کچھ اخلاق کے بارے میں

641

سرسید نے جب رسالہ ’’تہذیب اُلاخلاق‘‘ نکالا‘ اُس وقت یورپ میں یہ خیال عام ہو گیا تھا کہ مذہب یا تو ایک غیر ضروری چیز ہے یا زیادہ سے زیادہ اس کا مقصد انسانی اخلاق کو درست کرنا ہے۔ یہ نقطۂ نظر پھیلایا تو لا مذہب لوگوں کی طرف سے گیا تھا لیکن بعد میں اسے مذہب والوں نے بھی قبول کر لیا اور مذہب میں اوّلین اہمیت اخلاقیات کو دینے لگے۔ سرسید اور اُن کے ساتھیوں کے ذریعے جو نئے مذہبی خیالات ہمارے یہاں رائج ہوئے ان کا مرکزی خیال بھی یہی تھا کہ مذہب کا مقصود و منتہا اخلاقی اعتبار سے اچھے لوگ پیدا کرنا ہے۔ اس سے مذہب کو جو ضعف پہنچا وہ تو اسی بات سے ظاہر ہے کہ عقائد اور عبادات جن کی اہمیت مذہبی نقطۂ نظر سے پہلے اور دوسرے درجے کی ہے‘ اخلاقیات کے مقابلے پر ثانوی بن گئے اور اچھے خاصے لوگ پوچھنے لگے کہ جب ہم اخلاقیات پر عمل کرتے ہیں تو عبادات مثلاً روزہ‘ نماز کی کیا ضرورت ہے یا اس بات کی کیا اہمیت ہے کہ ہم قیامت یا حشر و نشر کو مانتے ہیں یا نہیں؟ لیکن دراصل دنیاوی نقطۂ نظر سے بھی پوری زندگی کو اخلاقی نقطۂ نظر سے دیکھنا ممکن نہیں تھا۔
انسان ایک اتنی پیچیدہ اور گہری حقیقت ہے کہ اسے صرف اخلاقی پیمانوں سے نہیں ناپا جاسکتا‘ چنانچہ یورپ میں جہاں یہ اخلاقی انسان پیدا ہوا تھا‘ بہت جلد اس سے بغاوت شروع ہو گئی اور انسانی فطرت کی ایسی تعبیریں کی جانے لگیں جن میں اخلاق صرف ایک سطحی اور ظاہری چیز بن کر رہ گیا۔ مثال کے طور پر نفسیات دانوں نے صاف انکار کردیا کہ انسانوں میں کوئی حاسۂ اخلاق پایا جاتا ہے۔ انہوں نے انسانی فطرت کی جو تعبیر کی اس سے معلوم ہوا کہ انسان میں بنیادی محرک عمل لذت کا حصول ہے اور یہ لذت اسے اپنی جبلتوں کی تسکین کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔ فرائیڈ نے کہا کہ بنیادی جبلتیں دو ہیں ایک تحفظِ ذات‘ دوسری تحفظِ نسل۔ انسان جو کچھ کرتا ہے انہی دو جبلتوں کی تسکین کے لیے کرتا ہے اور تسکین میں اسے لذت ملتی ہے۔ عام فہم الفاظ میں بھوک اور جنس انسان کے بنیادی محرک اعمال ہیں اور بحیثیت ایک حیاتیاتی وجود کے اسے ان جبلتوں کی تسکین کے سوا اور کسی چیز سے کوئی غرض نہیں ہے۔ لیکن انسان صرف ایک حیاتیاتی وجود نہیں ہے وہ ایک سماجی وجود بھی ہے یعنی وہ تنہا نہیں رہتا مل جل کر رہتا ہے۔ اس مل جل کر رہنے کی وجہ سے اس کے لیے ان جبلتوں کی لامحدود تسکین ممکن نہیں ہے۔ چنانچہ وہ اپنی جبلتوں کو دباتا اور ان پر چند پابندیاں عائد کرتا ہے۔ یہ پابندیاں اس کے اخلاقی اصولوں کو جنم دیتی ہیں اور ان کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ معاشرے میں مل جل کر رہنے کو ممکن بنایا جائے‘ لیکن چونکہ ان پابندیوں کی بنیاد خود اس کی فطرت میں نہیں ہوتی‘ اس لیے ان کی حیثیت صرف ایک خارجی دبائو کی ہوتی ہے۔ ظاہر میں وہ ان پر کتنا ہی عمل کرے‘ لیکن اپنے باطن میں ان سے نجات پانے کے خواب دیکھتا رہتا ہے۔ مذہب میں اخلاقیات کی بنیاد خدا کے احکام پر تھی۔ نفسیات نے اسے معاشرتی جبر میں تبدیل کر دیا اور انسانی فطرت پر ایک خارج سے عائد کردہ حقیقت بنا دیا۔ اب اس نفسیاتی حقیقت کا خلاصہ صرف یہ ہے‘ ہم ظاہری اور شعوری طور پر کتنے ہی اخلاق پرست کیوں نہ ہوں‘ لیکن باطنی اور لاشعوری طور پر ہم صرف اپنی جبلتوں کی تسکین کے جویا ہیں اور اس تسکین سے حاصل ہونے والی لذت کے سوا ہمارا حقیقی تعلق اور کسی بات سے نہیں ہے۔ ہمارے یہاں ان خیالات کے آنے میں بھی دیر نہیں لگی اور مذہب کو جو ضعف پہنچ چکا تھا اس میں مزید اضافہ ہوا کہ اخلاقیات کی بنیاد بھی منہدم ہونے لگی۔ نفسیات دانوں نے انسانی فطرت کے تصور کی بنیاد جبلتوں پر رکھی تھی۔ اس کے ساتھ ہی ایک دوسرا گروہ پیدا ہوا جس نے اس کی حیاتیاتی نوعیت کے بجائے اس کی سماجی نوعیت پر زور دینا شروع کیا۔ انہوں نے کہا کہ بنیادی بات یہ ہے کہ انسان مل جل کر رہتا ہے اور مل جل کر رہنے کی وجہ سے اپنی جبلتوں کو بدلتا رہتا ہے۔ چنانچہ اصل چیز فرد نہیں معاشرہ ہے۔
معاشرے کے اندر رہ کر ہی وہ اپنی جبلتوں کی تسکین کرتا ہے۔ بظاہر یہ ایک ایسا اختلاف تھا جس پر بہت سی نظریاتی جنگیں لڑی گئیں‘ لیکن غور سے دیکھا جائے تو اس خیال کا خلاصہ صرف اتنا تھا کہ انسان کا ہر کام سماجی مفاد کے تابع ہوتا ہے اور اس کا بنیادی محرکِ عمل وہ افادہ ہے جو اسے معاشرے سے حاصل ہو‘ چنانچہ اس سے یہ تصور پیدا ہوا کہ ہر انسان کی اخلاقیات اس کے مفاد کے تابع ہوتی ہیں۔ ہر آدمی جس چیز میں اپنا فائدہ دیکھتا ہے اسی قسم کے اخلاقی اصول بنا لیتا ہے۔ نفسیات دانوں نے اخلاقیات کو حیاتیاتی لذت اور جبلی تسکین کے تابع کر دیا تھا۔ سماجیات والوں نے اسے سماجی فائدے کے تابع کر دیا۔ پھر یہ کہا جانے لگا کہ انسان چونکہ طبقات میں تقسیم ہے‘ ا س لیے اخلاقیات بھی طبقاتی ہوتی ہے اور طبقے کے مفاد کے تابع ہوتی ہے۔ بات گھوم پھرکر وہیں پہنچ گئی کہ اخلاقیات ایک اضافی چیز ہے اور طبقاتی مفاد اور زِمانے کی تبدیلیوں کے ساتھ بدلتی رہتی ہے۔
نفسیاتی نقطۂ نظر ہو یا سماجی نقطۂ نظر‘ دونوں کا نتیجہ اخلاقی اضافیت کی صورت میں درآمد ہوتا ہے اور اخلاقی اضافیت کا تصور جوں جوں عام ہوتا جاتا ہے توں توں اخلاق غیر مؤثر اور کم زور ہو جاتا ہے۔ موجودہ صورت حال ان نظریات کے عین مطابق ہے۔ معاشرے میں اس وقت دو طبقات موجود ہیں ایک طبقہ جو تعلیم یافتہ ہونے کے باعث جدید نظریات سے واقف ہے کھلم کھلا اخلاق کو ایک جبر یا نمائش سمجھتا ہے اور اسے کوئی زیادہ اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ دوسرا طبقہ ملک کی کثیر آبادی پر مشتمل ہے۔ یہ طبقہ زبان سے کچھ کہے‘ لیکن عملاً لذت یا افادہ کے سوا اس کا کوئی اصول نہیں ہے۔ یہ نتیجہ دونوں صورتوں میں واحد ہے۔ اخلاق کی گرفت معاشرے پر باقی نہیں رہی۔ بعض لوگ اس صورت حال کو نفسیاتی یا سماجی نقطۂ نظر کا نتیجہ نہیں قرار دیتے بلکہ نفسیاتی یا سماجی نقطۂ نظر کو اس صورت کا نتیجہ بتاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انسان چونکہ لذت اور افادہ کے تحت کام کرتے ہیں‘ اس لیے نفسیاتی یا سماجی نقطۂ نظر انہیں ان کی حقیقت کے مطابق دیکھتا ہے۔ اور اسی حقیقت کی روشنی میں ان کے اعمال کی توجیہ کرتا ہے‘ بہرحال نتیجہ اور سبب کی بحث سے قطع نظر یہ بات اپنی جگہ ہے کہ معاشرہ کسی نہ کسی اخلاق کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا اور اس لیے اخلاق کے انحطاط لازمی طور پر دو نتائج پیدا کرتے ہیں۔ پہلی بات جو اخلاق کے انحطاط سے پیدا ہوتی ہے یہ ہے کہ معاشرے میں تخریب کی قوتیں سر اٹھانے لگتی ہیں اور اجتماعی زندگی فساد اور انتشار کا شکار ہو جاتی ہے۔ دوسری صورت یہ رونما ہوتی ہے کہ معاشرہ ایسے انقلاب کا خواب دیکھنے لگتا ہے جو معاشرے کو ایک ایسے نظام میں جکڑ دے جس میں انسانی آزادی کا تصور بھی محال ہو جائے۔ اخلاق کے معنی اگر اپنی مرضی سے خیر کو اختیار کرنا ہے تو نظام کا تصور صرف اتنا ہے کہ خیر کو ایک جبر کی صورت دے دی جائے اور ہر شخص کو خارجی طور پر مجبور کر دیا جائے کہ وہ معاشرے میں ایک مخصوص طرزِ عمل کے سوا کوئی اور راستہ اختیا رنہ کرسکے‘ یوں نراج اور نظام دونوں ایک ہی صورت حال کی پیداوار ہوتے ہیں اور اخلاق کی عدم موجودگی میں لازمی طور پر اپنا ظہور کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر سرمایہ داری اور اشتراکی ممالک میں نراج اور نظام کی صورت حال کو واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ سرمایہ دار ممالک اخلاقی بنیادوں سے محروم ہو کر نراج کی طرف بڑھ رہے ہیں جب کہ اشتراکی ملکوں میں نظام کے نام پر ساری انسانی آزادیوں کا خاتمہ کر دیا گیا ہے۔ پاکستان میں بھی ہم ان دونوں خطرات سے دوچار ہیں۔ ایک طرف معاشرے کی مایوسی اسے ایک ایسی منزل کی طرف لے جارہی ہے کہ جہاں تخریب اور انتشار کی قوتیں بے لگام ہو جاتی ہیںاور دوسری طرف ہم ایک ایسے جارحانہ نظام کی باتیں کرتے ہیں جو طاقت کے زور پر لوگوں کو ٹھیک کردے۔ لوگ اپنے شعور کی انتہائی گہرائیوں میں محسوس کرتے ہیں کہ جب تک ایک سخت گیر نظام قائم نہیں کر دیا جائے گا جو لوگوں کو صحیح عمل پر مجبور کر دے‘ اُس وقت تک معاشرہ درست نہیں ہوگا۔ اس صورت حال میں ہمارے سامنے صرف تین راستے ہیں:۔
-1 یا تو ہم خود ٹھیک ہو جائیں جس کے معنی یہ ہیں کہ ہمارا اخلاق درست ہو جائے۔
-2 کوئی نظامِ قوت کے زور پر ہمیں درست کردے‘ خواہ یہ اسلامی انقلاب ہو۔
-3 اور تیسری صورت یہ ہے کہ ہم کسی طرح درست نہ ہوں اور تخریب کا شکار ہو جائیں۔
تیسری صورت حال تو لازمی طور پر کھلی ہوئی تباہی کا راستہ ہے‘ اس لیے کوئی شخص بہ قائمی ہوش و حواس اسے قبول نہیں کرسکتا‘ لیکن بہت سے لوگ دوسری صورت حال کو قابل عمل اور درست سمجھتے ہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ معاشرے کو اب صرف اسلامی نظام کے ذریعے ہی درست کیا جاسکتاس ہے۔
لیکن نظام کے بارے میں ہمیں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ نظام خواہ وہ کوئی بھی ہو ہمیشہ ایک خارجی چیز ہوتا ہے‘ وہ انسانوں کے اندر سے نہیں ہو سکتا بلکہ خارج سے انسانوں پر عائد کیا جاتا ہے اس لیے اس کی نوعیت ہمیشہ ایک سی ہوتی اور باہر سے انسانوں میں کوئی گہری اور پائیدار تبدیلی نہیں پیدا کی جاسکتی ہے۔ مطلب یہ کہ انسانوں کی حقیقی نجات صرف اخلاق کی بحالی کے ذریعے ممکن ہے۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ ہر فرد اپنی مرضی سے خیر اور اچھائی کے راستے کو قبول کرے اور ایسے اصولوں کو اپنا رہنما بنائے جن کے بغیر معاشرہ اپنے آپ کو برقرار نہیں رکھ سکتا۔ اخلاق ظاہر ہے کہ نہ لذت کے اصول پر قائم ہو سکتا نہ افادہ کے اصول پر۔ اسے ان دونوں سے بلند ہونا چاہیے‘ کیوں کہ ان سے بلند ہو کر ہی وہ دائمی اور سب کے لیے یکساں ہو سکتا ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ انسانوں کی موجودہ صورت حال کو دیکھنے ہی سے کیا اس اخلاق کی بحالی ممکن ہے؟ زیادہ صاف لفظوں میں ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا ہم اپنے مذہبی اخلاق پر عمل کر سکتے ہیں؟

حصہ