اسلامی تعزیرات کو سمجھنے کے لیے اس روحانی مقصد کو سمجھنا ضروری ہے۔ یہاں سزا کا بڑا مقصد مجرم کی تطہیر روحانی ہے۔ سزا پانے کے بعد مجرم کے نفس اور روح پر جرم سے جو کثافت طاری ہوئی تھی وہ دور ہوجاتی ہے
انسان جرم کیوں کرتا ہے، یا شر کا انسانی فطرت سے کیا تعلق ہے، اس پر ہم تھوڑی سی گفتگو کرچکے ہیں۔ اب ایک سوال یہ ہے کہ سزائوں کا مقصد کیا ہے؟ مغرب میں جو تصورات سکہ رائج الوقت ہیں ان کا منطقی نتیجہ تو یہ ہونا چاہیے کہ سزائیں ایک قلم موقوف کردی جائیں، کیوں کہ جب انسان ان کے ارتکاب میں مجبور محض ہے تو پھر اسے سزا دینے کے کوئی معنی نہیں ہونا یہ چاہیے کہ ماحول سے محرکاتِ جرم ختم کیے جائیں یعنی مجرم کی مجبوری یا نفسیاتی بیماریوں وغیرہ کو دُور کیا جائے۔ اور یوں انسانی دنیا کو جنت بنادیا جائے۔ تاہم سزائیں تو مغرب میں بھی دی جاتی ہیں خواہ یہ کہا جائے کہ یہ ماضی کے عہد بربریت کی یادگار ہیں یا یہ کہا جائے کہ ابھی جدید فکر عملی صورتِ حال کو بدلنے میں کامیاب نہیں ہوئی ہے۔ بہرحال مغرب میں یہ ضرور کہا جاتا ہے کہ سزائوں کو اصلاح کے لیے ہونا چاہیے۔ اور جہاں تک ہوسکے انہیں نرم سے نرم بنانا چاہیے۔ اس تصور کے تحت سخت سزائوں کا تصور انہیں وحشیانہ معلوم ہوتا ہے۔ اور خصوصاً اسلامی تعزیرات کا وہ نام سننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ سزائوں کا مقصد مجرم کی اصلاح ہے۔ ہمیں اس سے انکار نہیں، لیکن یہ صرف ایک فوری مقصد ہے۔ سزائوں کے اس کے سوا کچھ اور مقاصد بھی ہیں۔ مثلاً دوسروں کو عبرت دلانا، اس کے علاوہ انسانی فطرت میں یہ ایک بنیادی بات ہے کہ وہ ظلم کو برداشت نہیں کرتا اور اگر دیکھتا ہے کہ کسی پر استحقاق کے بغیر زیادتی کی گئی ہے تو اس سے دیکھنے والے میں اشتعال اور غیض و غضب پیدا ہوتا ہے۔ یہ ایک فطری جذبہ ہے جو تسکین سے محروم ہو کر انسانوں میں بڑی مایوسی اور تکلیف پیدا کرتا ہے۔ قاتل سے صرف مقتول کو نقصان نہیں پہنچتا بلکہ قتل کے ارتکاب سے دوسرے بھی متاثر ہوتے ہیں۔ صرف مقتول کے لواحقین ہی نہیں بلکہ وہ تمام انسان جو اس جرم کے ارتکاب کا علم رکھتے ہیں، اس لیے سزائوں کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ انسانوں کو اشتعال اور غیض و غضب کے اُن جذبات سے محفوظ کیا جائے جو مجرم کو سزا نہ ملنے سے پیدا ہوتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں سزا کا ایک مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کے اخلاقی احساس کو تسکین دے جو جرم کی سزا کے ذریعے ہی ہوسکتا ہے، لیکن یہ سب مقاصد بہرحال معاشرتی ہیں۔ اس سے پہلے ایک جگہ ہم کہہ چکے ہیں کہ اسلام میں جرم و سزا کا تصور صرف معاشرتی نہیں ہے، اس لیے اسلامی تعزیرات کی صرف معاشرتی تعبیر درست نہیں ہے۔ اسلامی تعزیرات کا تصور، معاشرتی تصور سے کہیں زیادہ گہرا اور بامعنی ہے۔ اسے سمجھنے کے لیے ہمیں یہ بات جاننی چاہیے کہ اسلام کے نزدیک ہر انسانی عمل دو نتائج پیدا کرتا ہے۔ ایک نتیجہ تو اس دنیا میں اور دوسرا نتیجہ آنے والی دنیا میں۔ اس نقطہ نظر سے ہر نتیجے کے دو پہلو ہیں ایک دنیوی، دوسرا اخروی۔ اور کون سا عمل خیر ہے اور کون سا شر، اس کا حکم اخروی نتیجے کے اعتبار سے لگایا جاتا ہے۔ اخروی نتیجہ اچھا ہے تو عمل خیر ہے ورنہ شر۔ اب اس نقطے سے جرائم کے بھی دو پہلو ہیں۔ ایک دنیاوی دوسرا اخروی۔ اور جرائم کی سزائیں بھی دنیوی اور اخروی مقاصد کو پورا کرنے کا ذریعہ ہیں۔ مجرم کی اصلاح ایک دنیوی مقصد ہے۔ لوگوں کے حاسّہ اخلاقی کو مطمئن کرنا بھی ایک دنیوی مقصد ہے، لیکن اسلامی تعزیرات میں سزائوں کا اہم مقصد روحانی ہے۔
اسلامی تعزیرات کو سمجھنے کے لیے اس روحانی مقصد کو سمجھنا ضروری ہے۔ یہاں سزا کا بڑا مقصد مجرم کی تطہیر روحانی ہے۔ سزا پانے کے بعد مجرم کے نفس اور روح پر جرم سے جو کثافت طاری ہوئی تھی وہ دور ہوجاتی ہے۔ اس طرح اسلامی تعزیرات کی حقیقی روح نہ معاشرتی ہے نہ اخلاقی۔ اس کا اصل مقصد ارتکاب جرم کے بعد مجرم کی اخروی فلاح ہے۔ یہ مقصد حدود اللہ کے ذریعے ہی حاصل ہوسکتا ہے۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کا فضل و احسان ہے کہ اُس نے اپنے دین پر ایمان رکھنے والوں کو وہ طریقہ بتادیا ہے جس سے جرم کے بعد بھی وہ نجات اخروی حاصل کرسکتے ہیں۔ پاکستان میں اسلامی تعزیرات کا نفاذ اس اعتبار سے ہمارے لیے اللہ کی رحمت کا ایک ذریعہ ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث ہے کہ اعمال کا انحصار نیتوں پر ہے۔ اب نیت کوئی خارجی چیز نہیں ہے۔ یہ سراسر انسان کا داخلی معاملہ ہے، اس لیے اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسانی اعمال کی خیر و شر اُن کی باطنی کیفیات کے تابع ہوتا ہے۔ یہ ایک اصولی بات ہوئی جو اسلامی نقطہ نظر سے بنیادی اہمیت کی حامل ہے، لیکن انسانوں کی باطنی کیفیات جب ظاہری اعمال کی شکل اختیار کرتی ہیں تو ان کی ایک آزاد حیثیت قائم ہوجاتی ہے اور وہ معاشرتی اوضاع و روایات میں ٹھوس اور منجمد شکل اختیار کرلیتی ہیں۔ اس طرح معاشرتی اوضاع و اقدار کا جو ڈھانچہ وجود میں آتا ہے وہ باطنی کیفیات سے الگ ہو کر بھی قائم رہتا ہے۔ مثلاً 47سے پہلے ہمارا جو معاشرہ صدیوں سے قائم تھا اُس کی حیثیت اُسی ڈھانچے کی تھی، اس میں وہ تمام خارجی سانچے موجود تھے جن میں اعلیٰ مذہبی اور انسانی کیفیات ٹھوس شکل اختیار کرسکیں۔ برصغیر کی تقسیم کے وقت جو حالات پید اہوئے اُن میں یہ ڈھانچہ ٹوٹ کر بکھرنے لگا اور اس کی گرفت کمزور تر ہوتی چلی گئی۔ ایسا کیوں ہوا اس کے اسباب پر ہم پہلے بھی مختصراً گفتگو کرچکے ہیں۔ اب ہم ایک ایسی صورتِ حال میں ہیں جہاں اعمال کو درست رکھنے کے لیے معاشرے کا ڈھیلا ڈھالا نظام ہماری کوئی مدد نہیں کرتا، اس کا مطلب یہ ہوا کہ کرپشن کی جو روک تھام معاشرتی خوف اور دبائو سے ہوجاتی تھی، وہ اب بالکل غیر موثر ہو کر رہ گئی ہے، چناں چہ معاشرتی بگاڑ کو روکنے کے لیے ضروری ہوگیا ہے کہ سب سے پہلے باطنی کیفیات کو درست کیا جائے، یعنی حضورؐ کی حدیث کے مطابق ہم سب اپنی نیتوں کو درست کریں۔ بظاہر یہ ایک چھوٹی سی بات معلوم ہوتی ہے، لیکن اس کی اہمیت کلیدی اور بنیادی ہے۔ البتہ اس سلسلے میں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے، یہ انفرادی اصلاح کا طریق کار ہے۔ اجتماعی اصلاح جو حکومت یا ریاست کے پیش نظر ہوتی ہے اس کے لیے دوسرے ذرائع اختیار کیے جاتے ہیں۔ مثلاً قانون سازی اور اُن پر عمل درآمد کرانے والی ایجنسیوں کا قیام۔ حکومت یا ریاست اپنی مخصوص نوعیت کے سبب ہمیشہ خارجی چیزوں کو اہمیت دیتی ہے، اور انسانوں کے باطن کی تنظیم و تربیت کو اخلاقی مصلحوں اور مذہبی پیشوائوں پر چھوڑ دیتی ہے، تاہم ہمارے تجربے میں یہ بات موجود ہے کہ داخلی اصلاح کے بغیر حکومت کے خارجی اقدامات سے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا اور نت نئے قوانین کا اجرا پیچیدگیاں پیدا کرتا ہے، مگر مسائل کو حل نہیں کرتا۔ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو انفرادی اصلاح اور اجتماعی اقدامات دونوں کی اہمیت پر زور دیتا ہے اور دونوں کو ساتھ لے کر چلتا ہے۔ پاکستان میں اسلامی تعزیرات کا نفاذ اجتماعی اصلاح کے اقدامات ہیں جن میں کرپشن کی دیگر صورتوں کو بھی شامل کرلیا جائے تو اس سے بداعمالیوں کی خارجی روک تھام کا کام لیا جاسکتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی داخلی اصلاح کے کام کو بھی کسی طرح نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ ہمارے پاس ایسے لوگ ہونے چاہئیں جو ہمارے باطن کی طرف توجہ کرسکیں اور ہمیں وہ طریقے بتا سکیں جن سے ہم اپنے ذہنوں اور نیتوں کو درست کرسکیں، اس ضمن میں لوگوں کو جو بات بار بار بتانے کی ہے وہ یہ ہے کہ نیکی کوئی دوسرا نہیں شروع کرے گا، نیکی سب سے پہلے ہمیں خود شروع کرنی چاہیے، اور نیکی شروع کرنے کا مطلب اولین طور پر اپنی نیت کو درست کرنا ہے، ہمارے مذہب کی رُو سے بُرائی کا احساس رُوح کا سنگِ بنیاد ہے۔ ہمیں اپنے باطن میں دیکھنا چاہیے کہ ہم کرپشن کو واقعی بُرا سمجھتے ہیں یا نہیں۔ اگر ہمارے اندر یہ احساس موجود ہے کہ رشوت اور دیگر بدعنوانیاں بُری ہیں تو یہ احساس ہماری اصلاح کا نقطہ آغاز بن سکتا ہے۔
تاہم چوں کہ صرف احساس میں اتنی قوت نہیں ہوتی کہ وہ اعمال کے پورے نظام کو بدل دے، اس لیے اسے خارجی حالات کی کمک کی ضرورت ہوتی ہے، یعنی معاشرے میں ترغیب اور خوف کی وہ صورتیں موجود ہونی چاہئیں جن کے ذریعے اس احساس کو بروئے کار آنے میں آسانی ہو۔ یہ ترغیب اور خوف ہم خارجی اقدامات کے ذریعے پیدا کرسکتے ہیں۔ قانون سازی اور اداروں کی تشکیل اسی مرحلے پر ہماری مدد کرے گی۔ ہمارے معاشرے میں ہماری مذہبی تعلیمات کی وجہ سے برائی کا احساس کسی نہ کسی درجے میں موجود ہے، لیکن داخلی طور پر جس چیز نے اس احساس کو کام کرنے سے روک رکھا ہے، وہ یہ ہے کہ ہم برائی کا احساس رکھنے کے باوجود برائی کا کوئی نہ کوئی جواز ڈھونڈ لیتے ہیں۔ یہ بھی نفس اور نیت کی خرابیوں میں سے ایک خرابی ہے اور باطنی فساد کی ایک صورت۔ برائی کا احساس صرف اُس وقت سچا اور موثر ہوتا ہے جب ہم اس کا جواز فراہم کرنے کی کوشش نہ کریں۔ برائی کا جواز فراہم کرنا دراصل صرف اپنے نفس کو فریب دینے کی ایک صورت ہے۔ ہم نے اپنے نفسوں میں برائی کی جو حفاظتی دیواریں کھڑی کر رکھی ہیں، ذرا ان میں سے کسی کو توڑ کر تو دیکھیے۔ آپ کو اندازہ ہوگا کہ خود آپ کے نفس میں اس کے لیے کتنی بری ملامت اور نفرت موجود ہے۔ ہم اپنے باطن میں ان کیفیات سے گزریں تو پھر معاشرتی خارجی تنظیم ہماری بہت کچھ مدد کرسکتی ہے اور ہم اپنے باطن کی تطہیر اور معاشرے کی خارجی روک تھام کے ذریعے معاشرتی بگاڑ کو دور کرسکتے ہیں۔
کرپشن کے بارے میں ہم نے اب تک جو کچھ لکھا ہے اُس کا خلاصہ یہ ہے۔ کرپشن کم و بیش ہر معاشرے میں اسی طرح موجود ہوتا ہے جس طرح عام قسم کی بیماریاں موجود ہوتی ہیں۔ ہم زندہ ہیں تو نزلہ زکام بھی ہوگا اور بخار بھی آئے گا۔ معاشرہ زندہ ہوگا تو کچھ لوگ اچھے ہوں گے کچھ بُرے کچھ صحتمند ہوں گے اور کچھ بیمار، اور صحت اور بیماری کا بھی ایک تناسب ہوگا۔ چناں چہ کرپشن کے خلاف آواز بلند کرنے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ دنیا کو جنت بنانے کا کوئی ناقابل عمل خواب دیکھا جارہا ہے۔ یہ نری خواب پرستی نہیں ہے۔ کرپشن کے خلاف آواز اس لیے اٹھائی جارہی ہے کہ معاشرے میں اس کا تناسب بگڑ گیا ہے۔ کرپشن اب عام بیماریوں کی طرح نہیں رہا بلکہ وبائی شکل اختیار کرگیا ہے۔ اور معاشرہ مستقل طور پر بیمار ہو کر رہ گیا ہے۔ خدا کی دنیا میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جس کی کوئی وجہ نہیں اس لیے کرپشن کے وبا بن جانے کے بھی کچھ اسباب ہیں۔ ہم ان میں سے چند اسباب کی نشاندہی کرچکے ہیں۔ انسان میں خود غرضی اور ذاتی منفعت پرستی کا جذبہ فطری ہے۔ اپنی مخصوص حدود میں ہم اسے زندگی کے لیے ضروری بھی قرار دے سکتے ہیں، لیکن جب یہ جذبہ حد سے تجاوز کرتا ہے اور جائز و ناجائز اور حلال و حرام کی قید سے بھی نکل جاتا ہے تو اس کے سدباب کی ضرورت محسوس ہونے لگتی ہے۔ معاشرے میں تین قوتیں ایسی ہیں جو کرپشن کو روکنے کی کوشش کرتی ہیں۔ مذہب، قانون اور معاشرے کا اجتماعی جامہ اخلاق، ہم کرپشن سے اس لیے ڈرتے ہیں کہ یا تو ہمیں خود ہی جزا و سزا کا خوف ہوتا ہے یا پھر قانون کی داروگیر کا اندیشہ ہوتا ہے، یا معاشرے کی ناپسندیدگی اور ملامت سے ڈر لگتا ہے۔ ہم نے پچھلے صفحات میں لکھا ہے کہ ہمارے معاشرے میں یہ تین قوتیں کس طرح کمزور ہوئی ہیں۔ مذہب کی کمزوری کا ذکر سن کر کچھ لوگ چونکیں گے، کیوں کہ مذہب ہی تو ایک ایسی چیز معلوم ہوتا ہے جس سے ہم اپنے گہرے شغف کا اظہار کرتے رہتے ہیں لیکن جن لوگوں کی نظر حالات پر ہے وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ عقیدے اور اسلام میں ہم مذہب میں کتنے ہی پکے کیوں نہیں، لیکن جہاں تک معاملات کا تعلق ہے ہمارا مذہب ان پر اثر انداز نہیں ہوتا۔ لوگ نماز پڑھتے ہیں اور رشوت لیتے ہیں۔ روزے رکھتے ہیں اور بے ایمانی کرتے ہیں۔ حج پر جاتے ہیں اور اسمگلنگ سے باز نہیں آتے۔ کرپشن کا تعلق عقائد اور اسلام سے نہیں ہے، معاملات سے ہے۔ اور ہم نے معاملات میں مذہب سے ڈرنا چھوڑ دیا ہے۔ معاشرے کی ناپسندیدگی اور ملامت کا خوف بھی مختلف اسباب کی بنا پر ختم ہوگیا ہے۔ بلکہ نئی صورت یہ پیدا ہوئی ہے کہ ہم ایسے لوگوں کو پسندیدگی اور عزت کی نگاہ سے دیکھنے لگے ہیں جو کسی طرح مال جمع کرلیں خواہ وہ حرام ہو یا حلال جائز ہو یا ناجائز۔
(جاری ہے)