رات کا تیسرا پہر تھا اور نیندآنکھوں سے اوجھل تھی۔ میں بستر پر لیٹے گھومتے پنکھے کو دیکھ رہی تھی۔ نہ جانے آج کون سی بے چینی میرے اندر تھی کہ وقت کاٹے نہیں کٹ رہا تھا!
میرے ساتھ میری پوتی خوابِِ خرگوش کے مزے لوٹ رہی تھی۔ مجھے یوں نیند کا انتظار کرتے کئی گھنٹے ہوگئے تھے۔ ننھی صالحہ کے سر پر ہاتھ پھیرتی رہی، پھر نہ جانے کیا خیال آیا کہ سامنے الماری کے پٹ کھولے اور اپنی ڈائری نکال لی جو کئی برسوں سے نچلے خانے میں محفوظ رکھی تھی۔
ڈائری کے صفحات کو الٹ پلٹ کرتی رہی، پھر اچانک میری نظر فیئر ویل پارٹی کے لفظ پرپڑی… لکھا تھا ’’آج مجھے ڈرامے میں دھوبی کا کردار ادا کرنا تھا…میں بہت گھبرائی ہوئی تھی۔‘‘
مجھے یہ غیر دل چسپ لگا۔ پھر کئی صفحوں کو آگے بڑھایا… اور سرسری نظر ڈال کر ادھورے جملے پڑھ کر چھوڑتی گئی… کسی صفحے پر لکھا تھا ’’بورڈ کا پیپر تیاری کے حساب سے اچھا نہیں ہوا‘‘۔ تو کسی پر درج تھا ’’آج میری ممی سے لڑائی ہوگئی…آج میری خالہ کے بیٹے امجد سے بات پکی ہوگئی ہے‘‘۔ کسی پر تحریر تھا کہ ’’آج میری شادی کو دو سال ہوگئے ہیں… اور اللہ نے مجھے پیارے بیٹے جنید سے نوازا ہے۔‘‘
یوں ہی صفحے پلٹتی گئی۔ پھر اکتا کر ڈائری کو اٹھاکر کنارے پر موجود میز پر رکھ دیا۔ میری آنکھوں کے سامنے میری زندگی گردش کررہی تھی۔ انہی سوچوں میں میری نظر سامنے لگے آئینے پر پڑی۔
میں نے دیکھا سامنے ایک عورت سفید چاندنی بالوں میں سجائے، جھریوں بھرے چہرے سے اپنے نقوش تلاش کررہی تھی، وہ نقوش جن پر اُسے بہت ناز تھا… وہ بال جن کو سنوارنے میں وہ خاصا وقت لیتی تھی۔ میں خالی آنکھوں سے یک ٹک اپنے آپ کو دیکھتی رہی۔
آج میری آنکھوں کے سامنے ماضی کے دریچے کھل رہے تھے۔ میں اپنی 67 سالہ زندگی کے خانے کھوجتی رہی تھی ، مگر مجھے اپنی زندگی کے کسی گوشے میں وہ چمک نظر نہ آئی جو پلِ صراط پار کرانے میں میری مددگار بنے۔
میں سوچنے لگی کہ میں نے بھی ہر جانے والے کی طرح زندگی کے ہر دور کے تقاضے پورے کیے… اور عمر کے دھارے کے ساتھ چلتی رہی۔ میں نے اپنی آخرت کے لیے کیا جمع کیا؟ کیا میں نے اپنی ابدی زندگی کے لیے کوئی سرمایہ جمع کیا؟ یا مجھے بھروسا تھا کہ نامۂ اعمال میں میری نیکیوں کا پلڑہ بھاری ہوگا؟ یا مجھے یقین تھا کہ میں جنت کی حق دار ہوں؟
آج میرا ضمیر مجھے عدالت میں کھڑا کررہا تھا اور میں خالی ہاتھ تھی۔کل جب میزان لائی جائے گی تو میں کیسے جواب دوں گی…؟ انہی سوچوں میں میری آنکھیں اشک بار ہوگئیں۔
اتنے میں دروازے پر دستک ہوئی، میں نے دیکھا میرا بیٹا جنید کھڑا تھا۔ کہنے لگا ’’امی! فجر کے لیے اٹھانے آیا تھا۔‘‘
پھر میرے قریب آیا اور کہنے لگا ’’کیا ہوا امی! سب خیریت ہے…؟‘‘
میں نے اس کے چہرے پر ہاتھ پھیرا اور مسکرا دی… کیوں کہ اس کی شکل میں مجھے امید کی کرن نظر آرہی تھی۔