء میں انہوں نے جدید نظم کے اہم ترین شاعر مجید امجد کے بارے میں ایک ضخیم کتاب ’’مجید امجد: ایک منفرد آواز‘‘ مرتب کی۔ 2014ء میں انہوں نے اپنے والد اور ممتاز عالم دین اور مورخ مولانا حکیم قاری احمد پیلی بھیتی کی حیات و خدمات پر مبنی سوانح تصنیف کی۔ 2015ء میں ان کی کتاب ’’اللہ بخش یوسفی: قائداعظم کی سیاسی فکر کے ترجمان‘‘ شائع ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ خواجہ رضی حیدر نے محترمہ فاطمہ جناح، پروفیسر شریف المجاہد، لطف احمد شیروانی، خواجہ سرور حسن، ڈاکٹر زوار حسین زیدی، ڈاکٹر محمد علی صدیقی، ڈاکٹر ریاض احمد کی کتابوں کے اردو تراجم بھی کیے ہیں۔ نظموں کا ایک مجموعہ ابھی حال ہی میں ’’لفظ بوسیدہ نہیں ہوتے‘‘ شائع ہوا ہے۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے لیے دو سو سے زائد اسکرپٹ لکھے۔ خصوصاً پاکستان ٹیلی ویژن کی ڈراما سیریل ’’جناح سے قائد‘‘ 1997ء کا تحقیقی اسکرپٹ ان کی ہی کاوشوں کا نتیجہ تھا۔ روزنامہ ’’حریت‘‘ کے بعد 1981ء میں انہوں نے سینئر ریسرچ فیلو کی حیثیت سے قائداعظم اکادمی سے وابستگی اختیار کی اور 27 سال تک اس ادارے میں ڈپٹی ڈائریکٹر اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔ پھر آپ سرسیدیونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کراچی میں بحیثیت کنسلٹنٹ خدمات انجام دے رہے تھے، اس کے بعد اب پھر قائداعظم اکادمی کے ڈائریکٹر کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ آپ آرٹس کونسل آف پاکستان کے تاحیات رکن ہیں اور قائداعظم رائٹرز گلڈ کے صدر بھی رہ چکے ہیں۔ خواجہ رضی حیدر سے تحریک پاکستان اور اس کے پس منظر پرہونے والی گفتگو نذرِ قارئین ہے۔
سوال : خواجہ صاحب! بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ برصغیر میں مسلمانوں کی الگ ریاست کا خیال اقبال سے پہلے کچھ اور لوگوں نے پیش کیا، مثلاً مولانا حسرت موہانی اور مسلم لیگ کے معروف لیڈر نواب ذوالفقار علی کا نام لیا جاتا ہے۔ لیکن جیسا کہ بظاہر نظر آتا ہے اقبال کے 1930ء کے خطبہ الٰہ آباد سے پہلے پاکستان کی علیحدہ ریاست کے مطالبے کی بہت واضح صورت موجود نہیں تھی۔آخر یہ بات کس تناظر میں کہی جاتی ہے اور اس کے کیا محرکات ہیں؟
خواجہ رضی حیدر: ۔ قراردادِ پاکستان کی منظوری تک اس حوالے سے تقریباً ایک سو چوالیس تجاویز ریکارڈ پر آچکی تھیں۔ اس میں سے بیشتر ایسی تھیں جو مسلم اور ہندو بنیادوں پر تھیں کہ وہ علاقے جو ہندو اکثریتی علاقے ہیں انہیں الگ کردیا جائے، اور جو مسلم اکثریتی علاقے ہیں ان کو الگ کردیا جائے۔ یہ تو ایک طویل عمل تھا۔ البتہ ایک انگریز جان برائٹ جو برطانوی پارلیمنٹ کا رکن تھا، اس نے 1858ء میں یہ بات کہہ دی تھی کہ یہ اتنا بڑا ملک ہے اور ہم اس کو نہیں چلاسکتے۔ ہمیں اسے مختلف حصوں میں تقسیم کرنا پڑے گا۔ اس کا ذکر قائداعظم محمد علی جناح نے اپنی تقریر میں بھی کیا۔ برصغیر کی تقسیم کے مسائل تو 1858ء سے چل رہے تھے اور اُس وقت مولانا عبدالحلیم شرر، خیری برادران، مولانا محمد علی جوہر اس کا حصہ تھے۔ سرسید احمد خان نے بعض جگہ ایسی باتیں کہی ہیں جن سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ بھی ہندوستان کی تقسیم کے حق میں تھے۔ 144افراد ہیں جنہوں نے یہ باتیں کہی ہیں۔ یہ سوچ آہستہ آہستہ بڑھتی رہی۔۔۔ کیوں کہ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ مغلیہ سلطنت کے زوال اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے تسلط میں آنے کے بعد یہ بات تو طے ہوگئی تھی کہ مسلمان حکومت کے جائز وارث ہیں کہ مغلیہ سلطنت ان کی تھی، وہ اتنے برسوں تک ہندوستان پر حکومت کرتے رہے تھے۔ دوسری طرف یہ بات ہندوؤں کے ذہن میں طے ہوگئی تھی کہ اگر دوبارہ مسلمانوں کو عروج مل گیا تو پھر یہ حکمران ہوجائیں گے اور ہم اتنے برس اور ان کی ماتحتی میں اپنی زندگی گزارتے چلے آئے ہیں، جبکہ ہم دھرتی کے بیٹے (son of soil) ہیں۔ دوسری طرف انگریز یہ سوچتا تھا کہ مسلمان جائز وارث ہیں۔ ہندو جتنا بھی مسلمانوں کے خلاف کام کرسکتے تھے، مسلمانوں کو پسماندہ رکھنے کی کوششیں کرسکتے تھے، سازشیں کرسکتے تھے، وہ انہوں نے کیں۔ اس کے نتیجے میں مسلمانوں میں یہ خیال پیدا ہوتا چلا گیا کہ ہمیں اس ملک میں اپنا تشخص پیدا کرنا ہے اور اسی حوالے سے پروفیسر ڈاکٹر سید محمد عبداللہ نے یہ بات لکھی ہے کہ تحریک پاکستان بازیافت کی تحریک تھی، مسلمان اپنے آپ کو دریافت کرنا چاہتے تھے،کہ ہم کیا تھے اور کیا ہوگئے ہیں؟ اور ہمیں وہی ہونا ہے جو ہم تھے۔ اور جو ہم تھے وہ بغیر کسی ملک کے، بغیر کسی حکومت کے ہو نہیں سکتے تھے۔ ماتحت زندگی ہم نہیں گزار سکتے تھے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ تحریک پروان چڑھتی چلی گئی کہ ایک علیحدہ ملک ہونا چاہیے۔ علامہ اقبال نے بلاشبہ یہ تجویز ایک سیاسی پلیٹ فارم سے پہلی دفعہ پیش کی تھی اور وہ آل انڈیا مسلم لیگ کا سالانہ جلسہ تھا جس میں انہوں نے خطبہ دیا تھا، اور انہوں نے جو بات کہی تھی وہ مشروط تھی ’’میری خواہش ہے کہ پنجاب، صوبہ سرحد، سندھ اور بلوچستان کو ایک ہی ریاست میں ملا دیا جائے۔ خواہ یہ ریاست سلطنتِ برطانیہ کے اندر حکومتِ خود اختیاری حاصل کرے، خواہ اس کے باہر۔ مجھے تو ایسا نظر آتا ہے کہ اور نہیں تو شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کو آخر ایک تنظیم اسلامی ریاست قائم کرنا پڑے گی۔‘‘ یہ انہوں نے کہا تھا۔ لیکن بعد میں قراردادِ پاکستان میں آکر یہ بات اتنی واضح ہوگئی یا چودھری رحمت علی کے ہاں 1933ء میں اتنی واضح ہوگئی کہ ہندوستان تقسیم ہونا چاہیے اور مسلمانوں کا ایک علیحدہ خودمختار ملک ہونا چاہیے۔ اور یہ دیکھیے کہ قائداعظم کا ہم پر کتنا بڑا احسان ہے اور ہندوستان کے مسلمانوں پر خاص طور پر کہ انہوں نے اس لمحے جب بات ہورہی تھی ہندوستان میں کہ مسلمان اقلیت ہیں اور ہندو اکثریت ہیں، قائداعظم نے 1940ء میں کہا کہ مسلمان اقلیت نہیں ہیں بلکہ وہ ایک علیحدہ قوم ہیں۔ تو یہ جو قوم کا تصور دے دیا ہے انہوں نے مسلمانوں کو، یہ وہ تصور تھا جس نے مسلمانوں کو آگے بڑھنے کا حوصلہ دیا اور ان کو یہ راہ دکھائی کہ ان کا ایک علیحدہ ملک ہونا چاہیے۔
سوال : مسلم لیگ 1906ء میں ڈھاکہ میں قائم ہوئی۔ لاہور، کراچی، پشاور یا کوئٹہ میں قائم نہیں ہوئی۔ بنگال کی سرزمین میں ایسی کیا بات تھی جس کی وجہ سے مسلم لیگ وہاں پر قائم ہوئی اور جداگانہ تشخص کی سیاست کا آغاز ہوا؟
خواجہ رضی حیدر: بات یہ ہے کہ آل انڈیا ایجوکیشنل کانفرنس کا ڈھاکہ میں اجلاس تھا۔ اُس وقت مختلف علاقوں میں اس کے اجلاس ہوا کرتے تھے، اُس دفعہ اجلاس بنگال میں ہونا تھا اور اس اجلاس کی سرمایہ کاری اور اس کا پورا انتظام نواب سر سلیم اللہ خاں نے کیا تھا جو ڈھاکہ کے نواب تھے۔ لہٰذا یہ اجلاس وہاں پر منعقد ہوا تھا۔ جب ایجوکیشنل کانفرنس کا اجلاس ختم ہوا تو اس کے جو مسلمان مندوبین وہاں موجود تھے انہوں نے یہ طے کیا کہ مسلمانوں کی ایک علیحدہ سیاسی جماعت قائم کی جائے اور موقع سے فائدہ اٹھاکر اس کا اجلاس کرلیا جائے۔ لہٰذا وہ اجلاس وہاں پر ہوا تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ کسی علاقائی یا قومیتی بنیاد پر کوئی اجلاس ہوا ہو، بلکہ بدستور مختلف علاقوں میں منعقد ہونے والی محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس میں سے ایک کانفرنس تھی جو ڈھاکہ میں منعقد ہوئی اور تمام ہندوستان کے اکابرین وہاں پر جمع ہوئے تھے، اور جب یہ اجلاس ہوا تو اس وقت شملہ ڈیپوٹیشن مل چکا تھا، وائسرے لارڈ منٹو کے سامنے مسلمانوں کے مطالبات رکھے جاچکے تھے، لہٰذا وہاں پر موجود لوگوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد ڈال دی۔ اور ایسا نہیں تھا کہ پہلی بار مسلمانوں کی کوئی سیاسی جماعت بن رہی تھی، بلکہ اس سے پہلے بھی مسلمانوں کی دو سیاسی جماعتیں بن چکی تھیں۔ ایک نواب محسن الملک نے بنائی تھی ’’محمڈن پولیٹکل آرگنائزیشن‘‘، اور یہ جو ’’اردو ڈیفنس‘‘ تھی یہ بھی ایک طرح کی سیاسی جماعت تھی، مگر چونکہ پورے ہندوستان کے بڑے اکابرین ڈھاکہ میں موجود تھے، لہٰذا مسلم لیگ کی بنیاد پڑگئی۔
سوال : تحریک پاکستان میں بنگال کی زمین اور بنگالی قوم کتنی متحرک تھی، کیسا اس کا جذبہ تھا؟
خواجہ رضی حیدر: صرف اس بنیاد پر آج ہم بنگالیوں کی اس وفاداری کو نظرانداز کردیں جو انہوں نے تحریک پاکستان سے کی تھی، یا جو انہوں نے بحیثیت مسلمان جدوجہد کی۔ بنگال میں بہت ساری تحریکیں چلتی رہیں۔ دوسری طرف آپ سے ایک بات اور عرض کردوں کہ جب اپریل1946ء میں مسلم لیجسلیچر کنونشن ہوا تو حسین شہید سہروردی نے ایک قرارداد پیش کی تھی، اُس وقت تک لوگ قراردادِ پاکستان میں اسٹیٹ کے لفظ سے واقف تھے، انہوں نے کہا تھا کہ اسے ہم ایک کرلیتے ہیں۔ یعنی بنگال مشرقی حصہ اور مغربی حصہ دونوں کی تحریک ایک کردی جائے، اور اس طرح وہ ایک قرارداد پیش کی تھی۔ اور مسلم لیجسلیچرکنونشن ایسے موقع پر ہوا جب ہم انتخابات جیت چکے تھے اور یہ طے ہوچکا تھا کہ اب پاکستان بن جائے گا، کیونکہ بہت واضح اکثریت سے مسلمانوں نے انتخابات جیتے۔ اس وقت جب یہ قرارداد پیش کی گئی تو ایک عجیب بات ہوئی، وہ یہ کہ مولانا عبدالحمید بھاشانی نے سہروردی کی قرارداد کو تسلیم کیا، جبکہ بعد میں وہ بنگلہ دیش کی تحریک میں شامل رہے۔ اس کو کیا کہا جاسکتا ہے؟ جبکہ اُس وقت تک تو وہ پاکستان کے حق میں تھے، بعد میں ان میں تبدیلی آئی۔
سوال : جس دو قومی نظریے کی بنیاد پر پاکستان بن گیا، اسی دو قومی نظریے کی بنیاد پر بنگلہ دیش پاکستان کا حصہ کیوں نہیں رہ سکا؟
خواجہ رضی حیدر: حقیقت یہ ہے کہ جس دو قومی نظریے کی بنیاد پر پاکستان معرضِ وجود میں آیا تھا آج بھی وہ دو قومی نظریہ موجود ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ ختم ہوگیا ہے۔ کیا یہ دو قومی نظریے کی پائیداری کا ثبوت نہیں ہے کہ جب بیت المکرم مسجد (کراچی) میں اذان ہوتی ہے تو وہاں ڈھاکہ میں بھی بیت المکرم میں اذان ہوتی ہے، وہاں کوئی بھجن تو نہیں گایا جاتا۔ تو اسلامیت تو اپنی جگہ پر موجود ہے دونوں جگہ۔ وہ اب اپنے علاقے میں یہ تصور کرسکتے ہیں یا تصور کرتے ہوں گے کہ وہاں پر ہندوؤں کی اتنی اکثریت ہے اور وہاں پر بھی دو قومی نظریے کے تحت ہی زندگی گزار رہے ہیں، کہ ہندو الگ ہیں اور ہم الگ ہیں۔


سوال: بعض لوگ کہتے ہیں کہ قائداعظم نے 1948ء میں پاکستان کی قومی زبان اردو کو بنانے کی بات کی، جس کی بنا پر اردو بنگالی تنازع برپا ہوا اور اس ردعمل کا آغاز ہوا جو بالآخر پاکستان کی علیحدگی پر منتج ہوا۔ کیا قائداعظم کو واقعی اردو کو پاکستان کی قومی زبان بنانے کی بات نہیں کرنی چاہیے تھی؟
خواجہ رضی حیدر: اس میں ایک بات ہے کہ اردو پاکستان کی قومی زبان ہوگی۔ یہ بات قائداعظم نے1938ء میں بھی کہی کہ مسلمانوں کی قومی زبان اردو ہے، اور پھر 1940ء کے بعد انہوں نے باقاعدہ یہ بات کہی ہے اور بار بار کہی ہے کہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہوگی، اور اسی کی بنیاد پر ایک محقق نے تو یہاں تک لکھ دیا ہے جس کی اب تک مجھ سے تصدیق نہیں ہوسکی کہ اصل میں فروری 1948ء میں پاکستان کی دستور ساز اسمبلی میں جو ایک قرارداد پیش ہوئی جس میں کہا گیا کہ اردو پاکستان کی قومی زبان ہوگی اور وہ منظور کی گئی، تو قائداعظم نے جب ڈھاکہ میں یہ بات کہی تو وہ اپنا فیصلہ نہیں سنا رہے تھے۔ اس اسمبلی کے فیصلے کی روشنی میں انہوں نے وہ بات وہاں کہی تھی۔ تو یہ بات تو ہمیشہ سے ہوتی رہی۔ اب آپ دیکھیں کہ سندھ میں اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ سندھی قومی زبان ہوگی تو پنجاب کہاں جائے گا؟ بلوچستان کہاں جائے گا؟ سرحد کہاں جائے گا؟ تو سندھی تو قومی زبان نہیں ہوسکتی۔ سندھی ایک صوبے کی زبان ہوسکتی ہے۔ تو بنگالی اُس وقت ایک صوبے کی زبان تو ہوسکتی تھی لیکن قومی زبان نہیں ہوسکتی تھی۔ تو قائداعظم نے اگر یہ بات کہی تھی تو انہوں نے کوئی غلط نہیں کہا تھا۔ چونکہ وہاں ایک ایسا عنصر موجود تھا یعنی ہندو۔۔۔ اُس نے یہ بات وہاں کے مسلمانوں کو غلط انداز میں باور کرائی اور اس بات سے مسلمانوں کو متنفر کیا اور وہاں ہنگامے شروع ہوگئے۔ پھر آپ پورا دورِ ایوبی دیکھ لیجیے، کیا اس دور میں ریڈیو پاکستان سے بنگالی اور اردو میں خبریں نشر نہیں ہوتی تھیں؟ پابندی کے ساتھ ہوتی تھیں، حتیٰ کہ مولانا حسن مثنیٰ ندوی حریت میں ہوتے تھے اور جب دفتر میں آتے اور اداریہ لکھنا ہوتا تھا تو بنگالی میں ہی خبریں سنتے تھے حالانکہ اُن کا بنگالی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ تو ہماری سماعتیں بنگالی سے اتنی آشنا ہوچکی تھیں اُس وقت تک۔ اور ظاہر ہے کہ بنگالی زبان کو ہم قومی زبان کے طور پر تو تسلیم نہیں کرسکتے تھے، لیکن ایک علاقائی زبان تھی، ایک بڑے صوبے کی زبان تھی اس کو ہم نے اہمیت دی۔ ریڈیو کے علاوہ ٹی وی جب شروع ہوا تو اس پر بھی بنگالی پروگرام نشر ہوا کرتے تھے۔ ہم نے بنگالیوں کو اپنے قومی ترانوں میں شریک کیا۔ یہ جیوے جیوے پاکستان کس کا پڑھا ہوا
ہے؟ ایک بنگالی گلوکارہ کا۔ لیکن ان کے اندر اتنی نفرتیں بٹھا دی گئی تھیں کہ وہ کسی صورت بھی دور نہیں ہوسکتی تھیں، اور مجھے پتا نہیں کہنا چاہیے یا نہیں کہ بھٹو صاحب نے منتخب ہوکر ان نفرتوں کو زیادہ ہوا دی، کیونکہ ان کی مشرقی پاکستان میں کوئی سیٹ نہیں تھی وہاں مجیب الرحمن کی اکثریت ہوگئی، یہاں ان کی اکثریت ہوگئی۔ اور جب مجیب الرحمن نے کہا کہ مرکزی حکومت میں ہم ہوں گے، دارالخلافہ ہمارا ہوگا تو بھٹو صاحب نے ہی تو یہ بات کہی کہ ادھر تم اِدھر ہم!
سوال:آپ نے سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد ’’قراردادِ پاکستان کی اب کیا حیثیت ہے‘‘؟ پر خصوصی انٹرویوز کیے، جس میں بڑے اور اہم نام شامل ہیں۔ توان انٹرویوز سے کیا بات سامنے آئی۔
خواجہ رضی حیدر:جس وقت یہ انٹرویوز کیے گئے وہ ایسا لمحہ تھا کہ لوگوں میں خاصی مایوسی تھی۔ پھر اس وقت کچھ لوگ سوچتے تھے کہ اگر ابھی ہم نے مایوسی کا اظہار کیا تو جو نئی نسل آرہی ہے یہ بہت زیادہ مایوس ہوجائے گی۔ سب نے مجھ سے انٹرویو میں کہا کہ قراردادِ پاکستان کی حیثیت مجروح نہیں ہوئی ہے بلکہ اپنی جگہ موجود ہے۔ اس کا ایک سبب جو خاص طور پر مطلوب الحسن صاحب نے بھی بیان کیا وہ یہ تھا کہ ’’یہ قراردادِ پاکستان جس وقت منظور ہوئی تھی یہ ضرور ہے کہ ایک بنگالی مولوی فضل الحق نے اسے پیش کیا تھا، لیکن اس قراردادِ پاکستان میں جو علاقے دیئے گئے تھے ان میں بنگال نہیں تھا‘‘۔ تو اس کا مطلب یہ کہ قراردادِ پاکستان سقوطِ مشرقی پاکستان سے متاثر نہیں ہوئی، وہ اب بھی موجود ہے۔ اس حوالے سے انہوں نے اپنے انٹرویو میں اظہار خیال فرمایا۔ اور میں بھی اس حوالے سے ہر لحاظ سے مطمئن ہوں کہ یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔
اور یہ جو بات کہی جاتی ہے کہ ’’پاکستان کا مطلب کیا، لااِلٰہ الاللہ‘‘ یہ نعرہ تحریک پاکستان کے دوران آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے کبھی بھی نہیں لگا تھا۔ ایک بات سمجھ لیں کہ تحریک پاکستان میں وہی کچھ ہوا جو آل انڈیا مسلم لیگ چاہتی تھی۔ مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے جو بات ہوئی وہ اپنی جگہ پر تحریک پاکستان کا حصہ ہے، اور جو اس کے پلیٹ فارم سے ہٹ کر ہوئی وہ عوامی جذبات تو ہوسکتے ہیں لیکن اسے آپ تحریک پاکستان سے منسلک نہیں کرسکتے۔ مثال کے طور پر چودھری رحمت علی جو کہ خالقِ اسم پاکستان ہیں، انہوں نے پاکستان کا لفظ دیا، انہوں نے 1933ء میں اپنی تجویزNow or Never پیش کی لیکن وہ کبھی مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر نہیں آئے۔ 1940ء میں قائداعظم نے چودھری رحمت علی کوایک خط بھی لکھا کہ آپ مسلم لیگ میں آئیں اور مسلم لیگ کی تحریک کا حصہ بنیں، لیکن وہ نہیں آئے، جس کا نتیجہ ہے کہ آج چودھری رحمت علی خالقِ اسم پاکستان ہونے کے باوجود اس ملک میں جس کا نام انہوں نے تجویز کیا تھا، غیر معروف ہیں۔ تو یہ نعرہ کبھی مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے نہیں لگا، لیکن یہ طے شدہ بات ہے کہ آل انڈیا مسلم لیگ کے جلسوں میں ’’نعرۂ تکبیر،اللہ اکبر‘‘ اور ’’اسلام زندہ باد‘‘کا نعرہ لگا کرتا تھا۔ بھئی اگر پاکستان اسلام کے نام پر نہیں بنایا جارہا تھا تو لوگ یہ نعرہ کیوں لگارہے تھے؟ یہ تو تاریخ کی حقیقت ہے، اس کو آپ کس طرح سے جھٹلا سکتے ہیں!۔
سوال : جتنے لبرل دانشور ہیں وہ قائداعظم کی 11اگست کی ایک تقریر کا حوالہ دیتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ قائداعظم سیکولر پاکستان چاہتے تھے۔ ان کے اس دعوے کو کس طرح دیکھتے ہیں؟
خواجہ رضی حیدر: جو لوگ یہ تصور کرتے ہیں کہ پاکستان ایک سیکولر اسٹیٹ ہے اور پاکستانی سیکولر نظریات کے حامی ہیں اُن کو قائداعظم کی اتنی تقاریر میں سے جو چار سو سے بھی زیادہ ہیں جو پوری تحریک کے دوران کی گئی ہیں، واحد یہ تقریر نظر آتی ہے جس کو وہ سیکولر نظریات کا حامل قرار دیتے ہیں۔ اب یہ دیکھیے کہ اس میں بعض چیزیں ایسی کہی گئی ہیں جیسے کہ اگر اصل تقریر سامنے ہوتی تو میں آپ کو بتاتا کہ ہندو ہندو نہیں رہے گا اور مسلمان مسلمان نہیں رہے گا، مذہبی طور پر نہیں، اسٹیٹ کی بنیاد پر۔ جب اسٹیٹ کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس سے مراد ہے کہ پاکستان کی بنیاد پر ہندو بھی پاکستانی ہوگا اور مسلمان بھی پاکستانی ہوگا۔ دونوں کی قومیت ایک ہوگی۔ دونوں کو وہی سہولیات میسر ہوں گی۔ اصل میں بات یہ ہے کہ میثاقِ مدینہ جو یہود سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا، قائداعظم کی تقریر کے یہ دو پیراگراف اس کے مطابق ہیں اِس میں۔ پروفیسر شریف المجاہد جو قائداعظم پر بہت بڑے اسکالر اور بہت بڑے دانشور ہیں تحریک پاکستان اور قائداعظم کے، انہوں نے 2006ء میں ڈان میں بہت تفصیلی مضمون اس حوالے سے لکھا تھا جس میں انہوں نے یہ ثابت کیا تھا کہ یہ پیراگراف میثاقِ مدینہ کے پیراگراف کی روشنی میں کیے گئے ہیں۔ تو ایسی صورت حال میں اسے سیکولر نظریات سے جوڑنا بدترین خیانت ہے۔ اس کا تو کوئی جواب کسی نے دیا نہیں علمی سطح پر، جزوی طور پر یہ بات یہ لوگ کہتے رہتے ہیں۔ کسی چینل پر آگئے، کسی میڈیا پر آگئے،کسی اخبار میں مضمون چھپ گیا۔
سوال: اس تقریر میں ردوبدل کی باتیں بھی کی جاتی ہیں؟
خواجہ رضی حیدر: ایسا نہیں ہے۔ اس تقریر کے بارے میں ایک بات عرصۂ دراز تک کہی جاتی رہی کہ اس تقریر میں سے بعض پیراگراف نکال دیے گئے ہیں، اور یہی وجہ تھی کہ جب 1988ء میں بے نظیر پہلی بار برسرِ اقتدار آئیں، اُس وقت اُن کے حکم پر اور اُس وقت بائیں بازو کے جو دانشور تھے اُن کے مشورے سے انفارمیشن ڈپارٹمنٹ سے ایک کتاب شائع ہوئی تھی
Quaid-e-Azam Mohammad Ali Jinnah Speeches:
As Governer -General of Pakistan,1947-1948
اس میں یہ پوری تقریر موجود ہے۔ اس کتاب کا پیش لفظ بے نظیر بھٹو نے وزیراعظم کی حیثیت سے لکھا ہے اور یہ خود اسے قبول نہیں کررہے، جبکہ انہوں نے کتاب خود مرتب کی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ بددیانت ہیں اس بنیاد پر آپ نہیں سمجھ رہے، ورنہ آپ کو بھی سمجھنا چاہیے کہ یہ اوریجنل تقریرہے، اور میں اس کی گواہی دے رہا ہوں کہ یہ مستند ہے، تو آپ بھی اسے مستند کہیے۔
سوال: سیکولر قوتوں کی جانب سے اس بات پر اصرار کا کیا مقصد ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر معرض وجود میں نہیں آیا؟
خواجہ رضی حیدر: اس سوال کا جواب تو شاید وہ ہی دے سکتے ہیں کہ وہ ایسا کیوں کرتے ہیں۔ بہرحال، بہت پیچھے سے ایک حوالہ دیتا ہوں کہ پاکستان جب معرض وجود میں آیا تو اُس وقت دو قوتیں بڑی واضح تھیں: روس اور امریکہ۔ قائداعظم کے انتقال کے بعد روس نے لیاقت علی خان کو دعوت دی کہ وہ روس کا دورہ کریں، لیاقت علی خان راضی بھی ہوگئے تھے لیکن روس نے اُس وقت یہ کیا کہ جو تاریخ مقرر کی تھی یعنی 26 یا 27اگست، اُسے منسوخ کرکے 15اگست کردیا تھا، جس پر لیاقت علی خان نے منع کردیا۔ کیوں منع کیا تھا؟ اس کی ایک بہت واضح وجہ تھی (1949ء کی بات ہے یہ)، اس لیے منع کیا تھا انہوں نے کہ قائداعظم کے انتقال کے بعد پہلا یوم آزادیِ پاکستان آنے والا تھا اور وہ یہ نہیں چاہتے تھے کہ پاکستان کے یوم آزادی کے موقع پر کسی دورے پر چلے جائیں، انہیں اپنی قوم کے درمیان رہنا تھا، اس لیے انہوں نے منع کردیا تھا۔ دریں اثناء امریکہ کی دعوت آگئی، جو بعد کی تھی تو انہوں نے اسے قبول کرلیا۔ اُس وقت جو لوگ تھے جنہیں آج آپ لیفٹ کا آدمی کہتے ہیں، انہیں لیاقت علی خان کی یہ بات بہت ناگوار گزری کہ انہوں نے روس کی دعوت کو کیسے مسترد کردیا۔ اس لیے آپ اگر دیکھیں 1949ء کے بعد سے لیفٹ کی قوتیں پاکستان میں منظم ہونا شروع ہوگئیں۔ حتیٰ کہ ایک کمیونسٹ لیڈر سجاد ظہیر بھی انڈیا سے پاکستان آگئے اور یہاں پر مختلف کارروائیوں میں مصروف رہے، اور انہوں نے لیاقت علی خان کے خلاف بغاوت کا منصوبہ بنایا تھا۔ چنانچہ ان کے خلاف بغاوت کا مقدمہ اُسی زمانے میں قائم ہوا جس میں سجاد ظہیر اور دوسرے گرفتار بھی ہوئے تھے۔ تو یہ قوتیں تو پاکستان کے خلاف ہمیشہ سے مصروف رہیں۔ اب انہیں چونکہ بڑی سطح پر کسی سازش کا موقع نہیں ملتا، لہٰذا یہ الفاظ کے ذریعے سے انتشار پیدا کرنا چاہتی ہیں۔
سوال: ایک تنازع یہ بھی موجود ہے کہ پاکستان کا ترانہ’’ پاک سرزمین شادباد ‘‘سے پہلے ’’اے سرزمین پاک‘‘ تھا، کہنے والے کہتے ہیں کہ ’’پاک سرزمین شادباد ‘‘ سے پہلے بانی پاکستان کی خواہش کے مطابق ایک ہندو شاعر جگن ناتھ آزاد نے لاہور میں 9اگست 1947ء کو پاکستان کا ترانہ ’’اے سرزمین پاک‘‘ لکھا جسے قائداعظم نے منظور کیا۔ اٹھارہ ماہ تک ریڈیو پاکستان پر یہ ترانہ بجتا رہا،آخراس کی کیا تفصیلات ہیں؟
خواجہ رضی حیدر: سب بکواس ہے، کبھی ایسا نہیں ہوا، اس بات کی تردید تو خود جگن ناتھ آزاد نے بھی کردی ہے، اس موضوع پر کئی کتابیں اور مضامین بھی چھپ چکے ہیں کہ ایسا کوئی ترانہ نہیں پڑھا گیا جو جگن ناتھ آزاد کا لکھا ہوا ہو یا قائداعظم نے کبھی جگن ناتھ آزاد سے کہا ہو، یا وہ کبھی اُس سے ملے ہوں۔ایک کتاب Visitors Of Quaid azam
موجود ہے، اس میں آپ دیکھ لیجیے کہ قائداعظم سے ملاقات کرنے والوں میں جگن ناتھ موجودنہیں۔ کیا جگن ناتھ آزاد کی 1947ء میں اتنی حیثیت تھی کہ وہ قائداعظم سے مل سکتا، یا قائداعظم اس کو شناخت کرسکتے کہ یہ کوئی بہت بڑا شاعر ہے۔ ایسا نہیں ہے۔
سوال: پاکستان قائداعظم کے بعد نہ اسلامی بن سکا اور نہ جمہوری۔۔۔ یہاں تک کہ 1947 سے 1954 تک کوئی آئین بھی فراہم نہ ہو سکا۔ ایسا کیوں ہوا؟
خواجہ رضی حیدر: یہ طے شدہ بات ہے کہ قائداعظم کے انتقال اور پھر لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد سازشی عناصر نے کوئی استحکام پیدا ہونے نہیں دیا۔ دوسری ہمارے یہاں کی بیوروکریسی تھی جس نے خواجہ ناظم الدین کی حکومت ختم کی۔ وہ ایک باعمل مسلمان تھے، لیکن ان کو جتنا بدنام کیا گیا اُس کا سبب کیا تھا؟ خواجہ ناظم الدین کو بدنام نہیں کیا جارہا تھا بلکہ اصل میں اُس نظریے کو بدنام کیا جارہا تھا جس کی بنیاد پر پاکستان بنا تھا۔ خواجہ ناظم الدین تحریک پاکستان کے رہنما تھے۔ نہایت ہی شریف النفس۔۔۔ غلام محمد نے سازش کرکے انہیں ہٹایا، تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ غلام محمد یا پھر اسکندر مرزا پاکستان کا آئین بنا سکتے تھے؟ چودھری محمد علی نے 1956ء میں کوشش کی ، لیکن اس آئین کو بھی نافذ نہیں ہونے دیا گیا۔ اس کا سبب کیا تھا؟ اس کا سبب یہ تھا کہ وہ اسلامی آئین تھا۔ اس کے خلاف سازشیں کی گئیں، مظاہرے کیے گئے، مضامین لکھے گئے۔ دوسری بات یہ کہ اُس وقت بیشتر لوگ یا تو مسلم لیگی ذہن کے تھے یا سیکولر اور کمیونسٹ، جن کا پرنٹ میڈیا پر غلبہ تھا، جس کی وجہ سے کوئی ایسی بات جو پاکستان کے اسلامی آئین یا پاکستان کی نظریاتی حیثیت کے حوالے سے ہو وہ کبھی ہائی لائٹ نہیں ہوپاتی تھی۔ اُس زمانے کے اخبارات آج بھی اٹھا کر دیکھ لیجیے۔ ان کے ایڈیٹروں کے نام سوچیے، یہ وہ لوگ ہیں جو پاکستان کی نظریاتی حیثیت سے منحرف لوگ تھے۔ اور انہوں نے پاکستان کے ان خطوط کو جن پر پاکستان معرضِ وجود میں آیا تھا، کبھی ہائی لائٹ ہونے ہی نہیں دیا۔ پھر 1958ء میں مارشل لا نافذ ہوگیا اور 1962ء کا آئین قبول کرنا پڑ گیا۔ لیکن لیاقت علی خان کے زمانے میں یہ لوگ جدوجہد کرتے رہے، جیسے شبیراحمد عثمانی، مولانا سید سلیمان ندوی، ظفر احمد انصاری، مولانا عبدالحامد بدایونی، علامہ ابن حسن جارچوی تھے انہوں نے کوششیں کیں جس کے نتیجے میں 1949ء میں قرارداد مقاصد منظور ہوئی، اور یہ قرارداد مقاصد اسلامی قرارداد تھی کہ پاکستان کا جو بھی آئین بنے گا وہ اس قرارداد کی روشنی میں بنے گا۔ یہی وجہ ہے کہ قراردادِ مقاصد آج تک ان لوگوں کو ہضم نہیں ہوئی۔

حصہ