ترکی صدیوں کی دلکش و دلآویز انقلاب افروز تاریخ کا عنوان ہے۔ ایک قدیم اور جدید ملک جو بیک وقت ایشیا اور یورپ میں شامل ہے۔ قدیم و جدید تہذیب کا خوبصورت مجموعہ… بہادروں اور درویشوں کی سرزمین… خوبصورت انسانوں، وادیوں، سرسبزی و شادابی، نیلے پانیوں اور مسحورکن فضائوں کا سنگم… اسلامی تہذیب و تاریخ کا زریںباب… احیائے اسلام اور امت کی نشاۃِ جدیدہ کا متوقع مرکز… اپنی خودمختاری کی دہلیز پر قدم رکھتا جدید و قدیم ترکی عالمی سیاست میں بہت سے انقلابات کا پیش خیمہ… عالمی سیاست کے اجارہ داروں کی بچھائی ہوئی بساط پر سب سے خطرناک اور تباہ کن مہرہ… لمحۂ موجود میں تمام دنیا کا مرکزِ نگاہ… اس طعنے کو دھوتا ہوا کہ ضمیر مشرق ہے راہبانہ، مغرب میں تو ہر لحظہ بدلتا ہے۔ علم، سائنس، ایجادات، سیاست اور تہذیب و تمدن کے ہر محاذ پر لمحہ لمحہ، روز بروز نئی ایجادات و اکتشافات نے اسے دنیا بھر کا مالک و مختار بنا رکھا ہے۔ اور اہلِ مشرق تو اپنے آباء و اجداد کی قبروں اور لباسوں، اور افکار و نظریات کے مجاور بنے بیٹھے زمانوں سے ایک ہی ڈگر پر چلے جارہے ہیں۔ جدید ترکی آباء و اجداد کے قابلِ فخر علمی، ادبی، تہذیبی ورثے کا امین بھی ہے اور ہر محاذ پر یورپ کے مقابلے میں سینہ تان کر کھڑا نظر آتا ہے۔
میرا موضوع ترکی کی تاریخ بیان کرنا نہیں، اُس سفر کی روداد پیش کرنا ہے جو 3 نومبر تا 10 نومبر 2020ء میں نے اپنی اہلیہ محترمہ فاخرہ، ریٹائرڈ ایسوسی ایٹ پروفیسر عربی، گورنمنٹ کالج ویمن یونیورسٹی فیصل آباد کے ہمراہ کیا۔
ترکی سے محبت اور شناسائی
ترکی سے میری محبت اور شناسائی کے کئی محرکات ہیں۔ بچپن میں سنا کرتے تھے کہ برصغیر کی دو عظیم علمی اور سیاسی شخصیات اور تحریکِ خلافت کے رہنمائوں مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی کی والدہ نے اپنے بیٹوں کوخلافتِ عثمانیہ کی خاطر جان دینے کی تلقین اس طرح کی کہ یہ برصغیر کے بچوں، نوجوانوں اور مسلمانوں کا مقبول ترانہ بن گئی۔ ’’بولیں اماں محمد علی کی… جان بیٹا خلافت پہ دے دو‘‘۔ تاریخ اسلامی کے کچھ دیگر دھندلے نقوش کے ساتھ خلافتِ عثمانیہ اور اس کے مرکز ترکی کا نقش بھی پختہ ہوتا گیا، عربی کے اس محاورے کی طرح ’’چھوٹی عمر کے علمی نقوش پتھر پر کندہ پختہ اور انمٹ نقوش کی مانند ہوتے ہیں‘‘۔
اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستگی کے بعد سید مودودیؒ کے فکری قافلۂ تحریک و دعوتِ اسلامی اور اقامتِ دین کی جدوجہد میں دنیا بھر کے شریک اور ہم سفر قائدین و مفکرین میں ’’بدیع الزماں سعید نورسیؒ‘‘ کا نام، علامہ اقبالؒ کی فکر پر جلال الدین رومیؒ کے اثرات کے نشانات بھی ثبت ہوتے چلے گئے، مگر بُعدِ زمانی اور ہجومِ کار و افکارِ مقامی میں دبتے چلے گئے۔ ترکی سے محبت کی چنگاریاں کبھی کبھی بھڑکنے کی کوشش کرتیں جب ترکی کا کوئی حکمران پاکستان کے دورے پرآتا،سلیمان دیمرل، ترکت اوزال اور اس طرح کے دیگر حکمرانوں کے تذکرے سننے کو یا انہیں پاکستان میں دیکھنے کا موقع ملتا۔ اُس وقت تک ترکی ایک برادر اسلامی ملک سے زیادہ شناخت اور اہمیت نہ رکھتا تھا۔
ترکی سے محبت کی چنگاری شعلۂ جوالہ تب بنی جب استاذ نجم الدین اربکانؒ نے ترکی کی سیاست میں سبز قدم (محاورتاً نہیں، بلکہ اسلامی فکر و نظریات) رکھا، اور ترک امتِ مسلمہ کے تنِ مُردہ میں نئی زندگی کی رمق ڈالی۔ جہاں میں اہلِ ایماں صورتِ خورشید اس طرح جیے کہ حکمت و تدبر سے ترک سیاست میں داخل ہوئے، اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے کے مصداق قدم بڑھاتے ہی گئے۔ کامیابی کا تناسب ہر بار بڑھا اور اگلا قدم پہلے سے مضبوط ہی ہوا۔ ترکی سے محبت اُس وقت مزید مستحکم ہوئی جب مجاہد قاضی حسین احمدؒ امیر جماعت اسلامی پاکستان نے ترکی کا دورہ کیا اور لاکھوں نوجوانوں سے بھرے اسٹیڈیم میں انقلاب آفریں خطاب کیا۔
زبانِ یارِ من تُرکی وَمن ترکی نمی دانم
ترکی سے محبت میں یہ محاورہ بھی بڑا رقیب ٹھیرا۔ یہ جان کر کہ ترکی زبان مشکل بھی ہے اور ترک قوم کسی دوسری زبان سے نابلد بھی… ہماری محبت کے سب جذبے دم توڑ گئے۔ بس اتنی محبت باقی رہ گئی جو احیائے اسلام کی روشن و طلوع ہوتی کرن کو دیکھنے اور جسدِ واحد کا حصہ بننے کی آرزو کی پختگی کا سامان کرتی۔
دبی ہوئی ترک محبت ہماری محبت کے ترکش میں ایک بار پھر ابھرنے لگی جب پاکستان کے کسی نجی ٹیلی ویژن پر ’’میرا سلطان‘‘ نامی ڈراما بالاقساط نشر ہونے لگا۔ بادشاہوں کے جلال و جمال، طور اطوار، لباس، اندازِ حکمرانی، محلاتی سازشوں، خوبصورت کرداروں اور ان کی شاندار اداکاری، اور ترک تاریخ کو دیکھنے، سننے اور جاننے کا موقع ملا۔ شاہ سلیمان، ملکہ عالیہ حورم سلطان اور ان کی خوبصورت نازک شہزادی تو پوری قوم کے حواسوں پر چھا گئے۔ پھر جوانِ رعنا شہزادے اور دیگر سب کردار اپنا منفرد و مؤثر مقام رکھتے تھے، لیکن اس ڈرامے نے ترکی کا انقلاب انگیز تحرک اور پیش رفت جانبِ احیائے امت دھندلا دیے۔
ڈاکٹر درمش بلغر
ڈراما ’’میرا سلطان‘‘ ختم ہونے کے کچھ عرصے بعد پنجاب یونیورسٹی لاہور میں متعین استنبول یونیورسٹی کے وجیہ و شکیل استاد پروفیسر ڈاکٹر درمش بلغر میرے ادارے گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج سمن آباد فیصل آباد، جہاں میں جی سی یونیورسٹی فیصل آباد میں بطور لیکچرر، اسسٹنٹ پروفیسر، ایسوسی ایٹ پروفیسر اور چیئرمین شعبہ عربی کی 25 سالہ طویل خدمات کے بعد گریڈ بیس میں پروفیسر آف عربی پروموٹ اور پرنسپل متعین ہوکر خدمات سرانجام دے رہا تھا، میں ایک سیمینار بعنوان: ’’اقبال اور رومی کی مماثلات‘‘ میں خصوصی لیکچر دینے تشریف لائے۔ ان کے پُرمغر اور معلوماتی خطاب کے بعد بطور صدرِ مجلس مجھے صدارتی کلمات کی دعوت دی گئی، تو میں نے اپنے انتہائی مختصر خطاب میں ترکی سے تجدیدِ محبت کا اظہارکرتے ہوئے تین وجوہات بیان کیں: ایک خلافتِ عثمانیہ، دوسری استاذ نجم الدین اربکان، اور تیسری باعثِ محبتِ جدیدہ حورم سلطان اور اس کا ’’میرا سلطان‘‘۔ میری یہ تیسری بات سن کر ڈاکٹر درمش مضطرب ہوگئے۔ میرے اپنی صدارتی نشست پر واپس آتے ہی انہوں نے دوبارہ خلافِ روایت مائیک پر جانے کی خواہش ظاہر کی، جو اکرامِ ضیف کے مطابق دے دی گئی۔ انہوں نے ’’میرا سلطان‘‘ ڈرامے میں پیش کیے جانے والے کلچر اور تاریخ کی واضح اور شدید الفاظ میںنفی کی اور برأت کا اظہار کیا۔ یہ اظہارِ لاتعلقی ترکی سے میری محبت کا ایک اور بڑا سبب بنا، اور دل چاہا کہ اصل ترکی، اس کی تہذیب، اس کا معاشرہ، اس کے لوگ، اس کے طرزِ بودوباش، اس کے شہر، دیہات، بازار، گلیاں، مساجد، مدارس، آثارِ قدیمہ، قدامت، جدت اور نئے دور کے سلطان طیب اردوان کے ترکی کو دیکھا جائے اور نشاۃ و احیائے اسلام کی طلوع ہوتی کرنوں کو بچشمِ خود اپنی ذات، اپنے قلب و ذہن اور فکر پر منعکس و مربوط کیا جائے۔ مگر بظاہر یہ ناممکن تھا۔ ایک طرف سرکاری فرائض، ایک نہیں بلکہ تین کلیدی مناصب۔ ہوا یوں کہ 2013ء کے قومی انتخابات کے موقع پر تمام کلیدی عہدوں پر فائز افسروں کو پنجاب کی نگران حکومت نے ٹرانسفر کردیا۔ ڈویژن کے سینئر ترین پرنسپل کے طور پر مجھے ڈائریکٹر کالجز فیصل آباد ڈویژن کے منصب کا اضافی چارج بھی دے دیا گیا، اور کچھ ہی دنوں بعد فیصل آباد تعلیمی بورڈ کا چیئرمین بھی مقرر کردیا گیا۔ میں ایک دن میں تین دفاتر، اداروں کے معاملات نبٹاتے نبٹاتے اور پھر لاہور اور دیگر شہروں میں طویل میٹنگر میں شرکت کے باعث کسی بھی سفر کے لیے سوچ بھی نہیں سکتا تھا، اور پھر وسائلِ سفر ایک اور بڑا سوال تھا۔ مگر آتشِ عشق بھڑک چکی تھی اور عشق و محبت کے کام ہی ایسے ہیں کہ انہی کے راستوں میں معجزے برپا ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر دائودی اور امام کورانیؒ
ترکی سے محبت کا ایک فلیش پوائنٹ تو چند سال پہلے ہونے والی ناکام بغاوت تھی جس کا سامنا ترک صدر طیب اردوان نے، اور قوم کے لاکھوں جانبازوں نے اپنی محبت، جرأت، ہمت و استقامت کے عظیم مظاہر کے ساتھ کیا، جسے ساری دنیا کی طرح ہم نے بھی جاگتی آنکھوں اور دھڑکتے دل اور دعائوں کے نذرانوں کے ساتھ ساری رات دیکھا۔ ترک نوجوانوں کا اپنی منتخب حکومت، اپنے ہمدرد و خیر خواہ حکمرانوں اور سروں کے تاج رہنمائوں کے خلاف جانوں کو ہتھیلیوں پر رکھ کر اندرونی اور بیرونی دشمنوں کی سازش کے نتیجے میں برپا ہونے والی بغاوت کا مقابلہ ترک تاریخ کا اس قدر سنہرا باب بن گیا کہ جس کی مثال اس عہد میں ہرگز موجود نہیں، نہ ہی کسی دوسری قوم نے ایسے جذبوں کا اظہار کیا۔ یہ مناظر کتنے عبرتناک تھے مختلف قوموں کے سیاسی لیڈروں کے لیے، جو سوائے اپنی قوم کا خون نچوڑنے اور اپنے مفادات کی پیاس بجھانے کے کوئی دوسرا کام نہیں کرتے۔ اس ایک ہیجان انگیز رات اور ترک قوم کی جانبازی اور سرخروئی نے آتشِ عشق کو یقینا بھڑکا دیا۔
مگر ترکی سے محبت کی ایک اور دبی چنگاری ہمارے دوست، عالم و فاضل، محقق و دانشور پروفیسر ڈاکٹر خالد ظفراللہ دائودی کے سفر و قیامِ ترکی نے بھی بھڑکائی ہے جو دورانِ ملازمت علم حدیث کے ایک اہم موضوع پر تحقیق کرنے ترکی کی یونیورسٹی میں کم و بیش پانچ سال قیام پذیر ہوئے اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری لے کر لوٹے۔ کئی کالجز کے پرنسپل رہے۔ کئی عالمانہ و محققانہ کتابوں کے مصنف بنے اور ہماری ترکی سے محبت کا ایک زینہ۔ ترکی کے ہی امام اسماعیل الکورانیؒ کا عربی زبان میں ایک تفسیری مخطوطہ بھی میری عقیدت کا ایک مضبوط باعث بنا، جو عربی زبان میں لکھا گیا، اور میں نے اپنی اہلیہ کی ڈاکٹریٹ کے لیے اسے منتخب کیا۔ اس مخطوطہ کا یہ نسخہ بھی ترکی سے ڈاکٹر خالد ظفر اللہ دائودی کے توسط سے میسر آیا جو آج بھی میرے ذخیرۂ کتب میں موجود ہے۔
حسن چلپی کے قلم دوات اور حرمین کی تعمیرات
2015ء میرے لیے سعادتوں کا سال تھا۔ نجانے کب بارگاہِ الٰہی سے حرمین کے سفرِ سعادت، سفرِ نصیب، سفرِ حج کے لیے بلاوا آگیا۔ بڑی سعادت یہ کہ پہلا مستقرہی مدینہ طیبہ ٹھیرا۔ یہاں کا ائیرپورٹ ابھی نیا بنا تھا اور فیصل آباد سے پروازوں کا آغاز بھی اسی سال ہوا۔ یہ تو ایک علیحدہ سفر کی داستان کا موضوع ہے، مگر ترکی سے محبت میں اس سفر نے بھی کام دکھایا۔ حرمین کی اکثر تعمیرات، مسجد نبوی کی محرابیں، گنبد اور خطاطی ترکی عہد کی ہیں۔ گنبد ِخضرا کا سبز اور متصل چاندی رنگ کے کئی گنبد خلافتِ عثمانیہ کے آثارِ طیبہ ہیں۔ یہی مناظر حرم مکہ میں مطاف میں ترکی محرابوں کی صورت دیکھنے کو ملے۔ یقینا خلیفہ عبدالحمید اور دیگر اعیانِ خلافت کے بارے میں جاننے کا موقع میسر آیا جس سے محبت میں اضافہ ہی ہوا۔ ایک روز مسجدِ نبوی کی لائبریری میں فیصل آباد کے عظیم محقق و دانشور پروفیسر ڈاکٹر قاری محمد طاہر کے پی ایچ ڈی کے تحقیقی مقالے بمتعلق تجوید و قرأت جس کے بارے میں سنا تھا کہ وہ مقالہ مسجد نبوی کی لائبریری میں رکھا گیا ہے، کی تلاش میں جا پہنچا۔ وہ مقالہ تو وہاں کے بجائے مرکزی لائبریری میں رکھاگیا تھا، جہاں جانے کا موقع نہ ملا، البتہ شیشے کی ایک الماری میں کچھ قلم و دوات نظر آئے۔ یقینا وہ کسی خطاط سے متعلق ہوں گے۔ یہ سوچ کر انہیں دلچسپی سے دیکھا کہ مجھے عربی،ایرانی، ترکی خطاطی کے شہ پاروں میں بہت دلچسپی ہے۔ ان اشیا کو غور سے دیکھا اور تعارفی اسٹیکر پڑھا تو معلوم ہوا کہ یہ ترکی کے معروف ترین خطاط ’’حسن چلپی‘‘ کے اَدواتِ کتابت ہیں۔ ان کے قلم مختلف قط کے، ان کی سیاہی کی دواتیں رنگ برنگی، بیسیوں کی تعداد میں، اور غالباً ان ہی نے مسجد نبوی میں قدیم خطاطی انہی قلموں سے کی۔ حسن چلپی کے یہ قلم دوات ترکی سے میری محبت کا ایک اور مضبوط قرینہ بن گئے۔ اور اس محبت میں مزید اضافہ 2019ء میں عمرہ کی سعادت کے دوران مدینہ میں قائم ایک نجی میوزیم میں ترکی تاریخ، ترکی باقیات اور آثار کے مشاہدے اور مطالعے نے کرایا۔ مدینہ طیبہ حاضر ہونے والے کو بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضری، درود و سلام، زیاراتِ مقدسہ، نمازوں کی ادائیگی اور دیگر مسنون اعمال کے ساتھ ترجیحاً اور لازماً اس میوزیم کا گہرا مطالعہ و مشاہدہ کرنا چاہیے جو مدینہ ائیرپورٹ سے قریب ہے اور سیرتِ طیبہ کے تمام نقوش حیات، اور انقلاب آفرین لمحاتِ فیصل کی بصورت ماڈلز مکمل تاریخ کو روح پرور انداز سے بیان کرتے ہیں۔ سیرتِ پاک کے نقوشِ طیبہ کا تتبع کرنے والے اس کا مشاہدہ کرکے بجا طور پر اسے حاصلِ سفر قرار دے سکتے ہیں۔
(جاری ہے)