کشمیر کی آزادی اور خطے کا امن

280

اقوام متحدہ میں کشمیر تا حال ایک حل طلب مسئلہ ہے۔ یاد رہے کہ جنوری 1948ء میں پہلی مرتبہ سلامتی کونسل میں مسئلہ کشمیر کی شنوائی ہوئی اور اس سلسلے میں ابتدائی قراردادیں پاکستان اور بھارت سے پُرامن رہنے اور سلامتی کونسل سے تعاون کی اپیل پر مبنی ہیں۔ سلامتی کونسل نے ایک قررداد کے ذریعے ایک کمیشن بھی قائم کیا جسے ’’اقوام متحدہ کمیشن برائے پاکستان و بھارت‘‘ کا نام دیا گیا۔
بھارت شروع ہی سے مقبوضہ کشمیر کو کسی بھی فورم پر زیر بحث لانے کا رودار نہ تھا۔ تمام تجاویز اور قراردادوں کی ہمیشہ اس نے خلاف ورزی ہی کی کمیشن اور مقرر کیے گئے نمائندوں کی کوششیں کامیاب نہ ہونے دیں گئیں بلکہ اس دوران ثالثی کی تمام پیشکش مسترد کردی۔ آج بھی مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جاری ہیں اور دوسری جانب بھارت آزاد کشمیر پر حملے کی دھمکیاں بھی دے رہا ہے لیکن اس کے باوجود سلامتی کونسل محض اظہار تشویش تک محدود ہے اس کی ذمہ داری اظہار تشویش تک محدود نہیں ہے اس ادارے کو مصالحانہ کردار ادا کرنے کے بجائے ان قراردادوں پر عمل درآمد اور ٹھوس و مؤثر اقدامات بھی کرنا ہوں گے وگرنہ کشمیریوں کے نزدیک اس ادارے کا وجود و عدم وجود دونوں برابر ہیں۔ چنانچہ کشمیری عوام گزشتہ سات دہائیوں سے دنیا کی تاریخ میں اپنے خون سے دنیا کی تاریخ میں آزادی کی شمع جلائے ہوئے اور حق خود ارادیت کی تحریک جاری رکھے ہوئہے ہیں صرف اس امید پر کہ ایک روشن صبح ان کے لیے آزادی کی نوید ضرور لے کر آئے گی۔
7 لاکھ سے زائد سیکورٹی فورسز اور افواج کی موجودگی میں نہتے مگر جانباز اور دلیر باہمت کشمیری چٹان کی مانند کھڑے ہیں۔ سفاک بھارتی درندے فوجی لبادہ اوڑھے کشمیریوں پر مظالم کے ہر دائو آزما چکے ہیں‘ نہ انہوں نے خواتین کی عزت کا پاس رکھا نہ بچوں اور بزرگوں کا۔ جس نے آواز اٹھائی اور آزادی کی شمع جلائی اس پر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑ دیے۔ کیسے حق خودارادیت کا مطالعہ ایک جرم قرار پایا۔ طویل ترین کرفیو نافذ کیا ہوا ہے‘ مغرب میں تو جانوروں کو قید و بند کیا جائے تو سینکڑوں افراد سڑکوں پر آجاتے ہیں مگر کشمیریوں کو انسان نہیں سمجھا جا رہا‘ ان سے غیر انسانی سلوک کیا جارہا ہے‘ درندہ صفت مودی کو کوئی کچھ کہنے والا نہیں۔ بھارت نے جنت نظیر وادی کشمیر کو اپنے غاصبانہ تسلط سے جہنم زار بنا دیا ہے۔ گزشتہ تین دہائیوں سے حکومتِ پاکستان اور پاکستانی عوام کی طرف سے 5 فروری کو ’’یوم یکجہتی کشمیر‘‘ کے طور پر منایا جاتا ہے جس کا مقصد کشمیری عوام کے حقِ خود ارادیت کے حصول کے لیے جدوجہد کرنا ہے۔ وہاں بین الاقوامی طاقتوں اور ’’مہذب جمہوری اقوام‘‘ کی توجہ بھی اس مظلوم خون میں رنگی واددی پر قابض بھارتی افواج اور سیکورٹي فورسز کی طرف سے 73 سال سے جاری مظالم اور انسانی حقوق کی سنگین ترین خلاف ورزی کی طرف مبذول کروانا بھی ہے۔ شاید کہ اس طرح جمہوریت پسند سیکولرازم کا نقاب اوڑھے درندوں کے چہروں نے نقاب اتر سکے۔ امریکا کی طرف سے اقلیتوں کے تحفظ کے لیے ناکامی کا اظہار کیا گیا۔ اس طرح برطانیہ کے ایک اخبار نے مودی سرکار کو ہندو طالبان کی حکمرانی قرار دیا۔ اس کے برعکس پاکستان میں بانی ٔ پاکستان قائداعظم کے فرمان کے مطابق اقلیتوں کو مذہب و نسل کی تفریق کے بغیر آئین پاکستان میں درج تمام بنیادی حقوق فراہم کیے جارہے ہیں۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اقوامِ عالم آگے بڑھے تاکہ مقبوضہ کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور ظلم و جبر کے خاتمے کو ممکن بنایا جائے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا کی بڑی طاقتیں مقبوضہ کشمیر کے ’’ہولو کاسٹ‘‘ پر خاموس تماشائی بنی ہوئی ہیں۔ بقول قائداعظم ’’کشمیر پاکستان کا شہ رگ ہے‘‘ تو جب تک وہاں امن بحال نہیں ہوتا اور پرسکون زندگی اس وقت تک بسر نہیں کرسکتے تو پاکستان بھی درد و کرب ہی میں رہے گا۔ ظلم کتنا ہی بڑھ جائے حق غالب آکر رہتا ہے۔ چنانچہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور اس کی آزادی قریب ہے ان شاء اللہ۔

حصہ