سرٹیفکیٹ

288

انسان جب پیدا ہوتا ہے تو اس کا برتھ سرٹیفکیٹ بنتا ہے، جس میں اس کا کوئی کمال نہیں ہوتا۔ ملکی قوانین کے مطابق یا مختلف آگے کی چیزوں جیسے شناختی کارڈ وغیرہ بنوانے کے لیے اس کا موجود ہونا ضروری ہوتا ہے۔ لہٰذا بچے کی پیدائش کے بعد والدین اس کے لیے یہ بنوا دیتے ہیں۔
اسی طریقے سے مرنے کے بعد ڈیتھ سرٹیفکیٹ دیا جاتا ہے، اور اس کے ملنے میں بھی انسان کا کوئی کمال نہیں ہوتا، بلکہ اسے تو انسان دیکھ بھی نہیں پاتا۔ ہاں بس اُسے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اُس کے مرنے کے بعد اُسے یہ ملے گا جو کہ اُس کے لواحقین وصول کریں گے۔ لیکن پیدائش سے لے کر اِس دنیا سے رخصت ہونے تک کے درمیانی عرصے میں بہت سے سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے لیے انسان کو خود محنت کرنی پڑتی ہے، اور تھوڑی سی توجہ اور ساتھ اپنا قیمتی وقت لگانے کے بعد وہ انھیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ یہ مختلف مواقع پر انسان کو ملتے ہیں، اور اس کا دارومدار مختلف تعلیمی اداروں اور کمپنیوں پر بھی ہوتا ہے۔ بعض جگہوں پر بہت زیادہ دیے جاتے ہیں، جبکہ بعض جگہوں پر بہت ہی کم دیے جاتے ہیں۔ یہ کسی بھی تعلیمی ادارے، انسٹی ٹیوٹ،کمپنی وغیرہ کی مینجمنٹ پر بھی منحصر ہوتا ہے، اور وہ ان اسناد (سرٹیفکیٹس)کے ذریعے اپنے طالب علموں یا ملازمین وغیرہ کی حوصلہ افزائی کرتے رہتے ہیں تاکہ ان کی کارکردگی بہتر سے بہتر ہوجائے۔
بہت سے اسکول مختلف مقابلہ جات جیسے نعت خوانی، قرأت، تقریری یا ڈرائنگ وغیرہ کے مقابلے طالب علموں کے درمیان کراتے ہیں، تاکہ اُن کی یہ غیر نصابی صلاحیتیں پروان چڑھ سکیں اور وہ ان تمام سرگرمیوں میں بھی بہتر سے بہتر اپنا حصہ ڈال سکیں۔ بعض آرٹس کونسل، رائٹرز فورمز اور اسی طرح کوکنگ، بیکنگ اور مختلف آرٹس کے سربراہان وغیرہ بھی اپنے اپنے حساب سے اپنی اپنی فیلڈ میں مقابلہ رکھتے ہیں اور ان میں جیتنے والوں کو ٹرافیاں ،میڈلز، یہاں تک کہ ہر حصہ لینے والے کو بھی سند دیتے ہیں۔سیلاب ہو یا زلزلہ، اس طرح کے مختلف مواقع پر بھی مختلف رفاہی تنظیمیں اپنے رضا کاروں کو ان میں اپنا حصہ ڈالنے پر ان کے ناموں کے ساتھ سرٹیفکیٹ دیتی ہیں تاکہ ان کی حوصلہ افزائی ہو، اور ان کے اندر مزید اچھے کام کرنے کا جذبہ پیدا ہو، اور وہ اسی طرح اپنی خدمات انجام دیتے رہیں۔ یہ سب سرٹیفکیٹ تو مختلف مقابلوں میں حصہ لینے والے مرد و زن حاصل کرلیتے ہیں، لیکن گھریلو خواتین جو اپنا وقت، صلاحیتیں، جوانیاں لگاکر، اپنا تن، من، دھن ایک کرکے اپنا گھر بسانے کی کوشش کرتی ہیں، اپنا آپ مار کر اس گھر کے مکینوں کو آرام دینے میں لگی رہتی ہیں اور اسی بنا پر وہ مختلف مقابلہ جات میں حصہ نہیں لے پاتیں، انھیں بھی تو کوئی سرٹیفکیٹ ملنا چاہیے، اُن کا بھی توکچھ حق ہے۔ لہٰذا اگر انہیں پیار سے کہہ دیا جائے کہ ’’تم نے بہت قربانیاں دیں اس گھر کے لیے‘‘۔ اچھا کھانا پکانے پر شاباش دے دی جائے اور مختلف مواقع پر اُن کی حوصلہ افزائی کے لیے کچھ جملے کہہ دیے جائیں تو یقینا یہ گھریلو خواتین کے ’’سرٹیفکیٹ‘‘ ہوجائیں گے، کہ ان خواتین کے بنا تو گھر، گھر نہیں صرف عمارت ہے، اور ان خواتین کو بھی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہوتی ہے۔

حصہ