بے زبان محبت

رات بھر کی بارش نے ماحول کو انتہائی خوف ناک بنادیا تھا۔ گہرا اندھیرا ہر طرف چھایا ہوا تھا، لوڈشیڈنگ نے رہی سہی کسر پوری کردی تھی۔ بادلوں کی گرج اور بجلی کی چمک سے لوگ خوف زدہ ہوکر قرآنی آیات کا ورد کررہے تھے۔ میں خود بھی بچپن سے بارش سے ڈرتی تھی۔ میری ساری سہیلیاں میرے خوف کا مذاق اڑاتیں، مگر میں نے اپنے بچپن میں دھواں دھار بارش سے کئی مکانوں کی چھتوں کو گرتے، سائبانوںکو ٹوٹتے اور لوگوں کو مکانوں کے ملبے میں دب کر زخمی اور مرتے دیکھا تھا۔ بچپن کا وہ خوف اب بھی موجود تھا، اس لیے جہاں پانی کا چھینٹا پڑتا، میں کسی نہ کسی کونے کھدرے میں پناہ لینے کے لیے چھپ جاتی تھی۔
اس دن بھی کراچی میں شدید بارش ہورہی تھی۔ میں اپنے آپ کو زبردستی مصروف رکھنے کی کوشش کررہی تھی۔ ’’میائوں… میائوں…‘‘ یہ دبی دبی سہمی ہوئی آواز بہت دیر سے کہیں دور سے سنائی دے رہی تھی اور میں باوجود کوشش کے باہر نکلنے کے لیے کسی طرح آمادہ نہیں ہو پارہی تھی۔ اچانک کھٹ پٹ کی آواز سنائی دی۔ عاشی نے دروازہ کھولا ’’امی! ابو کی ٹارچ کہاں ہے؟‘‘
’’کیا ہوا…؟‘‘ میں چونک پڑی۔
’’امی! کہیں سے بلی کی آواز آرہی ہے۔‘‘ وہ اپنے ابو کی چیزیں کھنگالنے لگی۔ ٹارچ ملنے پر وہ تیزی سے اوپر چھت پر سیڑھیاں چڑھتی چلی گئی۔ میں بستر پر لیٹی اپنے دونوں کان بند کرنے کی کوشش کررہی تھی، کیوں کہ بارش کی رفتار اور آواز میں بہت اضافہ ہوگیا تھا۔ ایسا لگتا تھا بادل اور بجلی دونوں ایک ساتھ مہم پر نکلے ہیں۔ تھوڑی ہی دیر میں چھت، صحن سب ایک تیز آواز کے ساتھ روشنی میں نہا گئے۔ شاید کہیں قریب ہی بجلی گری تھی۔ میں بستر سے اٹھ کر چھت کی طرف دوڑی۔ اندھیری اور سیاہ رات کالی ناگن کی طرح بال کھولے کھڑی تھی۔ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اندھیرے میں میرا پائوں کئی مرتبہ لڑکھڑایا۔ ’’عاشی! کہاں ہو بیٹا؟‘‘ میں نے اسے آواز دی۔
’’میں اوپر ہوں…‘‘ اُس نے مجھے جواب دیا۔
’’اوپر کیا کررہی ہو؟‘‘ میں بے چین ہوکر اوپر چڑھتی چلی گئی۔ ’’میائوں…‘‘ بلی کی سہمی ہوئی آواز نے سارا معمّا حل کردیا۔ عاشی بچپن سے جانوروں کی دیوانی تھی۔ کتے، بلیاں، خرگوش اُس کے پسندیدہ جانور تھے۔ ’’امی! امی… دیکھیے بلی نے کتنے پیارے بچے دیے۔‘‘ عاشی ٹارچ کی روشنی ڈال کر ایک طرف اشارہ کررہی تھی۔
’’کہاں ہیں…؟‘‘ اب اوپر چڑھنا میری مجبوری تھی۔ میں اوپر پہنچی تو اُس نے کاٹھ کباڑ میں پڑے ہوئے ایک ٹوٹے اٹیچی کی طرف اشارہ کیا، جو پانی سے بھرا ہوا تھا۔ میں نے اُس کے ہاتھ سے ٹارچ لے کر اٹیچی کو دیکھا۔ اس اٹیچی میں بلی کے چار ننھے منے بچے سردی میں سکڑ رہے تھے۔ ٹارچ کی روشنی پڑتے ہی بلی ان بچوں پر لیٹ گئی اور میائوں میائوں کرکے اپنے بچوں کو سردی اور پانی سے بچانے کے لیے مدد کے لیے پکارنے لگی۔ یہ ممتا کی بے قرار سی پکار تھی جس نے عاشی کو اوپر پہنچایا تھا۔ بلی سے زیادہ عاشی بے چین تھی۔’’اُف اتنی سردی میں تو یہ بچے ٹھٹھر کر مر جائیںگے۔‘‘ میں بلی کی ممتا اور بے قراری پر تڑپ اٹھی۔ اس وقت جانوروں سے بے زاری اور بے تعلقی سب ہوا ہوگئی۔
’’عاشی کچھ کرو بیٹا…‘‘ میں خود تو بلی، کتوں سے دور ہی رہتی تھی۔ عاشی نے چاروں بچوں کو باری باری اٹھا کر لکڑی کی چھوٹی الماری پر رکھا۔ اٹیچی سے پانی پھینک کر تولیے سے خشک کیا۔ چھت پر بنے ہوئے باتھ روم میں لٹکا تولیہ اٹیچی میں بچھا دیا اور چاروں بچوں کو اپنی گود میں لے کر باری باری انہیں خشک کرکے اٹیچی میں لٹا دیا۔ اس اٹیچی کو کھینچ کر چھت میں بنے شیڈ کی آڑ میں رکھ دیا، جہاں دھوپ اور پانی کا گزر نہیں ہوتا تھا۔ بچوں کو خشک اورمحفوظ جگہ پر دیکھ کر بلی نے عاشی کی طرف دیکھ کر میائوں… میائوں کیا جیسے وہ بے چین ممتا عاشی کا شکریہ ادا کررہی ہو۔ عاشی نے اس کے جواب میں اُس کے قریب بیٹھ کر اُس کی پشت پر ہاتھ پھیرا اور پیار سے کہا ’’کوئی بات نہیں، آج سے ہم تم پکے دوست ہیں۔‘‘ عاشی نے بلی سے اس طرح کہا جیسے واقعی وہ سب کچھ سمجھ رہی ہو۔ اور میں یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ دوستی کی بات سن کر بلی نے اپنا سر عاشی کی گود میں چھپا لیا۔ بارش رک چکی تھی۔ میں نیچے اتر آئی۔ عاشی بھی بلی اور اُس کے بچوں کا انتظام کرکے مطمئن ہوکر سو گئی۔
بلی ہمارے گھر میں ہمیشہ پسندیدہ جانور رہی ہے۔ میں جانوروں سے زیادہ دوستی نہیں رکھتی تھی، کیوں کہ ان کے حقوق اد اکرنا میرے لیے بہت مشکل ہوتا تھا۔ میری مصروفیات بھی اتنی زیادہ تھیں کہ میں ان کو زیادہ وقت نہیں دے پاتی تھی۔ مگر میرے نہ چاہنے کے باوجود ہمیشہ ایک نہ ایک بلی ہمارے گھر پلی رہی۔ خود میری بیٹی اور میرے شوہر بلیوں سے بے انتہا پیار کرنے والے ہیں کہ بلیاں ان کے بازو پر سر رکھ کر سوتی ہیں، سینے پر لیٹتی ہیں، اور جب وہ لکھنے پڑھنے کا کام کرتے ہیں تو بلیاں ان کا قلم منہ میں دبا کر کھیلتی ہیں۔ عاشی بھی اپنے ابو کی طرح بلیوں، خرگوشوں، چڑیوں، توتوں سے بہت پیار کرتی ہے۔ وہ کسی نہ کسی بہانے بلیوں کے لیے دودھ، مرغی کی کلیجی، مرغی کے پنجے اور فوڈ کیٹ لاتی اور ان کو کھلاتی۔ شدید گرمی میں ٹھنڈے دودھ میں شربت ڈال کر ان کو پلایا جاتا۔ بلیوں کے نخرے اٹھانے میں میرے شوہر بھی پیش پیش تھے۔ بلیوں کے شیشے کے برتن الگ تھے۔ ان کو دودھ ڈالا جاتا تو ان کے موڈ پر منحصر تھا، اگر موڈ ہوتا تو دودھ پیتیں، ورنہ منہ پھیر کر بیٹھ جاتیں۔
بارش نے کئی دن تک آنکھ مچولی جاری رکھی، اور یہی بارش بلی کے گھر میں قدم جمانے کا بہانہ بن گئی۔ بلی کی آواز اس رات کے بعد نہیں آئی، میں بھی مطمئن ہوگئی کہ شاید وہ بچوں کو کسی محفوظ مقام پر لے گئی ہے۔ مگر ایک دن میں کلینک سے آئی تو دیکھا کہ قالین پر چار صحت مند بلی کے خوب صورت بچے عاشی کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ ان میں دو سفید رنگ کے بالکل روئی کے گالے تھے۔ معلوم ہوا بلی صاحبہ اپنے بچوں کو اہلِ خانہ سے متعارف کرانے کے لیے نیچے لائی تھیں۔
موسم اب بدل چکا تھا۔ چھت پر دھوپ تیز ہونے لگی تھی، اور اس تیز دھوپ میں بچے بے چین اور بے قرار تھے۔ اس لیے ماحول کی تبدیلی کے لیے بلی پہلے تو خود اتر کر نیچے آئی، پورے گھر کا چکر لگایا، ماحول سازگار دیکھ کر عاشی کی خیر مقدمی مسکراہٹ نے اس کا حوصلہ اور بڑھا دیا، اور وہ اوپر جاکر باری باری ایک ایک بچے کو گردن سے پکڑ کر لے آئی اور ڈرائنگ روم میں سرخ قالین پر لٹاتی چلی گئی۔ عاشی اور اس کے ابو خاموشی سے یہ تماشا دیکھتے رہے۔ اہلِ خانہ کی خاموشی نے بلی کو مزید حوصلہ بخشا اور وہ بچوں کی پرورش کی ذمے داری عاشی پر ڈال کر غائب ہوگئی۔ عاشی کی ذمے داریوں مزید اضافہ ہوگیا۔ پڑھائی کے ساتھ ساتھ بلی کے چار بچوں کے کھانے پینے کی ذمے داری بھی اس کے فرائض کا حصہ بن گئی۔ باپ بیٹی پوری تن دہی اور ایمان داری سے اپنی ذمے داریاں نبھا رہے تھے۔ بلی کے بچے پُرسکون اور خوش گوار فضا میں پرورش پاتے رہے۔ جب تک چھوٹے رہے اپنی مسہری کے نیچے عاشی نے ان کے رہنے کے لیے ایک بڑے سے گتے کے ڈبے کا انتظام کردیا تھا۔ اس ڈبے میں سوراخ کرکے مناسب روشنی اور ہوا کا انتظام تھا۔ ہم لوگ جب کہیں جاتے تو اس کمرے کا پنکھا تیز کردیا جاتا، تاکہ بچوں کو گرمی نہ لگے۔ ہمارے جانے کے بعد بچے اپنے ڈبے نما گھر سے باہر نکل کر خوب آزادی سے گھومتے پھرتے۔ آہٹ ہوتے ہی ڈبے میں دوبارہ گھس جاتے اور وہاں سے روشنی کے لیے کیے جانے والے سوراخوں سے جھانکتے رہتے۔ خطرہ ٹل جانے پر باہر آجاتے۔ اسی طرح وہ گھریلو ماحول میں پلتے انتہائی خوب صورت اور صحت مند ہوگئے۔ گھر میں رہنے کے وہ اتنے عادی ہوگئے تھے کہ ضروری حاجت کے لیے بھی باہر جانا گوارا نہ کرتے اور قالین پر ہی فارغ ہوجاتے۔ یہ بات میرے لیے انتہائی ناقابلِ برداشت تھی۔ مگر عاشی اور اُس کے ابو کی چاہت مجھے کسی بھی بڑے اقدام سے باز رکھتی تھی۔ ان چاروں بچوں میں سے تین نے اپنے لیے الگ الگ گھروں میں جاکر ٹھکانے بنا لیے، مگر ایک بلا تو عاشی سے ایسا مانوس ہوا کہ وہ کسی طرح گھر سے جانے پر آمادہ نہ ہوا۔ کئی دفعہ میں نے کوشش کی کہ کسی گوشت مارکیٹ میں اسے چھوڑ دیا جائے، مگر وہ ہمیشہ واپس آجاتا۔ اب وہ اونچا اور پورا بلا بن چکا تھا۔ محلے پڑوس سے اس کی جارحانہ کارروائیوں کی شکایات آنے لگی تھیں۔ کسی کے گھر کا کھانا چٹ کر جاتا، کسی کے چوزے منہ میں دبا کر لے آتا۔ ایک پڑوسی کی روزانہ مچھلی چٹ کر جاتا۔ انہوں نے اس کی شکایت کے ساتھ سزا کی بھی دھمکی دی۔ بات ہنسی مذاق اور معافی تلافی پر ٹل گئی۔ مگر ایک رات جب ہم لوگ کسی شادی کی تقریب سے واپس آئے تو بلے کو نڈھال اور زخمی پایا۔ اس کی عادت تھی کہ ہم لوگوںکے جانے کے بعد وہ گھر کی چوکیداری پورے ہوش و حواس سے کرتا۔ ہم لوگ گھر میں داخل ہوتے تو لپک کر دروازے پر آتا، میائوں میائوں کرکے عاشی کے پیروں سے لپٹ جاتا۔ عاشی اسے گود میں اٹھاتی، پیار کرتی تب وہ نیچے اترتا۔ مگر اس دن تو وہ دروازے پر ہی نڈھال پڑا رہا۔ دروازہ کھلنے کی آہٹ پر اس نے سر اٹھا کر دیکھا اور پھر زمین پر ٹکا دیا۔
عاشی نے بے ساختہ اسے گود میں اٹھا لیا۔ وہ تڑپ اٹھا۔ اس کا پیر اور کندھا سوجا ہوا تھا اور سوجن والی جگہ پر سوراخ تھا جس سے سرخ سرخ خون رس رہا تھا۔ یوں محسوس ہوا جیسے کسی نوکیلی چیز سے اس کو زدوکوب کیا گیا ہے۔ عاشی نے دودھ میں دوائی ڈال کر اسے پلائی، اس کے زخم کو صاف کرکے پائوڈر بھرا، مگر علاج کے باوجود اس کا زخم بڑھتا گیا، یہاں تک کہ جانوروں کے ڈاکٹر نے اس کا پیر کاٹنے کا مشورہ دیا۔ عاشی تڑپ تڑپ کر روئی۔ ہر نماز میں ہم تینوں اس کی صحت کی دعائیں مانگتے۔
بلی بڑا ذہین جانور ہے، اس کا دماغ بھی بڑا ہوتا ہے اور انسانوں کی بات کو سب سے زیادہ سمجھتا ہے۔ بلے نے اپنے آپ کو ایک پیر سے گھسیٹ کر چلنے کا عادی بنا لیا۔ عاشی اس کے زخموں کی دیکھ بھال کرتی۔ دوا پلانا، زخم پر اسپرے کرنا سب اسی کا کام تھا۔ عاشی اپنی تعلیم سے فارغ ہوچکی تھی، اس کی شادی طے ہوگئی۔ مجھے سب سے زیادہ پریشانی عاشی کے بلے کی طرف سے تھی کہ اس کے زخموں کی ڈریسنگ کون کرے گا؟ وہ بیماری میں کسی کو اپنے قریب نہیں آنے دیتا تھا۔ مایوں والے دن وہ پورا دن عاشی کی گود میں آنکھیں بند کیے لیٹا رہا۔ شادی کے دن سب اپنی اپنی تیاریوں میں لگے ہوئے تھے۔ بلا بار بار عاشی کے پاس جاتا، اس کے کپڑوں سے اپنے آپ کو رگڑتا، اور بے بسی اور لاچاری سے اس کو دیکھتا جیسے کچھ کہنے کی کوشش کررہا ہو۔ عاشی نے اس کے زخموں پر اسپرے کیا، اس کو کیپسول دودھ میں ڈال کر پلایا اور آہستہ آہستہ اس کے کان میں نہ جانے کیا کیا کہتی رہی، وہ آنکھیں بند کیے سنتا رہا۔
عاشی رخصت ہوکر دولہا کے گھر چلی گئی۔ اس کی رخصتی کے بعد سب تھک ہار کر سوگئے۔ میں رات بھر بے چین رہی۔ صبح دلہن کو ناشتا پہنچانے اور اس کو لانے کے انتظام میں مصروف ہوگئی۔ بلے کا خیال آیا، پھر مصروفیت میں بھول گئی۔ عاشی صبح اٹھتے ہی اس کے زخموں پر اسپرے کرتی تھی۔ میں اندر سے بہت بے کل تھی۔ نہ جانے کیوں عاشی کے ابو نے اٹھتے ہی پوچھا ’’بلا کہاں ہے؟ میں اس کے زخموںپر اسپرے کردوں۔‘‘
میں نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ گیارہ بجے عاشی کی سہیلیاں اس کا ناشتا لے کر سسرال پہنچیں، وہاں بلے کو دروازے پر پڑا دیکھ کر حیران ہوگئیں۔ نہ جانے کیسے بلا اپنی لنگڑی ٹانگ کے ساتھ دوڑتا ہوا عاشی کی پھولوں سے لدی گاڑی کے ساتھ دولہا کے گھر تک پہنچ گیا تھا۔ اس کے اتنے لمبے سفر سے پائوں کا زخم پھٹ چکا تھا اور وہ خون میں لت پت بے جان دروازے پر پڑا تھا۔