قسط (21)۔
اصلاح کی عملی صورت
اب ہمیں اس سوال پر بحث کرنی ہے کہ فی الواقع سود کوساقط کرکے ایک ایسا نظامِ مالیات قائم کیا جاسکتا ہے جو موجودہ زمانے میں ایک ترقی پذیر معاشرے اور ریاست کی ضروریات کے لیے کافی ہو۔
چند غلط فہمیاں
اس سوال پر گفتگو شروع کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ بعض ایسی غلط فہمیوں کو صاف کر دیا جائے جو نہ صرف اس معاملے میں‘ بلکہ عملی اصلاح کے ہر معاملے میں لوگوں کے ذہنوں کو الجھایا کرتی ہیں۔
سب سے پہلی غلط فہمی تو وہی ہے جس کی بنا پر مذکورہ بالا سوال پیدا ہوا ہے۔ پچھلے صفحات میں عقلی حیثیت سے بھی یہ ثابت کیا جا چکا ہے کہ سود ایک
غلط چیز ہے اور عقلی حیثیت سے بھی اس کا ثبوت پیش کر دیا گیا ہے کہ خدا اور اس کے رسولؐ نے ہر قسم کے سود کو حرام کیا ہے۔ یہ دونوں باتیں اگر مان لی جائیں تو اس کے بعد لوگوں کا پوچھنا کہ ’’کیا اس کے بغیر کام چل بھی سکتا ہے؟ اور کیا یہ قابل عمل بھی ہے؟‘‘ دوسرے الفاظ میں یہ کہنا ہے کہ خدا کی اس خدائی میں کوئی غلطی ناگزیر بھی ہے اور کوئی راستی ناقابلِ عمل بھی پائی جاتی ہے۔ یہ دراصل فطرت اور اس کے نظام کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم ایک ایسے فاسد نظامِ کائنات میں سانس لے رہے ہیں جس میں ہماری بعض حقیقی ضرورتیں غلطیوں اور بدکاریوں سے وابستہ کر دی گئی ہیں اور بعض بھلائیوں کے دروازے جان بوجھ کر ہم پر بند کر دیے گئے ہیں یا اس سے بھی گزر کر یہ یہ بات ہمیں اس نتیجے پر پہنچاتی ہے کہ فطرت خود اس قدر ٹیڑھی واقع ہوئی ہے کہ جو کچھ اس کے اپنے قوانین کی رُو سے غلط ہے وہی اس کے نظام میں مفید‘ ضروری اور قابل عمل ہے اور جو کچھ اس کے قوانین کی رو سے صحیح ہے وہی اس کے نظام میں غیر مفید اور ناقابل عمل ہے۔
کیا واقعی ہماری عقل اور ہمارے علوم اور ہمارے تاریخی تجربات مزاج فطرت کو اسی بدگمانی کا مستحق ثابت کرتے ہیں؟ کیا یہ سوچ ہے کہ فطرت بگاڑ کی حامی اور بنائو کی دشمن ہے۔ اگر یہ بات ہے تب تو ہمیں اشیا کی صحت اور غلطی کے متعلق اپنی ساری بحثیں لپیٹ کر رکھ دینی چاہئیں اور سیدھی طرح زندگی سے استعفیٰ دے دینا چاہیے کیوںکہ اس کے بعد تو ہمارے لیے امید کی ایک کرن بھی اس دنیا میں باقی نہیں رہتی۔ لیکن اگر ہماری اور کائنات کی فطرت اس سوئے ظن کے لائق نہیں ہے تو پھر ہمیں یہ اندازِ فکر چھوڑ دینا چاہیے کہ ’’فلاں چیز ہے تو بری مگر کام اسی سے چلتا ہے۔‘‘ اور ’’فلاں چیز ہے تو بر حق مگر چلنے والی چیز نہیں ہے۔‘‘
حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں جو طریقہ بھی رواج پا جاتا ہے‘ انسانی معاملات اسی سے وابستہ ہو جاتے ہیں اور اس کو بدل کر کسی دوسرے طریقے کو رائج کرنا مشکل نظر آنے لگتا ہے۔ ہر رائج الوقت طریقے کا یہی حال ہے خواہ وہ طریقہ بجائے خود صحیح ہو یا غلط۔ دشواری جو کچھ بھی ہے تغیر میں ہے اور سہولت کی اصل وجہ رواج کے سوا کچھ نہیں۔ مگر نادان لوگ اس سے دھوکا کھا کر یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ جو غلطی رائج ہو چکی ہے انسانی معاملات بس اسی پر چل سکتے ہیں اور اس کے سوا دوسرا کوئی طریقہ قابل عمل ہی نہیں ہے۔
دوسری غلط فہمی اس معاملے میں یہ ہے کہ لوگ تغیر کی دشواری کے اصل اسباب کو نہیں سمجھتے اور خواہ مخواہ تجویز تغیر کے سر پر ناقابلِ عمل ہونے کا الزام تھونپنے لگتے ہیں۔ آپ انسانی سعی کے امکانات کا بہت ہی غلط اندازہ لگائیں گے اگر رائج الوقت نظام کے خلاف کسی تجویز کو بھی ناقابلِ عمل سمجھیں گے۔ جس دنیا میں انفرادی ملکیت کی تنسیخ اور اجتماعی ملکیت کی ترویج جیسی انتہائی انقلاب انگیز تجویز تک عمل میں لا کر دکھا دی گئی ہو‘ وہاں یہ کہنا کس قدر لغو ہے کہ سود کی تنسیخ اور زکوٰۃ کی تنظیم جیسی معتدل تجویزیں قابل عمل نہیں ہیں۔ البتہ یہ صحیح ہے کہ رائج الوقت نظام کو بدل کر کسی دوسرے نقشے پر زندگی کی تعمیر کرنا ہر عمر و زید کے بس کام کام نہیں ہے۔ یہ کام صرف وہ لوگ کر سکتے ہیں جن میں دو شرطیں پائی جاتی ہوں۔
ایک یہ کہ وہ فی الحقیقت پرانے نظام سے منحرف ہو چکے ہوں اور سچے دل سے اس تجویز پر ایمان رکھتے ہوں جس کے مطابق نظام زندگی میں تغیر کرنا پیشِ نظر ہے۔
دوسرے یہ کہ ان میں تقلیدی ذہانت پائی جاتی ہو‘ وہ محض اس واجبی سی ذہانت کے مالک نہ ہوں جو پرانے نظام کو اس کے اماموں کی طرح چلا ئے جانے کے لیے کافی ہوتی ہے‘ بلکہ اسی درجے کی ذہانت رکھتے ہوں جو پامال راہوں کو چھوڑ کر نئی راہ بنانے کے لیے درکار ہوتی ہے۔
یہ دو شرطیں جن لوگوں میں پائی جاتی ہوں وہ کمیونزم‘ نازی ازم اور فاشزم جیسے سخت انقلابی مسلکوں کی تجاویز تک عمل میں لا سکتے ہیں اور ان شرطوں کا جن میں فقدان ہو وہ اسلام کے تجویز کیے ہوئے انتہائی معتدل تغیرات کو بھی نافذ نہیں کرسکتے۔
ایک چھوٹی سی غلط فہمی اس معاملے میں اور بھی ہے۔ تعمیری تنقید اور اصلاحی تجویز کے جواب میں جب عمل کا نقشہ مانگا جاتا ہے تو کچھ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ لوگوں کے نزدیک عمل کی جگہ شاید کاغذ ہے۔ حالانکہ عمل کاغذ پر نہیں زمین پر ہوا کرتا ہے۔ کاغذ پر کرنے کا اصل کام تو صرف یہ ہے کہ دلائل اور شواہد سے نظامِ حاضر کی غلطیاں اور ان کی مضرتیں واضح کر دی جائیں اور ان کی جگہ جو اصلاحی تجویزیں ہم عمل میں لانا چاہتے ہیں ان کی معقولیت ثابت کر دی جائے۔ اس کے بعد جو مسائل عمل سے تعلق رکھتے ہیں ان کے بارے میں کاغذ پر اس سے زیادہ کچھ نہیں کیا جاسکتا کہ لوگوںکو ایک عام تصور اس امر کا دیا جائے کہ پرانے نظام کے غلط طریقوں کو کس طرح مٹایا جاسکتا ہے اور ان کی جگہ نئی تجویزیں کیونکر عمل میں لائی جاسکتی ہیں۔ رہا یہ سوال کہ اس شکست و ریخت کی تفصیلی صورت کیا ہوگی اور اس کے جزوی مراحل کیا ہوں گے اور ہر مرحلے میں پیش آنے والے مسائل کو حل کیسے کیا جائے گا‘ تو ان امور کو نہ تو کوئی شخص پیشگی جان سکتا ہے اور نہ ان کا کوئی جواب دے سکتا ہے۔ اگر آپ اس امر پر مطمئن ہو چکے ہوں کہ موجودہ نظام واقعی غلط ہے اور اصلاح کی تجویز بالکل معقول ہے تو عمل کی طرف قدم اٹھایئے اور زمامِ کار ایسے لوگوں کے ہاتھ میں دیجیے جو ایمان اور اجتہادی ذہانت رکھتے ہوں۔ پھر جو عملی مسئلہ جہاں پیدا ہوگا اسی جگہ وہ حل ہو جائے گا۔ زمین پر کرنے کا کام آخر کاغذ پر کرکے کیسے دکھایا جاسکتا ہے؟
اس توضیح کے بعد یہ کہنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی کہ اس باب میں جو کچھ ہم پیش کریں گے وہ غیر سودی اور مالیات کا کوئی تفصیلی نقشہ نہ ہوگا بلکہ اس چیز کا صرف ایک عام تصور ہوگا کہ سود کو اجتماعی مالیات سے خارج کرنے کی عملی صورت کیا ہو سکتی ہے اور وہ بڑے بڑے مسائل جو اخراجِِ سود کا خیال کرتے ہی بادی النظر میں آدمی کے سامنے آجاتے ہیں‘ کس طرح حل کیے جاسکتے ہیں۔
اصلاح کی راہ میں پہلا قدم
پچھلے ابواب میں سود کی خرابیوں پر جو تفصیلی بحث کی گئی ہے اس سے یہ بات صاف ہو چکی ہے کہ اجتماعی معیشت اور نظامِ مالیات میں یہ سب خرابیاں صرف اس وجہ سے پیدا ہوئی ہیں کہ قانون نے سود کو جائز کر رکھا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ جب ایک آدمی کے لیے سود کا دروازہ کھلا ہوا ہے تو وہ اپنے ہمسائے کو قرضِ حسن کیوں دے؟ اور ایک کاروباری آدمی کے ساتھ نفع و نقصان کی شرکت کیوں اختیار کرے؟ اور اپنی قومی ضروریات کی تکمیل کے لیے مخلصانہ اعانت کے ہاتھ کیوں بڑھائے اور کیوں نہ اپنا جمع کیا ہوا سرمایہ ساہوکار کے حوالے کر دے جس سے اس کو گھر بیٹھے ایک لگا بندھا منافع ملنے کی امید ہو؟ آپ انسانی فطرت کے برے میلانات کو ابھرنے اور کھل کھیلنے کی کھلی چھٹی دے دینے کے بعد یہ توقع نہیں رکھ سکتے کہ ترے وعظ و تلقین اور اخلاقی اپیلوں کے ذریعے ہی سے آپ ان کے نشوونما اور نقصانات کو روک سکیں گے۔ پھر یہاں تو معاملہ صرف اس حد تک بھی محدود نہیں ہے کہ آپ نے ایک برے میلان کو محض کھلی چھٹی دے رکھی ہو۔ اس سے آگے بڑھ کر آپ کا قانون تو الٹا اس کا مددگار بنا ہوا ہے اور حکومت اس برائی پر اجتماعی مالیات کے نظام کو پال /چلا رہی ہے۔ اس حالت میں آخر یہ کس طرح ممکن ہے کہ کسی قسم کی جزوی ترمیمات اور فروعی اصلاحات سے اس کی برائیوں کا سدباب اگر ہو سکتا ہے تو صرف اس طرح کہ سب سے پہلے اس دروازے کو بند کیا جائے جس سے خرابی آرہی ہے۔
جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ پہلے کوئی غیر سودی نظامِ مالیات بن کر تیار ہو لے پھر سود یا تو آپ سے آپ بند ہو جائے گا یا اسے قانوناً بند کر دیا جائے گا‘ وہ درحقیقت گھوڑے کے آگے گاڑی باندھنا چاہتے ہیں۔ جب تک سود ازوروئے قانون جاری ہے‘ جب تک عدالتیں سودی معاہدات کو تسلیم کرکے ان کو بزور نافذ کر رہی ہیں‘ جب تک ساہوکاروں کے لیے یہ دروازہ کھلا ہے کہ سود کا لالچ دے کر گھر گھر سے روپیہ اکٹھا کریں اور پھر آگے اسے سود پر چلائیں‘ اس وقت تک یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ غیر سودی نظامِ مالیات وجود میں آئے اور نشوونما پا سکے۔ لہٰذا اگر سود کی بندش اس امر پر موقوف ہے کہ پہلے ایسا کوئی مالی نظام پل کر جوان ہو لے جو موجودہ سودینظام کی جگہ لے سکتا ہو‘ تو یقین رکھیے کہ اس طرح قیامت تک سود کے بند ہونے کی نوبت نہیں آسکتی۔ یہ کام تو جب کبھی کرنا ہو اسی طرح کرنا پڑے گا کہ اوّل قدم ہی پر سود کو ازروئے قانون بند کر دیا جائے۔ پھر خودبخود غیر سودی نظامِ مالیات پیدا ہو جائے گا اور ضرورت جو ایجاد کی ماں ہے‘ آپ سے آپ اس کے لیے ہر گوشے میں بڑھنے اور پھیلنے کا راستہ بناتی چلی جائے گی۔
سود نفسِ انسانی کی جن بری صفات کا نتیجہ ہے‘ ان کی جڑیں اس قدر گہری اور ان کے تقاضے اس قدر طاقت ور ہیں کہ ادھوری کارروائیوں اور ٹھنڈی تدبیروں سے کسی معاشرے میںاس بلا کا استیصال نہیں کیا جاسکتا‘ اس غرض کے لیے تو ضروری ہے کہ وہ ساری تدبیریں عمل میں لائی جائیں جو اسلام تجویز کرتا ہے اور اسی سرگرمی کے ساتھ اس کے خلاف نبرد آزمائی کی جائے جیسی کہ اسلام چاہتا ہے۔ اسلام سودی کاروباری کی محض اخلاقی مذمت پر اکتفا نہیں کرتا‘ بلکہ ایک طرف وہ اس کو مذہبی حیثیت سے حرام قرار دے کر اس کے خلاف شدید نفرت پیدا کرتا ہے۔ دوسری طرف جہاں جہاں اسلام کا سیاسی اقتدار اور حاکمانہ اثر و نفوذ قائم ہو‘ وہاں وہ ملکی قانون کے ذریعے سے اس کو ممنوع قرار دیتا ہے‘ تمام سودی معاہدوںکو کالعدم ٹھہراتا ہے‘ سود لینے اور دینے اور اس کی دستاویز لکھنے اور اس پر گواہ بننے کو فوجداری جرم قابلِ دست اندازی پولیس قرار دیتا ہے اور اگر کوئی یہ کاروبار معمولی سزائوں سے بند نہ ہو تو ا سکے مرتکبین کو قتل اور ضبطی جائداد تک کی سزائیں دیتا ہے۔ تیسری طرف وہ زکوٰۃ کو فرض قرار دے کر اور حکومت کے ذریعے سے اس کی تحصیل و تقسیم کا انتظام کرکے ایک دوسرے نظامِ مالیات کی داغ بیل ڈال دیتا ہے اور ان سب تدبیروں کے ساتھ وہ تعلیم و تربیت اور دعوت و تبلیغ کے ذریعے سے عامۃ الناس کی اصلاح بھی کرتا ہے تاکہ ان کے نفس میں وہ صفات اور رجحانات دب جائیں جو سود خواری کے موجب ہوتے ہیں اور اس کے برعکس وہ صفات اور جذبات ان کے اندر نشوونما پائیں جن سے معاشرے میں ہمدردانہ و فیاضانہ تعاون کی روح جاری و ساری ہوسکے۔
(جاری ہے)