مس نعیمہ: ’’السلام علیکم بچو… خوش آمدید۔‘‘
بچے: ’’وعلیکم السلام ٹیچر۔‘‘
’’آج کا دن آپ سب کے لیے بہت اہم ہے، الحمدللہ پرائمری مکمل کرکے آپ سب کلاس ششم میں پہنچ گئے ہیں… ماشاء اللہ آپ سب کی آنکھوں سے ذہانت ٹپک رہی ہے اور کچھ کی آنکھیں بتا رہی ہیں کہ وہ شریر بھی ہیں۔ چلیں آج آپ سب کا تعارف ہوجائے۔ کچھ نیو ایڈمیشن بچے بھی ہیں۔‘‘
سب بچوں نے باری باری اپنے نام بتائے لیکن جب شاہ زیب کی باری آئی تو باقی بچوں نے تمسخرانہ انداز میں ایک دوسرے کو دیکھا۔ شاہ زیب کچھ جھینپ سا گیا اور اس نے نظریں جھکا لیں۔
مس نعیمہ نے جو ایک سینئر اور تجربہ کار استاد تھیں اور ایسی صورتِ حال سے ان کا بارہا واسطہ پڑ چکا تھا، شاہ زیب سے کہا ’’ماشاء اللہ بہت پیارا نام ہے اور آپ خود بھی بہت پیارے ہیں۔‘‘
مس نعیمہ کی بات پر سب بچے کھلکھلا کر ہنسنے لگے۔
مس نعیمہ: ’’بھئی سب بچوں کا تعارف تو ہوچکا، اب ذرا پڑھائی کی طرف بھی آجائیں جس کا یقینا آپ سب کو انتظار بھی ہوگا۔‘‘
مس نعیمہ نے اپنے ماہرانہ انداز سے پڑھائی کا آغاز کیا۔ گاہے بگاہے بچوں سے دل چسپ طریقے سے سوال جواب بھی کرتی رہتیں، جس سے بچے نہ صرف پڑھائی کی طرف راغب ہوگئے بلکہ دل چسپی بھی لینے لگے۔ انہوں نے شاہ زیب سے بھی سوال جواب کیے، لیکن وہ شرماتے ہوئے کچھ صحیح، کچھ غلط جواب دے رہا تھا۔ جب بھی مس نعیمہ شاہ زیب سے بات کرتیں بچے ذومعنی انداز میں مسکراتے اور ایک دوسرے کو کہنیاں مارتے۔ مس نعیمہ نے ایک دو بچوں کی آواز بھی سنی جو کہہ رہے تھے کہ یہ بے وقوف کیا جواب دے گا! بچوں کی بات سن کر انہیں نہایت افسوس ہوا۔ وہ لنچ ٹائم میں پرائمری سیکشن میں کلاس پنجم کی شاہ زیب کی پرانی کلاس ٹیچر سے ملنے آگئیں۔ انہوں نے جب مس زرینہ سے شاہ زیب کے بارے میں بات کی تو انہوں نے ناگواری سے کہا کہ وہ تو نالائق بچہ ہے، پوری کلاس کو ڈسٹرب کردیتا ہے، کھینچ تان کر سالانہ امتحان میں اس کو دھکا دیا جاتا ہے۔
مس زرینہ کی بات سے انہیں بڑا افسوس ہوا۔ وہ صرف استاد نہیں بلکہ ایک ماں بھی تھیں، اسی لیے ان کا دل دُکھی ہوگیا۔ اکثر ایسے بچوں سے ان کا واسطہ پڑتا تھا۔ گھر آکر بھی وہ اس بچے کے بارے میں سوچتی رہیں۔ انہیں لگا کہ اس بچے کو خصوصی توجہ کے ساتھ ساتھ حوصلہ افزائی کی بھی ضرورت ہے۔ یہی دو چیزیں شاہ زیب میں تبدیلی لاسکتی ہیں۔ مس نعیمہ کو وہ تحریر یاد آگئی جو انہوں نے دورانِ تعلیم ایک ماہر نفسیات کے بارے میں پڑھی تھی جب اُس نے ایک بندر کو پنجرے میں (تجربے کے لیے) بند کیا تو پنجرے کے باہر بندر کی پسندیدہ کھانے کی چیز رکھ دی۔ بندر نے اس چیز کو حاصل کرنے کے لیے دروازے پر ہاتھ پائوں مارے، خاصی دیر کے بعد اتفاقاً دروازہ کھل گیا اور بندر نے باہر نکل کر کھانے کی وہ چیز اٹھا لی۔ ماہر نفسیات نے بندر کے کارنامے پر اُسے مزید اُس کی پسندیدہ چیزیں دیں۔ اگلے دو تین دن بھی اس نے اسی طرح کیا۔ کچھ دن میں بندر میں یہ تبدیلی آئی کہ وہ براہِ راست دروازے کی کنڈی کھولتا اور اپنی پسندیدہ چیز حاصل کرلیتا۔ اس طرح اس کی حوصلہ افزائی ہوتی گئی۔ مس نعیمہ نے سچا کہ توجہ اور حوصلہ افزائی سے ایک جانور سدھر سکتا ہے تو شاہ زیب تو ایک انسان ہے۔ لہٰذا انہوں نے اگلے دن خاص طور پر شاہ زیب سے سوال کیے۔ اگر وہ سوال کے کچھ حصے کا بھی جواب دے دیتا تو مس نعیمہ اس کی تعریف کرتیں۔ اس طرح ساتھ ساتھ وہ باقی بچوں پر بھی توجہ دیتیں اور ان کی تعریف کے ساتھ مثبت طریقے سے غلطیوں کی اصلاح بھی کرتی جاتیں۔ میٹنگ میں شاہ زیب کی والدہ سے ملاقات کے بعد جب نعیمہ کو پتا چلا کہ دوسرے بیٹے کی پیدائش کی وجہ سے ماں نے اسے خاصی حد تک نظرانداز کیا ہے تو انہیں بہت افسوس ہوا۔ خصوصاً اس لفظ پر کہ ’’وہ نالائق ہے‘‘۔ انہوں نے اس کی والدہ کو بتایا کہ آپ کا بیٹا نہایت ذہین ہے، اس کی طرف توجہ دیں اور اس کی چھوٹی چھوٹی چیزوں پر حوصلہ افزائی کریں۔
ایک دو مہینوں میں ہی مس نعیمہ اور اپنی والدہ کی کوششوں سے شاہ زیب میں خاص اور نمایاں تبدیلی آئی۔ اسکول کی میڈم نے بھی اساتذہ کے ساتھ میٹنگ کے دوران مس نعیمہ کی کوششوںکو سراہا۔
میڈم کے اس مثبت رویّے کی بدولت مس نعیمہ کو حوصلہ ملتا رہتا تھا جس کی وجہ سے ان میں ماہرانہ صلاحیتیں اجاگر ہوتی گئیں۔ نہ صرف والدین بلکہ بچے بھی اُن کی اِن صلاحیتوں سے استفادہ کرتے تھے اور ان کے مشکور تھے۔
مذکورہ بالا یہ ایک چھوٹا سا واقعہ جو میں نے آپ سے شیئر کیا، اس سے واضح ہے کہ توجہ اور حوصلہ افزائی انسان کو کامیابی سے ہم کنار کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔
میں نے دورانِ درس و تدریس یہ بات نوٹ کی کہ بچوں پر اساتذہ اور والدین کی توجہ اور حوصلہ افزائی نے ان کی مخفی صلاحیتوں کو بھی اجاگر کیا، جب کہ تنقید اور منفی رویوں، اور ترشی کا سامنا کرنے والے بچوں کی نہ صرف ذہنی صلاحیتیں بلکہ ان کی شخصیت بھی مسخ ہوتی ہے جس کی وجہ سے بچے احساسِ کمتری کا شکار ہوجاتے ہیں۔
نہ صرف بچوں بلکہ بڑوں میں بھی یہ چیز پائی جاتی ہے کہ اگر ان کے کسی کام کی تعریف کی جائے تو ان کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور اگلی مرتبہ وہ اس سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ تھوڑی سی تعریف اور توجہ سے انسان کوشش بڑھا دیتا ہے۔ اس کی یہ کوشش اسے نہ صرف کامیاب کرتی ہے بلکہ آگے بڑھانے میں بھی مددگار ثابت ہوتی ہے۔ میں نے یہ بات بھی نوٹ کی ہے کہ کتنے ہی مشکل اور کٹھن حالات کا سامنا ہو، اگر بندے کے پاس کوئی ہمت بڑھانے اور حوصلہ افزائی کرنے والا ہو تو وہ اپنی مشکلات پر قابو پا لیتا ہے۔ مجھے میری ایک عزیزہ نے بتایا: ’’معاشی و گھریلو مسائل نے مجھے بالکل نڈھال کردیا تھا، جس کی وجہ سے میری ذہنی صلاحیتیں بھی ماند پڑ گئی تھیں، جب میں ملازمت کے لیے گھر سے باہر نکلی تو سب کی رائے یہ تھی کہ یہ ناکام رہے گی، یہ کہاں اتنے بڑے ادارے میں پائوں جما سکے گی! لیکن وہاں میری محترم انچارج نے مجھ میں چھپی صلاحیتوں کا اندازہ لگا لیا، وہ مجھے اکثر کہتیں: تم باصلاحیت ہو، تم یہ کام صحیح کرسکتی ہو۔ اکثر میٹنگ میں بھی وہ میری چھوٹی چھوٹی کامیابیوں کی تعریف کرتیں۔ اپنی انچارج کے اس مثبت رویّے کی وجہ سے میں اس ادارے کی کامیاب، باصلاحیت اور محنتی رکن کی حیثیت سے عزت حاصل کرنے کے قابل ہوگئی۔‘‘
میں اپنی عزیزہ کی اس بات سے بالکل متفق ہوں، بلکہ اس میں مزید اضافہ اس طرح کروں گی کہ آپ کی تعریف یا آپ کو کامیابی پر ملنے والے ایوارڈ یا اعزاز کی بدولت نہ صرف آپ کامیابی حاصل کرتے ہیں بلکہ آپ کے دل میں یہ احساس جگہ بنا لیتا ہے کہ مجھے اپنی ذمے داری یا کارکردگی پہلے سے بھی زیادہ عمدہ طریقے سے نبھانی ہے۔
حریم ادب کی طرف سے جب بھی میں نے اعزاز (ایوارڈ) حاصل کیا مجھے اپنی ذمے داریوں کا مزید احساس ہوا۔ اسی طرح میرے تمام ساتھی بھی میری اس بات سے متفق ہیں کہ یہ اعزاز ہمیں ہمیشہ یاد دلاتا ہے کہ اب پہلے سے بھی زیادہ عمدہ کام کرنا ہے۔
ہر شعبۂ زندگی میں کام انجام دینے والوں کے لیے یہ اعزاز اور تعریف جو اعتدال کے ساتھ کی جائے، اسے آگے بڑھانے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ بے جا تعریف سے گریز کرنا چاہیے، کیوں کہ حد سے تجاوز ہو تو وہ چیز فائدے کے بجائے نقصان کی طرف لے جاتی ہے۔ ہمارے دینِ اسلام نے ہمیں اس بات سے روکا ہے، یعنی بلاوجہ، غیر ضروری، حد سے زیادہ تعریف، چاپلوسی، خوشامد سامنے والے کو معذور اور خودغرض کردیتی ہے۔ اس بے جا تعریف اور خوشامد سے دوسروں کی حق تلفی بھی ہوسکتی ہے۔ مذہبِ اسلام ضابطۂ حیات ہے، معاملاتِ زندگی اور حقوق العباد کی پاس داری کی تلقین کرتا ہے۔ دینِ اسلام کی تمام تعلیمات میں توازن اور اعتدال کی تعلیم دی گئی ہے تاکہ اللہ کے بندوں کے ساتھ منصفانہ ماحول بن سکے۔ نہ کسی کو نظرانداز کیا جائے، نہ اس کی صلاحیتوں سے چشم پوشی برتی جائے، نہ کسی کو اتنا سر پر بٹھایا جائے کہ وہ خودسر اور مغرور ہوکر دوسروں کو کم تر سمجھے اور نفرت سے دیکھے۔
ایسے ماحول میں اداروں میں کام کرنے والے دوسرے کارکن بددل اور مایوس ہوکر اپنی صلاحیتیں اور کارکردگی نہ دکھا پائیں گے۔ لہٰذا افسرانِ بالا کو مثبت طریقے، اعتدال اور توازن کے ساتھ اپنے ماتحتوں اور ساتھیوں کے ساتھ تعلقات رکھنے چاہئیں، تاکہ سامنے والے کی صلاحیتیں بھی اجاگر ہوسکیں اور ان کی شخصیت میں کوئی منفی (خامی) عادت بھی نہ ابھر سکے۔ بچوں کے معاملے میں بھی یہی مثبت طریقہ یعنی حوصلہ افزائی، تعریف کرنے اور توجہ دینے کے انداز کو اپنانا چاہیے۔