اسلام اور دنیاوی کامیابی

867

دنیاوی غلبہ و اقتدار اور مال و دولت اللہ تعالیٰ جس کو چاہے دیتا ہے اور اس میں کافر و مومن‘ صالح و طالع‘ متقی و فاسق کی کوئی تفریق نہیں‘ جیسا کہ ہر شخص انفرادی و اجتماعی طور پر ماضی و حال میں دیکھتا ہے۔ اس ضمن میں ہم نے چند ایسی آیات کا ترجمہ اور تفسیر پیش کی تھی جن کے حوالے سے بعض لوگ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ غلبہ و اقتدار اور دنیاوی کامیابی لازمی طور پر مومنین و صالحین کے نہیں ہے بلکہ اس سے مراد جنت اور آخرت ہے (حوالہ کے لیے سورۂ زمر) قرآن حکیم میں جہاں کہیں دنیاوی معنوں میں وراثت کا ذکر کیا گیا ہے اس میں یہ تشریح کر دی گئی ہے کہ یہ وراثت اللہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہے عطا کر دیتا ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ مومنوں سے اللہ کا وعدہ آخرت کے لیے ہے اور وہی اسلام اور ایمان کا مقصود ہے‘ لیکن اللہ چاہتا ہے کہ تو مومنین اور صالحین کو آخرت کے ساتھ دنیا بھی دے دیتا ہے۔ اس واضح اعلان کے ساتھ کہ آخرت دنیا سے بہتر ہے‘ اس موضوع پر قرآن حکیم میں بے شمار آیات ہیں۔ ان میں سے چند ہم پیش کرتے ہیں۔ سورۂ عنکبوت میں ارشاد باری تعالیٰ ہے (ترجمہ) ’’اور دُنیا کی زندگی کچھ نہیں ہے مگر ایک کھیل اور دل بہلاوا ہے۔ اصل زندگی کا گھر تو دارالاخرت ہے‘ کاش یہ لوگ جانتے۔‘‘ اسی طرح سورۂ محمدؐ میں اس مضمون کو دہرایا گیا ہے ۔ مولانا مودودیؒ اس کی تفسیر میں میں لکھتے ’’یعنی آخرت کے مقابلے میں اس دنیا کی حیثیت اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ چندس روز کا دل بہلاوا ہے‘ یہاں کی کامرانی و ناکامی کوئی حقیقی اور جان دار چیز نہیں ہے جسے کوئی اہمیت حاصل ہو‘ اصل زندگی آخرت کی ہے جس کی کامیابی کے لیے انسان کو فکر کرنی چاہیے۔ قرآن حکیم میں اس مضمون کے ساتھ کہ اللہ جسے چاہے زمین کی وراثت اور دنیاوی کامیابی عطا فرماتا ہے۔ یہ بھی ارشاد ہوا ہے کہ یہ عطا یا تو بہ طور انعام کے ہوتی ہے یا بہ طور آزمائش کے۔ جیسا کہ بنی اسرائیل سے خطاب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ ان نعمتوں کا ذکر کرتا ہے جو انہیں انعام کی گئی تھیں اور اسی طرح ایک جگہ ارشاد ہوا ہے (ترجمہ) ’’اور وہ تم کو زمین میں خلیفہ بنائے گا‘ پھر دیکھے گا کہ تم کیسے عمل کرتے ہو۔‘‘ مولانا مودودیؒ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں ’’اس وراثت و دوام اور ہمیشگی نہیں ہیں۔ یہ مستقل اور دائمی بندوبست نہیں ہے‘ یہ محض ایک امتحان کا موقع ہے جو خدا کے ایک ضابطے کے مطابق دنیا میں مختلف قوموں کو باری باری دیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس آخرت میں اس زمین کا دوامی بندوبست ہوگا اور قرآن کے متعدد واضح ارشادات کی روشنی میں وہ اس قاعدے پر ہوگا کہ ’’زمین اللہ کی ہے اور وہ اپنے بندوں میں صرف مومنین صالحین کو اس کا وارث بنائے گا۔ امتحان کے طور پر نہیں بلکہ اس نیک رویے کی ابدی جزا کے طور پر جو انہوں نے دنیا میں اختیار کیا۔‘‘
قرآن حکیم میں کبھی کبھی بطور سزا بھی دیے جانے کا بیان ہوا ہے‘ یعنی دنیا اس لیے دی جاتی ہے کہ کافروں اور منکروں کو فتنے اور آزمائش میں ڈالا جائے جیسا کہ سورۂ طہٰ میں ارشاد ہوا ہے (ترجمہ) ’’اور نگاہ اٹھا کر بھی نہ دیکھو‘ دنیوی زندگی کی اس شان و شوکت کو جو ہم نے ان سے مختلف لوگوں کو دے رکھی ہے‘ وہ تو ہم نے انہیں آزمائش میں ڈالنے کے لیے دی ہے اور تیرے رب کا دیا ہوا رزق ہی بہتر اور پائندہ ہے۔‘‘
اس بحث سے ہمارامقصود یہ دکھانا تھا کہ قرآن حکیم میں کہیں بھی یہ بات بیان نہیں کی گئی ہے کہ اسلام کا نتیجہ ہر حال میں دنیاوی کامیابی ہوگا اور مسلمان کو یہ کامیابی لازمی طور پر حاصل ہوگی۔ چنانچہ یہ تصور ایک سرے سے باطل ہے کہ مسلمان اگر مسلمان ہوں گے تو لازمی طور پر دنیاوی کامیابی حاصل کریں گے۔ اس کے برعکس قرآن حکیم نے مسلمانوں کو آخرت کی طرف بلایا ہے اور اخروی کامیابی ہی کو حقیقی کامیابی قرار دیا ہے اب تاریخ سے ثابت ہے کہ مسلمانوں کو ایک زمانے میں دنیاوی کامیابی حاصل ہوئی‘ بے شک یہ اللہ کا انعام بھی تھا اور مسلمانوں کی آزمائش بھی‘ لیکن مسلمانوں کے زوال سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ مسلمان مسلمان نہیں رہے‘ مسلمان کا اسلام اسلام نہیں ہے۔ یہ سب باطل تصورات ہیں اور بہ قول مولانا مودودیؒ دنیاوی کامیابی کی خواہش کے ہیضے سے پیدا ہوئے ہیں۔
اس اصولی بحث کے بعد آیئے اب اس سوال پر غور کریں کہ مسلمانوں کے زوال اور پستی کے کیا اسباب ہیں‘ لیکن یہ وضاحت ضروری ہے کہ یہ اسباب دنیاوی ہی ہوں گے‘ یعنی جس طرح کسی کو تجارت میں گھاٹا ہو جائے یا کوئی حادثے کا شکار ہوجائے تو ہم یہ نہیں پوچھتے کہ وہ مسلمان تھا یا نہیں‘ یا متقی تھا یا نہیں بلکہ اس کے عام اسباب معلوم کرتے ہیں۔ اسی طرح مسلمانوں کے زوال کے اسباب بھی اسی نوعیت کے ہوں گے۔
ہم اُن لوگوں کے خیالات پیش کرتے ہیں جنہوں نے قوموں کے عروج و زوال یا ترقی و تنزلی سے بحث کی ہے۔ ان کے دو گروہ ہیں۔ ایک گروہ کا نقطۂ نظر اخلاق ہے‘ دوسرے گروہ کا نقطۂ نظر مادّی۔ اخلاقی نقطۂ نظر والے گروہ کا کہنا ہے کہ قومیں ترقی کرتی ہیں سیرت و کردار کی خوبیوں سے جب وہ اخلاقی خوبیوں سے بہر مند ہوتی ہیں تو خدا ان کو غلبہ اور اقتدار عطا کرتا ہے اور ان کی قوت و حشمت‘ دولت و حکومت چھن جاتی ہے اور دولت و ثروت کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس مادّی نقطۂ نظر رکھنے والا گروہ مادّی قوت‘ وسائل کی فراہمی‘ کثرت و قلت‘ اسلحے کی ساخت اور کمی بیشی‘ جنگی اور سیاسی منصوبہ بندی اور حکمتِ عملی اور اسی قسم کے دیگر اسباب پر زور دیتا ہے۔ ہمارے نزدیک یہ دونوں نقطۂ نظر صورتِ حال کی ادھوری تعبیر پیش کرتے ہیں اور ان سے تاریخی حقائق کو مکمل توجیہ نہیں ہوتی مثلاً اخلاقی نقطۂ نظر والوں سے ہمارا سوال یہ ہے کہ تاتاریوں کو جب مسلمانوں پر غلبہ حاصل ہوا تو وہ کون سی اخلاقی خوبیوں سے بہر مند تھے۔ اگر کہا جائے کہ وہ کم از کم متحد تھے تو مجرد اتحاد کوئی اخلاقی خوبی نہیں ہے کیوں کہ اتحاد تو ڈاکوئوں اور لٹیروں میں بھی ہوتا ہے۔
خود ہمارے زمانے میں ہٹلر اور مسولینی کے نازی اور فسطائی ساتھیوں کو کون سی اخلاقی برتری حاصل تھی اور اب امریکا اور روس کیا اخلاقی بل بوتے پر سپر پاور بنے ہوئے ہیں؟ معلوم ہوا کہ غلبہ و اقتدار یا بالفاظ دیگر مادّی ترقی کے لیے اخلاقی خوبیوں کا ہونا لازمی نہیں ہے بلکہ اکثراوقات غلبہ حاصل کرنے والی قومیں اخلاقی صفات سے یکسر مبرا ہوتی ہیں۔ دوسری طرف یہ کہنا بھی درست نہیں ہے کہ قوموں کی ترقی صرف و محض مادّی قوت کا نتیجہ ہوتی ہے کیوں کہ مثلاً مسلمانوں کو اپنے ابتدائی دور میں جو کامیابی حاصل ہوئی وہ ان کے مادّی حالات کا نتیجہ نہ تھا بلکہ مادّی طور پر مسلمان اپنے حریفوں سے بہت زیادہ کم تر اور بے وسیلہ تھے۔ پتا چلا کہ یہ دونوں نقطۂ نظر حقیقت کی پوری تعبیر سے قاصر ہیں۔ ہمارے نزدیک قوموں کو غلبہ و اقتدار اور مادّی ترقی نہ اخلاق سے حاصل ہوئی ہے نہ مادّی اسباب سے۔ یہ ترقی جس چیز سے حاصل ہوتی ہے اخلاق اور مادّی اسباب اس کا ذریعہ تو بنتے ہیں مگر بجائے خود اس کا سبب نہیں ہوتے‘ پھر وہ کیا چیز ہے جس سے قوموں کو ترقی حاصل ہوتی ہے؟ ہم اسے قوم کی قوتِ حیات کہیں گے جس طرح ایک بیج میں زندگی کی توانائی ہوتی ہے اور وہ اس توانائی کی وجہ سے اپنے چھلکے کو توڑ کر کونپل نکالتا ہے اور ماحول سے نطابق حاصل کرکے پودا بنتا ہے اور پھر پروان چڑھ کر ایک مضبوط اور توانا درخت کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اسی طرح قوموں کی اجتماعی زندگی کا انحصار بھی اس کی قوتِ حیات پر ہوتا ہے۔ قوم کی اس قوتِ حیات میں لامحدود ترقی کے امکانات ہوتے ہیں‘ لیکن یہ اپنا اظہار ایک مخصوص صورت حال میں کرتی ہے۔ یہ صورت حال پیدا ہوتی ہے ایک داخلی قوت سے‘ جو اس قوت کو پوری طرح متحرک کر دیتی ہے۔ پھر یہ قوت اپنے اظہار کے لیے عمل کا ایک راستہ متعین کرتی ہے اور بالکل اسی طرح اپنا ظہور کرتی ہے جس طرح بیج سے اکھوا پھوٹتا ہے اور پھر ایک درخت بنتا ہے۔ ہم اس قوت کے عمل کو افراد میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔ فرد میں قوتِ حیات متحرک ہوتی ہے کسی شدید خواہش یا مقصد کی لگن سے‘ پھر وہ فرد اپنی خواہش یا مقصد کے مطابق اپنے عمل کا تعین کرتا ہے اور جتنی توانائی وہ اپنے عمل میں صرف کرتا ہے اسی حساب سے کامیابی حاصل کرتا ہے۔ اب تین چیزیں ہوئیں (1) قوتِ حیات‘ (2) داخلی تحریک‘ (3) ضابطۂ عمل۔ فرد اور قوم دونوں اپنی ترقی کے لیے انہی تین چیزوں کے محتاج ہوتے ہیں اور اس کا اخلاق اور غیر اخلاق سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ البتہ اخلاق اور غیر اخلاق سے اس کے خیر و شر ہونے کا تعین ضرور ہوتا ہے۔ ڈاکو کی توانائی ڈاکو کو ڈاکو بناتی ہے اور ولی کی تونائی ولی کو ولی۔
قوموںکے عمل میں بھی ہمیں اخلاق اور غیر اخلاق کا یہ فرق نظر آتا ہے‘ لیکن قوتِ حیات جس کی توانائی سے عمل ظہور پذیر ہوتا ہے وہ اپنی اصل میں اخلاقی اور غیر اخلاقی نہیں ہوتی۔ وہ تو بس ایک فطری قوت ہے۔ جب تک کسی قوم میں قوتِ حیات متحرک رہتی ہے‘ وہ ترقی کرتی رہتی ہے۔ جب اس کا تحرک تبدیل ہو جاتا ہے تو وہ کم زور ہو جاتی ہے۔ اس زاویے سے ہم مثلاً یہ کہہ سکتے ہیں کہ قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی قوتِ حیات میں تحرک کیا اسلام اور ایمان نے یعنی ان میں شدید خواہش پیدا ہوئی کہ وہ اللہ کا دین تمام قوموں میں پہنچا دیں۔ اس خواہش نے انہیں جہاد پر آمادہ کیا اور دنیا کی بڑی سے بڑی قوتوں سے ٹکرا گئے۔ یہ قوتیں قوتِ حیات کے اعتبار سے کم زور تھیں کیوں کہ ان میں کوئی داخل تحرک موجود نہ تھا‘ اس لیے مادّی اسباب کے باوجود وہ مسلمانوں سے شکست کھا گئے۔ یہ قوتِ حیات کے اس عمل کی ایک مثال ہے جب وہ خیر کے تابع ہو اس سے ایک تہذیب پیدا ہوئی اور کاروانِ انسانیت اس کے ذریعے بہت آگے بڑھ گیا‘ لیکن یہی قوتِ حیات تاتاریوں میں صرف غلبہ و اقتدار کی خواہش سے متحرک ہوئی اور اس نے اپنے عمل کے لیے غیر اخلاقی ذرائع اختیار کیے تو ترقی تو انہیں بھی حاصل ہوئی مگر یہ ترقی شر کی ترقی تھی اور اب مسلمانوں کے موجودہ زوال کا سبب یہ ہے کہ ان کی قوتِ حیات ضعیف اور کمز ور ہوگئی ہے اوراس میں ضعف اور کمزوری پیدا ہوئی ہے کسی داخلی تحریک کی عدم موجودگی سے۔ دوسرے لفظوں میں بہ حیثیت مجموعی مسلمانوں میں کوئی شدید خواہش موجود نہیں ہے‘ نہ دنیا کی نہ آخرت کی۔ اقبال کے الفاظ میں اگر ہم داخلی تحریک کو عشق سے تعبیر کریں تو مسلمانوں کے زوال کا سبب عشق سے محرومی ہے۔ ان میں قوتِ حیات موجود ہے کیوں کہ یہ توانائی کا ایک کبھی نہ ختم ہونے والا سرچشمہ ہے‘ لیکن کوئی ایسا داخلی تحرک نہیں ہے جو اس توانائی کو کسی عمل میں ڈھال دے۔ آپ دیکھیے کہ یہ قوتِ حیات تحریک پاکستان میں ایک داخلی تحرک سے آشنا ہوتی ہے تو کس قوت سے اپنا ابھار کرتی ہے‘ لیکن جب یہ داخلی تحرک کمزور ہو جاتا ہے تو پھر کس طرح ہماری قوتِ حیات بکھر جاتی ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ پر اگر ایک نظر ڈالیں تو ہمیں داخلی تحرک کی متعدد مثالیں بھی ملیں گی مثلاً مسلمانوں کی قوتِ حیات کی کمزوری سے جب خلافتِ عباسیہ کا خاتمہ ہوا تو مسلمانوں میں ایک داخلی تحرک پیدا ہوا تصوف کی تحریک سے‘ اور اس کے عملی نتائج ظاہر ہوئے ایک نئی روحانیت کی تخلیق میں۔ مختصر لفظوں میں مسلمانوں کے تنزلی اور پستی کا سبب نہ یہ ہے کہ وہ مادّی قوت نہیں رکھتے کیوں کہ قوم میں زندگی ہوتی ہے تو وہ مادّی قوت اور اسباب خود پیدا کر لیتی ہے۔ اسی طرح اس کا سبب یہ بھی نہیں ہے کہ وہ اخلاق سے محروم ہیں کیوں کہ اخلاق صرف ایک ضابطۂ عمل ہے‘ خود محرکِ عمل نہیں ہے۔ مسلمانوں کے زوال کا سبب صرف ایک داخلی تحرک کی عدم موجودگی ہے جس کے سبب سے اس کی قوتِ حیات اپنے ظہور کی قوت سے محروم ہو گئی ہے۔

حصہ