رزق کے میدان اور بھی ہیں

247

علم۔۔۔ حصولِ روزگار کا ذریعہ یا کردار سازی کا عمل

بچپن میں جب بھی کوئی پوچھتا کہ بڑے ہوکر کیا بنوگی؟ تو ہم ایک رٹا رٹایا جملہ ارشاد فرما دیتے تھے کہ ڈاکٹر بنیں گے۔ کیوں کہ زباں زدِ عام سے ہمیشہ سب کو مستقبل سے متعلق ایسی ہی پیشن گوئیاں کرتے سنا تھا۔ جبکہ ڈاکٹر کے متعلق معلومات خود اپنی اتنی مخدوش تھیں کہ نظم ’’آدمی نامہ‘‘ کی طرح چھوٹی سی نظم ’’ڈاکٹر نامہ‘‘ تیار ہوسکتی تھی۔
اس ڈاکٹرنامے کے مطابق کمپاؤنڈر، انجکشن لگانے والا، نرس، ٹوٹکے بتانے والا، فال نکالنے والا، نجومی، حتیٰ کہ اگر کوئی گلے میں یا ہاتھ میں اسٹیتھو اسکوپ بھی ڈالے یا پکڑے نظر آجاتا تو ہم جھٹ اُسے ’’ڈاکٹر‘‘ کے لقب سے نواز دیتے تھے۔ لب لباب یہ کہ ہمارے بچپن تک ہر کسی کی زندگی کا نصب العین اور علم کی معراج ڈاکٹر یا زیادہ سے زیادہ انجینئر بننا ہوا کرتا تھا۔ مگر گزرتے ماہ و سال اور بڑھتے ہوئے شعور اور آگہی سے جہاں یہ علم ہوا کہ ہر نظرآنے والا ڈاکٹر نہیں ہوتا، اسی طرح یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ ڈاکٹر بننا ہی زندگی کا نصب العین نہیں ہوتا۔
دنیا میں بے شمار شعبے اور بھی ہیں، اور ہر شعبۂ حیات اتنا ہی اہم ہے جتنا کہ ڈاکٹر یا انجینئر بننا اہم ہوتا ہے۔ لیکن دکھ کی بات یہ تھی کہ پورے معاشرے کو چلانے والے باقی شعبوں سے متعلق مضامین کسمپرسی اور بے توجہی کا شکار تھے۔ ان کو اہمیت دینا تو دور کی بات، اُن سے ایسا تضحیک آمیز رویہ رکھا جاتا تھا جیسے ایسے لوگوں کا شمار اشرف المخلوقات میں ہی نہیں ہوتا، اور مرے پہ سو درے یہ کہ انھیں نالائق اور کند ذہن کہہ کر علم سے ہی بدظن کردیا جاتا تھا۔ یوں جب ہم تعلیمی مدارج طے کرتے ہوئے مضمون اختیار کرنے کے لیے آگے بڑھے تو علم کا نیا مفہوم سامنے آیا کہ صرف وہ علم قابلِ عزت و توقیر ہے جو آگے جاکر بچے کے لیے بہترین و باعزت روزگار کے دروازے کھول سکے، اور وہ زیادہ سے زیادہ دنیاوی آسائشیں حاصل کرسکے۔ جب کہ ہمارے بزرگوں کے نزدیک حصولِ علم کا مقصد حصولِ خوشنودیِ رب تھا کہ رزقِ حلال کمانے کے تو اوربھی ذرائع ہیں۔ یعنی علم کی اس جدید تعریف کے مطابق سائنس کے مضامین پڑھنے والے ہی ذہین ہیں اور وہی لائقِ تحسین و محبت بھی ہیں۔
مضامین کے درمیان اس متعصبانہ یعنی امتیازی سوچ نے ایک طرف تو بچوں کے کچے ذہنوں کو اس طرح متاثر کیا کہ کچھ طلبہ و طالبات احساسِ محرومی کا شکار نظر آنے لگے، تو کچھ اپنا ذہنی تناؤ نکالنے کے لیے پڑھائی سے دور ہوگئے، اور کچھ خود کو ذہین ثابت کرنے کے چکر میں سائنس کے مضامین لے کر ہر سال ناکام ہونے کی صورت میں سال پہ سال ضائع کرتے نظر آئے۔
دوسری طرف یہ مضامین والدین کے لیے بھی اپنے بچے کی عزتِ نفس مجروح ہونے کی صورت میں ذہنی و جذباتی تناؤ کا باعث بن گئے، اور وہ بھی بچے کی فطری صلاحیتوں کو نظرانداز کرکے کبھی اسے زبردستی سائنس کے مضامین پڑھاتے، اور نہ پڑھنے کی صورت میں اس پر لعن طعن کرتے نظر آتے۔ کاش نفسیات یا سوشل سائنس پڑھی ہوتی تو بچوں کے جذبات و احساسات کو اہمیت دیتے۔
لیکن نہ والدین کو اور نہ بچوں کو کسی نے سمجھایا کہ نفسیات کے مطابق بچے میں انفرادی اور ذہنی نوعیت کے اختلافات پائے جاتے ہیں اور بہترین نتیجہ اُس وقت نکلتا ہے جب ان اختلافات اور بچوں کی دل چسپی کو دیکھتے ہوئے ان کو تعلیمی میدان میں آگے بڑھایا جائے۔ پھر نفسیات یہ بھی بتاتی ہے کہ جب ہم حوصلہ افزائی کرتے ہیں تو سیکھنے کی صلاحیت دو چند ہوجاتی ہے۔ اس لیے اگر ہم سب مضامین کو اور ان کے پڑھنے والوں کو یکساں اہمیت دیں اور ان سوشل سائنسز کے مضامین پڑھنے والوں کی حوصلہ شکنی کے بجائے حوصلہ افزائی کریں تو کوئی شک نہیں کہ ہمارا معاشرہ صحت مند ہو، کیوں کہ نہ تو ڈاکٹر بینکوں کے حساب کتاب نمٹا سکتا ہے، نہ انجینئر اسکول میں جا کر معاشرتی علوم پڑھا سکتا ہے، نہ کوئی لیکچرر بس ڈرائیو کرنا سکھا سکتا ہے، نہ الیکٹریشن نائی کی طرح حجامت کرنا سکھا سکتا ہے اور نہ ہی نائی پلمبری کے کام سکھا سکتا ہے۔
اللہ نے سب کو جداگانہ فطرت اور مختلف اندازِ فکر کے ساتھ پیدا کیا ہے، اور ہر ایک کے اندر کوئی نہ کوئی صلاحیت رکھی ہے۔ اگر وہ سائنس کے مضامین نہیں سمجھ سکتا تو ہو سکتا ہے کہ وہ سوشل ہو، بزنس مائنڈڈ ہو، اچھا مقرر ہو، بہترین مصنف ہو، بہترین مبلغ ہو، خوش الحان حافظ و قاری ہو، بڑا عالم ہو۔ یہ سب بھی تو معاشرے کی تشکیل میں اہم کردار اداکرتے ہیں، پھر وہ مضامین کیسے غیر اہم ہوسکتے ہیں جو ان کے کردار کی تشکیل کرتے ہیں!
مگر ابا کی نصیحت یاد تھی کہ علم کو روزگار حاصل کرنے کا ذریعہ نہ سمجھنا۔ رزق کا بندوبست رازق سے بہتر کوئی نہیں کر سکتا۔ علم کو کردار سنوارنے اور زندگی کو لوگوں کے لیے آسان بنانے کے لیے عمل میں لانا۔
جب اپنا مضمون پڑھا تو احساس ہوا کہ جتنا کچھ عمرانیات کے مفکر کہہ رہے تھے اس سے کہیں زیادہ خوب صورت حسنِ معاشرت نبی آخرالزماں محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سو سال پہلے ہمیں عطا فرمائی تھی، جسے ہم نے پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش بھی نہیں کی۔ اور کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ اگر ہم معاشرے میں رہنے کے لیے بہترین طریقے نہیں اپنائیں گے توکیسے ایک فعال اور صحت مند معاشرہ تشکیل پائے گا؟اور کیا وہ طریقے جنھیں ہمارا مذہب اخلاقیات کے نام سے متعارف کراتا ہے، ہم جانتے ہیں جس سے کہ ایک صحت مند معاشرہ تشکیل پاتا ہے؟ اور کیا ہم صحت مند معاشرہ بنائے بغیر ڈاکٹر یا انجینئر یا کوئی بھی اعلیٰ عہدے دار بنا سکتے ہیں؟ اپنے موجودہ معاشرے کا جائزہ لے لیں۔ ہمارا معاشرہ اسی اخلاقی انحطاط کا شکار ہوچکا ہے۔ جہاں ڈاکٹرز، انجینئرز، ایم بی اے، بی بی اے اور بڑے بڑے بزنس کرنے والوں کی بہتات ہے، لیکن ایک سچا اوراچھا انسان مشکل سے ملتا ہے، اور اگر بالفرض ملتا بھی ہے تو ہم اسے دیوار سے لگانے میں قطعاً عار محسوس نہیں کرتے۔
ہم بحیثیت مسلمان اور بحیثیت قوم اپنا فرضِ منصبی کہاں تک نبھا رہے ہیں؟کیا یہ بداخلاقیاں معاشرے میں احساسِ محرومی پیدا نہیں کریں گی؟ کیا وہ علوم جن کو غیر اہم بنادیا گیا ہے، اُن کا حاصل کرنا اوّلین ترجیح نہیں ہونا چاہیے؟ کیا ہمیں گندگی اور کوڑا پھیلانے کا حکم دیا گیا ہے؟ کیا ہم کو لوگوں کی برائیاں کرنے کا حکم دیا گیا ہے؟ کیا ہمیں جھوٹ بول کر اپنا کالر سفید رکھنے کا حکم دیا گیا ہے؟ کیا ہمیں اپنے سے کم رتبے والوں کی حق تلفی کرکے اپنے رتبے بلند کرنے کا حکم دیا گیا ہے؟ کیا ہمیں دوسرے کی غلطی پر اُسے سرِ عام بے عزت کرنے کا حکم دیا گیا ہے؟ کیا ہمیں رشوت دے کر مال و دولت، جاہ و منصب حاصل کرنے کا حکم دیا گیا ہے؟ کیایہ معاشرتی نا انصافیاں اور محرومیاں جرائم کو جنم نہیں دیں گی؟ اور کیا مجرم معاشرہ کسی بھی سطح پر قابلِ تعریف ہو سکتا ہے؟ کیا سوشیالوجی، ہسٹری، اسلامک اسٹڈیز، سائیکالوجی اور سوشل سائنسز کے سارے مضامین جنہیں جنرل گروپ کا ٹیگ لگا کر راندۂ درگاہ کیا ہوا ہے، وہ مضامین نہیں جن کو اوّلین ترجیح پر رکھا جائے؟ کیا یہ پریکٹیکل یعنی عملی مضامین نہیں کہ جن پر عمل کیا جائے؟
در حقیقت یہ وہ مضامین ہیں جن کو ترقی یافتہ ملکوں نے عملی طور پر اپنا کر خود کو ترقی یافتہ بنایا، اور ہم سائنس کو پکڑنے کی دوڑ میں اپنی مذہبی تعلیمات، معاشرتی اقدار بھلائے بیٹھے ہیں۔ معاشرے کی متناسب ترقی کے لیے بلا امتیاز سب مضامین اور ان کے پڑھنے والوں کی حوصلہ افزائی کریں۔ انہیں اہمیت دیں تاکہ معاشرے میں توازن پیدا ہو، اور معاشرہ خودبخود عدم توازن و عدم اطمینان کے ماحول سے نکل سکے۔

حصہ