ان کا ایک انداز بظاہر ظالمانہ معلوم ہوتا ہے حلانکہ ماں کی شفقت اور محبت کے بڑے واقعات سنے ہیں۔ مگر بچپن کی ذہنی سطح اسے سمجھنے سے قاصر تھی کہ ہم اسکول سے گھر آتے، بھوک چمک رہی ہوتی، ماں جی گرم گرم روٹیاں سینک رہی ہوتیں۔ جی چاہتا یونیفارم بھی بعد میں اترے پہلے پیٹ میں کچھ پڑ جائے مگر وہ تو سخت مزاج اختیار کرتے ہوئے کپڑے بدلنے اور پہلے ظہر کی نماز ادا کرنے کا حکم صادر فرماتیں۔ ذرا بھی مروت ان کی نگاہوں میں نہ رہتی۔ ہم بہتیرا کہتے کھانا کھا کر نماز پڑھ لیں گے مگر وہ اپنے حکم پر بضد رہتیں۔ ہاں البتہ بہنوں کو کھانا نکال کر دیتیں اور وہ بھی ہمیں اشاروں میں چڑاتی جاتیں اور مزے لے لے کر کھانا تناول کرتی جاتیں مجبورا ہمیں مسجد کی طرف جانا پڑتا اور جبراً ہی سہی فرض کی ادائیگی کرتے کبھی کبھی ابا جی مداخلت کرتے ہوئے کہتے کہ کھانا دے دو بعد میں نماز پڑھ آئیں گے مگر وہ مصر رہتیں کہ پہلے نماز پھر کھانا۔ ان کا یہی معمول کبھی کبھار چڑچڑاہت اور کھسیانہ پن پیدا کر دیتا ہم کہیں سے بھی آئیں پہلا سوال یہی ہوتا کہ نماز پڑھیں یا نہیں کتنی ہی وضاحتیں پیش کریں کھانا کبھی نماز کی ادائیگی سے قبل نہ مل پاتا۔
بات یہیں تک نہ تھی کھیل کود سے آئے اور کھانا کھانا چاہا تو فوراً ہاتھ دھونے کی ہدایت، اگر ہم ڈھیٹ بن کر کھانا چاہتے تو روٹی اور پلیٹ آگے سے کھینج لیتیں۔
ہم نے اکثر دیکھا کہ وہ اپنی صبح کا آغاز تلاوت کلام پاک اور اٹک اٹک کر ترجمہ پڑھنے سے کرتیں۔ یہی عمل اردو کو روانی سے پڑھنے میں معاون اور مددگار ثابت ہوا۔ یوں تفاسیر قرآن و احادیث اور بے شمار دینی کتب و رسائل کا مطالعہ کرنے لگیں۔ ایک مرتبہ میں نے کہا آپ بچوں پر ظلم کرتی ہیں۔ بھوک کے وقت کھانا دینے کے بجائے نماز پڑھنے کی تاکید بلاوجہ کی بات ہے۔ مائوں کی شفقت و محبت کے بے شمار واقعات ہیں خاص طور پر حدیث مبارکہ ’’نبی محترم‘‘ نے ایک عورت کو اس حال میں دیکھا کہ اس کی گود میں چھوٹا بچہ ہے اور وہ روٹیاں پکا رہی ہے۔ جب آگ کی لو بڑھی تو وہ بچے کو پیچھے سمیٹ لیتی بنی محترمؐ نے اپنے صحابہ سے ارشاد فرمایا یکھتے ہوں ماں اپنے بچے سے کتنی محبت کرتی ہے، آگ کی تپش سے محفوظ رکھے ہوئے ہے۔ بے شک اللہ بھی بندوں سے پیار کرتا ہے اور ستر گنا زیادہ وہ کیسے چاہے گا کہ اس کے بندے آگ میں جلیں۔ بولیں میں نے بھی اسی حدیث کو سمجھ کر تمہیں ایسا کرنے کی طرف رغبت دلائی ہے۔ میں بھی تو یہی چاہتی ہوں کہ تم جنت میں جائو جنہم کی آگ تمہارے قریب سے نہ گزرے اور نماز مومن اور کافر کے درمیان فرق واضح کرتی ہے۔
آج ہماری ماں ہمارے درمیان موجود نہیں مگر بچپن کا وہ سبق کہ نماز کی ادائیگی مقدم اور افضل رہے۔ آج تک ہماری عادت میں شامل ہے۔
کسی تقریب یا سفر کی وجہ سے دیر ہو جائے، نماز کی ادائیگی اور تاخیر کا خیال کچوکے لگاتا ہے۔ اور کبھی یہ چاہا کہ قضا پڑھ لیں گے تو بستر کانٹوں کا معلوم ہونے لگا۔ وہ موجود نہیں مگر ان کا سبق یاد ہے اور صدقہ جاریہ ہے۔