کیفے کوئٹہ کی ایک شام

564

پچھلے دنوں میری طبیعت کچھ ناساز رہی۔ ذہنی تھکاوٹ کے باعث اعصاب پر بوجھ محسوس ہورہا تھا۔ اس صورتِ حال مضمون لکھنا تو دور کی بات، قلم اٹھانا بھی محال تھا۔ اسی کیفیت میں مبتلا تھا کہ ایک دن میرے دوست نے مجھے گھر سے نکلنے کا مشورہ دیا، اس کا خیال تھا کہ گھر سے باہر کھلی فضا میں بیٹھنے سے میری اس کیفیت میں خاصی حد تک بہتری آسکتی ہے۔ بس پھر کیا تھا، دوسرے دن وہ مجھے ہمارے علاقے کی مرکزی شاہراہ کے ساتھ قائم کیفے کوئٹہ میں لے گیا، جہاں ایک گھنٹے سے زائد بیٹھنے کے بعد حیرت انگیز طور پر میں اپنی طبیعت میں خاصی خوشگوار تبدیلی محسوس کرنے لگا۔ اب بات میری سمجھ میں آچکی تھی، یعنی میں سمجھ چکا تھا کہ ذہنی تھکاوٹ اور اعصاب پر بوجھ کی وجہ میرا گھر سے باہر نہ نکلنا تھا۔ خیر، اپنی طبیعت میں بہتری محسوس کرنے کے بعد میں ہر شام اسی ہوٹل میں بیٹھنے لگا۔ حسبِ عادت ایک روز جب میں ہوٹل پہنچا تو اپنے ساتھ والی کرسی پر بیٹھے ایک نوجوان کی باتیں سننے لگا۔ وہ اپنے سامنے بیٹھے ایک ادھیڑ عمر شخص سے مخاطب تھا، اس کی باتوں سے صاف ظاہر تھا کہ وہ اس شخص سے کسی بات پر بحث کررہا تھا۔ میں بھی اس کی جانب متوجہ ہوگیا۔ وہ کہہ رہا تھا بلکہ گلہ کررہا تھا:
”عرفان صاحب کتنے افسوس کی بات ہے، کراچی والوں کو کسی صورت بھی سُکھ کا سانس لینے نہیں دیا جاتا، یہاں پارک چھوڑے اور نہ ہی کشادہ میدان۔۔۔ ہر جگہ قبضہ کرلیا گیا ہے۔ لوگ بیٹھیں تو کہاں جاکر بیٹھیں! کھلی فضا میں سانس لینا تک محال کردیا گیا ہے۔ یہ ہوٹل بچے تھے جہاں کچھ دیر کھلی فضا میں بیٹھ جایا کرتے تھے، سنا ہے کورونا کی تیسری لہر کا بہانہ بناکر انہیں بھی وقت سے پہلے بند کرنے کے احکامات جاری ہونے والے ہیں۔ ان ہوٹلوں کا شہر کی رونقیں بحال کرنے میں بڑا کردار ہے، پہلے ایسے ہوٹل کہاں تھے جو رات گئے تک کھلے رہیں! کراچی والوں کو پہلی مرتبہ صبر شکر کرکے کیفے کوئٹہ کی صورت میں وہ بیٹھکیں نصیب ہوئیں جہاں دوستوں کے ساتھ مل بیٹھ کر گپ شپ کی جاسکے۔“
”جہاں تک کورونا کی تیسری لہر کے باعث کاروبار جلد بند کرنے کا تعلق ہے، یہاں تک تو تمہاری معلومات درست ہیں۔ لیکن تمہاری یہ بات درست نہیں کہ کراچی والوں کو پہلی مرتبہ ایسے ہوٹل ملے جو رات گئے تک کھلتے ہیں۔ ایسا بالکل نہیں۔ ماضی میں بھی کراچی شہر میں چائے کے ایسے ہوٹل موجود تھے جو رات گئے تک کھلے رہتے تھے۔“
”عرفان صاحب! جو گہما گہمی کیفے کوئٹہ نامی چائے کے ہوٹلوں پر ہوتی ہے، ایسی صورت حال ہم نے کہیں دیکھی نہ سنی۔۔۔ آپ نہ جانے کون سی دنیا کی بات کررہے ہیں!“
”ارے نہیں میاں ایسا نہیں ہے، تم ابھی بچے ہو، اس لیے حقیقت کو نہیں جانتے۔ جو نظر آرہا ہے اُسے ہی سچ سمجھ بیٹھے ہو۔ کوئٹہ چائے کے ہوٹل تو کل کی بات ہے، کراچی میں چائے کے ہوٹلوں پر رات گئے تک محفلیں جمانا نئی بات نہیں۔ ماضی میں اسی قسم کی بیٹھکیں ملباری اور ایرانی چائے کے ہوٹلوں پر بھی ہوا کرتی تھیں“۔
”عرفان صاحب یہ کب کی بات ہے؟ ہم نے جب سے ہوش سنبھالا، کراچی میں کوئٹہ چائے کے ہوٹل ہی دیکھے۔“
”میں نے پہلے ہی کہا ہے کہ نوجوان اس سے لاعلم ہیں۔ یہ واقعی تمہارے ہوش سنبھالنے سے پہلے کی بات ہے۔ کراچی میں ملباریوں اور ایرانیوں کے ہوٹلوں کی کہانی قیامِ پاکستان سے قبل شروع ہوتی ہے، اس کہانی سے کراچی میں سماجی زندگی کے کئی پہلوئوں اور ثقافت کی جھلک سامنے آتی ہے، ان دونوں اقسام کے ہوٹلوں نے اہلِ کراچی کو نہ صرف نئے ذائقے کا چسکا لگایا بلکہ نئے کھانے بھی متعارف کرائے جن میں انڈا گھٹالا، چلو کباب سیستانی، ماہی کباب، مسکہ بن، سبزی کا سموسہ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ اِس وقت چونکہ ہم کیفے کوئٹہ میں بیٹھے ہیں اس لیے چائے کے ہوٹلوں کے بارے میں ہی بات کرنا مناسب ہے۔ دیکھو جیسا کہ میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ کراچی میں چائے کے ہوٹلوں کی تاریخ نئی نہیں، اور نہ ہی شہریوں کا یوں رات گئے تک کچہری لگانا اچنبھے کی بات ہے۔ یہاں ملباریوں اور ایرانیوں کے ہوٹل طویل عرصے تک شہر کے سماجی اور معاشرتی منظرنامے کا اہم حصہ رہے ہیں، بلکہ ایک زمانے تک تو کراچی کا کوئی رہائشی اور کاروباری علاقہ ایسا نہیں تھا جہاں ملباریوں کے ہوٹل اور اس کے ساتھ پان سگریٹ کی دکان قائم نہ ہو، یہ اپنے وقت کے پُررونق ہوٹل کہلاتے تھے، جبکہ دوسری طرف شہر کے کاروباری، ترقی یافتہ اور دیگر اہم علاقوں میں ایرانیوں کے ہوٹل بھی ہوا کرتے تھے۔ ایسا نہیں کہ اس کاروبار سے صرف ایرانی اور ملباری ہی وابستہ تھے، بلکہ سندھیوں، بلوچوں سمیت اردو زبان بولنے والے بھی چائے کے ہوٹل چلارہے تھے، جہاں گاہکوں کو متوجہ کرنے کے لیے فلمی گانوں کے گراموفون ریکارڈ بجائے جانے کے ساتھ ساتھ وی سی آر پر انڈین اور پاکستانی فلمیں دکھانے کا سلسلہ بھی عروج پر تھا، ایسا ہی ایک ہوٹل کورنگی نمبر6 مارکیٹ میں بابو بتی والے کے نام سے مشہور تھا جسے چارپائی ہوٹل بھی کہا جاتا تھا۔ یہاں رات کے تیسرے پہر تک لوگوں کا تانتا بندھا رہتا۔ جبکہ ملباری اور ایرانی ہوٹلوں میں گراموفون بجانے اور فلمیں چلانے کا رواج نہ تھا، اس کے باوجود ان ہوٹلوں میں صبح سے رات گئے تک کھانے پینے، خاص طور پر چائے سے لطف اندوز ہونے والوں کا رش لگا رہتا تھا۔ اُس زمانے میں ایرانی اور ملباری ہوٹلوں کی چائے کا ذائقہ ایک دوسرے سے قطعی مختلف ہوتا تھا، جس شخص کو ایرانی یا ملباری ہوٹل کی چائے اور کھانے کا چسکا پڑ جاتا، وہ پھر کسی اور ہوٹل کا رخ نہیں کرتا تھا۔ اسی طرح ملباریوں کی پان شاپ سے پان کھانے والے کسی اور دکان کا پان نہیں کھایا کرتے تھے، یعنی ملباری کی چائے اور پان لازم و ملزوم سمجھے جاتے۔ ہاں ملباری اور ایرانی ہوٹلوں میں ایک قدر ضرور مشترک تھی کہ ان دونوں کے ہوٹلوں کی دیواروں پر ”یہاں سیاسی گفتگو کرنا منع ہے“، ”فالتو بیٹھ کر اپنا قیمتی وقت ضائع نہ کریں“، اور ”نشے کی حالت میں ہوٹل میں داخل نہ ہوں“ جیسی ہدایات ضرور تحریر ہوا کرتی تھیں، یہ الگ بات کہ اتنا کچھ لکھا ہونے کے باوجود گاہک نہ صرف سیاسی گفتگو کیا کرتے بلکہ خاصی دیر تک بیٹھک بھی لگایا کرتے تھے۔ یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ اُس وقت ملباریوں کے ہوٹلوں کے مقابلے میں ایرانیوں کے ہاں فیملی روم بھی ہوتے تھے۔“
”عرفان صاحب! کوئٹہ چائے کے ہوٹلوں کے مقابلے میں جن ہوٹلوں کا ذکر آپ نے کیا، اگر یہ سچ ہے تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ ہوٹل اتنے ہی کامیاب تھے تو آج کہاں ہیں؟ اور پھر سب سے اہم بات تو یہ کہ اپنا چلتا ہوا کاروبار چھوڑ کر کون جاتا ہے؟جبکہ کراچی کی مصروف ترین شاہراہوں، محلوں، یہاں تک کہ گلی کے نکڑ پر بھی کوئٹہ چائے کے ہوٹل دیکھے جاسکتے ہیں۔“
”تمہارا پوچھنا بجا ہے، بڑی سیدھی سی بات ہے ہر شخص آگے بڑھنے کا خواہش مند ہوتا ہے، یہ اس کا حق ہے کہ وہ معاشی بہتری کے لیے نئی راہیں تلاش کرے۔ بس یہی کچھ اُس وقت ہوا۔ اُس زمانے میں حکومتی پالیسیوں اور حکمت عملی کے باعث مشرقِ وسطیٰ کے ممالک میں پاکستانی ہنرمندوں، محنت کشوں اور تعلیم یافتہ افراد کے لیے ملازمت کے مواقع میسر آنے لگے، اور جوق در جوق پاکستانی ملازمت کے حصول کے لیے مشرق وسطیٰ کے ممالک میں جانے لگے، اس موقع سے ملباریوں نے بھی بھرپور فائدہ اٹھایا، اور وہ پاکستان سے اپنا چائے کا کاروبار سمیٹنے لگے، یوں کراچی میں ملباریوں کے ہوٹل اور پان کی دکانیں بند ہونے لگیں، جبکہ ایرانیوں نے اپنے کاروبار کو کراچی کے اولڈ سٹی ایریا تک اس لیے محدود رکھا کہ 1980ء کی دہائی کے مارشل لا دور میں مذہبی شدت پسندی کو خاصی ہوا دی گئی، جس کے نتیجے میں پورے ملک خصوصاً کراچی کے حالات خراب ہونے لگے۔ فقہی اختلافات کے باعث متعدد افراد قتل کیے گئے۔ یہ تمام حقائق تمہارے بڑے خوب جانتے ہوں گے۔
خیر جو ہوا سو ہوا، وقت گزر گیا اب لکیر پیٹنے سے کیا حاصل! اُس زمانے میں صرف صدر کے اطراف میں ہی چار ایرانی ریسٹورنٹ ہوا کرتے تھے جن میں سے ایک فریڈرک کیفے ٹیریا تھا جہاں لوگ یار دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر مختلف امور پر منصوبہ بندی کیا کرتے، جبکہ سابق وکٹوریہ روڈ اور موجودہ عبداللہ ہارون روڈ اور فریئر روڈ موجودہ شاہراہ لیاقت کے انٹرسیکشن پر کیفے جارج مشہور ایرانی ہوٹل تھا، اسی طرح ایسٹرن کافی ہائوس بھی ایک ایرانی ہوٹل تھا جو شاعروں،ادیبوں،طالب علم رہنمائوں اور ترقی پسند ٹریڈ یونین رہنمائوں کے بیٹھنے کا مرکز تھا۔زیب النساء اسٹریٹ پر بھی ایک ایرانی ہوٹل کیفے پرشین کے نام سے مشہور تھا،اس کے ساتھ پرشین بیکری بھی ہوا کرتی تھی۔آئی آئی چندریگر روڈ پر واقع خیر آباد ٹی شاپ بھی کراچی کا قدیم ایرانی ہوٹل ہے،جو اب بھی قائم ہے۔ اگر تم چاہو تو جاکر خود بھی دیکھ سکتے ہو، یہ قیامِ پاکستان سے قبل قائم ہوا تھا، یہاں بھی ادبی نشستیں ہوا کرتی تھیں۔ اسی طرح سابقہ وکٹوریہ روڈ پر بھی ایک ایرانی ہوٹل میٹروپول کے بالمقابل کیفے وکٹوریہ کے نام سے مشہور تھا، اس ہوٹل کی چائے اور کھانے بالخصوص ماہی کباب اپنے منفرد ذائقے کی وجہ سے گاہکوں میں مشہور تھے۔ اس کے علاؤہ ایک اور ہوٹل صدر ہی کے علاقے لکی اسٹار کے قریب کیفے سبحانی ہے جو آج کل چلوکباب سیستانی کے نام سے زیادہ مشہور ہے، یہ بھی کسی وقت ایرانی ہوٹل ہوا کرتا تھا۔ ان تمام ہوٹلوں میں رات گئے تک ادبی اور سیاسی سرگرمیاں اپنے عروج پر ہوا کرتی تھیں۔ ماضی کے یہ تمام قصے سنانے کا واحد مقصد تمہیں یہ باور کرانا ہے کہ کراچی والوں کا مزاج ہمیشہ سے ہی یہی رہا ہے۔ یہاں چائے کے ہوٹلوں میں محفلیں جمانا نیا نہیں، اس لیے اسے کسی بھی کوئٹہ ہوٹل سے جوڑنا مناسب نہیں۔“
٭…٭
عرفان صاحب اور اُن کے ساتھ بیٹھے نوجوان کی باتیں سن کر کہا جاسکتا ہے کہ کوئٹہ ہوٹل ہو، یا ماضی کے ملباری اور ایرانی ہوٹل۔۔۔ شام ڈھلتے ہی ان ہوٹلوں پر اپنے ہم خیال دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر گپ شپ لگانا کراچی والوں کی روایت ہے۔ میرے نزدیک اس قسم کی سرگرمیاں نہ صرف انسان کی ذہنی صلاحیت کو بڑھاتی ہیں بلکہ معاشرے میں بڑھتی ہوئی گھٹن سے نبردآزما ہونے کا سلیقہ بھی سکھاتی ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ یہ پریشان حال دوستوں کی مدد کا بہترین ذریعہ بھی ہیں تو غلط نہ ہوگا۔ ظاہر ہے جس محفل میں چار دوست اکٹھے ہوتے ہوں وہاں عام گفتگو کے ساتھ ساتھ معاشی، معاشرتی، سیاسی امور سمیت ذاتی اور گھریلو مسائل پر بھی بات ہوگی، جس کے نتیجے میں مالی طور پر کمزور اور پریشان حال لوگوں کی مدد کے جذبے کا ابھرنا فطری عمل ہے۔

حصہ