قسط (14)۔
اس طریقِ کار نے یہ بھی طے کر دیا کہ مغرب کا نوخیز تمدن‘ جو تمام دنیا پر حکمران ہونے والا تھا‘ ایک خالص مادّہ پرستانہ تمدن ہو اور اس میں شرحِ سود وہ بنیادی معیار قرار پائے جس کے لحاظ سے آخر کار ہر چیز کی قدر و قیمت متعین ہو۔ اس لیے کہ پوری کشتِ تمدن کا انحصار تو ہے سرمایہ کے آبِ حیات پر اور اس آبِ حیات کے ہر قطرے کی ایک مالی قیمت معین ہے۔ شرح سود کے مطابق۔ لہٰذا پورے تمدن کی کھیتی میں اگر کسی چیز کی تخم ریزی کی جاسکتی ہے اور اگر کوئی پیداوار قدر کی مستحق ہو سکتی ہے تو بس وہ جو بالواسطہ یا بلاواسطہ اپنا مالی فائدہ کم از کم اس حد تک دے جائے جو بورژو اتمدن کے قائد اعظم‘ ساہوکار نے شرحِ سود کی شکل میں مقرر کر رکھی ہے۔
اس طریق کار نے قلم اور سیف‘ دونوں کی حکمرانی کا دور ختم کر دیا اور اس کی جگہ بہی کھاتے کی فرماں روائی قائم کر دی۔ غریب کسانوں اور مزدوروں سے لے کر بڑے سے بڑے صنعتی و تجارتی اداروں تک اور بڑی سے بڑی حکومتوںاور سلطنتوں تک سب کی ناک میں غیر مرئی نکیل پڑ گئی اور اس کا سرا ساہوکار کے ہاتھ میں آگیا۔
تیسرا مرحلہ
اس کے بعد اس گروہ نے تیسرا قدم اٹھایا اور اپنا کاروبار کو وہ شکل دی جسے اب جدید ساہوکاری کہا جاتا ہے۔ پہلے یہ لوگ انفرادی طور پر کام کرتے تھے۔ اگرچہ بعض ساہوکار گھرانوں کا مالیاتی کاروبار بڑھتے بڑھتے عظیم الشان اداروں کی صورت اختیار کر گیا تھا جن کی شاخیں دور دراز مقامات پر قائم ہوگئی تھیں‘ لیکن بہرحال یہ الگ الگ گھرانے تھے اور اپنے ہی نام پر کرتے تھے۔ پھر ان کو یہ سوجھی کہ جس طرح کاروبار کے سارے شعبوں میں مشترک سرمائے کی کمپنیاں بن رہی ہیں‘ روپے کے کاروبار کی بھی کمپنیاں بنائی جائیں اور بڑے پیمانے پر ان کی تنظیم کی جائے‘ اس طرح یہ بینک وجود میں آئے جو آج تمام دنیا کے نظام مالیات پر قابض و متصرف ہیں۔
اس جدید تنظیم کا طریقہ مختصر الفاظ میں یہ ہے کہ چند صاحب ِ سرمایہ لوگ مل کر ایک ادارۂ ساہوکاری قائم کرتے ہیں جس کا نام بینک ہے۔ اس ادارے میں دو طرح کا سرمایہ استعمال ہوتا ہے ایک حصہ داروں کا سرمایہ جس سے کام کی ابتدا کی جاتی ہے اور دوسرا امانت داروں یا کھاتے داروں کا سرمایہ جو بینک کا کام اور نام بڑھنے کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ تعداد میں ملتا جاتا ہے اور اسی کی بہ دولت بینک کے اثر اور اس کی طاقت میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ ایک بینک کی کامیابی کا اصل معیار یہ ہے کہ اس کے پاس اس کا اپنا ذتی سرمایہ (یعنی حصہ داروں کا لگایا ہوا سرمایہ) کم سے کم ہو اور لوگوں کی رکھوائی ہوئی رقمیں زیادہ سے زیادہ ہوں۔ مثال کے طور پر پنجاب نیشنل بینک کو لیجیے جو قبل تقسیم کے بڑے کامیاب بینکوں میں سے تھا۔ اس کا اپنا سرمایہ صرف ایک کروڑ تھا جس میں سے 80 لاکھ سے کچھ ہی زائد روپیہ حصہ داروں نے عملاً ادا کیا تھا۔ لیکن 1945ء میں یہ بینک تقریباً 52 کروڑ روپے کا وہ سرمایہ استعمال کر رہا تھا جو امانتیں رکھوانے والوں کا فراہم کردہ تھا۔ مگر دل چسپ بات یہ ہے کہ بینک اپنا سارا کام تو چلاتا ہے امانت داروں کے روپے سے‘ جن کا دیا ہوا سرمایہ بینک کے مجموعی سرمائے میں 95-90 فیصد بلکہ 98 فیصد تک ہوتا ہے‘ لیکن بینک کے نظم و نسق اوراس کی پالیسی میں ان کا کوئی دخل نہیں ہوتا یہ چیز بالکل ان حصہ دروں کے ہاتھ میں ہوتی ہے جو بینک کے مالک ہوتے ہیں اور جن کا سرمایہ مجموعی سرمائے کے صرف دو‘ تین یا چار‘ پانچ فیصد ہوا کرتا ہے۔ امانت داروں کا کام صرف یہ ہے کہ اپنا روپیہ بینک کے حوالے کر دیں اور اس سے ایک خاص شرح کے مطابق سود لیتے رہیں۔ رہی یہ بات کہ بینک اس روپے کو استعمال کس طرح کرتا ہے‘ اس معاملے میں وہ کچھ نہیں بول سکتے۔ اس کا تعلق صرف حصہ داروں سے ہے‘ وہی منتظمین کا انتخاب کرتے ہیں‘ وہی پالیسی کا تعین کرتے ہیں‘ وہی نظم و نسق اور حساب کتاب کی نگرانی کرتے ہیں اور انہی کے منشا پر اس امر کا فیصلہ منحصر ہوتا ہے کہ سرمایہ کدھر جائے اور کدھر نہ جائے۔ پھر حصہ داروں میں سب یکساں نہیں ہوتے۔ متفرق چھوٹے چھوٹے حصہ داروں کا اثر بینک کے نظام میں برائے نام ہوتا ہے۔ دراصل چند بڑے اور بھاری حصہ دار ہی سرمائے کی اس جھیل پر قابض ہوتے ہیں اور وہی اس پر تصرف کرتے رہتے ہیں۔
بینک اگرچہ بہت سے چھوٹے بڑے کام کرتا ہے جن میں سے بعض یقینا مفید‘ ضروری اور جائز بھی ہیں‘ لیکن اس کا اصل کام سرمائے کو سود پر چلانا ہوتا ہے۔ تجارتی بینک ہو یا صنعتی یا زراعتی یا کسی اور نوعیت کا‘ بہرحال وہ خود کوئی تجارت یا صنعت یا زراعت نہیں کرتا بلکہ کاروباری لوگوں کو سرمایہ دیتا ہے اور ان سے سود حاصل کرتا ہے۔ اس کے منافع کا اصل سبب بڑا ذریعہ یہ ہوتا ہے کہ امانت داروں سے کم شرح سود پر سرمایہ حاصل کرے اور کاروباری لوگوں کو زیادہ شرح پر قرض دے۔ اس طریقے سے جو آمدنی ہوتی ہے وہ حصہ داروں میں اُسی طرح تقسیم ہو جاتی ہے جس طرح تمام تجارتی اداروں کی آمدنیاں ان کے حصہ داروں میں مناسب طریقے سے تقسیم ہوا کرتی ہیں۔
نتائج
اس طریقے پر ساہو کارے کی تنظیم کر لینے کا نتیجہ یہ ہوا کہ پہلے زمانے کے منفرد اور منتشر مہاجنوں کی بہ نسبت آج کے مجتمع اور منظم ساہوکاروںکا وقار اور اثر اور اعتماد کئی گنا زیادہ بڑھ گیا اور پورے پورے ملکوں کی دولت سمٹ کر ان کے پاس مرتکز ہو گئی۔ اب اربوں روپے کا سرمایہ ایک بینک میں اکٹھا ہو جاتا ہے جس پر چند با اثر ساہوکار قابض و متصرف ہوتے ہیں اور وہ اس ذریعے سے نہ صرف اپنے ملک کی‘ بلکہ دنیا بھر کی معاشی‘ تمدنی اور سیاسی زندگی پر کمال درجہ خود غرضی کے ساتھ فرماںروائی کرتے رہتے ہیں۔
ان کی طاقت کا اندازہ اس سے کیجیے کہ تقسیم سے پہلے ہندوستان کے دس بڑے بینکوں کے پاس حصہ داروں کا فراہم کیا ہوا سرمایہ تو صرف 17 کروڑ تھا مگر امانت داروں کے رکھوائے ہوئے سرمایہ کی مقدار چھ ارب بارہ کروڑ روپے تک پہنچی ہوئی تھی۔ ان بینکوںکے پورے نظم و نسق اور ان کی پالیسی پر چند مٹھی بھر ساہوکاروں کا قبضہ تھا جن کی تعداد حد سے حد ڈیڑھ دو سو ہوگی۔ مگر یہ سود کا لالچ تھا جس کی وجہ سے ملک کے لاکھوں آدمیوں نے اتنی بڑی رقم فراہم کر کے ان کے ہاتھ میں دے رکھی تھی اور اس بات سے ان کو کچھ غرض نہ تھی کہ اس طاقتور ہتھیار کو یہ لوگ کس طرح کن مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اب یہ اندازہ ہر شخص خود لگا سکتا ہے کہ جن مہاجنوں کے پاس اتنی بڑی رقم جمع ہو وہ ملک کی صنعت‘ تجارت‘ معیشت‘ سیاست اور تہذیب و تمدن پر کس قدر زبردست اثر ڈال رہے ہوں گے اور یہ اثر آیا ملک اور باشندگانِ ملک کے مفاد میں کام کر رہا ہوگا یا ان خود غرض لوگوں کے اپنے مفاد میں۔
یہ تو اس سر زمین کا حال ہے جس میں ابھی ساہوکاروں کی تنظیم بالکل ابتدائی حالت میں ہے اور جہاں بینکوں کی امانتوں کا مجموعہ کل آبادی پر بمشکل 7 روپے فی کس ہی کے حساب سے پھیلتا ہے۔ اب ذرا قیاس کیجیے کہ جن ملکوں میں یہ اوسط اس سے ہزار دو ہزار گنے تک پہنچ گیا ہے وہاں سرمایہ کی مرکزیت کا کیا علم ہوگا۔ 1926 کے اعداد و شمار کی رُو سے صرف تجارتی بینکوں کی امانتوں کا اوسط امریکا کی آبادی میں 1317 پونڈ فی کس‘ انگلستان کی آبادی میں 1664 پونڈ فی کس‘ سوئٹزرلینڈ میں 275 پونڈ‘ جرمنی میں 212 پونڈ اور فرانس میں 165 پونڈ فی کس کے حساب سے پڑتا ہے۔ اتنے بڑے پیمانے پر ان ملکوں کے باشندے اپنی پس انداز کی ہوئی آمدنیاں اور اپنی ساری پونجی اپنے ساہو کاروں کے حوالے کر رہے ہیں۔ اتنے بڑے پیمانے پر سرمایہ گھر گھر سے کھچ کھچ کر چند ہاتھوں میں مرتکز ہو رہا ہے اور پھر جن کے پاس وہ مرتکز ہوتا ہے وہ نہ کسی کو جواب ہیں نہ اپنے نفس کے سوا کسی سے ہدایت لینے والے ہیں اور نہ وہ اپنی اغراض کے سوا کسی دوسری چیز کا لحاظ کرنے والے۔ وہ بس سود کی شکل میں اس عظیم الشان مرکوز دولت کا ’’کرایہ‘‘ ادا کر دیتے ہیں اور عملاً اس کے مالک بن جاتے ہیں۔ پھر اس طاقت کے بل پر وہ ملکوں اور قوموں کی قسمتوں سے کھیلتے ہیں۔ جہاں چاہتے ہیں قحط برپا کرتے ہیں اور جہاں چاہتے ہیں پنہیا کال ڈال دیتے ہیں۔ جب چاہتے ہیں جنگ کراتے ہیں اور جب چاہتے ہیں صلح کرا دیتے ہیں‘ جس چیز کو اپنے زر پرستانہ نقطۂ نظر سے مفید سمجھتے ہیں اسے فروغ دیتے ہیں اور جس چیز کو ناقابلِ التفات پاتے ہیں اسے تمام ذرائع وسائل سے محروم کر دیتے ہیں۔ صرف منڈیوں اور بازاروں ہی پر ان کا قبضہ نہیں ہے علم و ادب کے گہواروں اور سائنٹفک تحقیقات کے مرکزوں اور صحافت کے اداروں اور مذہب کی خانقاہوں اور حکومت کے ایوانوں سب پر ان کی حکومت چل رہی ہے کیوں کہ قاضی الحاجات حضرتِ زرقن کے مرید ہو چکے ہیں‘ وہ یہ بلائے عظیم ہے جس کی تباہ کاریاں دیکھ دیکھ کر خود مغربی ممالک کے صاحبِ فکر لوگ چیخ اٹھے ہیں اور وہاں مختلف سمتوں سے یہ آواز بلند ہو رہی ہے کہ مالیات کی اتنی بڑی طاقت کا ایک چھوٹے سے غیر ذمہ دار خود غرض طبقے کے ہاتھ میں مرتکز ہو جانا پوری اجتماعی زندگی کے لیے سخت مہلک ہے۔ مگر ہمارے ہاں ابھی تک یہ تقریریں ہوئے جارہی ہیں کہ سود خواری تو پرانے گدی نشین مہاجن کی حرام و نجس تھی۔ آج کا کسی نشین و موٹر نشین بینکر بے چارہ تو بڑا ہی پاکیزہ کاروبار کر رہا ہے‘ اس کے کاروبار میں روپیہ دینا اور اس سے اپنا حصہ لے لینا آخر کیوں حرام ہے؟ حالانکہ فی الحقیقت اگر پرانے مہاجنوں اورآج کے بینکروں میں کوئی فرق واقع ہوا ہے تو وہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ پہلے یہ لوگ اکیلے اکیلے ڈاکا مارتے تھے‘ اب انہوں نے جتھ بندی کرکے ڈاکوئوں کے بڑے بڑے گروہ بنا لیے ہیں اور دوسرا فرق جو شاید پہلے فرق سے بھی زیادہ بڑا ہے‘ یہ ہے کہ پہلے ان میں ہر ڈاکو نقب زنی کے آلات اور مردم کشی کے ہتھیار سب کچھ اپنے ہی پاس سے لاتا تھا‘ مگر اب سارے ملک کی آبادی اپنی حماقت اور قانون کی غفلت و جہالت کی وجہ سے بے شمار آلات اور اسلحہ فراہم کرکے ’’کرائے‘‘ پر ان منظم ڈاکوئوں کے حوالے کر دیتی ہے۔ روشنی میں یہ اسکو ’’کرایہ‘‘ ادا کرتے ہیں اور اندھیرے میں اسی آبادی پر اسی کے فراہم کیے ہوئے آلات و اسلحہ سے ڈاکا ڈالتے ہیں۔اس ’’کرائے کے متعلق ہم سے کہا جاتا ہے کہ اسے حلال و طیب ہونا چاہیے۔
(جاری ہے)