کل میرے دیور کا سوئم بھی ہوگیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، آمین۔ چند دن پہلے ان کو دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ صحت مند، چاق چوبند و توانا بندہ صرف دو ڈھائی ماہ کا مہمان ہے۔
بے شک یہ دنیا مہمان خانہ ہی تو ہے۔ چند دن کے لیے مہمان خانہ… بالکل اسی طرح جیسے ایک بندہ سفر پر نکلے تو راستے میں سستانے کے لیے چند گھنٹے کسی درخت کے سائے تلے آرام کی غرض سے رکے، آرام کرکے پھر اصل منزل کی طرف گامزن ہوجائے۔ بالکل اسی طرح بندے کا اِس دنیا کے ساتھ مختصر ساتھ ہے۔
…٭…
ایک ماہ پہلے معلوم ہوا کہ ادا (دیور) کو کورونا ہوگیا ہے، انہیں اسپتال میں داخل کرا دیا گیا ہے۔ ہنسی خوشی بیوی بچوں کو خدا حافظ کہا کہ میںجلد لوٹ آئوں گا، دُعا کرنا۔ کسے معلوم تھا کہ یہ اُن کا آخری خدا حافظ ہے۔
کراچی کے دو، تین بڑے اسپتالوں میں کوشش کی لیکن داخلہ نہ مل سکا۔ آخر جناح اسپتال میں بڑی مشکل سے داخلہ ہوا، شکر ادا کیا گیا۔ اس وقت کورونا کا اتنا پھیلائو بڑھ گیا ہے کہ اسپتالوں میں مریضوں کے لیے بستر کم پڑ گئے ہیں۔ اللہ ہم پر رحم کرے۔
ایک ہفتہ علاج کے بعد ڈاکٹروں نے خوش خبری سنائی کہ کورونا کا ٹیسٹ منفی آیا ہے لیکن ابھی پھیپھڑوں کا انفیکشن باقی ہے۔ لہٰٰذا کورونا وارڈ کے ICU سے دوسرے وارڈ کے ICU میں منتقل کردیا گیا۔ آکسیجن سیلنڈر کے ذریعے سانسیں چل رہی تھیں، کسی کو ملنے جلنے کی اجازت نہیں تھی۔ چاروں بیٹے وقتاً فوقتاً اسپتال میں ICU کے باہر انتظار گاہ میں موجود رہتے۔ صرف چند منٹ کے لیے باپ سے ملنے کی اجازت دی جاتی۔ بیٹوں کی جب بھی باپ سے ملاقات ہوتی، آکسیجن ماسک منہ سے ہٹاکر لڑکھڑاتی زبان سے دو، تین جملے بولتے۔ بیوی اور گھر کے باقی بچوں کی خیریت معلوم کرکے بچوں کو اطمینان دلاتے کہ میں پہلے سے بہتر ہوں۔ بیٹے بھی باپ کو یہی تسلی دیتے کہ ڈاکٹر کہہ رہے ہیں آپ پہلے سے کافی بہتر ہیں۔
ادا کے دوسرے بھائی بہنوں کو ملنے نہیں دیا جارہا تھا، بس فون پر حال احوال ہی معلوم کیا جارہا تھا۔ سب کو یہی معلوم تھا کہ طبیعت خاصی سنبھل گئی ہے، ایک ہفتے میں چھٹی دے دیں گے۔ کسی کو معلوم نہ تھا کہ یہ تو دنیاوی زندگی سے مکمل چھٹی کا پروانہ ہوگا۔
لیکن انہیں خود بھی اندازہ ہوچکا تھا کہ یہ ان کا آخری وقت ہے۔ ویسے وہ صوم و صلوٰۃ کے پابند تھے ہی، بستر پر لیٹے لیٹے نماز پڑھ لیتے۔ آخری چند دن تو ان کے لبوں پر ذکرِ الٰہی کے سوا کچھ نہ تھا۔ جو بیٹا بھی ICU میں ملنے جاتا وہ اُن کے لبوں پر تسبیح سنتا، پھر بیٹوں سے کہتے: مجھے کلمہ اور قرآن پڑھائو۔
کسے معلوم تھا کہ وہ اتنی جلدی چلے جائیں گے۔ لیکن ایک بات قابلِ رشک تھی کہ وہ اس ایک مہینے میں مسلسل ذکرِ الٰہی میں مصروف رہے۔ یہ موقع ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتا۔ انسان کو اگلے پل کی خبر نہیں، اچھے خاصے بیٹھے بیٹھے بندے پل بھر میں اس دنیا سے چلے جاتے ہیں۔ موت کا تو وقت مقرر ہے، پھر ہم اتنے غافل کیوں ہیں؟ کیوں دنیاوی زندگی میں گم اور آخرت سے غافل ہیں؟
…٭…
چاروں طرف نظر دوڑائیں تو ہم میں سے اکثریت اپنی موت اور آخرت سے غافل، دنیا کی گہماگہمی اور چکا چوند میں مصروف نظر آتی ہے۔ خوب سے خوب تر کی تلاش، دوسروں سے دنیاوی ترقی میں سبقت لے جانا، دنیاوی معاملات میں ایک دوسرے سے ریس اور حسد… یہ سب کچھ چاروں طرف نظر آرہا ہے۔ جب کہ موت کو یاد رکھنے والے اور آخرت کے حساب کے بارے میں ڈرنے والے تو ہر گھڑی اپنی موت کو یاد رکھتے ہیں کہ نہ جانے اگلا لمحہ ملے یا نہ ملے، کچھ تو آخرت کے لیے کمائی کرلوں۔ دنیا میں بے کار اور لغو کاموں اور باتوں میں وقت گزارنا تعلیماتِ اسلام کے خلاف ہے۔ جنہیں آخرت اور سزا و جزا پر یقین نہ ہو وہی لغو کاموں میں وقت گزارتے ہیں۔ قرآن پاک میں کئی مقامات پر میرے رب نے ’’اللہ کے بندو‘‘ کو بے کار اور لغو کاموں میں اپنا وقت گزارنے سے منع فرمایا ہے۔ رب العزت نے اپنے بندوں کو اپنی بندگی کے لیے پیدا کیا ہے، اس کے علاوہ دنیا میں ضروریاتِ زندگی کی طرف توجہ دلائی ہے، یعنی معاش اور ذکرِ الٰہی اور حقوق العباد کی ادائیگی۔
بندے کا اصل گھر آخرت ہے، جب ہمیں معلوم ہے کہ یہ دنیاوی زندگی تو صرف چند دن کی ہے، ہر ذی روح کو اپنے آخرت کے گھر کی طرف روانہ ہونا ہے جیسے کہ کسی عالمِ دین کا بیان تھا کہ اصل کتاب تو ’’آخرت کی زندگی‘‘ ہے، یہ تو صرف ’’دیباچہ‘‘ ہے (دنیاوی زندگی)، آخرت میں اصل کتاب کھلے گی کہ آپ نے دنیا کی زندگی میں (دیباچے میں) کیا کیا، کس طرح وقت گنوایا، کس طرح کمایا، کس طرح خرچ کیا۔ اللہ کے بندے جو آخرت پر یقین رکھتے ہیں، سزا و جزا پر ایمان رکھتے ہیں تو وہ کیسے لغو کاموں میں اپنے آپ کو ضائع کریں گے! وہ تو جہاں اس قسم کے لغو مشاغل کو دیکھیں گے اپنا راستہ بدل دیں گے۔
الحمدللہ ہم سب مسلمان ہیں، سزا و جزا اور آخرت کے دن پر یقین رکھتے ہیں، اپنے آس پاس اموات کو دیکھتے ہیں تو ایک دم لرز جاتے ہیں، اپنی موت کو یاد کرنے لگتے ہیں کہ آیا میرا دامن نیکیوں سے پُر ہے، میں نے اپنے آپ کو تعلیماتِ اسلامی کی حدود میں رکھا ہے، جو فرائض اور حقوق رب کی طرف سے مجھ پر عائد کیے گئے ہیں ان کی میں نے پاسداری کی ہے یا نہیں۔ کہیں مجھ سے رب العالمین کے احکامات کی پیروی کرنے میں کوئی کوتاہی تو سرزد نہیں ہوئی۔ یعنی اپنا مکمل محاسبہ کرتے ہیں، یہی ایمان کی نشانی ہے کہ اپنا محاسبہ کریں اور کوتاہیاں اور گناہ سرزد ہوئے ہیں تو اس پر توبہ واستغفار کریں کہ اے اللہ تُو نے مجھے مہلت عطا کی کہ میں استغفار اور اپنی اصلاح کرسکا۔ لیکن ایسے لوگ جو غفلت میں ڈوبے ہوئے ہیں، آس پاس اموات کو دیکھ کر بھی اپنا محاسبہ اور اصلاح نہیں کرتے، آخرت میں اُن کے لیے پچھتاوے کے سوا کچھ نہ ہوگا۔ وہ ہاتھ مَلتے رہ جائیں گے کہ کاش ہمیں دوبارہ زندگی مل جائے تو ہم دنیا میں جاکر دوبارہ آخرت کے امتحان کی تیاری کریں، لیکن ایسا ممکن نہیں ہوگا۔ اس لیے ہر وقت اپنی موت کو یاد رکھنا ہوگا، کسی بھی لمحے غافل نہیں ہونا۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ اپنی ہر نماز کو اپنی زندگی کی آخری نماز سمجھو تو خشوع و خضوع پیدا ہوگا۔ اللہ رب الکریم ہم سب کو اپنی آخرت سنوارنے کا موقع اور توفیق عطا فرمائے، آمین۔
آج اگر ہمیں کچھ وقت اللہ نے دے دیا ہے اس جہانِ فانی میں، تو اسے غنیمت جان کر کچھ پونجی آخرت کے لیے جمع کرلیں۔ سال کے اختتام پر لوگ بڑے جوش و جذبے اور خوشی سے ایک دوسرے کو نہ صرف نئے سال کی مبارک باد دے رہے تھے بلکہ کچھ نے تو لہوولعب کی محفلوں سے نئے سال کا آغاز کیا۔
کیا ہم مسلمانوں کی یہ روش صحیح ہے؟ کیا ہم نے سوچا کہ ایک سال زندگی کا اور کم ہو گیا۔ کیا کھویا کیا پایا۔ کیا آخرت کی پوٹلی کے لیے کچھ کمایا، یا یونہی دنیا کے کھیل تماشوں میں وقت گنوایا؟ اب بھی وقت ملا ہے تو نادان کچھ سمیٹ لے، یوں نہ ہو کہ ہاتھ ملتا رہ جائے، دامن خالی رہ جائے۔ اے بندۂ خدا اس فانی دنیا کے لیے ابدی گھر کو نہ گنوا۔ ڈر اُس دن کی رسوائی سے جب اپنے نبیؐ کو منہ نہ دکھا سکے۔
آج ان لمحوں کو غنیمت جان۔
توشۂ آخرت تیار رکھ۔
نہ فراموش کر اس فریضے کو، نہ جانے کب تیرا بلاوا آجائے۔
خدایا ہم سب کو آخرت کے سفر کے سامان کی تیاری کی عقل دے، آمین ثم آمین یا رب العالمین۔