قسط نمبر 4
حسبِ پروگرام 13 اکتوبر کو لاہور سے روانگی ہونا تھی، مگر خلافِ معمول کچھ شرکائے گروپ کے ویزا کے حصول میں تاخیر سے پروگرامِ دوبارہ ترتیب دیا گیا اور 3 نومبر کی صبح کو حتمی روانگی طے پائی۔ گروپ کے ساتھ سفر کرنے میں جہاں بہت سارے فائدے حاصل ہوئے، وہیں کچھ قباحتیں بھی سامنے آئیں۔ ایک تو یہ کہ سب گروپ ممبرز دوسروں کے محتاج ہوگئے۔ مختلف مقامات پر کسی ایک کی تاخیر اور انتظار نے سارے قافلے کے پروگرام کو متاثر کیا۔ دوسرے یہ کہ بعض جگہوں پر اپنی مرضی، خواہش اور دل چسپی کے علی الرغم گروپ ممبرز کی اجتماعی رائے کو اختیار کرنا اور اس کا تتبع کرنا پڑا۔ بہرحال اس میں بھی خیر کا پہلو ہی نکلا اور دیارِ غیر میں اسے قبول کرنا اپنی سلامتی اور تحفظ کے لیے ضروری بھی تھا۔
کورونا کا وار
آغازِ سفر سے پہلے ’’رائل سلطان‘‘ کی طرف سے ’’کورونا ٹیسٹ‘‘ کی ہدایات موصول ہوئیں۔ سفر کے وقت سے 48 گھنٹے قبل کی نگیٹو رپورٹ پر ہی سفر ممکن ہو سکتا تھا، لہٰذا ایک دن قبل ٹیسٹ کروانا پڑا، تاکہ چوبیس گھنٹے پہلے رپورٹ حاصل ہوسکے جو وقتِ سفر تک مؤثر رہے۔نومبر 2020ء میں جب ہم سفر پر روانہ ہوئے صرف یک طرفہ ٹیسٹ کروانا لازمی ہے۔ ترکی سے واپسی پر اس کی ضرورت نہ تھی۔ اب معلوم ہوا کہ دو طرفہ ٹیسٹ لازمی قرار دیا گیا ہے اور ترکی سے واپسی پر ائر پورٹ پر ہی فاسٹ ٹیسٹ کی سہولت فراہم کر دی گئی ہے۔
ہم دونوں نے ٹیسٹ دینے کے بعد امید و بیم میں وقت گزارا۔ خدانخواستہ اگر کورونا پازیٹو آجاتا تو ترکی کے سفر کے سارے خواب تو ادھورے رہتے ہی، کورونا کے ساتھ جنگ کے لالے پڑ جاتے۔ الحمدللہ اگلے دن کورونا کا وار خطا گیا۔ اس میں ہماری احتیاطی تدابیر کے بجائے سراسر اللہ کے فضل کا معاملہ تھا کہ اپنی بے احتیاطیوں کے باوجود ہم کورونا سے محفوظ رہے۔ یہ پہلا منی -VE تمغا تھا جسے سجائے بلکہ ائر ٹکٹ سے زیادہ ہاتھ میں سنبھالے اور سجائے فیصل آباد سے ساڑھے بارہ بجے روانہ ہو کر ٹھیک تین بجے لاہور کے علامہ اقبال انٹرنیشنل ائرپورٹ کی حدود میں داخل ہوئے۔
شکریہ علامہ اقبال
اگر علامہ اقبالؒ نہ ہوتے تو نہ جانے لاہور ائرپورٹ کا نام کیا ہوتا؟ علامہ اقبال کا شکریہ ہی شکریہ کہ اس قوم اور ملک میں جس کا انہوں نے خواب دیکھا، اس کی تشکیل کے مقاصد اور خدوخال واضح کیے۔ یہاں ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کے مسلمانوں کو بیدار ہونے، اپنے قدموں پر مضبوطی سے کھڑے ہونے، اپنی خودی کی حفاظت کرنے اور اُمتِ مسلمہ کا فرد بننے کا پیغام دیا۔ فرقہ واریت اور ذات برادری کے تعصبات میں محصور ہونے کے بجائے ایک امت اور ایک قوم و ملت بننے کی تلقین کی، اور اسمِ محمدؐ سے دہر میں اجالا کرنے کی منزل کا نشان دکھلایا۔ا س پیغام، پکار اور نشانِ عمل کو محض کتابوں تک محدود کرنے بلکہ نصابات تک سے غائب کر دینے کے پسِ منظر میں اربابِ اختیار کا بھی شکریہ جنہوں نے مفکرِ پاکستان کو کم از کم ائرپورٹ کے نام تک ہی باقی رکھا۔
ہم سفر۔ علامہ اقبالؒ
سفرِ ترکی میں ہمارے ایک فکری، تصوراتی شریک ِ سفر علامہ اقبالؒ بھی تھے جن سے امید تھی کہ مولانا جلال الدین رومی ؒکے مزار کے احاطے میں قونیہ میںملاقات ہوگی۔ علامہؒ کی اس یاد اور ملاقات کی امید کے عالم میں لاہور ائرپورٹ پر اپنے گروپ سے ملاقات ہوئی۔ ائر ٹکٹ، ہوٹل ریزرویشن اور دیگر دستاویزات اور شناختی کارڈ وصول کیے اور بین الاقوامی روانگی کے گیٹ سے اپنے بچوں انس اعجاز اور ربیعہ اعجاز کو جو ہمیں چھوڑنے آئے تھے، الوداع کہہ کر اور اللہ کی امان میں دے کر علامہ اقبال انٹرنیشنل ائرپورٹ کی عمارت میں داخل ہو گئے۔
وی آئی پی لائونج
صاحبو! قانونِ قدرت ہے کہ ہر کسی کو اپنا بوجھ خود ہی اٹھانا پڑتا ہے۔ ’’کوئی دوسرا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا“۔ یہ اصول ہے تو آخرت کے ابتدائی مرحلے حشر کے میدان سے متعلق، جہاں ہر کسی کو اپنے اعمال کا خود ہی حساب کتاب دینا اور نتائج بھگتنا پڑیں گے۔ کچھ یہی معاملہ ائرپورٹ پر بھی ہوا، جو سب ہی کے ساتھ ہوتا ہے۔ ہم دونوں اپنا اپنا سامان اور کاغذات سنبھالے بصد شوق آگے اور آگے بڑھتے چلے گئے۔ امیگریشن کائونٹر سے پہلے ایک شخص سامنے آیا، رکا اور کہنے لگا ”کیا آپ وی آئی پی لائونج استعمال کرنا چاہیں گے؟“ میں حیران ہوا کہ آخر اسے مجھ درویش مگر عیار نہیں‘ میں ایسی کیا چیز نظر آئی کہ وی آئی پی لائونج جس کا اکثر ذکر سنتے ہیں، استعمال کرنے کی دعوت دے ڈالی! لمحے بھر کو خیال آیا کہ شاید اسے میرے اس بیگ نے غلط فہمی میں ڈال دیا ہے جو میرے گلے میں لٹک رہا تھا اور میرے بدن پر شاید وہی سب سے قیمتی تھا۔ پورے نو ہزار روپے کا میرے بچوں نے مجھے لے کر دیا تھا، بلکہ سفرکے سارے اخراجات بھی میرے بیٹے انس اعجاز نے برداشت کیے تھے۔ میں حقیر و فقیر آدمی ایسی عیاشی کہاں کر سکتا تھا! میں اور میرے جسم و جان یقیناً میرے بیگ کے مقابلے میں انتہائی ناپائیدار، فانی اور یقینی زوال کا شکار ہونے والے اور قبر کے کیڑوں کی خوراک بننے کے لائق تھے۔
اندلسی شاعر لسان الدین الخطیب
اندلس کا ایک معروف شاعر لسان الدین الخطیب جو کئی وزارتوں اور بڑے عہدوں پر فائز رہا، اس کا لقب ہی’’خدایوزارتین‘‘ قرار پایا۔ بہت عمدہ خطیب، ادیب اور شاعر تھا، اور انسانی فطرت اور اہلِ اسلام کے مزاج کے عین مطابق بے شمار خصائص و کمالات اور خلیفۂ وقت کے دل میں بڑی قدر و منزلت کے باوجود اپنے کئی حاسد بھی رکھتا تھا۔ یوں سمجھ لیجیے برصغیر کے محمود و ایاز کا سا معاملہ تھا۔ اُس نے اپنی زندگی میں ہی اپنا مرثیہ لکھ ڈالا۔ اندلس کے عربی ادباو شعرا کے دیگر بے شمار علمی و ادبی کمالات و فتوحات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انہوں نے بالعموم انسانوں کے مرنے کے بعد کہے جانے والے مرثیوں میں یہ اضافہ کیا کہ غرناطہ، قطربہ، طلیطلہ اور دیگر شہروں کے مرثیے کہے۔ ابن زیدون بھی اندلس کا بڑا شاعر ہے جس نے ’’قرطبہ‘‘ کا مرثیہ کیا۔ یہ مخمس میں ایک طویل مرثیہ ہے جس میں قرطبہ کے سقوط کا نوحہ، اس کے ساتھ اپنی محبت و عقیدت کا اظہار، مسلمانوں کی عظمت ِ رفتہ کے پلٹ آنے کی خواہش کا اظہار اور حسرت موجود ہے۔ غالباً اسی مرثیے میں وہ خود اس حقیقت کا اظہارکرتا ہے کہ ’’نہیں، مرجانے والے واپس نہیں آیا کرتے۔‘‘
ذکر ہو رہا تھا لسان الدین الخطیب کے اپنے ہی مرثیے کا۔ اس مرثیے کا ایک شعر میری اپنے بارے میں رائے کی تائید کرتا ہے۔ ویسے تو اس کا سارا مرثیہ ہی کمال کا ادبی شاہکار ہے۔اس نے لکھا:۔
قد کنا عظاماً فصرنا عظاماً
قد کنا نقوت فھا نحن قوت
فنی اعتبار سے بھی یہ شعر اپنی بلندی اور معنوی اعتبار سے کمال پر فائز ہے۔ اس میں ایک ہی لفظ دو الگ معانی میں استعمال ہوا اور دونوں مصرعوں میں ’’عظام‘‘ کے پہلے لفظ کا معنی ’’عظیم‘‘ کی جمع۔ بڑے آدمی۔ دوسرے اسی لفظ کا معنی ’’ہڈیاں‘‘ ہیں۔ یہ لفظ قرآن عظیم میں بھی استعمال ہوا ’’ہم نے ہڈیوں کو گوشت کا پیرہن پہنایا۔‘‘ پہلے مصرع کا مطلب ہوا ہم بڑے سربرآوردہ لوگ تھے، بڑی عظمت، شان و شوکت کے مالک۔ اب ہم نری ہڈیاں بن کر رہ گئے۔ یعنی مرنے کے بعد انسان کی صرف ہڈیاں ہی باقی رہ جائیں گی۔ اُس کا حسن و جمال، اس کا جسم، اس کی شان و شوکت کا مظہر اور معاشرتی تفریق و امتیاز کا ہر نشان، صورت، رنگ، حُسن و جمال، قد کاٹھ، وجاہت و بشاشت سب کچھ خاک میں گم ہو جائیں گے۔ دوسرے مصرع میں پہلے ’’نقوت‘‘کا معنی ہے کہ ہم غذائیں، انواع و اقسام کے کھانے کھاتے ہیں، مگر اب یہ ہم ہی ہیں جو خود غذا بن گئے ہیں یقیناً قبر کے کیڑے مکوڑوں کی۔
خیر ہم ترکی جاتے جاتے اندلس جا نکلے۔ دراصل ’’ترکی اور اندلس‘‘ دونوں ہی مسلمانوں کی عظمتِ رفتہ کے دل کش و دلآویز نشان، سنہری باب اور قابلِ فخر دور ہیں تاریخ ِ اسلامی کے۔ علامہ اقبالؒ نے انہی کو ’’تھے تو وہ آبا تمہارے ہی…‘‘ کے ساتھ اس سوال کے ساتھ اہلِ اسلام کومتوجہ کیا ہے ’’مگر تم کیا ہو…‘‘ ترکی کے بعد اب اِن شاء اللہ اگلی منزل دل سے بہت قریب ’’اندلس‘‘ کی ہے۔ یقیناً یہ آرزو بھی پوری ہوگی۔ آیئے علامہ اقبالؒ کی فکر، پیغام اور سوال میں کھونے کے بجائے ان کے نام سے منسوب انٹرنیشنل ائرپورٹ پر چلیں جہاں کوئی ہمیں وی آئی پی سمجھ کر لائونج استعمال کرنے کی دعوت اور ترغیب دے رہا ہے۔
میں نے ان صاحب سے پوچھ ہی لیا ”بھائی اتنی مہربانی کیوں اور اس کی استحقاقی شرائط کیا ہیں؟“ کہنے لگے ”اگر آپ اتنے دولت مند ہیں کہ کسی چیمبر آف کامرس یا ایسے ہی تجارتی اداروں میں سے کسی ایک کے کسی عہدے کو ’’خرید‘‘چکے ہیں، یا پھر آپ کسی بڑے بینک کے بھاری بھرکم اکائونٹ ہولڈر ہیںاور کسی گولڈن یا پلاٹینیم اے ٹی ایم یا کریڈٹ کارڈ کے مالک ہیں“، یا اسی طرح کی اور کئی ’’مستحق‘‘ افراد کی قسمیں گنوانے لگا۔ میں نے اس سے پوچھ لیا ”بھائی! علم کی دنیا سے تعلق رکھنے والے کسی طالب علم یا استاد کے لیے بھی کوئی استحقاق یا گنجائش ہے؟“ یقیناً اس کا جواب نفی میں ہی ہونا چاہیے تھا، اور ہوتا۔ میں اُس کا جواب سنے بغیر آگے بڑھ گیا اور وہ مجھے ’’ماسٹر‘‘ جیسے بے حیثیت مقام و مرتبے والا جان کر پیچھے پلٹ گیا۔
(جاری ہے)