کشمیر لہو لہو ہے

242

ہمیں یاد پڑتا ہے کہ تقریباً دو سال پہلے جب ہمارے کشمیری بھائیوں پر بے انتہا مظالم ڈھائے جا رہے تھے، ہم سمیت سب ہی کے پورے گھرانے بڑے آبدیدہ ہوجاتے، سوشل میڈیا پر متاثرہ کشمیری بھائیوں سے ہمدردی کی واضح اپیل ہوتی، کبھی بھارت کی بنی تمام اشیا کا بائیکاٹ کرنے کی تلقین کی جاتی۔ ہم نے بھی شروع میں تہیہ کیا کہ بھارتی اشیا کو ہاتھ بھی نہ لگائیں گے، وہ ہمارے بھائیوں پر ظلم کی انتہا کیے جا رہے ہیں اور ہم یہاں ان کو فائدے پہنچا رہے ہیں! یہاں ہم ان کی مصنوعات کو استعمال کرنے کے لیے ڈھکن کھولیں اور وہاں ہمارے مسلمان بھائیوں پر ایک بلاسٹ ہو۔ ہمارا دل دہل جاتا، ہم کانپ جاتے۔ لیکن آج اتنا وقت گزرنے کے بعد اپنے ہی گھر کے ٹی وی میں بھارتی ڈرامے، فلمیں اور کارٹونز کے چینل دیکھے تو رہا نہ گیا۔
ان کی اقدار و روایات کی چھاپ ہمارے بچوں کے دل و دماغ پر بیٹھنے لگی اور ہم اپنے ہی بچوں کے منہ سے طاقت کے لفظ کو ’’شکتی‘ اور روپے پیسے کو ’’لکشمی‘‘ سننے لگے اور کسی حد تک عادی بھی ہوگئے۔
ہم کیسے ان دشمنانِ دین کو اپنا دوست بنا سکتے ہیں؟ ہم تو روز و شب رو رو کر کشمیری بھائیوں کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھتے ہیں۔ یہ کیسا قہر ٹوٹا ہے ہمارے اپنے مسلمان بھائیوں پر کہ نہ اُن کا مال محفوظ ، نہ جان اور نہ ہی بہنوں کی عصمتیں۔ کس دور سے وہ گزر رہے ہیں۔ احتجاج ریکارڈ کرائے گئے، یہاں تک کہ اعلیٰ عہدے داروں نے بھی پُرجوش تقاریر کرڈالیں، ریلیاں نکالی گئیں، آج بھی کشمیر کے مسلمانوں کے بارے میں بات کرتے ہیں تو دل میں کسک سی اٹھتی ہے۔ سوشل میڈیا پر خون سے نہائے جوان شہیدوں کے جنازے ،ان پر روتی بلکتی ان کی مائیں، بہنیں، پھر ہر طرف سے آنے والی اُن پر مظالم کی داستانیں ۔
مگر یہ کیا کہ خبروں میں کشمیر کا کوئی ذکر ہی نہیں! کشمیر ابھی بھی لہو لہو ہے اور حسب ِعادت ہم عادی ہوچکے ہیں، بھولے بھٹکے ایسی پوسٹ دیکھ بھی لیں تو جلدی سے آگے بڑھا دیتے ہیں کہ مبادا کہیں دل نہ بھر آئے، اور اگر دل بھر بھی آئے تو کتنی دیر کے لیے! صاحب اگلا لطیفہ آپ کا دل بہلانے کے لیے حاضر جو ہے ۔

حصہ