کچھ سامنے کے مسائل

346

اخلاقی اور سماجی برائیوں کا فکر انگیز تجزیہ

کوئی حکومت عوام کے روز مرہ مسائل مثلاً روزگار‘ تعلیم صحت و صفائی‘ اشیائے صرف کی فراہمی اور آمدورفت کی سہولتوں وغیرہ کو نظر انداز نہیں کر سکتی۔ یہ اجتماعی زندگی کے فطری مسائل ہیں اور ہر حکومت کو انہیں حل کرنے کے لیے اپنے وسائل کو کام میں لانا پڑتا ہے اور کوشش کرنی پڑتی ہے۔ موجودہ حکومت کا مقصد بھی ان مسائل کو حل کرنا ہے اور یقینا اس کے لیے بڑی کوشش‘ منصوبہ بندی اور وسائل کی فراہمی کی ضرورت ہے لیکن موجودہ حکومت کو عوام کے صرف فطری مسائل درپیش نہیں ہیں۔ ان فطری مسائل کے ساتھ کچھ غیر فطری مسائل ہیں جنہوں نے حکومت کے کام کو دو چند مشکل بنا دیا ہے۔ مثال کے طور پر ایک فطری مسئلہ جرائم کا انسداد ہے۔ ہر اچھے سے اچھے معاشرے میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو قانون پر عمل نہیں کرتے اور سماج دشمن ذہنیت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ حکومت ان کی روک تھام کے لیے پولیس اور عدالتوں سے کام لیتی ہے۔ یہ ایک فطری مسئلہ ہے لیکن اگر کسی معاشرے میں پولیس رشوت لے کر مجرموں کو چھوڑنے لگے یا اپنا حصہ وصول کرکے مجرموں کی سرپرستی کرنے لگے یا خود مجرموں کے ساتھ جرائم میں شریک ہو جائے تو یہ ایک غیر فطری مسئلہ ہے۔ پاکستان میں فطری مسائل کے ساتھ غیر فطری مسائل کی آمیزش اتنی زیادہ ہے کہ پورا معاشرہ غیر فطری مسائل کا جنگل بن گیا ہے۔ حکومت فطری مسائل کے حل کے لیے جو کچھ کرتی ہے اور کرنا چاہتی ہے‘ غیر فطری مسائل اس کی راہ میں حائل ہو جاتے ہیں اور عوام کو کبھی نہ حل ہونے والیء مشکلات میں جکڑ دیتے ہیں۔ اس صورت میں موجودہ حکومت کے سامنے سب سے پہلا مسئلہ غیر فطری مسائل کو حل کرنا ہے کیوں کہ اس کے بغیر فطری مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ اس کی ایک مثال پر غور کیجیے مثلاً عوام کا ایک مسئلہ سڑکوں کا استعمال ہے۔ حکومت کا کام ہے کہ وہ آمدورفت کی سہولتیں مہیا کرے اور سڑکیں بنوائے۔ یہ ایک فطری مسئلہ ہے۔ حکومت اس کو حل کرنے کے لیے اقدامات کرتی ہے لیکن متعلقہ عملے کے افراد پیسہ کھا جاتے ہیں اور حکومت کا پیسہ برائے نام سڑکوں پر خرچ ہو کر سارے کا سارا متعلقہ عملے کے پیٹ میں پہنچ جاتا ہے۔ یہ ایک غیر فطری مسئلہ ہے اور جب تک یہ حل نہیں ہوتا فطری مسئلے کے حل کی بھی کوئی صورت نہیں نکلے گی‘ یعنی سڑکیں نہیں بنیں گی۔ اب غیر فطری مسائل کی فہرست بنائیے تو معلوم ہوگا کہ یہ مسائل بحیثیت مجموعی وہی مسائل ہیں جنہیں ہم بدعنوانی یا کرپشن کہتے ہیں۔ رشوت‘ اسمگلنگ‘ چور بازاری‘ ذخیرہ اندوزی‘ ناجائز منافع خوری اور اسی قسم کی بے شمار قانونی اور اخلاقی برائیاں ہمارے اندر سرائیت کر گئی ہیں اور ہمارے لیے صحت مند اجتماعی زندگی ناممکن ہو گئی ہے‘ اس لیے حکومت کے سامنے دو مسائل ہیں:
-1 عوام کے روز مرہ فطری مسائل کو حل کرنا۔
-2 ان سے پہلے عوام کے غیر فطری مسائل حل کرنا۔
موجودہ حکومت کے مقاصد میں بدعنوانیوں کا خاتمہ بھی شامل ہے‘ اب ہمارے تجزیے کے مطابق غیر فطری مسائل کو حل کرنا اوّلیت رکھتا ہے۔ حکومت کا پہلا کام جرائم‘ بدعنوانیوں اور اخلاقی برائیوں کو ختم کرنا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ کام کیسے کیا جائے؟ موجودہ حکومت نے قانون کو سخت گیر بنانے کے جو اقدامات کیے ہیں وہ یقینا اچھے نتائج پیدا کر رہے ہیں لیکن یہ اصل حل کا صرف ایک پہلو ہے۔ قانون کی سخت گیری کا مقصد قانون کا خوف پیدا کرنا ہے۔ یہ خوف بہت بڑی قوت رکھتا ہے‘ لیکن اس کے ساتھ ہی اس میں ایک کمزوری بھی ہے۔ یہ انسان کو اندر سے نہیں بدلتا جب تک خارجی خوف موجود ہے لوگ ایک طرح عمل کر تے ہیں‘ لیکن خارجی خوف کو دور ہوتے ہی وہ دوسری طرح عمل کرنے لگتے ہیں۔ اس کا تجربہ سابقہ حکومتوں کے دور میں کئی بار کیا جا چکا ہے۔ مارشل لا آتا ہے اور سختی گیری سے قانون نافذ کرتا ہے‘ فوجی عدالتیں قائم ہوتی ہیں‘ پولیس بھی فعال ہو جاتی ہے‘ چھاپے مارے جاتے ہیں‘ مجرموں کو سرگرمی کے ساتھ کے پکڑا جاتا ہے‘ قید و بند‘ جرمانوں اور کوڑوں کی سزائیں دی جاتی ہیں ۔ چند روز بڑی مستعدی دکھائی جاتی ہے‘ پھر آہستہ آہستہ گاڑی کی رفتار سست ہو جاتی ہے‘ کہانیاں مشہور ہوتی ہیں کہ مارشل لا کا خوف دلا کر متعلقہ لوگ طرح طرح کی بدعنوانیوں کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ لوگ کہنے لگتے ہیں کہ پہلے ایک پولیس والے کو رشوت دینی پڑتی تھی‘ اب ایک کے بجائے دو کو دینی پڑتی ہے۔ رفتہ رفتہ حکومت بھی ڈھیل چھوڑ دیتی ہے‘ گاڑی رک جاتی ہے‘ سابقہ حالت واپس آجاتی ہے‘ بلکہ پہلے سے بدتر حالات پیدا ہو جاتے ہیں چنانچہ عوام جب یہ اندیشہ ظاہر کرتے ہیں کہ مارشلِ لا کی سخت گیری کا یہ دور عارضی اور غیر مستقل ہے تو اُن کا پچھلے گزشتہ کئی بار کا یہی تجربہ بولتا ہے۔ اب موجودہ حکومت کے سامنے بنیادی سوال یہی ہے کیا وہ قانون کی موجودہ سخت گیری کوقائم رکھ سکے گی؟ اس مسئلے کے کئی اور پہلو ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ پورے کا پورا بگڑا ہوا ہے۔ اگر اس کا کوئی جُز بھی بگڑا ہوا ہوتا تو اس جُز کی اصلاح کے لیے معاشرے کے صحت منداجزا حکومت کے ساتھ ہوتے‘ لیکن چونکہ پورا معاشرہ بگڑا ہوا ہے‘ اس لیے اُن کی اصلاح سے معاشرے کے تقریباً تمام طبقات میں بے چینی پیدا ہوتی ہے۔ اسمگلنگ‘ چور بازاری‘ ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری کو روکا جائے تو تاجر ناراض ہوتا ہے۔ رشوت کو روکا جائے تو پولیس‘ کسٹم‘ پی ڈبلیو ڈی اور انکم ٹیکس کے محکموں میں بے چینی پھیلتی ہے۔ ٹرانسپورٹ کو درست کیا جائے تو بسوں‘ منی بسوں‘ ٹیکسیوں اور رکشائوں کے مالکان اور کارندے بغاوت پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ ان تمام طبقات نے یہ بات فرض کرلی ہے کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں‘ اُس کا انہیں پیدائشی حق ہے‘ چنانچہ وہ حکومت کے ان اقدامات سے حکومت کے مخالف ہو جاتے ہیں اور اسے ناکام بنانے کی مشرکہ کوشش کرنے لگتے ہیں۔ مثال کے طور پر مہنگائی کو روکنے کے لیے حکومت نے جو اقدامات کیے ہیں آپ دیکھ رہے ہیں کہ ان اقدام سے متاثر ہونے والے اس کے بارے میں کس قسم کے روّیوں کا اظہار کر رہے ہیں اسی طرح اسمگلنگ کے سامان پر چھاپے مارے گئے ہیں‘ اس پر تاجر طبقہ کتنی ناک بھوں چڑھا رہا ہے‘ حکومت ان اقدامات میں جتنا اضافہ کرتی جائے گی‘ اپنے دشمنوں میں اتنا ہی اضافہ کرتی جائے گی۔ تاجر‘ پولیس‘ بیورو کریسی‘ عام سرکاری ملازمین‘ ٹرانسپورٹ والے‘ سب حکومت کے خلاف ہو جائیں گے اور اسے ناکام بنانے کی کوشش کریں گے۔ حکومت کے لیے یہ بڑی سخت آزمائش ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ حکومت یہ اقدامات عوام کی بھلائی کے لیے کرتی ہے لیکن کرپٹ عناصر عوام کے حق میں حکومت کی اصلاحات کے مخالف ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ناراض طبقے بھی عوام کو گمراہ کرنےکےلیے کہی جارہی ہیں۔ وہ طرح طرح کی افواہیں پھیلاتے ہیں اور نت نئے زاویوں سے حکومت پر تنقید کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر اسمگلنگ کا سامان برآمد کرنے کے لیے جو چھاپے مارے گئے ہیں ان کے بارے میں دو باتیں عوام کو گمراہ کرتے ہیں۔ وہ طرح طرح کی افواہیں پھیلاتے ہیں اور نت نئے زاویوں سے حکومت پر تنقید کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر اسمگلنگ کا سامان برآمد کرنے کے لیے جو چھاپے مارے گئے ہیں ان کے بارے میں دو باتیں عوام کو گمراہ کرنے کے لیے کہی جارہی ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ چھاپوں میں جو سامان برآمد کیا گیا ہے وہ چھاپہ مارنے والوں کے لیے مالِ غنیمت بن گیا ہے اور افسر اور ماتحت عملہ اسے آپس میں تقسیم کر رہا ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ صاحب یہ چھاپے صرف کراچی میں کیوں مارے گئے ہیں‘ کیا ملک کے دوسرے حصوں میں اسمگنگ کا سامان موجود نہیں ہے؟ مطلب یہ ہے کہ اسے صوبائی رنگ بھی دیا جارہا ہے۔ عوام ان باتوں کو سنتے ہیں اور متاثر ہوتے ہیں۔ نیکی برباد گناہ لازم حکومت کے اچھے اقدامات کا اثر بھی اچھا برآمد نہیں ہوتا‘ اب سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے اور اس کا علاج کیا ہے؟
ہمیں اس بات کا پورا یقین ہے کہ انسان کی زندگی دو حصوں میں منقسم ہے۔ ایک حصہ اس کی باطنی زندگی کا ہے اور دوسرا حصہ اس کے خارجی اعمال کا۔ انسان خارج میں جو عمل کرتا ہے وہ اس کی باطنی زندگی کی پیداوار ہوتا ہے اور اصلاح کا کام صرف خارجی اعمال کی اصلاح کے ذریعے نہیں ہو سکتا بلکہ اس کے ساتھ باطنی تبدیلی بھی ضروری ہے۔ معاشرے میں جرائم‘ بدعنوانیاں اور اخلاقی خرابیاں اس لیے وبا کی صورت اختیار کر گئی ہیں کہ ہم اپنے باطن میں خیر اور شر‘ اچھائی اور برائی کی تمیز سے محروم ہو گئے ہیں خارجی اعمال کی اصلاح سے ہمارے بطن میں کوئی تبدیلی نہیں پیدا ہوگی‘ نتیجہ ظاہر ہے ہم خارجی خوف کی بنیاد پر خارجہ عمل سے رک جاتے ہیں‘ لیکن اندر سے نہ اپنے عمل کو برا سمجھتے ہیں‘ نہ اچھے عمل کی اچھائی کے قائل ہوتے ہیں۔ چنانچہ خارجی خوف کے دور ہوتے ہی ہم وہی کرنے لگتے ہیں جو اس سےپہلے کیا کرتے تھے۔ اور جب تک خارجی خوف موجود رہتا ہے ہمارا ہر عمل اس کے خلاف سوچتے یا بولتے گزرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ قانون کی موجودہ سخت گیری اصلاح کا ایک ناکافی عمل ہے‘ حقیقی اصلاح اس وقت ہوگی جب قوم کا جامۂ اخلاق درست ہوگا۔جب وہ ازخود قانون کا احترام کرے گی۔ جب اسے اپنے فطری ردعمل معلوم ہوگا کہ کون سی چیز اچھی ہے اور کون سی بری ہے۔ اس لیے دیرپا نتائج حاصل کرنے کے لیے ہمیں دہرے عمل کی ضرورت ہے۔ ایک عمل خارجی اعمال کو روکنے کا‘ دوسرا باطنی تبدیلی کا۔
جو باتیں ہم اب تک کہہ چکے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ حکومت قانون کی سخت گیری کے ذریعے معاشرے سے جرائم‘ بدعنوانیوں اور اخلاقی برائیوں کو ختم کرنا چاہتی ہے‘ لیکن چونکہ ہمارا پورا معاشرہ بگڑا ہوا ہے اس لیے قانون کا ڈنڈا جہاں استعمال کیا جاتا ہے وہ طبقہ حکومت کے خلاف ہو جاتا ہے اور اس کے اقدامات کے بارے میں طرح طرح کی افواہیں اور بدگمانیاں پھیلانے لگتا ہے۔ اس کے علاوہ قانون کے استعمال کے بارے میں عوام کے ذہنوں میں پہلے سے بدگمانیاں موجود ہیں‘ وہ اس بات پر یقین نہیں رکھتےکہ قانون کی سخت گیری ہمیشہ قائم رہ سکتی ہے‘ وہ تجربے سے جانتے ہیں کہ قانون کی سخت گیری کا دور عارضی ہوتا ہے اور اس عارضی دورمیں بھی اس کے اندر ایسی کمزوریاں موجود ہوتی ہیں جو اس کے نتائج کو غیر مؤثر بنا دیتی ہیں۔ مزید برآں یہ حقیقت بھی اپنی جگہ ہے کہ انسانوں کی اصلاح صرف خارجی ذرائع سے ممکن نہیں ہے ایک ہمہ گیر اور پائیدار اصلاح کے لیے باطنی تبدیلی کا وقوع پذیر ہونا ضروری ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس صورت میں حکومت کو کیا کرنا چاہیے؟ پہلی بات جو ہم بطور اصول کے قائم کرنا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ حکومت بیک وقت تمام برائیوں کا سدباب نہیں کرسکتی۔ اس بات کو واضح طور پر سمجھ لینا ضروری ہے۔ بیک وقت تمام برائیوں کا سدباب نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ حکومت تمام برائیوں کو الگ الگ دیکھتی ہے اور الگ ہی الگ انہیں درست کرنا چاہتی ہے۔ مثلاً اس کی ایک مہم گراں فروشوں کے خلا ف ہے‘ دوسری مہم اسمگلنگ کرنے والوں کے خلاف‘ تیسری مہم چوری‘ ڈکیتی اور اغوا کرنے والوں کے خلاف وغیرہ۔ وہ جب ان سب باتوں کو الگ الگ دیکھتی ہے تو ان کی اصلاح کا کام بھی الگ الگ کرتی ہے‘ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ تمام برائیاں ایک دوسرے سے مربوط ہیں اور ان کا علاج صرف اس وقت ہو سکتا ہے جب ان کے درمیان مرکزی برائی کو دریافت کیا جائے اور پوری قوت سے اس کا سدباب کیا جائے۔ اس پوری بات کو سمجھنے کے لیے اس مثال کو سامنے رکھیے۔ حکومت اسمگلنگ کی روک تھام کرنا چاہتی ہے‘ اس لیے اس نے بازاروں میں چھاپے مارے ہیں جہاں اسے اسمگلنگ کا سامان ملنے کی توقع تھی۔
(جاری ہے)

حصہ