معاشرے کے عروج و زوال میں قلم کاروں کا اہم کردار ہے، نورالہدیٰ سید

262

معاشرے کو سنوارنے اور بگاڑنے میں مختلف عوامل کار فرما ہوتے ہیں تاہم قلم کار بھی معاشرے کے عروج و زوال میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ قلم کار بہت حساس ہوتے ہیں وہ اپنے زمانےحالات پر گہری نظر رکھتے ہیں اور عوام الناس کو بتاتے ہیں کہ معاشرے کی بھلائی کے لیے کن اقدامات کی ضرورت ہے‘ ان خیالات کا ظہار معروف ادیب اور فکشن رائٹر نورالہدیٰ سید نے ادارۂ پاسبان دبستان ادب کراچی کے مشاعرے میں کیا‘ وہ اس تقریب کے مہمان خصوصی تھے۔ میزبانِ تقریب الحاج نجمی نے خطبۂ استقبالیہ میں کہا کہ ان کی تنظیم اردو زبان و ادب کی ترقی کے لیے کوشاں ہے وہ ہر ماہ ایک ادبی پروگرام ترتیب دیتے ہیں جس میں ہم کراچی کے بہت اہم لوگوں میں سے کچھ لوگوں کو بلاتے ہیں وہ اقبال رضوی کے بھی شکر گزار ہیں کہ ہم ان کے گھر پر مشاعرے منعقد کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ شاعری میں ہر زمانے کے مسائل لکھے جاتے رہے ہیں تاہم ایک وقت تھا کہ جب غزل میں گل و بلبل اور غمِ جاناں کا تذکرہ لازمی ہوتا تھا اب صورت حال یہ ہے کہ غزل کے روایتی مضامین کی جگہ جدید استعارے اور جدید لفظیات ہماری شاعری میںشامل ہو گئے ہیں اب ہر قسم کے مسائل و حالاتِ زندگی پر بات کی جارہی ہے یہ ایک خوش آئندقدم ہے۔ امید ہے کہ غزل کی ترقی جاری رہے گی۔ مشاعرے میں راقم الحروف نثار احمد‘ ابن عظیم فاطمی‘ احمد سعید خان‘ نورالدین نور‘ آسی سلطانی‘ ریحانہ احسان اور ادارہ پاسبانِ ادب کے بانی و چیئرمین الحاج نجمی نے اپنا کلام پیش کیا۔ ابرار احمد بختیار‘ فہیم برنی‘ ڈاکٹر احسان‘ احمد عبداللہ‘ نفیس احمد خان‘ فاروق عرشی اور اقبال رضوی اس مشاعرے میں سامعین تھے۔ اختتام مشاعرے پر پاکستان کی سلامتی اور مرحوم قلم کاروں کے ایصال ثواب پہنچانے کے لیے دعا کی گئی۔

سومرو سفاری پارک لاڑکانہ میں مشاعرہ

گزشتہ ہفتے سومرو سفاری پارک لاڑکانہ میں مشاعرہ ہوا جس کی صدارت قمر وارثی نے کی۔ محمد رمضان جونیجو مہمان خصوصی اور ڈاکٹر جاوید حسین شاہ مہمان اعزازی تھے۔ نظامت کے فرائض اقبال خاور نے ادا کیے۔ اس مشاعرے کے میزبان فہیم سومرو تھے جنہوں نے تمام شعرا اور مہمانان کو اجرک اور سندھی ٹوپی کے تحائف سے نوازا۔ کراچی کے رہائشی ڈاکٹر بشیر حسین آرائیں اس پروگرام کے آرگنائزر تھے جب کہ شعرائے کرام کو مشاعرے کی دعوت اقبال خاور نے دی تھی۔ 27 فروری 2021ء کی صبح 9 بجے سہراب گوٹھ کراچی سے شعرائے کرام کا قافلہ لاڑکانہ کے لیے روانہ ہوا۔ 6 بجے شام لاڑکانہ پہنچنے 9 بجے مشاعرے کا آغاز ہوا جس میں قمر وارثی‘ رمضان جونیجو‘ نسیم نازش‘ اقبال خاور‘ ڈاکٹر آفتاب مضطر‘ خالد معین‘ اجمل سراج‘ سعید آغا‘ مرشد سعید ناصر‘ راقم الحروف نثار احمد نثار‘ کامران نفیس‘ اندرو نگہ رائی‘ عتیق الرحمن‘ بشیر احمد موج‘ عزیز نواز‘ سید طاہر‘ مرزا عاصی اختر‘ رضوانہ سعید روز‘ شاہدہ عروج‘ گل افشاں‘ خالد دانش اور یاسر منگی نے اپنا کلام نذر سامعین کیا۔ فہیم سومرو نے خطبہ استقبالیہ میں کہا کہ انہوں نے عوام کی تفریح طبع کے لیے سومرو سفاری پارک قائم کیا ہے میرا مقصد مال کمانا نہیں ہے اس پارک میں عوام کی دل چسپی کا سامان موجود ہے جس میں کشتی رانی‘ بچوں کے جھولے اور مختلف جانور پنجروں میں بند ہیں۔ میری خواہش تھی کہ میں یہاں مشاعرہ کروائوں جس کے لیے ڈاکٹر بشیر آرائیں اور اقبال خاور نے مجھ سے تعاون کیا اور آج ہم یہاں ایک شان دار پروگرام ترتیب دینے میں کامیاب ہوئے۔ مشاعرے کا پنڈال بھرا ہو اہے اور ہر اچھے شعر پر داد مل رہی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ لاڑکانہ میں بھی شعر فہم لوگ موجود ہیں انہوں نے مزید کہا کہ وہ بہت جلد گیت سنگیت پروگرام منعقد کریں گے اور اس پارک میں لائبریری کا قیام عمل میں آئے گا جس کے لیے سلطان احمد نے ہمیں کتابیں فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے اور آج بھی انہوں نے کثیر تعداد میں کتب فراہم کی ہیں۔ ڈاکٹر بشیر حسین آرائیں نے کہا کہ وہ فہیم سومرو کے ممنون و شکر گزار ہیں کہ انہوں نے کراچی کے کچھ شعرا کے لیے مشاعرے کا اہتمام کیا ہمیں موہن جوداڑو کی سیر کرائی جہاں ہم نے اس شہر کے آثار قدیمہ دیکھے جو کہ اپنے وقت میں بہت ترقی یافتہ شہر تھا موہن جو داڑو پر تحقیقی کام جاری ہے تاہم یہاں سے ملنے والی بہت سی اشیا موہن جو داڑو کے میوزیم میں محفوظ ہیں جن کو دیکھ کر ہم نے بہت کچھ سیکھا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ فہیم سومرو کے ساتھ ہیں ہم ان کی لائبریری اور گیت سنگیت پروگرام میں ان کی بھرپور مدد کریں گے۔ اقبال خاور نے کہا کہ وہ تمام شعرا کی شکر گزار ہیں کہ وہ لوگ میری دعوت پر لاڑکانہ آئے اور کلام پیش کیا اس کے ساتھ ساتھ وہ لاڑکانہ کے شہریوں کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انہوں نے بڑی دل جمعی سے شعرائے کرام کو سماعت کیا اور داد و تحسین سے نوازا۔ اس مشاعرے میں کراچی کی جن ادب نواز شخصیات نے شرکت کی ان میں نذیر متین‘ اسد کریم‘ خالد دانش‘ ڈاکٹر ٹیپو قیوم‘ ارشد حسین زیدی‘ محمد ریاض بھٹی‘ میر سلطان خلیل‘ نفیس غوری‘ سلمیٰ خانم‘ محمد حسنین‘ عبدالرزاق‘ ساجد علی‘ شوکت علی اور کوثر رضوی شامل تھے۔

دبستان کراچی کی شاعری قابل ستائش ہے، تسنیم عابدی

کراچی محبت کرنے والوں کا شہر ہے‘ یہ شہر پاکستان کادل ہے‘ یہاں زندگی کے تمام شعبوں کے لوگ رہتے ہیں‘ مختلف قبائل آباد ہیں۔ تقسیم ہند کے بعد پاکستان میں دبستانِ پنجاب اور دبستانِ کراچی عالم وجود میں آئے یہ دونوں ادارے اردو زبان و ادب کی خدمت کر رہے ہیں۔ کراچی کے شعرا کی شاعری میں آپ کو بہت سے مضامین نظر آتے ہیں یہاں بہت اچھی شاعری ہو رہی ہے۔ ان خیالات کا اظہار امریکا میں مقیم پاکستانی نژاد شاعرہ تسنیم عابدی نے ظہور الاسلام جاوید کی رہائش گاہ پر منعقدہ مشاعرے میں کیا۔ یہ مشاعرہ ان کے اعزاز میں ترتیب دیا گیا تھا جس کی صدارت اختر سعیدی نے کی۔ راشد نور نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ تسنیم عابدی نے مزید کہا کہ انہوں نے جب لکھنا شروع کیا ہے تب سے وہ ظہورالاسلام جاوید کو سماعت کر رہی ہیں کہ انہوں نے ابوظہبی میں عظیم الشان مشاعرے کرائے ہیں اور مجھے بھی ان میں شرکت کا موقع ملا ہے‘ ان دنوں میں کراچی میں ہوں اور آج کے سامنے اپنے اشعار پیش کیے آپ تمام کا بہت شکریہ کہ آپ نے مجھے عزت بخشی۔ صاحب صدر نے کہا کہ ظہور الاسلام جاوید ایک قادرالکلام شاعر ہونے کے علاوہ عالمی مشاعروں کے آرگنائزر کی صف میں شامل ہیں انہوں نے عرب امارات میں متعدد قابل ستائش پروگرام تریب دیے ہیں اب آپ کراچی میں ایک عالمی مشاعرہ کرانے کی تیاری کر رہے ہیں امید ہے کہ کورونا سے مکمل نجات کے بعد یہ پروگرام ہو سکے گا۔ میزبان مشاعرہ ظہور الاسلام جاوید نے کہا کہ وہ اردو زبان و ادب کے خدمت گزر ہیں انہوں نے ہمیشہ شعر و سخن کی ترقی کے لیے کام کیا ہے میرے ساتھ بہت اچھی ٹیم ہے جن کی مدد سے میں نے ابوظہبی اور دبئی سے کئی پروگرام کیے جس میں کراچی کے شعرا بھی شریک ہوتے رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج کی مہمان خصوصی ایک اچھی شاعرہ ہیں ان کا لب و لہجہ دوسرے ہم عصر شعرا سے مختلف ہیں یہ بہت سوچ سمجھ کر شعر کہتی ہیں ان کی مہربانی ہے کہ انہوں نے میری دعوت قبول کی اور میرے گھر تشریف لائیں‘ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں مزید عزت و شہرت عطا فرمائے۔ مشاعرے میں اختر سعیدی‘ تسنیم عابدی‘ ظہورالاسلام جاوید‘ راشد نور‘ احمد سلمان سید آصف رضا‘ فیاض علی فیاض‘ راقم الحروف نثار احمد نثار‘ احمد سعید خان اور وجیہ ثانی نے کلام پیش کیا۔ مشاعرے میں پروفیسر ڈاکٹر اوجِ کمال‘ اویس ادیب انصاری اور شگفتہ فرحت بطور سامعین شریک تھے۔

حصہ